جمہوریت — دین کا تقاضا

جمہوریت — دین کا تقاضا

 

اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت وطن عزیزمیں جمہورت کا عمل خوب صورت مراحل سے گزر رہا ہے۔کسی کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا اور نہ کسی کو جلا وطن کیا گیا ہے۔اہل اقتدار نے خوشی سے اپنی کرسیاں چھوڑ دیں اوراپنے آپ کوعوام کے سامنے پیش کر دیا ۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ اس صورت حال میں بھی بعض لوگ جمہوریت کے خلاف بولتے ہیں۔ جمہوری اورآمرانہ ادوار کاتقابل کرتے ہیں۔اورآمریت کو بہترقراردے ڈالتے ہیں۔ حالاں کہ ایک سچا مسلمان جمہوریت کے سوا کسی اور نظام کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔اس لیے کہ جمہوریت کے خلاف بولنا، دراصل اللہ اور رسول کے خلاف بولنا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص یا گروہ جو مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اقتدار حاصل کر لے اور مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر اپنی ذاتی آرا کے مطابق ملکی معاملات چلانا اور بڑے بڑے فیصلے کرنا شروع کر دے تو نہ صرف یہ کہ وہ جمہوریت کے منافی طرز عمل اختیار کرتا ہے، بلکہ اللہ و رسول کے خلاف طرز عمل اختیار کرتا ہے۔
جمہوریت کے حوالے سے سورۂ شوریٰ (۴۲) میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک اسلوب میں فرمایا ہے:

’’اور ان(مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے۔‘‘ ( ۳۸)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:

’’میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘(ترمذی، کتاب الجہاد)

ہر معاملے میں عملی طور پر تمام مسلمانوں سے مشورہ لینا ناممکن ہے۔اس صورت حال میں مختلف طبقات کے نمائندہ افراد سے مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ اصل میں مشاورت کے لیے کوئی طریق کا ر اختیار کرنے کا مسئلہ دینی نہیں، تمدنی ہے۔ اس مسئلے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمدن کے مطابق حل بھی کیا۔ بخاری میں ہے:

’’مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی۔ پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو، تاکہ وہ تمھاری راے سے ہمیں آگاہ کریں۔‘‘ (کتاب الاحکام)

اسی جمہوری اصول کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے بعد حکومت کے لیے آپ کے جانشیں انصار کے بجاے قریش ہوں گے۔انصار نے مہاجرین پر عظیم احسانات کیے تھے جب وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے ،لیکن اصول اصول تھا۔ عرب کی اکثریت قریش کی پیرو تھی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اقتدار منتقل کرنے کی وجہ جمہوریت کو قرار دیا اور فرمایا:

’’لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔عرب کے مومن ان کے مومنوں کے پیرو ہیں اوران کے کافر ان کے کافروں کے۔‘‘(مسلم،کتا ب الامارہ)

اور مزید فرمایا:

’’ہمارا اقتدار قریش کو منتقل ہوجائے گا، جب تک وہ دین پر قائم رہیں۔اس معاملے میں جو شخص بھی ان کی مخالفت کرے گا اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔‘‘(بخاری، کتاب الاحکام)

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب مشورہ لیا جائے گا تو لوگ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کریں گے۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟ اس معاملے میں بھی دین نے ہدایت کر رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’الجماعۃ (یعنی مسلمانوں کی ریاست) پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ جب کوئی اس سے الگ ہوتا ہے تو اسے شیاطین اچک لے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے جب تم لوگ کوئی بڑا اختلاف دیکھو، تو (عمل کے معاملے میں) اکثریتی گروہ کی پیروی کرو۔ کیونکہ جو ریاست سے الگ ہوا، اسے الگ کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘(المستدرک، کتاب العلم)

اسی ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم اختلافات دیکھو تو اکثریت کی رائے کی پیروی کرو۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الفتن)

ظاہر ہے کہ اختلافات کے باوجود نظام تو چلانا ہے، کاروبار زندگی تو معطل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ اکثریت کی بات پر عمل شروع کر دیا جائے۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی اکثریت کی بات صحیح نہ ہو، مگر اجتماعی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ معاملات، بہرحال اسی بات کے مطابق چلانا ہوں گے۔ البتہ دوسری راے رکھنے والے اپنی راے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ دلیل اور تہذیب سے دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اکثریت کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی رائے آپ سے آپ قانون بن جائے گی۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کی کا رکردگی اچھی نہیں رہی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ معاشرے کے تمام شعبوں اور تمام طبقوں کایہی حال ہے۔ اہل مذہب کی دنیا، دفتروں کا ماحول، ٹریفک کی صورتِ حا ل دیکھ لیجیے۔ کبھی اس عورت کو دیکھیے، جو ساس بن چکی ہے۔ کبھی گزرنے والوں کا راستہ روک کر فٹ پاتھ پر چھابڑی لگائے ہوئے شخص کو دیکھیے جو شام کے گہرے سائے کا فائدہ اٹھا کر باسی اور گلے سڑے پھل بیچ رہا ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خرابیاں جو ہم سیاست دانوں کے ہاں دیکھتے ہیں وہ پوری شان کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی صورت میں معاشرے کے تمام طبقات میں بھی نظر آ جائیں گی۔ یہ کڑوا سچ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہماری سیاسی برائیاں درحقیقت معاشرتی برائیاں ہی ہیں۔
جمہوری نظام کی خامیوں کی اصلاح مزید جمہوریت میں ہے ۔ اصلاح کا کام جمہوری عمل خود بھی انجام دے گا۔ جب بار بار انتخابات کاانعقاد ہو گا تو یہ انتخابات چھلنی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیں گے اور برے سیاست دانوں کو چھان کر الگ کر دیں گے ۔اس کے علاوہ اہل اصلاح و دعوت لوگوں کے شعور کوبہتر کریں۔ میڈیا جو اہل اقتدار کا احتساب کرتا ہے اس کے اپنے ثمرات ہوں گے۔
اپنے بنیادی اصول کے اعتبار سے جمہوریت اصل میں دین ہی کا تقاضا ہے۔سورہ مائدہ (۵) میں ارشاد باری ہے:

’’اب میں نے تمھارے لئے دین کوکامل کردیااور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔‘‘(۳)

لہٰذا جمہوریت اصل میں اللہ کی نعمت ہے ۔اور اسی نعمت میں ہم سب کی فلاح مضمر ہے جو آمرانہ بالفاظ دیگر غیراسلامی مزاج رکھنے والوں کو شاید دکھائی نہ دے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2013
Uploaded on : Sep 08, 2018
1306 View