انجیل کی زبان؛ یونانی یا سریانی (حصہ اول) - عبدالستار غوری

انجیل کی زبان؛ یونانی یا سریانی (حصہ اول)

 

موقر جریدے ’’الاعتصام‘‘ کی اشاعت ۳۴/۵۷ (برائے ۲ تا۸ ستمبر ۲۰۰۵) میں کسی صاحب نے سوال کیا تھا کہ ’کیا ’’سریانی‘‘ نام کی کوئی زبان ہے؟‘ اس کا جواب قابل احترام بزرگ عالم دین مولانا ثناء اللہ خان مدنی نے دیا تھا۔ جواب کا پہلا فقرہ تھا: ’سریانی‘ مستقل زبان کا نام ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے، یہ جواب بالکل درست بھی ہے اور کافی بھی، لیکن مولانا نے اتنی بات پر اکتفا نہیں کیا۔ مولانا مدنی لکھتے ہیں:

’ ’ارشاد الساری شرح بخاری(۱/۶۵) میں ہے: ’وقیل أن التورٰۃ عبرانیۃ والانجیل سریانی‘۔ ’’ کہا جاتا ہے کہ تورات عبرانی اور انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘

مولانا مزید لکھتے ہیں:

’’حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے:(أن النبیﷺأمرہ أن یتعلم السریانیۃ) کہ ’نبی ﷺ نے ان کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا تھا۔‘(فتح الباری ۱۳/۱۸۶) امام ترمذی نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے: باب ما جاء فی تعلیم السریانیۃ۔
عربانی [غالباً یہاں ’عربی‘ ہونا چاہیے تھا] زبان کی اصل سریانی ہے، جس طرح کہ فاکہی نے اخبار مکہ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے اس امر کی تصریح کی ہے۔‘‘

مولانا نے ارشاد الساری شرح بخاری کے حوالے سے جو بات کہی تھی وہ حوالے کی حد تک تو صحیح تھی، لیکن واقعہ کے اعتبار سے صحیح نہیں تھی۔ مولانا سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیاتو انھوں نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ لکھ دیجیے۔ اس کے جواب میں ایک مختصر سا مضمون ’سریانی اور ارامی زبان کے بارے میں وضاحت‘ قلم برداشتہ لکھ دیا گیا۔ یہ مضمون ’’الاعتصام‘‘ کو بھی بھجوایا گیا اور ’’محدث‘‘ کو بھی۔ لیکن کسی نے بھی اس کی اشاعت مناسب نہ سمجھی۔ چنانچہ اسے ماہنامہ ’’اشراق‘‘میں اشاعت کے لیے دے دیا گیا۔ جہاں یہ دسمبر ۲۰۰۵ کی اشاعت میں صفحہ ۳۳ تا۳۶ پر شائع ہوا۔ اس کے جواب میں ماہنامہ ’’محدث‘‘ کی اشاعت مارچ ۲۰۰۶ میں صفحہ ۱۲۳ تا ۱۲۹ پر جناب محمد اسلم صدیق صاحب کا ایک مضمون ’انجیل کی زبان؛ ایک ناقدانہ جائزہ‘ شائع ہوا۔ زیر نظر مضمون اسی کے جواب پر مشتمل ہے۔
جناب محمد اسلم صدیق لکھتے ہیں:

’’ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۵۰ء، ۳/۵۲۲) میں ہے کہ: ’’مسیح اور آپ کے حواری نسلاً اور مذہباً اسرائیلی تھے اور ان کی مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی یا مغربی آرامی۔‘‘[یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور آپ کے حواریوں کی مذہبی زبان عبرانی اور مادری زبان ارامی تھی۔ لیکن آگے جا کر جناب اسلم صدیق صاحب نے جو نتیجہ نکالا ہے کہ انجیل کی ممکنہ اصل پانچ زبانوں میں سے ایک عبرانی تھی، اس کی کیا بنیاد ہے۔ یہاں کہا یہ گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور آپ کے حواریوں کی مادری زبان ارامی تھی اور مذہبی زبان عبرانی۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انجیل کی زبان عبرانی تھی۔] ( Jesusصفحہ ۴۸) امریکہ کے یونین کالج میں عبرانی کے پروفیسرMoss Buttenwieser کے بقول حضرت عیسیٰ کے دور میں آرامی زبان بولی جاتی تھی [یہاں بھی وہی بات کہی گئی ہے جو میں نے کہی ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انجیل ارامی زبان میں لکھی گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں ارامی زبان بولی جانا اور بات ہے اور انجیل کا اس زبان میں لکھا جانا ایک دوسری بات ہے۔] مغربی مفکر Renen کے نزدیک حضرت عیسیٰ کی مادری، مذہبی اور وطنی زبان عبرانی آمیز سریانی تھی۔
نیز اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگار نے مادّہ انجیل کے تحت لکھا ہے ]زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے[ کہ انجیل کی زبان آرامی یا ارامی کی کوئی شاخ تھی۔ علامہ بدر الدین عینی نے صحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ( کان ورقۃ بن نوفل یکتب الکتاب فیکتب من الانجیل بالعبرانیۃ)کے تحت لکھا ہے کہ: قال التیمی: الکلام العبرانی ہو الذی انزل بہ جمیع الکتب کالتوراۃ والانجیل ونحو ھما وقال الکرمانی: فہم منہ أنّ الانجیل عبرانی، قلت لیس کذلک، بل التوراۃ عبرانیۃ والانجیل سریانی (عمدۃ القاری ۱/۵۲)۔ ’’امام تیمیؒ کہتے ہیں کہ عبرانی وہ کلام (زبان) ہے جس میں تورات انجیل وغیرہ کتب کو نازل کیا گیا تھا۔ امام کرمانی کہتے ہیں کہ اس سے سمجھ آتا ہے کہ انجیل عبرانی زبان میں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں بلکہ تورات عبرانی میں تھی اورانجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘[امام کرمانی نے یہ تو ٹھیک کیاکہ امام تیمی کی اس غلطی کی نشان دہی کر دی کہ انجیل عبرانی زبان میں تھی، لیکن اس کی اصلاح کے طور پر جو یہ لکھا کہ ’یہ بات درست نہیں ،بلکہ تورات عبرانی میں تھی اور انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘ تو یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ انجیل سریانی زبان میں نہیں لکھی گئی تھی، بلکہ سریانی میں تو اس کا یونانی زبان سے ترجمہ کیا گیا تھا۔] اور مولانا مودودی ؒ نے اپنی کتاب ’نصرانیت قرآن کی روشنی میں‘ ص ۹۲ پر صاف لکھا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ اور ان کے تمام حواریوں کی زبان سریانی تھی۔‘‘[اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انجیل سریانی میں لکھی گئی تھی؟]
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں انجیل کی اصل زبان کے متعلق پانچ آراء ہمارے سامنے آتی ہیں: عبرانی، سریانی، عبرانی آمیز سریانی، آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ۔ ان مختلف آرا سے کم از کم یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل کی زبان کو آرامی قرار دینے کا جو بلند وبانگ ] بلند بانگ[ دعویٰ کیا گیا ہے، وہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں رکھتا۔[میں نے اپنی تحریر میں کسی جگہ یہ ’’بلندو بانگ دعویٰ ‘‘ نہیں کیا ،بلکہ اس کے برعکس میں نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ انجیل کی زبان یونانی تھی، جبکہ حضرت عیسیٰ کی زبان ارامی تھی اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ پر کلام الہٰی ان کی اپنی زبان ہی میں نازل ہوا ہوگا، جیسا کہ آپ نے خود فرمان الہٰی نقل کیا ہے : ’’وما ارسلنا من رسولٍ الا بلسان قومہٖ]‘‘

