مدیر ’’اشراق‘‘ کی آرا پر ایک تنقید کا جائزہ - سید منظور الحسن

مدیر ’’اشراق‘‘ کی آرا پر ایک تنقید کا جائزہ

 

امریکا اور افغانستان کی جنگ کے حوالے سے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک انٹرویو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اور ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں شائع ہوا تھا۔اس کے مندرجات کوبعض اہلِ علم و دانش نے موضوعِ تنقیدبنایا ہے ۔ اس ضمن میں ایک اہم تحریر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے جناب مشتاق احمد خان کا مراسلہ ہے۔انھوں نے اپنی تحریر میں بہت حد تک ان تنقیدات کی ترجمانی کی ہے جو استاذِ گرامی کی آرا پر مختلف اطراف سے سامنے آئی ہیں۔ذیل میں ہم ان کے ان تنقیدی نکات کا جائزہ لیں گے جو انھوں نے اصولی لحاظ سے پیش کیے ہیں ۔

دہشت گردی کی تعریف

مشتاق صاحب نے اپنی تحریر کے آغاز میں استاذِ گرامی کی بیان کردہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف پرتنقید کی ہے۔ان کا نقطۂ نظر بیان کرنے سے پہلے یہ مناسب ہے کہ مذکورہ تعریف یہاں نقل کر دی جائے۔ استاذِ گرامی نے کہا ہے:

’’غیر مقاتلین (Non-Combatants)کی جان ، مال یا آبرو کے خلاف غیر علانیہ تعدی دہشت گردی ہے ۔ غیرمقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالتِ جنگ میں نہ ہوں ۔ ان کے خلاف اگر کوئی اقدام انھیں اپنی حفاظت کے لیے متنبہ کیے بغیر کیا جائے تو وہ دہشت گردی قرار پائے گا۔ چنانچہ ہیروشیما ، ناگاساکی پر ایٹمی تاخت ، نیویارک اور واشنگٹن میں حالیہ تباہی اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے باہر بموں سے حملہ دہشت گردی ہی کے اقدام ہیں ۔‘‘( اشراق ، نومبر ۲۰۰۱، ۵۹)

اس تعریف پر مشتاق احمد صاحب کا نقد حسبِ ذیل نکات پر مبنی ہے:
۱۔غیر مقاتلین کے معاملے میں اصل اہمیت علانیہ یا غیر علانیہ تعدی کی نہیں، بلکہ دانستہ یا غیر دانستہ تعدی کی ہے۔ کسی کارروائی کے دانستہ یا نادانستہ ہونے کا فیصلہ مسلماتِ عقل و فطرت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔چنانچہ صرف یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ حملہ کرنے والا کہتا کیا ہے، بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ وہ کرتا کیا ہے۔
۲۔ غیر مقاتلین کے خلاف تعدی میں ایک اہم مسئلہ حقوقِ انسانی ادا نہ کرنے کا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی ریاست کسی شخص یا گروہ کو اس کا فطری یا قانونی حق دینے پر تیار نہ ہو اور ریاستی جبر کے ذریعے سے ان کے حقوق غصب کیے جائیں اور حق ماننے والے پر قوت کا استعمال کیا جائے تو یہ دہشت گردی ہے۔ فلسطین اور کشمیر اس کی مثال ہیں۔
۳۔مقاتلین کے خلاف کارروائی خواہ علانیہ ہو یا غیر علانیہ ، اگر یہ کارروائی ناحق ہے تو یہ دہشت گردی ہے۔ گویا اصل اہمیت یہاں بھی علانیہ یا غیر علانیہ کارروائی کی نہیں، بلکہ اس کی ہے کہ یہ کارروائی نا حق ہے یا نہیں؟ناحق سے مراد یہ ہے کہ کسی کے جائز قانونی حق کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے اور وہ کارروائی قانوناً جائز نہ ہو۔ پس اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ مقاتلین کے خلاف کارروائی کرنے کا حق آپ کو قانوناً حاصل ہے یا نہیں ؟ لہٰذا اگر آپ کسی مسلح فوج کے خلاف ایسی کارروائی کرتے ہیں جس کا آپ کو قانونی طور پر حق حاصل نہیں ہے یا حق تو حاصل ہے ، مگر کارروائی کرنے میں آپ نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے اور آپ اپنی قانونی حدود سے باہر نکل گئے تو یہ کارروائی ’’ناحق‘‘ ہو جائے گی اور’’ دہشت گردی‘‘ قرار پائے گی۔
مشتاق صاحب کے درج بالا استدلال کی رو سے دہشت گردی کی تعریف یہ قرار پاتی ہے:

