ایک منفرد ترجمۂ قرآن - خورشید احمد ندیم

ایک منفرد ترجمۂ قرآن

 

کیا شب و روز ہیں اور کیسی بحثیں ہیں جن سے زبان و قلم آلودہ ہیں؟
سحری سے پہلے قرآن مجید کھولا۔ سورہ بقرہ سامنے تھی۔ عالم کا پروردگار یہود و نصاریٰ پر اتمامِ حجت کر رہا ہے۔ ساتھ ہی زریتِ ابراہیم کی ایک دوسری شاخ بنی اسماعیل میں سے امتِ مسلمہ کی تاسیس کا اعلان ہو رہا ہے۔ یہود کے جرائم کا ذکر ہے اور میں اس میں اپنا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ اُسی لمحے یہ سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ 
'البیان‘ زیر مطالعہ ہے۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا ترجمہ قرآن۔ ترجمہ کیا ہے، ایک جہاںِ نو کی دریافت ہے۔ برسوں سے ' تفہیم القرآن‘ کا سحر طاری ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ارادہ کیا کہ عربیٔ مبین کی ترجمانی اردوئے مبین میں ہو۔ اللہ نے انہیں کوثر و تسنیم سے دھلا قلم عطا فرمایا تھا۔ ایک اردو دان کو قرآن مجید سے اس طرح وابستہ کیا کہ وہ اللہ کی کتاب کو اپنے دل پر نازل ہوتا محسوس کرنے لگا۔ قرآن مجید سے جو تعلقِ خاطر مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن سے پیدا ہوا، وہ مجھے 'البیان‘ تک لے آیا۔
زاویۂ فراہی میں جس طرح کتاب اللہ کے عجائب منکشف ہوئے، 'البیان‘ اس کا نقشِ ثالث ہے۔ امام حمیدالدین فراہی نے مدرسہ ٔ اصلاح کے حجرے میں قرآن مجید کے جو معارف دریافت کیے، وہ اس باب کا نقشِ اوّل تھا۔ ان کا زیادہ کام تدبرِ قرآن کے ان اصولوں پر ہے، جن کی بنیاد پر اللہ کی کتاب کے مفاہیم تک رسائی کا یہ مکتب استوار ہوا۔ ان اصولوں کی بنیاد پر انہوں نے قرآنِ مجید کی تفسیر لکھنے کا آغاز کیا۔ حیاتِ مستعار میں وہ چند آخری سورتوں کی تفسیر ہی لکھ پائے۔ ان کے شاگردِ رشید امام امین احسن اصلاحی کو اﷲ نے توفیق دی، انہوں نے اپنے استاذ کے کام کو آگے بڑھایا، اور یوں تدبر قرآن کے نام سے تفسیر کا تاج محل وجود میں آیا۔ مولانا اصلاحی سے یہ شمع جاوید احمد غامدی صاحب کو منتقل ہوئی۔ اللہ نے کرم کیا اور پانچ جلدوں میں یہ ترجمۂ قرآن مکمل ہو گیا۔
تفسیر کے اس مکتب کے کئی امتیازات ہیں۔ دو کی حیثیت اساسی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن مجید کی زبان اُم القریٰ، مکہ کی عربیٔ معلیّٰ ہے۔ یہ زبان جانے بغیر قرآن کے اسرار نہیں کھلتے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید کا ایک نظم ہے۔ یہ نظم آیات میں ہے، سورتوں میں ہے اور پورے قرآن میں ہے۔ قرآن مجید متفرق اقوالِ زریں کا مجموعہ نہیں، ایک مربوط کلام ہے۔ اس نظم کو دریافت کیے بغیر قرآن کے مفاہیم تک رسائی ممکن نہیں۔ ہماری تفسیری روایت میں سب اہلِ علم نے ان باتوں کو تسلیم کیا ہے۔ امام فراہی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اسے سائنس بنا دیا۔ 
مولانا امین احسن اصلاحی نے قرآن مجید کے اس نظم کو ترجمہ نہیں، تفسیر میں کھولا ہے۔ اگر تدبر قرآن کا ترجمہ پڑھا جائے تو آیات کا ربط واضح نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تفسیر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ تفسیر ایک سنجیدہ طالب علم کی تشفی کا سامان تو کرتی ہے لیکن قرآن کا عام قاری اس نعمت سے محروم رہتا ہے، جو تفصیلی مطالعے کی مشقت نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے یہ ضرورت باقی تھی کہ قرآن مجید کا نظم خود ترجمے سے ظاہر ہو جائے اور عام قاری بھی کتاب اللہ کے حسن بیان کو جان سکے۔ 'البیان‘ نے اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔ نظم کی دریافت کے اس عمل میں شاگرد کئی بار اپنے استاد سے مختلف نتائج تک پہنچا۔ جیسے استاد کو اپنے استاد سے اختلاف کرنا پڑا کہ علم کی روایت ایسے ہی آگے بڑھتی ہے۔ 
غامدی صاحب نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے: ''یہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ ہے۔ آں سوئے افلاک کے اس شہ پارہء ادب کا حسنِ بیان تو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں۔ میں نے البتہ اس ترجمے میں یہ کوشش کی ہے کہ اس کا مدعا نظمِ کلام کی رعایت سے اردو زبان میں منتقل کر دوں۔ تراجم کی تاریخ میں یہ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ قرآن ہے کہ اس میں قرآن کا نظم اس کے ترجمے ہی سے واضح ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے مزید کسی شرح و وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی‘‘۔