جناب محمد اسلم صدیق صاحب نے اس عبارت میں بڑی حد تک اپنا استدلال پیش کر دیا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن اس پر کلام اس وجہ سے مناسب نہیں لگتا کہ یہ طوالت کا موجب ہو گا۔ اس لیے اس سے صرف نظر ہی بہتر ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے یہ سب کچھ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ہی کے اعتماد پر قلم بند کیا ہے اور اصل انگریزی ماخذ خود دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ انگریزی الفاظ کے ہجے نقل کرنے میں کافی بے احتیاطی برتی گئی ہے۔ مثلاً Mosesکو Mossلکھا گیا ہے۔ اس طرح کی اغلاط مضمون میں آگے بھی موجود ہیں مثلاً Semiticکو Semticلکھا گیا ہے، ایرانی شہنشاہ Cyrus کو ہر جگہ Cyprusلکھا گیا ہے اورAprocryphalکو Procryphal لکھا گیا ہے۔
جناب اسلم صدیق صاحب نے اپنے مضمون میں میری تحریر سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ایک غیر متعلق بات معلوم ہوتی ہے۔ میں نے اپنی تحریر میں کہیں یہ ’’بلند وبانگ‘‘ دعویٰ نہیں کیاکہ انجیل کی زبان آرامی تھی بلکہ میں نے تو لکھا تھا ’’انجیل ابتدا ہی سے یونانی (Greek) زبان میں لکھی گئی تھی، جب کہ حضرت مسیح کی زبان آرامی (Aramaic) تھی اور انھوں نے اپنے مواعظ وبشارات اسی آرامی زبان میں ارشاد فرمائے تھے۔‘‘ (اشراق ۳۳)۔ عجیب بات ہے کہ فاضل تنقید نگاراتنی سادہ سی بات کیوں نہ سمجھ سکے۔ میں نے تو انجیل کی زبان کوکہیں بھی ارامی قرار نہیں دیا، بلکہ یہ کہاہے کہ انجیل کی زبان یونانی تھی۔ البتہ میں نے اس بات کی تردید کی تھی کہ انجیل کی اصل زبان سریانی تھی۔ میں نے تو یہ بھی لکھا تھا کہ’’ لیکن ان (حضرت مسیح) کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامۂ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں (یعنی ارامی زبان میں) نہیں لکھے گئے تھے۔ ... اور وہ شروع ہی سے یونانی زبان میں لکھے گئے تھے۔‘‘(اشراق ۳۳۔۳۴)۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جناب اسلم صدیق صاحب نے یہ دعویٰ کیوں اور کیسے کیا کہ ’’انجیل کی زبان کو ارامی قرار دینے کا جو’ ’بلند وبانگ‘‘دعویٰ کیا گیا ہے وہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں رکھتا۔‘‘ میں نے تو مضمون میں کہیں بھی ’انجیل کی زبان کو آرامی‘ قرار نہیں دیا۔ ہاں، میں نے حضرت عیسیٰ کی زبان ضرور آرامی بتائی ہے۔ مضمون کے آخر میں ایک نوٹ لکھاگیا ہے: ’’اس تحریر کو جان بوجھ کر حوالوں سے گراں بار نہیں کیا گیا۔‘‘ لیکن جناب اسلم صدیق صاحب کے ’ایک ناقدانہ جائزے‘ کو دیکھ کر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اصل حقیقت ظاہر کرنے کے لیے کچھ مستند حوالہ جات پیش کر ہی دیے جائیں۔ چنانچہ ذیل میں پہلے کچھ حوالے پیش کیے جا رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجیل ابتدا ہی سے یونانی (Greek) زبان میں لکھی گئی تھی، جبکہ حضرت مسیح کی] اپنی بول چال کی [زبان آرامی (Aramaic) تھی۔ یہ حوالے بائبل کی مختلف نقطۂ نظر پر مشتمل اور مختلف ادوار میں لکھی گئی تفسیروں، بائبل کے تعارف وتواریخ پر مبنی کتب اور عالمی سطح پر مسلمہ انسائیکلو پیڈیاز سے ماخوذ ہیں:
دی لرننگ بائبل میں تحریر ہے:

‘‘The New Testament books were written in Greek, an International language during this period of the Roman Empire. ’’(The Learning Bible, Ed. Howard Clerk Kee, etc., CEV, NY., American Bible Society, 2000, p.13).

’’عہد نامۂ جدید کی کتابیں یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں، جواس دور کے رومن امپائر میں ایک بین الاقوامی زبان تھی۔‘‘

اسی کتاب میں مزید بیان کیا گیا ہے:

‘‘Though Jesus and his disciples spoke Aramaic, the books of the New Testament were first written in the “everyday” Greek of that time. The New Testament writers also were familiar with the Greek translation of the Jewish scriptures (called the Septuagint). A number of quotations found in the New Testament come directly from the Greek translation, while others were translated into Greek from the Hebrew of the Jewish Scriptures. ... The earliest copy of the entire Greek New Testament dates from the fourth century, and the earliest fragment of a New Testament book dates from around A. D. 125. Also of value to Biblical scholars are early translations of New Testament writings into Coptic, Syriac, and Latin.’’ (The Learning Bible, op.cit., p. 1732)

’’اگرچہ حضرت عیسیٰ اور ان کے حواری ارامی زبان بولتے تھے، لیکن عہد نامۂ جدید کی کتابیں شروع ہی سے اس دور کی روز مرہ کی یونانی میں لکھی گئی تھیں۔ عہد نامۂ جدید کے مصنفین یہودی صحیفوں کے یونانی ترجمے (جسے ہفتادی ترجمہ کہا جاتا تھا) سے بھی آشنا تھے۔ عہد نامۂ جدید میں پائے جانے والے متعدد اقتباسات اس یونانی ترجمے سے براہ راست نقل کیے گئے ہیں جبکہ بعض دوسرے اقتباسات یہودی صحیفوں کو عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کر کے درج کیے گئے تھے۔ ...مکمل یونانی عہد نامہ جدید کی قدیم ترین کاپی چوتھی صدی سے تعلق رکھتی ہے اور عہد نامۂ جدید کی ایک کتاب کا قدیم ترین ٹکڑا ۱۲۵ عیسوی کے لگ بھگ کا ہے۔ عہد نامۂ جدید کی تحریروں کے قبطی، سریانی اور لاطینی میں ابتدائی تراجم بھی بائبل کے علما کے لیے بڑی قدرو قیمت رکھتے ہیں۔‘‘

ریڈرز بائبل میں بیان کیا گیا ہے کہ عہد نامۂ جدیدابتدا ہی سے عام روز مرہ کی یونانی زبان کوائنی میں لکھا گیا تھا:

