صلاح الدین اور استحکام پاکستان - سید منظور الحسن

صلاح الدین اور استحکام پاکستان

 مدیر ’’تکبیر‘‘ جناب صلاح الدین، جنھیں اس دور میں بے باک صحافت کا امام کہیے، قتل کر دیے گئے، اور شہر کراچی، ’’کراچی بچاؤ ریلی‘‘ سے اگلے روز ہی لٹ گیا۔
جناب صلاح الدین کے اس قتل کو بیرونی قوتوں کی سازش کہیے یا اندرونی عناصر کی فتنہ پردازی، اسے سیاسی منافرت کا نتیجہ کہیے یا گروہی انتقام کا اظہار، بہرحال یوں لگتا ہے جیسے انسانی جان کی قدر و قیمت اب مٹی کے کھلونوں سے بھی کم تر ہو گئی ہے۔ یہ انسانیت کے تنزل کا آخری مقام ہے۔
اس قتل نے اہل پاکستان کو ایک سچے پاکستانی اور اہل اسلام کو ایک مخلص مسلمان سے محروم کر دیا۔ ماتم کے قابل ہے اس قوم کی حالت جس میں اب اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ وہ اپنے محسنوں کی حفاظت ہی کر سکے!
جناب صلاح الدین اس ملک و قوم کے عظیم محسن تھے۔ ارض پاکستان سے ان کی محبت بے پناہ تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کی سلامتی و بقا کی فکر سے انھیں کبھی کسی نے غافل نہیں پایا۔ اپنے قلم اور اپنے عمل کے ذریعے سے انھوں نے ہمیشہ یہ جدوجہد جاری رکھی کہ اس ملک کو کامل استحکام کی منزل تک پہنچایا جائے۔ ملک و قوم کے لیے ان کی جدوجہد ، یوں تو اپنے اندر کئی پہلو رکھتی ہے، لیکن تین پہلوؤں سے ان کی یہ جدوجہد بہت نمایاں رہی۔
ان کی جدوجہد کا ایک نمایاں پہلو یہ رہا کہ اس ملک کے سیاسی نظام میں دین اسلام کو پوری طرح جاری و ساری کیا جائے۔ اس سلسلے میں ،وہ ہمیشہ اس پر اصرار کرتے رہے کہ اس ملک کی سیاست کو سیکولر ذہن رکھنے والوں اور مفاد پرستانہ رجحان رکھنے والوں کے تسلط سے پاک کیا جائے، اور اسلام کے بارے میں مثبت رویہ رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ اپنے ایک تجزیے میں وہ لکھتے ہیں:

’’میرا شعور پاکستان مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ جو سیکولر ہے، وہ پاکستانی نہیں۔ وہ ذہنی طور پر ہندوستانی ہے، خواہ رہتا بستا پاکستان ہی میں ہو۔ اگر پاکستان سیکولر ریاست ہے (جو آئینی طور پر نہیں ہے)، تو اس کے وجود کا کوئی جواز نہیں۔ اس اسلامی ریاست کو ، عملاً ، سیکولر ریاست کی طرح چلا کر اور اس کی اجتماعی و انفرادی زندگی سے اسلام کا رنگ کھرچ کر، مٹا کر اور ہلکا کرکے ہی ہم موجودہ صورت حال تک پہنچے۔ اس میں اسلام کی چنگاری آج شعلۂ جوالہ بن جائے ، تو اس ملک کے تمام بیرونی دشمنوں اور ان کے اندرونی ایجنٹوں کی ساری سازشیں خاک میں مل سکتی ہیں... سیاسی فیصلے اور تمام اجتماعی فیصلے، اگر قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے (جن کے ہم آئینی طور پر پابند اور اعلیٰ عہدے دار اپنے حلف کی رو سے پابند ہیں) ، تو یہ ریاست اسلامی ہو گی، اور اگر سارے فیصلے زر، زمین اور عہدے و منصب کے مفادات اور عوامی و خواصی حاکمیت کے تابع ہوں گے، تو جو کچھ ہو رہا ہے، وہی ہو گا۔ سلسلہ اور آگے بڑھے گا اور فکر کے مضبوط مسالہ سے سیمنٹ نکل جانے کے بعد مربوط عمارت باقی نہ رہ سکے گی۔‘‘(تکبیر، شمارہ۴۶،۱۳)