اسلام اس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت کا انذار ہے۔ اسی کی خبر دینے اور اسی کا آوازہ لگانے کے لیے اللہ کے رسول اور نبی مبعوث کیے جاتے رہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ رسول زمین پر اللہ کی عدالت بن کر آتا ہے اور رسول کے مخاطب قوم کے لیے وہ قیامت اس دنیا میں برپا ہو جاتی ہے جو ایک دن سارے عالمِ انسانیت کے لیے برپا ہونی ہے۔ رسول اتمامِ حجت کا نام ہے۔ سیدنا محمدﷺ منصبِ رسالت ہر فائز تھے۔ اللہ نے آپ کی صورت میں آخری بار اتمامِ حجت کر دیا۔ قرآن مجید رسالت مآبﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ اس سرگزشت کے کئی مراحل ہیں۔ انذار، انذارِ عام، اتمامِ حجت، ہجرت و برات اور رسول کی مخاطب قوم کے لیے جزا و سزا کا بیان۔
مو لانا اصلاحی کے نزدیک اس سرگزشت کے حوالے سے قرآن مجید کے مضامین سات ابواب پر مشتمل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید نے خود کو 'سبع من المثانی‘ کہہ کر اس جانب اشارہ کر دیا ہے (سورہ حجر)۔ سات جوڑے (مثانی) سے مراد یہ ہے کہ ہر باب میں سورتیں جوڑے کی صورت میں ہیں۔ عام طور پر ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر سورتیں توام ہیں جیسے بقرہ اور آلِ عمران۔
قرآن مجید کا نظم کس طرح نفسِ مضمون کی تفہیم پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کا اندازہ 'البیان‘ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ اس امت کا اجماع ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب توقیفی یعنی اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ وہ ترتیب نہیں ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی حکمت سے خالی نہیں۔ اسی حکمت کو دریافت کرنے کا نام نظمِ قرآن ہے۔ ہماری تفسیری روایت میں اس کا اعتراف کرنے کے باوجود اس نظم کو دریافت کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مربوط کوشش سامنے نہیں آئی۔ یہ نظم دریافت نہیں کیا جا سکتا جب تک ام القریٰ کی زبان پر دسترس نہ ہو۔ اس کے لہجے اور اسالیب سے واقفیت نہ ہو۔ امام فراہی نے 'اسالیب القرآن‘ جیسی کتابیں لکھ کر یہ بات واضح کر دی۔
یہ آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے امام فراہی جیسے عبقری کی عمر لگ گئی۔ امام اصلاحی نے نصف صدی اس کی نذر کی۔ جاوید غامدی صاحب کی تنہائیاں بھی کم و بیش پچاس سال سے اسی پر غور و فکر سے آباد ہیں۔ اس طرح 'البیان‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تین نسلوں کا حاصل ہے۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ چند سالوں کا معاملہ ہے۔ جاوید غامدی کسی ٹی وی چینل کی دریافت کا نام نہیں۔ یہ پچاس سال کی ریاضت کا حاصل ہے۔ ان کی جن آرا پر آج لاعلمی کے باعث حاشیے چڑھائے جاتے ہیں‘ ان میں سے اکثر 1970ء کی دہائی میں سامنے آ چکی تھیں۔ 1988ء سے تو میں براہ راست ان سے واقف ہوں۔
'البیان‘ میں مختصر حواشی بھی ہیں۔ تاہم ترجمہ بڑی حد تک تفسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ الا یہ کہ کوئی کسی فقہی یا کلامی مسئلے پر مزید تفصیل کا طالب ہو۔ ان دنوں سورہ بقرہ سامنے ہے۔ یہود کے جرائم کا تذکرہ ہے۔ کیسے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے میثاق باندھا اور توڑا۔ بار بار باندھا اور توڑا۔ ترجمے میں نظم ایسے واضح ہے کہ کہیں سلسلہ کلام ٹوٹنے نہیں پاتا۔ معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں عالم کا پروردگار یہود سے میری طرف رخ کرتا ہے اور مجھے عبرت دلاتے ہوئے متوجہ کرتا ہے کہ میں نے بھی اپنے اللہ سے ایک میثاق کر رکھا ہے۔ 
کیا مجھے اس کا احساس ہے۔ رمضان کے شب و روز ہیں۔ میرا مالک بطورِ خاص میری طرف متوجہ ہے اور میں کہاں متوجہ ہوں؟
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 7 جون 2017
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Jun 07, 2017
5820 View