‘‘All the books of the New Testament were originally written in koine, the everyday Greek of the time, which was spoken by most peoples of the Roman Empire. The various books show different levels of competence in koine, the most highly literary being the Letter to the Hebrews and I Peter. Least polished are the Gospel of Mark and Revelation. As scholars have shown, certain turns of expression in the Greek of the Gospels reflect traces of an underlying Aramaic idiom, which was the mother tongue of Jesus and his disciples.’’ (The Reader’s Bible, Ed. Bruce M. Metzger, London, The Reader’s Digest Association, 1995, p.17)

’’عہد نامۂ جدید کی تمام کتابیں اصلاًکوائنی میں لکھی گئی تھیں جو اس زمانے کی روز مرہ محاورے کی یونانی زبان تھی اورجسے رومن امپائر کے اکثر لوگ بولتے تھے۔ مختلف کتابوں سے کوائنی کی مہارت کی مختلف سطحیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ادبی لحاظ سے سب سے زیادہ بلند مقام ’’عبرانیون‘‘ اور ’’۱۔پطرس‘‘ کو حاصل ہے۔سب سے کم تر درجہ انجیل مرقس اور مکاشفے کا ہے۔ جیسا کہ علما نے واضح کیا ہے انجیلوں کی یونانی زبان میں اظہار کی بعض صورتوں سے ان کی بنیاد میں جاری وساری آرامی محاورے کے نشانات کی عکاسی ہوتی ہے، جو حضرت عیسیٰ اور ان کے حواریوں کی مادری زبان تھی۔‘‘

نیو آکسفرڈ اینوٹیٹڈ بائبل میں لکھا گیا ہے کہ انجیلیں حضرت عیسیٰ کی وفات کے چالیس سے ساٹھ سال بعد لکھی گئی تھیں۔اور اگرچہ حضرت عیسیٰ اور ان کے حواری آرامی زبان بولتے تھے، لیکن انجیلیں روز مرہ کی یونانی زبان کوائنی میں لکھی گئی تھیں:

‘‘Scholars generally agree t hat the Gospels were written forty to sixty years after the death of Jesus. They thus do not present an eyewitness or contemporary account of Jesus’ life and teaching. Even the language has changed. Though Greek had become the common language used between groups whose primary languages were different in the eastern Roman Empire and inscriptions and fragments of Greek translations of the Hebrew Bible show that Greek was used even among Jews within Judea, Jesus, his disciples, and crowds would have spoken Aramaic. Despite scholarly efforts to detect an underlying Aramaic original for Mark or Matthew, it is probable that all the evangelists wrote in the common (“koine”) Greek of their day.’’ (The New Oxford Annotated Bible III Edition, Ed. Michael D. Coogan, Oxford University Press, 2001, p. 4 [NT])

’’علما بالعموم اس بات پر متفق ہیں کہ انجیلیں حضرت عیسیٰ کی وفات کے چالیس سے ساٹھ سال بعد کے دوران میں لکھی گئی تھیں۔ اس طرح وہ حضرت عیسیٰ کی زندگی اور تعلیم کی کوئی معاصرانہ تفصیل یا عینی شہادت پیش نہیں کرتیں۔ حتیٰ کہ زبان بھی بدلی ہوئی ہے۔ مشرقی رومن امپائر میں یونانی ایک عمومی زبان بن چکی تھی اور اسے وہ لوگ آپس میں استعمال کرتے تھے، جن کی ابتدائی زبانیں مختلف تھیں۔ کتبوں اورعبرانی بائبل کے یونانی تراجم کے ٹکڑوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی زبان یہودیہ کے اندر یہودیوں میں بھی مستعمل تھی اور حضرت عیسیٰ، ان کے حواری اور عوام الناس ارامی زبان بولتے ہوں گے۔ مرقس اور متی کی انجیلوں کی بنیاد میں موجوداصل ارامی زبان دریافت کرنے کی عالمانہ کوششوں کے باوجود امکان یہ ہے کہ تمام انجیل نگار اپنے دور کی عام بول چال کی یونانی زبان (کوائنی) میں لکھا کرتے تھے۔‘‘

دی وکلف بائبل کمنٹری نے لکھا ہے کہ اگر چہ پاپیاس متی کی انجیل کے متعلق یہ کہتا ہے کہ اس کی یادداشتیں ابتداءً آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں،(اور جب اسے صحیح شکل میں مدون کیا گیا، اس وقت اسے یونانی میں منتقل کر دیا گیا)، لیکن موجودہ انجیل کے یونانی متن میں اس طرح کے کسی ترجمے کے کوئی نشانات موجود نہیں ہیں:

‘‘..., and also to the statement of Papias that “Matthew wrote the words in the Hebrew dialect, and each one interpreted as he could” (Eusebius Ecclesiastical History 3.39). Many have explained Papias’ statement as referring to an Aramaic original from which our Greek Gospel is a translation. Yet our Greek text does not bear the marks of a translation, and the absence of any trace of an Aramaic original casts grave doubts upon this hypothesis. Goodspeed argues at lengeth that it would be contrary to Greek practice to name a Greek translation after the author of an Aramaic original, for Greeks were concerned only with the one who put a work into Greek. As examples he cites the Gospel of Mark (It was not called the Gospel of Peter) and the Greek Old Testament which was called the Septuagint (Seventy) after its translators, not after its Hebrew authors (E. J. Goodspeed, Matthew, Apostle and Evangelist, pp. 105, 106). Thus Papias is understood to mean that Matthew recorded (by shorthand?) the discourses of Jesus in Aramaic, and later drew upon these when he composed his Greek Gospel.’’ (The Wycliffe Bible Commentary, Ed. Everett F. Harrison, Chicago, Moody Press, 1983, p. 929)

’’...، پاپیاس کے اس بیان کے متعلق بھی کہ ’’ متی نے الفاظ عبرانی بولی میں لکھے تھے اور ہر ایک نے ان کا ایسا ترجمہ کیا، جیسا وہ کر سکتا تھا۔‘‘ اکثر لوگوں نے پاپیاس کے بیان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ اس میں ایک ایسی ارامی اصل کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے ہماری یونانی انجیل ترجمہ کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے یونانی متن پر کسی ترجمے کے کوئی نشانات موجود نہیں۔ اور کسی ارامی اصل کے نشانات کی عدم موجودگی سے یہ مفروضہ سخت مشکوک بن جاتا ہے۔ گڈ سپیڈ نے اس بات کے تفصیلی دلائل دیے ہیں کہ یہ بات یونانی روایت کے سرا سر خلاف ہے کہ کسی یونانی ترجمے کا نام کسی ارامی اصل کے مصنف کے نام پر رکھا جائے، کیونکہ اہل یونان صرف اس سے غرض رکھتے تھے جس نے کسی کتاب کو یونانی زبان میں پیش کیا ہو۔ اس کے لیے وہ مرقس کی انجیل کی مثال پیش کرتا ہے (اسے پطرس کی انجیل نہیں کہا جاتا تھا) اور یونانی عہد نامہ قدیم کی مثال بھی پیش کرتا ہے، جسے اس کے مترجمین (کی تعداد) کی مناسبت سے ’ہفتادی‘ کہا جاتا تھا، نہ کہ اس کے عبرانی مصنفین کے نام پر۔ اس طرح سمجھ میں یہ آتا ہے کہ پاپیاس کا مطلب یہ تھا کہ متی نے (مختصر نویسی کے طریق پر) حضرت عیسیٰ کی باتیں ارامی زبان میں جمع کی تھیں اور بعد میں جب اس نے اپنی یونانی انجیل مدون کی، تو اس نے اپنی ان یاد داشتوں سے استفادہ کیا۔‘‘

