ایک فتنہ گر - خورشید احمد ندیم

ایک فتنہ گر

 

کالم کے با ضابطہ آغاز سے پہلے دو تمہیدی جملے: اس کالم کا مخاطب اردو پڑھنے والے ہیں جن میں غیر معمولی اکثریت اہلِ پاکستان کی ہے۔ یہ کالم صبح صبح وائٹ ہاؤس اور مغربی مراکزِ اقتدار میں نہیں پڑھا جاتا۔ اس لیے میں نے اہلِ مغرب کو دانستہ اپنے مشوروں سے محروم رکھا ہے۔ اب آئیے کالم کی طرف:
اللہ کا شکر ہے کہ دنیا ایک فتنہ پرور کے شر سے محفوظ رہی۔ خاکوں کا وہ مقابلہ منسوخ ہوا جس نے اہلِ اسلام کو مضطرب کر دیا تھا۔ یہ اضطراب فطری تھا اور اس پر ردِ عمل بھی فطری؛ تاہم ہر واقعہ اپنے پیچھے غور و فکر کا سامان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ واقعہ بھی اس سے خالی نہیں۔ میری دانست میں یہ سامان کیا ہے‘ میں چند نکات کی صورت میں واضح کر رہا ہوں۔
1۔ مغرب کسی تہذیبی اکائی کا نام نہیں۔ اس میں کئی تہذیبوں کے رنگ شامل ہیں جن میں ایک رنگ اسلام کا بھی ہے۔ تنوع (Pluralism) اس کے تہذیبی اجزائے ترکیبی میں اہم تر ہے۔ اسلام مدت سے وہاں موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب میں اہلِ اسلام کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسلام کے اثرات بھی پھیلے۔ مغرب کی معاشی اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کا کردار اہم ہے۔ یوں ان کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جذبات کا احترام مغرب کی اپنی ضروری ہے۔
2۔ اس تہذیبی تنوع میں ایک رنگ لبرل ازم کا ہے۔ بطور فلسفہ لبرل ازم انسان کی مطلق آزادی کا قائل ہے اور تقدس کے کسی تصور کو قبول نہیں کرتا۔ مغرب میں لبرل طبقہ ان تصورات کو اکثر چیلنج کرتا ہے جو انسانی سماج میں تقدس کے جذبے کو ابھارتے ہیں۔ خاکے وغیرہ اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے۔
3۔ پچھلے تیس پینتیس سال میں بطورِ خاص مغرب میں ایک ایسا طبقہ ابھرا ہے جو علمی اور سیاسی بنیادوں پر اسلام کو مغرب کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مغرب اور اسلام کے مابین ایک تہذیبی تصادم ناگزیر ہے اور اس بنا پر مسلمان مغرب کے تہذیبی تنوع کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے مطابق اسلام کی ایک ہی تعبیر ہے اور یہ وہی ہے جو القاعدہ یا داعش کی صورت میں مجسم ہو گئی ہے۔ اس سوچ کے اسباب سیاسی اور معاشی بھی ہیں۔ مسلمانوں نے مغرب کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جس سے ان کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طبقے کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اس سے مسلمانوں کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور یوں وہ فیصلہ سازی میں شریک ہو جائیں گے۔ بطور پیش بندی، وہ انہیں مغرب سے نکالنا چاہتے ہیں۔ 
4۔ مغرب میں آباد مسلمانوں میں بھی دو رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو بعض اہلِ مغرب کی طرح تہذیبی تصادم کو ناگزیر سمجھتا ہے اور مغرب میں اپنے مذہبی تشخص پر اصرار کرتا ہے۔ وہ اسے اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے کہ اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔ اگر مغرب کی کوئی حکومت کسی انتظامی ضرورت سے بھی کوئی پابندی عائد کرتی ہے تو وہ اسے شک کی نظر سے دیکھتا اور ایک سازش سمجھتا ہے۔ یوں مغرب میں رہتے ہوئے بھی اس کی اجنبیت باقی رہتی ہے اور وہ سماجی اختلاط پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ طبقہ اسلامی تحریکوں سے متاثر ہے یا ان کا حصہ ہے۔
5۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو سماجی تنوع کو بطور امرِواقعہ قبول کرتا اوراسی میں اپنے تشخص کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔ یہ موجود صورتِ حال میں دین پر عمل پیرا ہونے کے راستے تلاش کرتا ہے۔ یہ طبقہ اکثریت میں ہے۔ ان میں علما اور سکالرز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اجتہاد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، وہ راستے تلاش کیے ہیں جو بنیادی طور پر اس سوال سے پیدا ہوئے ہیں کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں‘ اور اقتدار ان کے پاس نہ ہو تو وہ اسلام کے مطابق کیسے زندگی گزار سکتے ہیں؟ اسی ضرورت سے وہ مذہبی لٹریچر پیدا ہوا جسے 'فقہ الاقلیات‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔
6۔ مغرب کا تہذیبی خمیر مادیت سے اٹھا ہے۔ اس میں ہر چیز کو جنسِ بازار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں جب لوگوں کا ایک بڑا طبقہ ایک مذہبی دائرے میں زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اس کی مذہبی ضروریات معاشی عمل پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ خور و نوش میں حلال چیزوں کا طالب ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمی میں مصروف ایک طبقہ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے حلال اشیا کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح لباس ہے۔ حج کے موقع پر لاکھوں لوگ مکہ کا رخ کرتے ہیں۔ اس سے احرام اور عبائے بیچنے والوں سے لے کر ایئر لائنز تک، ہزاروں افراد کے لیے روزگار پیدا ہوتا ہے۔ یوں یہ کروڑوں ڈالر کی تجارت ہے جو مذہب کے نام پر ہوتی ہے۔
7۔ مغربی ممالک کے تجارتی اداروں کے لیے مسلمان ممالک ایک بڑی منڈی ہیں۔ اگر انہیں خطرہ لاحق ہو جائے کہ یہ منڈی ان سے چھن سکتی ہے تو وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو اہلِ اسلام کی ناراضی کا باعث ہو؛ تاہم مغربی ممالک کی سب سے نفع بخش تجارت اسلحے کی ہے۔ اس میں ان کا کوئی متبادل نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ میں گرفتار مسلمان ان کی طرف ہی رجوع کریں گے۔ ان کا بڑا سرمایہ کار بہرحال نقصان میں نہیں رہے گا۔ 
ان چند نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اہلِ اسلام کو ایک حکمت عملی بنانا ہو گی۔ اس کا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ یہ کھلواڑ بند ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے ریاستی سطح پر مسلم ممالک کا مشترکہ موقف۔ او آئی سی ایک رائے اختیار کرے اور پھر اقوامِ متحدہ میں عالمی سطح پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
دوسری صورت سماجی سطح پر مکالمہ ہے۔ پاکستان کے مذہبی پیشواؤں کا ایک بڑا حلقہ مغرب میں ہے۔ ہمارے پیر حضرات سال کا ایک حصہ وہاں گزارتے ہیں۔ تحریکِ لبیک کے راہنما پیر افضل قادری صاحب کے متاثرین بڑی تعداد میں مغربی ممالک میں آباد ہیں۔ اسی طرح طاہرالقادری صاحب کا حلقہ ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے حلقوں کو متحرک کریں۔ یہ مغرب کے مذہبی اور سیاسی گروہوں سے رابطہ اور مکالمہ کریں۔ عمران خان صاحب کی یہ بات درست ہے کہ ہم ابھی تک ان کو اپنی بات سمجھا نہیں سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ مکالمے ہی سے ممکن ہے۔
مسلمانوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور میں نا شائستگی اور بد تہذیبی کے خلاف اتفاق پیدا کیا جا سکتا ہے مگر علمی تنقید کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام پر تنقید کی ایک روایت ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ ہمارے اسلاف نے ہر دور میں اس کا علمی تعاقب کیا ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے۔ یہ کام علمی محاذ پر ہو گا سڑکوں پر نہیں۔ اس کا یہ طریقہ بھی درست نہیں کہ ہم اپنے معاشروں کو فساد کی نذر کر دیں۔
ہمیں اپنی حکومت کی مجبوریوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔ کوئی حکومت خاکوں جیسی جسارت کو پسند نہیں کرتی‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا حکم دوسرے ممالک پر نہیں چلتا۔ وہ ان سے احتجاج کر سکتی ہے اور سفارتی سطح پر کوشش کر سکتی ہے۔ ہم دوسروں کے جرم پر اپنی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتے اور اپنے معاشروں کو انتشار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرزِ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
آج ہماری حکومت جو کر سکتی تھی، وہ اس نے کیا۔ اب علما کو اپنا کام کرنا ہے۔ ان کا کام علمی سطح پر اسلام کا مقدمہ پیش کرنا اور رسالت مآبﷺ کی پاکیزہ سیرت کو عام کرنا ہے۔ یہ کام مثبت سوچ اور داعیانہ مزاج کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی تعلیمات سے بہتر راہنمائی کہیں اور سے نہیں مل سکتی۔ اہلِ طائف نے آپ کو ایذا پہنچائی تو جواباً ان کی ہدایت کے لیے دعا فرمائی کہ انہوں نے (اپنی جہالت کے سبب) مجھے پہچانا نہیں۔ ہم نے دنیا کو اپنے رسولﷺ کی پہچان کرانی اور اس سراجِ منیر کی روشنی کو عام کرنا ہے۔ جہالت کی تاریکی اسی سے دور ہو گی۔
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت یکم ستمبر 2018
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Sep 03, 2018
1262 View