’’انسان خواہ مقاتلین ہوں یا غیر مقاتلین، ان کے خلاف ہر وہ تعدی دہشت گردی قرار پائے گی جس میں یہ تین شرائط پائی جاتی ہوں:
۱۔کارروائی دانستہ ہو۔
۲۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔
۳۔قانونی لحاظ سے ناحق ہو۔‘‘

ہم سمجھتے ہیں کہ اس تعریف میں بیان کی گئی تینوں شرائط مبہم ہیں ۔ ان کا کسی واقعے پر انطباق کر کے اسے دہشت گردی کے زمرے میں لاناکم و بیش ناممکن ہے۔
کسی اقدام کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے انھوں نے پہلی شرط یہ عائد کی ہے کہ وہی کارروائی دہشت گردی قرار پائے گی جو دانستہ کی گئی ہو۔
ہمارے نزدیک،کسی اقدام پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلماتِ قانون و اخلاق میں نادانستہ طور پر سرزد ہونے والا جرم اصل میں جرم قرار ہی نہیں پاتا۔وہی جرم، درحقیقت جرم شمار کیا جا تا ہے جوپورے شعور اور ارادے سے کیا گیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں جیسے ہی کسی مجرمانہ کارروائی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ کسی شعور اور ارادے کے بغیر نادانستہ طور پر کی گئی ہے تو ہم اسے فہرستِ جرائم سے نکال کر فہرستِ حوادث میں ڈال دیتے ہیں۔اسی بنا پر کسی ایسے شخص کو قاتل نہیں قرار دیا جاتاجس کے ہاتھوں نادانستہ طور پر انسانی جان ضائع ہو گئی ہو۔
دوسری شرط انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ وہ اقدام دہشت گردی متصور ہو گا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔
یہ شرط بھی اپنے اطلاق کے لحاظ سے مبہم ہے۔ ہر جرم ،خواہ اس کا ارتکاب کسی فرد نے کیا ہو، کسی گروہ نے کیا ہو یا ریاست نے ،بہرحال کسی نہ کسی انسانی حق کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ شرط ہر جرم کے اندر فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ فرد کی سطح پر ملاوٹ، چوری اور قتل اور ریاست کی سطح پر عوامی تائید کے بغیر حکومت کا حصول اور جابرانہ قوانین کا نفاذ جیسے جرائم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر کے عمل میں آتے ہیں ،مگر ہم انھیں دہشت گردی سے تعبیر نہیں کرتے ۔گویا انسانی حق کی خلاف ورزی کی شرط کے باوجود جرائم اپنی نوعیت میں مختلف ہو سکتے اور ایک ہی نوعیت کے جرائم شدت اور شناعت کے لحاظ سے مختلف درجوں کے حامل ہو سکتے ہیں۔ قتل ایک بدترین جرم ہے جس میں انسانی حق کی خلاف ورزی آخری درجے میں کی جاتی ہے، مگر ہم ہر قتل کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار نہیں دیتے ۔ چنانچہ دیکھیے:
کسی شخص نے شکار کے لیے گولی چلائی ۔ اچانک ایک شخص سامنے آ گیا اور قتل ہو گیا۔ یہاں انسان کے حق جان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسے قتلِ خطا سے تعبیر کیا جائے گا ، مگر دہشت گردی نہیں کہا جائے گا۔
کسی شخص نے اپنا مال بچانے کے لیے ڈاکو پر گولی چلائی اور اسے قتل کر دیا۔ یہاں بھی انسان کے حق جان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسے مدافعت میں کیا جانے والا قتل کہا جائے گا، مگر اس پر دہشت گردی کا اطلاق نہیں کیا جائے گا۔
کسی شخص نے خفیہ طریقے سے اپنے دشمن کو گولی کا ہدف بنا کر اسے قتل کر دیا۔ یہاں بھی انسان کے حقِ جان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسے بدترین جرم قرار دیا جائے گا ، مگر دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا۔
کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو پہلے قتل کی دھمکی دی اور پھر دھمکی کے مطابق اسے برسرِ عام گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہاں بھی انسان کے حق جان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اسے ایک بہت بڑا جرم سمجھا جائے گا، مگر دہشت گردی سے موسوم نہیں کیا جائے گا۔
اس کے بالکل برعکس دیکھیے :
کسی شخص نے بندوق اٹھائی اور راہ چلتے ہوئے انسانوں پر فائر کھول دیا۔اس کے نتیجے میں کوئی شخص قتل ہو گیا۔ یہاں بھی انسان کے حق جان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس اقدام کو بہرحال دہشت گردی قرار دیا جائے گا۔