پیکس کی تفسیربائبل میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ کتابیں غالباً یقینی طور پر یونانی میں لکھی گئی تھیں، اگر چہ ان کے تمام مصنفین ارامی زبان بھی بولتے ہوں گے:

‘‘The Language in which these records were originaly written is almost certainly Greek, though quite definitely their authors would almost all have spoken in Aramaic as well. In some cases it is possible that first drafts of their work were in Aramaic. .... After that, though the Romans conquered Greece, the Greek language conquered the Romans and followed them westwards. In the process, quite naturally, the old Attic was modified by the nations through which it spread, until it became a great universal language to which we have given the name of Koine, the cosmopolitan dialect in which many Greek dialects had some share but wherein Attic was the foundation of them all. Now scholars are in the main agreed that this language, especially in its more colloquial form, is that of the NT authors. ... New papyrus discoveries in Egypt seemed to reveal a type of Greek which was almost exactly that of the NT. .... In the Egyptian city during these centuries lived thousands of Jews who had left their own land and settled here, as well as in many other centres, for various reasons. Gradually they lost all knowledge of their Aramaic mother- tongue and could understand only Greek. For this reason, it seems that in middle of the third century B.C. the OT scriputres had to be translated from Hebrew into Greek. ... Granted that the Greek of the NT was the living language of the day, as it was both written and spoken, it should also be insisted that it was a language impregnated by the Bible, its Semitic idioms and thought-forms.’’ (Peake’s Commentary on the Bible, Ed. Matthew Black, London, Thomas Nelson and Sons Ltd., 1962, p. 659f)

’’وہ زبان جس میں ابتدائی طور پر عام ریکارڈ لکھا گیا تھا غالباً یقینی طور پر یونانی ہے، تاہم یہ بات بھی بالکل یقینی ہے کہ اس ریکارڈ کے قریباً تمام مصنفین ارامی زبان میں بھی بات چیت کرتے تھے۔ ] اس کی مثال ہمارے ہاں پشاور میں دیکھی جاسکتی ہے: وہاں کے قریباً تمام شہری صدیوں سے دو مختلف زبانیں ہندکو اور پشتو روانی سے بولتے چلے آئے ہیں۔ بلکہ اکثر تو اس پر مستزاد اردو اور پنجابی بھی بڑی آسانی سے بول لیتے ہیں اور انگریزی وفارسی بھی۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ بچہ ابتدائی چھ سالوں میں یکساں روانی اور مہارت کے ساتھ چھ زبانیں سیکھنے اور ادا کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے[۔ بعض صورتوں میں اس بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی تحریروں کا ابتدائی مسودہ ارامی زبان میں ہو۔... اس کے بعد اگرچہ رومیوں نے یونان کو فتح کر لیا، لیکن یونانی زبان نے رومیوں کو فتح کر لیا اور مغرب کی جانب ان کے تعاقب (اور ہمراہی) میں آگے بڑھتی رہی۔ بالکل فطری طور پر اس عمل کے دوران میں ایتھنز کی قدیم زبان کی ہیئت ان قوموں کے زیر اثر تبدیل ہوتی گئی جن میںیہ پھیلتی جا رہی تھی، یہاں تک کہ یہ عظیم عالمی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی، جس کو ہم کوائنی کا نام دیتے ہیں ۔ یہ ایک عالمی بولی تھی جس میں یونانی زبان کی بہت سی بولیوں کا کچھ نہ کچھ حصہ تھا، لیکن ایتھنز کی بولی ان سب کی بنیاد میں شامل تھی۔ علما اس بات پر بڑی حد تک متفق ہیں کہ یہ زبان، بالخصوص اپنی روز مرہ شکل میں، عہد نامۂ جدید کے مصنفین کی زبان تھی۔... ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں کاغذ (Papyrus)کی نئی دریافتیں یونانی زبان کی ایک ایسی صنف کی نشان دہی کر رہی ہیں جو تقریباً بعینہٖ عہد نامہ جدید کی زبان تھی ۔
ان صدیوں کے دوران میں اس مصری شہر میں ہزاروں یہودی رہایش پذیر تھے، جومتعدد اسباب کی بنا پر اپنی اصل سرزمین (فلسطین) چھوڑ کریہاں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے مراکز میں آباد ہو گئے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی مادری زبان ارامی کا تمام علم فراموش کر دیا اور اب وہ صرف یونانی زبان ہی سمجھ سکتے تھے۔اس وجہ سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں عہد نامۂ قدیم کے صحیفوں کا عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کرنا پڑا۔ ... مانا کہ عہد نامۂ جدید کی یونانی زبان اس دور کی زندہ زبان تھی، کیونکہ یہ لکھی بھی جاتی تھی اور بولی بھی،لیکن اس بات پر بھی زور دینا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی زبان تھی جس میں بائبل، اس کے سامی زبانوں کے محاورے اور فکری ہیئتیں رچی بسی ہوئی تھیں۔‘‘

ڈملو کی تفسیر بائبل میں ہے:

‘‘The New Testament was written in Greek.’’ (A Commentary on the Holy Bible, Ed. The Rev. J. R. Dummelow, London, MacMillan and Co. Ltd., St. Martin’s Street, 1956, p.xv)

’’عہد نامہ جدید یونانی زبان میں لکھا گیاتھا۔‘‘

فنک اینڈ ویگنلس انسائیکلو پیڈیا میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کچھ دستاویزات کی پشت پر آرامی تحریریں تھیں، لیکن یہ تمام دستاویزات یونانی زبان ہی میں اشاعت پذیر ہوئی ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ لکھی بھی یونانی ہی میں گئی تھیں:

‘‘Although some have argued that Aramaic originals lie behind some of these documents (especially the Gospel of Matthew and the Epistle of the Hebrews), all have been handed down in Greek, very likely the language in which they were composed.
For a time, some Christian scholars treated the Greek of the New Testament as a special kind of religious language, providentially given as a proper vehicle for the Christian faith. It is now clear from extrabiblical writings of the period that the language of the New Testament is Koine, or common Greek, that which was used in homes and marketsplaces.’’ (Funk & Wagnalls New Encyclopedia, Ed. Norma H. Dickey, USA, Funk & Wagnalls Inc., 1986, Vol. 3, p.47)

’’اگر چہ بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ ا ن میں سے کچھ دستاویزات (بالخصوص متی کی انجیل اور عبرانیوں کے نام خط) کے پیچھے اصل ارامی تحریریں کارفرما تھیں، تاہم (یہ بات بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ) سب کچھ یونانی زبان ہی میں آگے منتقل کیا گیا ہے۔ اور اس بات کا بڑا امکان ہے کہ یہ اسی زبان (یونانی) میں مدون ہوئی تھیں۔
کچھ عرصے تک بعض مسیحی علما عہدنامۂ جدیدکی یونانی زبان کو ایک خاص قسم کی مذہبی زبان سمجھتے تھے۔ جو مسیحی دین کی خوش قسمتی کے طور پر ایک موزوں وسیلۂ اظہار کی صورت میں مہیا کی گئی تھی۔ اب اس دور کی بائبل کے علاوہ دیگر تحریروں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد نامہ جدید کی زبان کوائنی یاعوامی یونانی زبان تھی جو گھروں اور کاروباری مراکز میں استعمال ہوتی تھی۔‘‘