استحکام پاکستان کے لیے ان کی جدوجہد کا دوسرا نمایاں پہلو یہ رہا کہ اس ملک میں فرقہ داریت کے ناسور کو اس کی جڑ سے اکھاڑ ڈالا جائے۔ فرقہ پرستی نسلی بنیاد پر ہو یا مذہبی بنیاد پر، لسانی بنیاد پر ہو یا علاقائی بنیاد پر، انھوں نے اپنی تحریروں اور اپنی شخصیت کے اثرات کے ذریعے سے، اسے بیخ و بن سے اکھاڑنے کی سعی مسلسل جاری رکھی۔ انھوں نے بالکل درست طور پر، اس مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ فرقہ دارانہ بنیادپر قائم سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’تبدیلی نظام، وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ موجود سسٹم نہ چل رہا ہے ، نہ چل سکے گا۔ میرے نزدیک چار بنیادی تبدیلیاں، اس نظام کو بہتر اور مستحکم بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ (ا ن میں سے ایک یہ ہے کہ) آئین اور انتخابی قوانین کی رو سے تمام لسانی، نسلی، علاقائی اور مسلکی جماعتوں پر بطور سیاسی جماعت ، پابندی عائد کی جائے۔‘‘(تکبیر، شمارہ ۴۱،۱۱)

استحکام پاکستان کے لیے ان کی جدوجہد کا تیسرا نمایاں پہلو یہ رہا کہ اس قوم کے افراد کو اخلاقی انحطاط سے بچایا جائے اور انھیں ملک کا با شعور شہری بنایا جائے۔ چنانچہ رشوت ستانی، اقربا پروری، قومی دولت میں خیانت اور قومی اداروں میں لوگوں کی غیر ذمہ داری اور بے پروائی پر، ان کے جریدے ’’تکبیر‘‘ نے ہمیشہ محاسبانہ تنقید کی اور بد عنوانیوں کو ہر موقع پر بڑی خوبی سے بے نقاب کیا۔
اس کے علاوہ، مثبت طور پر ، لوگوں میں سیاسی اور ملی شعور بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ’’پاکستان ووٹرز فورم‘‘ کے نام سے ایک تربیتی ادارہ بھی قائم کیا۔
استحکام پاکستان کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ استحکام ملت کے لیے بھی انھوں نے تمام عمر جدوجہد جاری رکھی۔ افغانستان کا مسئلہ ہو یا کشمیر و بوسنیا کا، وہ مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے خلاف ہمیشہ صداے احتجاج بلند کرتے رہے۔ انھوں نے اس کے لیے بھی سعی کی کہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں، باہمی طور پر، اتحاد و یگانگی کی فضا قائم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نہ صرف ’’تکبیر‘‘ کی نواے پر سوز کو بلند رکھا، بلکہ متعدد ممالک کے دورے کرکے عملی تعاون کی بھرپور کوششیں بھی کیں۔
یہ ان کی بڑی خوبی رہی کہ استحکام پاکستان اور استحکام ملت کی اس تمام تر جدوجہد میں انھوں نے ہمیشہ پر امن اور آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیے۔ تشدد و احتجاج اور نظام میں تبدیلی لانے کے لیے غیر آئینی طریقوں کو انھوں نے قوم و ملت کے لیے ضرررساں قرا ر دیا۔
یہ انھی کا طرۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے سیاسی زعما اور ارباب حل و عقد کی پردہ پوشی کرنے کے بجاے انھیں ہمیشہ عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ اس معاملے میں ان کا کردار اتنا تاب ناک ہے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی عظمت کردار کے معترف ہیں۔ ایک زمانہ گواہ ہے کہ اس معاملے میں انھوں نے کبھی کسی سے شکست نہیں کھائی۔ سیاسی معاملات کے اعتبار سے ، بین الاقوامی امور کے حوالے سے اور نظام میں تبدیلی کے طریق کار کے پہلو سے ان کے طرز اظہار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے اخلاص نیت، قوم و ملت سے ان کی محبت اور صحافت میں ان کی حق گوئی اور بے باکی پر، کسی نوعیت کا کوئی شک ، ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں یقین ہے کہ صحافت کے میدان میں انھوں نے اپنے بے لاگ اور حق پرست قلم سے جو تخم ریزی کی ہے، اگر اللہ نے چاہا تو وہ برگ و بار لا کر رہے گی اور اس ملک کے قریے قریے میں صلاح الدین پیدا ہوں گے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 1995
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Apr 13, 2018
2013 View