ان مثالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کسی واقعے میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی اس بات کو لازم نہیں کرتی کہ اسے دہشت گردی قرار دیا جائے۔
کسی اقدام کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے مشتاق صاحب نے تیسری شرط یہ لگائی ہے کہ وہ قانونی لحاظ سے ناحق ہو۔ اس شرط پربھی وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو اوپر ہم نے دوسری شرط کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ یعنی بلا استثنا ہر جرم اسی بنا پر جرم قرار پاتا ہے کہ وہ قانونی لحاظ سے ناحق اور باطل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم ہر جرم کو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کرتے۔
اس بحث کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ تینوں شرائط کسی اقدام کو قانونی لحاظ سے دہشت گردی قرار دینے کے لیے نہ صرف یہ کہ ناکافی ہیں، بلکہ اپنے اطلاق کے لحاظ سے بھی مبہم اور غیر واضح ہیں۔
اب ایک نظر استاذِ گرامی کی بیان کردہ تعریف پر ڈال لیجیے۔ انھوں نے جان، مال یا آبرو کے خلاف اس اقدام کو دہشت گردی قرار دیا ہے جس میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں:
۱۔ اقدام غیر مقاتلین کے خلاف ہو۔
۲۔ غیر علانیہ ہو۔
گویا ان کے نزدیک جان، مال یا آبروکے خلاف کوئی جرم بہت شنیع ہو سکتا ہے ، مگر وہ عام جرم کی سطح سے اوپر اٹھ کر اسی وقت دہشت گردی قرار پاتا ہے جب وہ غیر مقاتلین کے خلاف کیا جائے، یعنی ان لوگوں کے خلاف جوبرسرِ جنگ نہ ہوں یا جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوں یا جنگ سے مطلع نہ ہوںیا جنگ کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ۔ مزید یہ کہ وہ غیر علانیہ ہو، یعنی لوگوں کو اپنی جان، مال، آبرو بچانے کا موقع دیے بغیر ان پر حملہ کر دیا جائے۔
اس تعریف پر مشتاق صاحب کی طرف سے جو نقدقابل اعتنا ہے ، وہ یہ ہے کہ بعض ایسے موقعوں پر علانیہ تعدی بھی دہشت گردی قرار پا سکتی ہے جب غیر مقاتلین کو جان، مال یا آبرو بچانے کے حالات میسر ہی نہ ہوں۔ گویا اس صورت میں علانیہ یا غیر علانیہ کی بحث بے معنی ہو جاتی ہے۔
اس صورت میں ہمارے نزدیک اصل میں علانیہ کی شرط پوری ہی نہیں ہوتی۔ہر بات کے اندر کچھ مقدرات ہوتے ہیں جو اگرچہ ظاہرِ الفاظ میں بیان نہیں ہوتے، مگر اسلوبِ بیان اور سیاق و سباق کی بنا پراس کا لازمی حصہ تصور ہوتے ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسانوں کے خلاف کوئی تعدی اگر علانیہ ہو تو اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گاتو یہاں لفظ علانیہ میں یہ باتیں لازمی طور پر مقدر سمجھی جائیں گی:
ایک یہ کہ مخالفین کوواضح طور پر متنبہ کیا جائے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
دوسرے یہ کہ اگر وہ مقاتلین ہیں تو انھیں ہتھیار ڈالنے اور اگر غیر مقاتلین ہیں تو انھیں مطیع ہوکر یا راہِ فرار اختیار کر کے جان، مال اور آبرو بچانے کا پورا موقع دیا جائے۔
چنانچہ استاذِ گرامی کے نزدیک کسی جنگی کارروائی کو غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی اور سرتاسر ظالمانہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، مگر اسے دہشت گردی قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مذکورہ دونوں شرائط پائی جاتی ہوں۔ اسی بنا پر انھوں نے امریکی حملے پر حسبِ ذیل تبصرہ کیا تھا:
’’حملے کی شناعت دوسرے وجوہ سے اپنی جگہ مسلم ہے ، لیکن اگر امریکا وہاں صرف مقاتلین کے خلاف کارروائی کر رہا ہو اور یہ کارروائی علانیہ ہو تو اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ ، اگر وہ یک بیک کابل اور قندھار کے شہری علاقوں پر بم باری شروع کر دیتا ہے تو یہ اقدام ہر لحاظ سے دہشت گردی ہو گا ۔ یہ اسی طرح کا مجرمانہ اقدام ہو گا جس طرح ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیا گیا ۔‘‘ (اشراق، نومبر۲۰۰۱، ۶۱)