انسائیکلو پیڈیا امریکانا کے مقالہ نگار نے اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ کے افعال واقوال کے متعلق زبانی روایات بلاشبہ ارامی زبان ہی میں رائج تھیں، تا ہم عہد نامۂ جدید شروع سے آخر تک یونانی زبان میں لکھی جانے والی کتاب ہے:

‘‘The New Testament is, from beginning to end, a Greek book. Although the earliest oral tradition of Jesus’ deeds and sayings undoubtedly circulated in Aramaic, which was still the spoken language of Palestine and of some other parts of the Near East (certainly among Jews), it was not long bofore, this oral tradition was translated into ordinary, everyday Greek which was spoken everywhere else in the civilized Mediterranean world. (Traces of the original Aramaic tradition survive here and there: for expample, in Mark 5:41, 15:34).
This ordinary or “common” (Koine) Greek was spoken and written by people everywhere, from the borders of Nubia to the market towns in Gaul and the army camps beyond the Danyube, from the strait of Gibraltar to the borders of India. It was basically the Attic dialect of classical and 4th century Greek, ... for it was this language which had been carried across the Middle East by Alexander the Great (r. 336-323) and soon became the lingua franca of the whole Eastern Mediterranean and Near Eastern world ruled by his successors, chiefly the Ptolemies in Egypt and the Seleucids in Syria, Asia Minor, and the Whole vast territory eastward to the Indus. In the West, Greek long ago had been introduced by colonists in Lower Italy, Sicily, Gaul, and Spain, and by traders here and there as far as the Atlantic Ocean.’’ (The Encyclopedia Americana, Ed. Lavinia P. Dudley etc., NY, Americana Corporation, 1954, Vol. 3, p.654)

’’عہد نامۂ جدید شروع سے اخیر تک ایک یونانی کتاب ہے۔ اگرچہ حضرت عیسیٰ کے اعمال واقوال کی اولین زبانی روایت بلاشبہ ارامی زبان میں رائج رہی، جو اس وقت تک فلسطین اور مشرق قریب کے بعض دوسرے حصوں میں بولی جانے والی زبان تھی(یہودیوں میں یقینی طور پر) تاہم زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس زبانی روایت کا عام روزمرہ کی یونانی زبان میں جو مہذب بحیرۂ روم کے ممالک میں ہر جگہ بولی جاتی تھی، ترجمہ ہو گیا۔ (اصل ارامی روایت کے نشانات کہیں کہیں اب بھی باقی ہیں مثلاً مرقس ۵:۴۱، ۱۵:۳۴)۔
یہ سادہ اور عوامی (کوائنی) یونانی زبان ہر جگہ لوگوں میں بولی اور لکھی جاتی تھی: نوبیا کی سرحدوں سے گال(مغربی یورپ مشتمل برشمالی اٹلی،فرانس، بیلجئم، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزر لینڈ) کے کاروباری شہروں اور ڈینیوب کے پار فوجی کیمپوں تک، آبناے جبرالٹر سے ہندوستان کی سرحدوں تک۔ بنیادی طور پر یہ چوتھی صدی کی کلاسیکی یونانی زبان کی ایتھنز کی بولی (Attic) تھی۔ ... کیونکہ یہی زبان تھی جو سکندر اعظم (دور حکمرانی ۳۳۶ تا۳۲۳ ق م) مشرق وسطیٰ کے پار لے گیا تھا اور جو جلد ہی پورے مشرقی بحیرۂ روم اور مشرق قریب کی دنیا کی گھریلو اور تجارتی زبان بن گئی، جہاں اس کے جانشینوں کی حکومت تھی:خاص طور پرمصر میں پٹولمیوں کی اور شام، ایشاے کوچک، اور مشرق میں دریاے سندھ تک پھیلے ہوئے وسیع خطے پر سلوسیوں (Seleucids) کی۔مغرب میں بہت پہلے یونانی زبان استعماری آباد کاروں نے زیریں اٹلی، سسلی، گال، اور سپین میں متعارف کرا دی تھی اور تاجروں نے اسے بحر اوقیانوس جیسے دور دراز مقام تک جگہ جگہ پہنچا دیا تھا۔ ‘‘

کولیئرز انسائیکلو پیڈیالکھتا ہے کہ عہد نامہ جدید کی کتابوں کی زبان روز مرہ بول چال کی سادہ اور عوامی زبان تھی، نہ کہ مسجع ومقفی صاف اور شستہ یونانی زبان:

‘‘Often a reading in clear or polished Greek is discarded, for the authors of the New Testament Books wrote in the Popular, everyday language that had little of the elegance of the classic, literary Greek.’’ (Collier’s Encylopedia, Ed. William D. Halsey, NY, MacMillan Educational Corporation, 1976, Vol. 4, p. 134)

’’اکثر اوقات ایسی قراء ت جو واضح، صاف ستھری،شستہ اور آراستہ وپیراستہ ہو، رد کر دی جاتی ہے، کیونکہ عہدنامۂ جدید کی کتابوں کے مصنفین نے مقبول عام روز مرہ کی زبان میں لکھا تھا جس میں کلاسیکی، ادبی یونانی زبان کی شان وشوکت اورحسن و آرایش کا بہت کم شائبہ تھا ۔‘‘

دی ورلڈ بک انسائیکلو پیڈیا لکھتا ہے کہ عہد نامہ جدید یونانی زبان میں لکھاگیا تھا، تاہم حضرت عیسیٰ اور ان کے حواری آرامی زبان بولتے تھے:

‘‘The New Testament was written in Greek, which was widely spoken during the time of Jesus. However, Jesus and his disciples spoke Aramaic.’’ (The World Book Encylopedia, Chicago, Field Enterprises Educational Corporation, 1977, Vol. 2, p.222)

’’عہد نامہ جدید اس یونانی زبان میں لکھا گیا تھا جو حضرت عیسیٰ کے زمانے میں وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی، تاہم حضرت عیسیٰ اور ان کے حواری ارامی زبان بولتے تھے۔‘‘

دی نیو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (میکروپیڈیا) میں بیان ہے کہ مرقس کی انجیل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ آرامی سے یونانی میں ترجمہ کی گئی ہو، کیونکہ الفاظ کا درو بست اس کی تائید نہیں کرتا:

‘‘‘Q’ was a source written in Greek as was Mark, which can be demonstrated by word agreement (not possible, for example, with a translation from Aramaic, although perhaps the Greek has vestiges of Semitic structure form). .... Mark is written in rather crude and plain Greek, with great realism. ... In Mark, some Aramaic is retained, transliterated into Greek, and then translated. ... In the two miracle stories, the Aramaic may have been retained to enhance the miracle by the technique of preserving Jesus’ actual words. And a cry of Jesus on the Cross is given in Aramaized Hebrew.’’ (The New Enc. Britannica, Macropaedia, Chicago, Enc. Britannia, Inc., 1989, Vol. 14, p. 824,25)

’’’کیو‘ (Q) ایک ماخذ تھاجو مرقس کی انجیل کی طرح یونانی زبان میں لکھا گیا تھا، جس کی توضیح لفظی مناسبتوں کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے(ارامی سے ترجمے میں یہ ممکن نہیں اگرچہ شاید اس یونانی زبان میں سامی زبانوں کی ساخت اور ہیئت کے اثرات وباقیات دیکھے جا سکتے ہیں)۔ ... مرقس کی انجیل زیادہ خام اور سپاٹ یونانی زبان میں لکھی گئی ہے جس میں حقیقت نگاری زیادہ نمایاں ہے۔ ... مرقس کی انجیل میں بعض ارامی الفاظ باقی رکھے گئے ہیں اور ان کا یونانی زبان میں تلفظ دے دیا گیا ہے اورپھر ان کا ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے۔ ... دو معجزاتی کہانیوں میں ارامی اس غرض سے باقی رکھی گئی ہو گی تاکہ حضرت عیسیٰ کے اصل الفاظ محفوظ کرنے کے ذریعے سے معجزے کے اثرات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اور (اسی طرح) صلیب پر حضرت عیسیٰ کی چیخ وپکار ارامی آمیز عبرانی میں درج کی گئی ہے۔‘‘

دی یونیورسل ورلڈ ریفرنس انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ قبل از انجیل کے ماخذ کی زبان آرامی تھی جو حضرت عیسیٰ بولا کرتے تھے، لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ ماخذ تحریری شکل میں موجود تھے یا صرف زبانی روایت تک محدود تھے :

‘‘Among the earliest books of the New Testament were the Gospels. Even earlier, however, were their sources the written and oral traditions that lay behind them. The striking similarities that exist between the discourse sections of Matthew, Mark, and Luke indicate that these Evangelists probably used a common source, which has since disappeared. Some have speculated that the language of this pre-Gospel source was Aramaic, the language of Christ, but there is disagreement as to whether the source was extant in writing or in oral tradition.’’ (The Universal World Reference Encylopedia, Ed. V. S. Thatcher, Chicago, Consolidated Book Publishers, 1970, Vol.2, p.676)

’’انجیلیں عہد نامۂ جدید کی اولین کتابوں میں شامل تھیں۔ تاہم ان سے بھی قدیم ان کے ماخذ تھے، یعنی ایسی تحریری اور زبانی روایات جو ان کی پشت پر موجود تھیں۔ نمایاں یکسانیتوں سے جو متی، مرقس اور لوقا کی گفتگو والی فصلوں میں موجود ہیں، یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان انجیل نگاروں نے غالباً کوئی مشترک ماخذ استعمال کیا ہے، جو اب غائب ہو چکا ہے۔ بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ اس قبل از انجیل ماخذ کی زبان ارامی تھی جو حضرت عیسیٰ کی زبان تھی، لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ آیایہ ماخذ تحریری شکل میں موجود تھا یا زبانی روایت کی صورت میں۔

دی بائبل ان دی میکنگ میں بھی اس موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس کے خیال میں عہد نامہ جدید کی کتابوں کوعملی ضرورت کے تحت یونانی ہی میں ترتیب دیا جانا مناسب تھا:

‘‘Paul and the other early Chirstian letter-writers wrote in Greek. The reason was a practical one. Greek was in their day an international langugae, used by traders and others as a common means of communication. As English is widely used throughout the world today, and as French was used in diplomatic and other circles in Europe last century, so Greek was used internationally in Paul’s day. It was the language of the Great cities of the world, the language of the people whom Paul and his associates specially wanted to reach. It had even penetrated Syria and Palestine. The language of the latter country was Aramaic, which Jesus spoke: ... Paul also spoke Aramaic. Nevertheless, Even at Jerusalem Greek had come to be used to a considerable extent, and Paul had no difficulty in writing or speaking it. ... Paul and many others like him, though they cherished their own language and culture, communicated with ease in Greek and Probably thought in it too. So it was as natural that all the literature of the early Christians should have been written in this language, for there would have been no reason for them to write in any other [language] unless they had wished to restrict the audience to a limited group, which they certainly did not.’’ (Geddes MacGregor, The Bible in the Making, London, John Murray, 1961, pp.36f)

’’پال اور دوسرے ابتدائی مسیحی مکتوب نگاروں نے یونانی زبان کو اپناذریعۂ اظہاربنایا تھا۔ اس کی ایک عملی وجہ تھی۔ ان کے زمانے میں یونانی ایک بین الاقوامی زبان تھی، جسے تاجر اور دوسرے لوگ ایک عمومی ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جس طرح آج انگریزی زبان پوری دنیا میں وسیع طور پر استعمال ہوتی ہے، اور جس طرح پچھلی صدی میں فرانسیسی زبان یورپ میں ڈپلومیٹک اور دوسرے حلقوں میں استعمال ہوتی تھی، اسی طرح یونانی زبان پال کے زمانے میں بین الاقوامی طور پر مستعمل تھی۔ یہ دنیاکے بڑے بڑے شہروں کی زبان تھی اور ان لوگوں کی زبان تھی جن تک پال اور اس کے ساتھی خاص طور پررسائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ زبان شام اور فلسطین میں بھی نفوذ کر چکی تھی۔ موخر الذکر ملک کی زبان تو تھی ہی ارامی اور حضرت عیسیٰ بھی یہی زبان بولتے تھے۔ ... پال بھی ارامی زبان بولتا تھا، تاہم یروشلم تک میں بھی یونانی قابل لحاظ حد تک استعمال کی جانی شروع ہو گئی تھی اور پال کے لیے اس میں لکھنے یا گفتگو کرنے میں کوئی دشواری نہ تھی۔ ... پال اور اس کی طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی اگر چہ اپنی ذاتی زبان اور کلچر سے بڑی محبت کرتے تھے، لیکن یونانی زبان میں بڑی آسانی سے اظہار خیال کرتے تھے اور غالباً اسی میں سوچتے بھی تھے۔اس طرح یہ بالکل فطری بات ہے کہ ابتدائی مسیحیوں کا تمام ادب اسی زبان میں لکھا گیا ہو گا، کیونکہ انھیں اس بات کی کوئی وجہ نظر نہ آتی ہو گی کہ وہ کسی اورزبان میں لکھیں جب تک کہ ان کی یہ خواہش نہ ہو کہ اپنے سامعین کو ایک مختصر سے گروپ تک محدود کر لیں جو یقیناًوہ نہیں چاہتے ہوں گے۔‘‘

ریمنڈ ای براؤن عہد نامہ جدید کے تعارف میں لکھتا ہے کہ عہد نامۂ جدید یونانی زبان میں لکھا گیا تھا:

‘‘Readers of the NT who know Greek, the language in which it was written, can make their own informed efforts to grasp what the authors were trying to communicate. Without a knowledge of Greek, plays on words are often lost.’’ (Raymond E. Brown, An Introduction of NT, Bangalore, TPI, 1997, p.vii)

’’عہد نامۂ جدید کے ایسے قارئین جو یونانی زبان جانتے ہیں ، جس زبان میں یہ لکھا گیا تھا، خود اپنے طور پر یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ اس کا وہ مطلب اخذ کر سکیں جو اس کے مصنفین پہنچانا چاہتے تھے۔ یونانی زبان کے علم کے بغیر اکثر اوقات رعایت لفظی کا حسن ضائع ہو جاتا ہے۔‘‘

وہ مزید لکھتاہے:

‘‘The NT books were written some 1,900 years ago in Greek. .... There is evidence that Matt, John, and Paul may have known Aramaic and /or Hebrew, while Mark and Luke may have known only Greek but we are far from certain.’’ (Raymond E. Brown, An Introduction of NT, op.cit., p.36)