ملزم کا قانونی حق

مشتاق صاحب نے دوسرا مسئلہ یہ اٹھایا ہے کہ: اسامہ بن لادن سمیت دنیا کے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اس پر کوئی الزام ہو تو اسے ثابت کیا جائے۔ الزام ثابت کیے بغیر کسی کو مجرم یا دہشت گرد ہرگز قرار نہیں دینا چاہیے۔ یہی اسلامی قانون کا بنیادی اصول ہے، یہی بات انگریزی قانون میں بیان ہوئی ہے اوریہی بین الاقوامی قانون میں مذکورہے۔ مگر امریکا نے اس معاملے میں سارے اصول توڑ دیے۔ چنانچہ غامدی صاحب کا اسامہ بن لادن کو یہ تجویز کرنا کہ وہ اپنے آپ کو ٹرائل کے لیے پیش کر دے ، مبنی بر انصاف نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ برادرم مشتاق احمد صاحب یہاں بھی استاذِ گرامی کی بات نہیں سمجھ سکے۔ استاذِ گرامی یہ بیان ہی نہیں کر رہے کہ قانون و اخلاق کے لحاظ سے وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو امریکا نے ادا نہیں کیں اور وہ کون سے حقوق ہیں جو اسامہ بن لادن کوحاصل ہیں۔ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن اگر ہر اعتبار سے بے گناہ بھی ہوں، تب بھی انھیں اپنے آپ کو پیش کر کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل ہونے اور ریاستِ اسلامیہ افغانستان کو مزید برباد ہونے سے بچا لینا چاہیے۔ دیکھیے، انھوں نے انٹرویو میں یہی بات بیان کی ہے:

’’دہشت گردی کے حادثے کے بعد امریکا ، بلکہ پوری دنیا نے یہ الزام لگا دیا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد ی میں ملوث ہیں اور افغانستان ان سے تعاون کر رہا ہے ۔ اس الزام کی کچھ جزوی تصدیق پاکستان اور سعودی عرب نے بھی کر دی تھی ۔ جب پوری دنیا نے ان کی طرف انگلی اٹھا دی تھی تو پھر انھیں چاہیے تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ٹرائل کے لیے پیش کر دیتے ۔ وہ یہ کہتے کہ ہم دنیا کی عالمی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ افغانستان کی حکومت بھی یہ کہتی کہ ہم نے افغانستان کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ دنیا کے سب لوگ آئیں اور افغانستان کا چپا چپا چھان ماریں۔ وہ دیکھ لیں کہ ہمارے ہاں کوئی دہشت گردی کا کیمپ نہیں ہے ۔ اس صورت میں امریکا کو اپنا مقدمہ ثابت کرنا پڑتا اور پھر آپ دیکھتے کہ امریکا اخلاقی لحاظ سے کس طرح پس پا ہو جاتا ۔ اور اگر اس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کو غلط سزا ہوتی تو وہ خود اسلام کی عظمت کے لیے ایک بڑی قربانی بن جاتے اور ان کی شہادت مظلومانہ شہادت ہوتی ، بالکل اسی طرح جس طرح سیدنا عثمان نے اپنی جان دے کر امت کو خون ریزی سے بچانے کی کوشش کی تھی ۔‘‘ (اشراق،نومبر۲۰۰۱، ۶۴)

امریکا کا ہدف

مشتاق احمد صاحب نے تیسری بات یہ کی ہے کہ امریکا کا اصل ہدف اسامہ نہیں، بلکہ وہ ایشیا کے اندر اپنے توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’کیا آپ نے صدر بش کے چھ مطالبات نہیں سنے۔ کیا معاملہ صرف اسامہ بن لادن کو حوالے کر دینے کا تھا؟ کیا اسامہ کو حوالے کر دینے سے معاملہ ختم ہو جاتا؟ یہاں تو چین پر قابو پانے کی بات ہو رہی ہے، وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر پر قبضے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کے خاتمے کے پروگرام بنائے جا رہے ہیں اور آپ اسے صرف اسامہ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔‘‘

اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ استاذِ گرامی نے اپنے انٹرویو میں امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم کی حقیقت اور اس کے بین الاقوامی طرزِ عمل پر کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا، اس لیے یہ بات کہنے کی کوئی گنجایش نہیں کہ وہ امریکا کے اقدام کو صرف اسامہ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان مقاصد کے بارے میں مشتاق احمد صاحب کی اطلاعات کو حرف بہ حرف درست بھی مان لیا جائے،تب بھی سوال یہ ہے کہ کیا اسامہ، طالبان یا حکومتِ پاکستان امریکا کی قوت کے آگے سینہ سپر ہونے کی پوزیشن میں ہیں؟ چند ہفتے پہلے تو ہو سکتا ہے کہ مشتاق صاحب اپنی تمناؤں کی روشنی میں اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ، مگر آج حقائق اس قدر برہنہ ہو گئے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس کا مثبت جواب نہیں دے سکتے۔ استاذِ گرامی نے نوشتۂ دیوار کو بیان کیا تھا جو اب ایک مشہود حقیقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔
مزید برآں یہ بات بھی ہم پر واضح رہنی چاہیے کہ چین و جاپان کو اپنی فکر یقیناًہم سے زیادہ ہو گی اور وہ اپنی حفاظت کی ہم سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہماری معیشت امریکا کے قبضے میں ہے، ہماری سیاست اس کی مطیع ہے، ہماری تہذیب اس کے زیرِ اثر ہے، ہماری حربی قوت کا انحصار اس پر ہے۔ اس کے باوجود ہم خوابوں میں جی رہے ہیں اور اس سے تصادم کی بات کر رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ہم بھی وہی پالیسی اختیار کریں جو چین اور جاپان نے اختیار کی کہ اپنی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائیں؟

حق پرستی

مشتاق صاحب نے طالبان کے طرزِ عمل کو حق پرستی سے تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’طالبان نے اگر امریکا کی دہشت گردی اور بدمعاشی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی راہ اپنائی ہے تو یہی حق پرستی کا تقاضا ہے۔ آخر کیوں کوئی اپنے حق سے دست بردار ہو جائے اور افغانوں کا تو مزاج ہی ایسا ہے اگر آپ نرمی سے اور دوست بن کر ان سے مانگیں گے تو اپنا سر بھی پیش کر دیں گے جو چاہیں گے دے دیں گے۔ لیکن زبردستی مانگو گے ، جبر اور بدمعاشی کا رویہ اپناؤ گے تو پھر سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی مرد حق پرست کی شان ہے۔‘‘

استاذِ گرامی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حق پرستی ، بلاشبہ انسانیت کا شرف ہے ، مگر یہ ضروری ہے کہ اس کا اظہار حکمت و دانش کے ساتھ ہو۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنی حماقت سے اظہارِ حق پرستی کے وہ مواقع بھی کھو دیں جو ہمیں حاصل ہیں۔
حق پرستی یہ ہے کہ آپ باطل کا ساتھ نہ دیں، ظلم کی حمایت نہ کریں، انصاف کا بول بالا کریں۔ مگر مشتاق صاحب نے طالبان کی حق پرستی کی یہ جو تصویر کشی کی ہے کہ وہ ’’دوست بن کر مانگو تو سر بھی پیش کر دیں گے اور زبردستی مانگو گے تو زبردست مزاحمت کریں گے، ‘‘ اسے خودداری و اناپرستی سے تو تعبیر کیا جا سکتا ہے ، مگر حق پرستی نہیں کہا جا سکتا۔ حق پر ستی تو یہ ہے کہ حق اگر بالجبر بھی مسلط کیا جائے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے اور باطل اگر پاؤں میں پڑ کر بھی پیش کیا جائے تو اسے پاے حقارت سے ٹھوکر مار دی جائے۔

مسلمانوں پر تنقید

مشتاق صاحب لکتے ہیں کہ:

’’مجھے حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ آپ کو بس طالبان اور اسامہ ہی میں خامیاں نظر آ رہی ہیں اور امریکا اور اس کے حواریوں کی خامیوں کو آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔‘‘

استاذِ گرامی کو طالبان اور اسامہ میں خامیاں اس لیے نظر آتی ہیں کہ وہ انھیں اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ انھیں امریکا اور اس کے حواریوں سے زیادہ اپنی قوم کے ان لوگوں کی فکر ہے جو اگرچہ بہت مخلص ہیں ، مگر بے سوچے سمجھے اپنی اور اپنی ملت کی سلامتی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ کیا حیرت اور افسوس کا اظہار ان لوگوں پرنہیں کرنا چاہیے جو انھیں اس قومی خود کشی کی ترغیب دے رہے ہیں؟

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2002
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Jul 30, 2018
1498 View