’’عہد نامۂ جدید کی کتابیں قریباً ۱۹۰۰ سال پہلے یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ ... اس بات کی شہادت موجود ہے کہ متی، یوحنا اور پال ارامی اور/یا عبرانی جانتے ہوں گے، جب کہ مرقس اور لوقا صرف یونانی زبان سے واقف ہوں گے، لیکن ہم یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔‘‘

تعارف عہد نامۂ جدید میں فیمی پرکنز کا بیان ہے کہ متی کی انجیل یونانی زبان میں لکھی گئی تھی:

‘‘It (Matthew) was composed in Greek.’’ (Pheme Perkins, NT Introduction, Bombay, St. Paul Publications 1992, p.15)

’’یہ (متی کی انجیل) یونانی زبان میں مدون ہوئی تھی۔‘‘

یہی مصنف لکھتاہے کہ مرقس کی انجیل یونانی زبان میں لکھی گئی تھی:

‘‘As far as we know, Mark was the first person to bring the diverse stories about Jesus together in a single narrative. Mark writes in Greek for an audience that does not understand the Aramaic words which occur in some of the stories.’’ (Pheme Perkins, NT Introduction, op.cit., p.260)

’’جہاں تک ہم جانتے ہیں مرقس وہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت عیسیٰ کے متعلق متنوع کہانیوں کو مربوط اور واحد بیان کی شکل میں یکجا کیا۔ مرقس ایسے سامعین کے لیے جو بعض کہانیوں میں پائے جانے والے ان ارامی الفاظ کا مطلب نہیں سمجھتے تھے، یونانی زبان میں لکھتا تھا۔‘‘

انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن (دوسرا ایڈیشن) میں بتا یا گیا ہے:

‘‘Papias and others after him consistently associated Matthew’s authorship with Semitic text, but Matthew is in Greek and seems unlikely to be a translation from Hebrew or Aramaic. ’’(Encyclopedia of Religion, Second Edition, Ed. Lindsay Jones, Farmington Hills, USA, Macmillan, Thomsom Gale, 2005, Vol. 2, p.907)

’’پاپیاس اور اس کی تقلید میں دوسرے لوگ بھی انجیل متی کی تصنیف کو ایک سامی متن سے منسلک کرتے ہیں، لیکن انجیل متی یونانی زبان میں ہے اورایسا نظر نہیں آتا کہ یہ عبرانی یا ارامی سے ترجمہ کی گئی ہو۔ ‘‘

انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن (دوسرا ایڈیشن) مزید لکھتا ہے:

‘‘None of the original Greek New Testament survives. The documents presumably wore out.’’ (Encyclopedia of Religion, Second Edition, op.cit., Vol.2, p.921)

’’اصلی یونانی عہد نامۂ جدید میں سے کوئی بھی نہیں بچارہ سکا۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ تمام دستاویزات بوسیدہ اور ناکارہ ہو گئیں۔ ‘‘

اسی انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن (دوسرا ایڈیشن) میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ آرامی زبان بولتے تھے ، تاہم عہد نامہ جدید کی تمام کتابیں یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں:

‘‘Although Jesus spoke Aramaic, all of the NT documents were composed in Greek. Begnning in second century, the spread of Christianity required translating the Greek into other languages. ... In the fifth century a Syriac Version of the NT, lacking only 2 Peter, 2 and 3 John, Jude, and Revelation, was published. This, known as the Peshitta, was revised in the VI and VII century, when the missing five books were added.’’ (Encyclopedia of Religion, Second Edition, op.cit., Vol. 2, p.922)

’’اگر چہ حضرت عیسیٰ ارامی زبان بولتے تھے، مگر عہد نامہ جدید کی تمام دستاویزات یونانی زبان میں مدون ہوئی تھیں۔ دوسری صدی میں شروع ہو نے والی مسیحیت کی اشاعت کا تقاضا تھا کہ یونانی زبان کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ۔ ... پانچویں صدی میں عہد نامۂ جدید کا ایک سریانی ترجمہ شائع ہوا تھا، جس میں سے صرف ’’۲ پطرس‘‘، ’’۳ یوحنا‘‘، یہوداہ اور مکاشفہ غائب تھے۔اس [سریانی ترجمے] پر جو پشیتا کے نام سے مشہور ہے، چھٹی اور ساتویں صدیوں میں نظر ثانی کی گئی تھی اور اسی دوران میں ان پانچ کتابوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا تھا۔‘‘

دی سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ بائبل کمنٹری نے بھی یہی بات کہی ہے کہ عہد نامہ جدید کی تمام کتابوں کے متعلق یہی یقین کیا جاتا ہے کہ وہ یونانی میں لکھی گئی تھیں:

‘‘The 27 books of the New Testament are generally believed to have been composed in Greek. In the time of Christ and the apostles Greek was the universal language of the Roman Empire. It had spread throughout the World toward the end of the 4th century B.C. with the expansion of Alexander’s empire. His successors were all Greek rulers, who supported the spread of Greek speech and culture. Thus Greek became so widely known and deeply rooted that the Romans, who built an empire in the 1st century B.C. from the Atlantic to Persia, could not suppress it. Latin gained predominance in North Africa, Spain and Italy, but played no role in the Eastern world. Even in Italy, where Latin was the mother tongue, educated people, especially, used Greek as a second language. For example, the Epistle of Clement, the earliest Christian document outside of the New Testament, though written in Rome, was composed in Greek. ... However, other languages besides Greek were used in different parts of the empire. Thus, for exapmle, the Jews of Palestine spoke Aramaic, the People of Lystra, Lycaonian (Acts 14:11), and the population of the city of the Rome, Latin. This multilingual situation is reflected in the trilingual inscription above the cross on Calvary, composed in (1) Aramaic (called Hebrew in the New Testament), the language of the country, (2) Greek, the universally understood language of the empire, and (3) Latin, the offical language of the Roman administratin (John 19:20). Similar conditions existed in modern Palestine during the period of British mandate before the emergence of Israel as a state, when, for example, postage stamps contained imprints in three languages and scripts: Hebrew, Arabic, and English. This practice has been continued on postage stamps of the state of Israel.’’ (The Seventh-day Aventist Bible Commentary, Ed. Francis D. Nichol, Hagerstown, Review and Herald Publishing Association, 1980, Vol. 5 pp.103f)

’’عہد نامۂ جدید کی ۲۷ کتابوں کے متعلق عام طور پر اس یقین کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ یونانی زبان میں مدون ہوئی تھیں ۔ حضرت مسیح اور حواریوں کے زمانے میںیونانی رومن امپائر کی بین الاقوامی زبان تھی۔ چوتھی صدی ق م کے اختتام تک سکندر اعظم کی سلطنت کی توسیع کے ساتھ یہ پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ سکندر کے سارے جانشین یونانی حکمران تھے، جو یونانی زبان اور کلچر کی اشاعت میں تعاون کرتے تھے۔ اس طرح یونانی زبان اتنے وسیع حلقے میں سمجھی جانے لگی اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئیں کہ رومی جنھوں نے پہلی صدی ق م میں بحر اوقیانوس سے ایران تک ایک سلطنت قائم کر لی تھی، اسے دبا نہ سکے ۔لاطینی زبان نے شمالی افریقہ، سپین اور اٹلی میں غلبہ حاصل کر لیا، لیکن مشرقی دنیا میں اس کا کوئی کردار نہ تھا۔ اٹلی تک میں، جہاں لاطینی مادری زبان تھی،بالخصوص تعلیم یافتہ لوگ ثانوی زبان کے طور پر یونانی استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر کلیمنٹ کا خط جو عہد نامۂ جدید سے باہر اولین مسیحی دستاویز تھی، وہ اگرچہ روم میں لکھا گیا تھا، لیکن مدون یونانی زبان میں ہوا تھا۔...تاہم رومی سلطنت کے مختلف حصوں میں یونانی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانیں بھی مستعمل تھیں۔ مثال کے طور پر فلسطین کے یہودی آرامی زبان بولتے تھے، لسٹرا کے لوگ لائیکونین اور روم کے شہر کی آبادی لاطینی زبان بولتی تھی۔ کالوری میں صلیب پر کندہ سہ لسانی کتبے سے اس کثیر اللسان صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ کتبہ (۱)ملک کی زبان ’’آرامی‘ ‘(۲) سلطنت روما کے اندر بین الاقوامی طور پر سمجھی جانے والی زبان ’’یونانی‘‘ اور (۳) رومن انتظامیہ کی دفتری زبان ’’لاطینی‘‘ میں ترتیب دیا گیا تھا۔ اس طرح کے حالات اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے برطانوی انتداب کے دور میں جدید فلسطین میں پائے جاتے تھے، جب، مثال کے طورپر، ڈاک کے ٹکٹوں پر تین زبانوں اور رسوم الخط کی چھاپ ہوتی تھی: عبرانی، عربی اور انگریزی۔ ریاست اسرائیل کے ڈاک کے ٹکٹوں میں بھی یہی مشق جاری رہی۔‘‘

بلیورز بائبل کمنٹری دی نیو ٹسٹامنٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ عہد نامہ جدید روز مرہ کی عام یونانی زبان (کوائنی) میں لکھا گیا تھا:

‘‘The New Testament was written in everyday language (called koine, or “common Greek”). This was a nearly universal second language in the first century of Faith, as well-known and as widely used as English is today.’’ (Willian Macdonald, Believers Bible Commentary New Testament, Kansas, A & O Press, P. O. Box 8550, 1989, p.11)

’’عہد نامۂ جدید روزمرہ کی زبان میں (جسے کوائنی یا عوامی یونانی زبان کہاجاتا تھا)لکھا گیا تھا۔یہ عہدایمان کی پہلی صدی میں قریباً بین الاقوامی ثانوی زبان تھی۔یہ اتنی مشہور عام اور وسیع حلقے میں استعمال کی جاتی تھی، جتنی آج کے دور میں انگریزی ہے۔‘‘

میرٹ سٹوڈنٹس انسائیکلو پیڈیامیں بھی یہی بات کہی گئی ہے:

‘‘The books of the New Testament, which were written in the 1st century A.D., describe early Christianity. All the books, with perhaps one or two exceptions, were written in Greek, the most widely spoken language in Middle East at the time.’’ (Merit Students Encylopedia, Ed. Bernard S. Cayne, USA, Crowell-Collier Educational Corporation, 1967, Vol. 3, p.135)

’’عہد نامۂ جدید کی کتابیں جو پہلی صدی عیسوی میں لکھی گئی تھیں، ابتدائی دور کی مسیحیت کو بیان کرتی ہیں۔شاید ایک یا دو کے استثنا کے ساتھ تمام کتابیں یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں، جو اس دورکی مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ وسیع علاقے میں بولی جانے والی زبان تھی۔ ‘‘

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی ہے:

‘‘On the whole it appears to be the more probable view that the literary stage in the transmission of the Gospel materials belongs, in the main, to Greek-speaking Christianity, the evidences of “translation Greek” being due not to actual translation from documents, but to the originally Semitic character of the tradition, and to the fact that it was in the first instance “done into Greek” by interpreters whose native speech was Semitic. The Aramaic-speaking Church of Jerusalem, the original fountain-head of the tradition, was in all probability for a considerable period of the same mind as the early second century writer Papias ....
On the other hand, it is probable that in Greek-speaking circles the work of Christian teachers and catechists was at a very early stage helped by the use of written materials as an aid to the memory. Collections of the sayings and parables of Jesus were probably made, and perhaps collections of short narratives also. There were therefore written materials available when the Gospels came to be compiled, for the most part probably in the form rather of catechists’ notes than of “books” in any literary sense.’’ (Encyclopaedia Britannica, Chicago, Encyclopaedia Britannica, Inc., 1953, Vol. 10, p.537)

’’مجموعی طور پر اس نظریے کا امکان غالب دکھائی دیتا ہے کہ انجیلی مواد کی منتقلی کا ادبی مرحلہ بڑی حد تک یونانی بولنے والی مسیحیت سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’ ترجمے والی یونانی‘‘ کی جھلک کی وجہ یہ نہیں کہ یہ فی الواقع کچھ دستاویزات سے ترجمہ کیا گیا ہے، نہیں ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایت ابتداءً سامی مزاج کی ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایسے تاویل نگاروں کی طرف سے یونانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچائی جانے والی کاوش ہے، جن کی مقامی بولی سامی تھی۔ اس روایت کا اصلی سر چشمہ یعنی ارامی بولنے والا یروشلم کا چرچ، قابل لحاظ وقت تک غالباً اسی ذہنیت پر کاربند تھا، جیسی دوسری صدی کے مصنف پاپیاس کی تھی ...۔
دوسری طرف غالب امکان یہ ہے کہ یونانی بولنے والے حلقوں میں مسیحی مربیوں اور مکالماتی معلموں کے کام میں بہت ابتدائی دور میں حافظے کی مدد کے طور پر تحریری مواد کو استعمال میں لایا گیا ہوگا۔ غالباً حضرت عیسیٰ کے ملفوظات اور تمثیلات کے مجموعے ترتیب دیے گئے تھے اور شاید مختصر واقعاتی بیانات کے مجموعے بھی مرتب کر دیے گئے تھے۔ اس طرح جب انجیلیں ترتیب دی جانے لگیں تو تحریری مواد دستیاب تھا، لیکن ان کا بڑا حصہ غالباً مکالماتی معلموں کے ’’نوٹس‘‘ کی شکل میں تھا، نہ کہ کسی ادبی اعتبار سے ’’کتابوں‘‘ کی صورت میں۔‘‘

دی اینوٹیٹڈ پیرا گراف بائبل کے عہد نامۂ جدید کا تعارف نگار لکھتا ہے کہ سارے کا سارا عہد نامۂ جدید یونانی زبان میں لکھا گیا تھا:

‘‘The NT is all written in the Greek language: and is wholly in prose, although a few portions have some of the poetical rhythm of the ancient Hebrew.’’ (The Annotated paragragh Bible, London: The religious Tract Society, 1866, p.1052)

’’عہد نامۂ جدید سارے کا سارا یونانی زبان میں لکھا گیا ہے اور سارا نثر میں ہے۔ تاہم چند ایک اجزا میں قدیم عبرانی نظم کا آہنگ بھی موجود ہے۔‘‘

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جولائی 2006
مصنف : عبدالستار غوری
Uploaded on : Sep 07, 2016
5875 View