عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (14) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (14)

 سیرت و عہد

امام المجتہدین سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے کبھی نظری (hypothetical) اجتہاد نہ کیا۔ ایک روز عبداﷲ بن مسعود اور ابی بن کعب رضی اﷲ عنہما اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ نماز کے لیے کم ازکم کتنے کپڑوں کی ضرورت ہے؟ایک یا دو؟ عمر منبر پر چڑھے او رسخت تنبیہ کی، آج کے بعد اگر میں نے کسی کو اس طرح کا جدل کرتے سنا تو اسے خوب پیٹوں گا۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے ،آپس میں اختلاف نہ کرو !کیونکہ تمھارااختلاف بعد کی نسلوں میں بڑھ چڑھ کر سامنے آئے گا۔ ابتداے اسلام ہی سے وہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم سے فرضی سوالات کرنے والوں کو لعنت ملامت کرتے تھے۔ خود کوئی راے بنانے سے پہلے وہ اجل صحابہ سے مشورہ کرتے حتی ٰکہ غبار چھٹ جاتا اور بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی۔ شاہ ولی اﷲ دہلوی فرماتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کے فتاویٰ مشرق و مغرب ہر سو مانے جاتے ہیں۔ ابن مسعود کا ارشاد ہے ،عمر جس راہ سے گزر جاتے ،ہم اسے سہل اور ہموار پاتے۔ 
انھوں نے اپنے فیصلوں میں اضطرار(مجبوری ونا چاری)کا اصول بھی مد نظر رکھا۔ایک عور ت زنا کے جرم میں ان کے پاس لائی گئی۔وہ پیاس سے تڑپتی ہوئی ایک چرواہے کے پاس سے گزری اور اس سے پانی مانگا۔چرواہے نے اس شرط پر پانی پلایا کہ وہ اپناآپ اس کے حوالے کر دے۔عمر نے حد نافذ کرنے سے پہلے صحابہ سے مشورہ کیا۔حضرت علی نے راے دی،اسے مجبور کر دیا گیا تھا اس لیے اسے حکم قرآنی ’فمن اضطرّ غیر باغٍ ولا عادٍ فلا اثم علیہ انّ اﷲ غفور رحیم‘ اور جوناچار ہوا،اس حال میں کہ نافرمانی نہیں کی اور حد سے باہر نہ نکلا ،اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اﷲ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے (بقرہ :۷۳ا)کی روشنی میں چھوڑ دیا جائے۔ حاطب بن ابو بلتعہ کے غلاموں نے بنو مزینہ کے ایک شخص کا اونٹ چوری کر لیا۔وہ عمر کے پاس لائے گئے تو انھوں نے چوری کا اقرار کر لیا۔عمر نے کہا، مجھے معلوم ہے حاطب اپنے غلاموں سے خوب کام لیتا ہے اور انھیں بھوکا پیاسا رکھتا ہے۔پھر مزنی سے دریافت کیا،تمھاری اونٹنی کی کیا قیمت ہو گی؟اس نے کہا،۴۰۰ درہم۔انھوں نے حاطب کے بیٹے عبدالرحمان سے کہا،اسے ۸۰۰درہم دے دواور حد نافذ نہ کی۔اضطرارکا تعین کرنے میں دو رایں ہو سکتی ہیں۔ عین ممکن ہے، منصف جسے اضطرار سمجھ رہا ہے ،اضطرار ہی نہ ہو۔عام طورپر عورت کو ڈرا دھمکا کر ہی زنا پر راضی کیا جاتا ہے ،اس لیے یہ طے کرلینا کہ کس طرح کی تخویف اضطرار ہے،لازمی امر ہے۔ 
خلیفۂ ثانی فیصلہ کرتے وقت مدعی اور مدعا علیہ سے ایک جیسا سلوک کرتے۔ ایک یہودی نے حضرت علی کے خلاف دعویٰ کیا تو انھوں نے ان دونوں کو برابر بٹھا دیا۔ فیضلے کے بعد علی سے پوچھا،آپ کو برا تو نہیں لگا؟ انھوں نے کہا ،ہر گز نہیں ۔البتہ آپ نے مجھے میری کنیت ’ابو الحسن‘ سے پکارا تو مجھے اندیشہ ہوا ،کہیں جادۂ انصاف سے ہٹ نہ جائیں کیونکہ کنیت سے پکارنا تعظیم و التفات کی نشانی ہے۔ 
حضرت عمر کی فقاہت کا بڑا ثبوت ان مسائل میں ان کا اجتہاد ہے جہاں کتاب اﷲ کی نص صریح موجود نہ تھی۔ ایک قضیے میں ترکے کی تقسیم اس طرح ہوئی کہ ماں جایے بھائی کو حصہ مل گیا جب کہ سگے بھائی کے لیے مال ہی نہ بچا۔ بات عمر تک پہنچی تو انھوں نے کہا،یہ انصاف کے منافی ہے اور سگے بھائی کو حصہ دلایا۔ عہد فاروقی میں طاعون کی وبا پھیلی توبے شمار مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں۔تب میراث کے مسائل پیداہوئے،ان میں سے کچھ بے حد پیچیدہ تھے۔ عمر خود شام پہنچے ،انھیں یہ قضایا نپٹانے میں کئی ہفتے لگ گئے تاہم تمام فریق ان کے منصفانہ فیصلوں سے مطمئن تھے۔
شام و عراق سے جو غنیمتیں حاصل ہوتی رہیں ،ان کا خمس (۵/ا)امیر المومنین کوبھیجا جاتا جب کہ۵/ ۴حصے فاتح فوجیوں میں بانٹ دیے جاتے۔۸ الاکھ کلو میٹر (ساڑھے تین کروڑ جریب) پر مشتمل عراق کا سرسبز میدانی علاقہ (جسے سواد عراق کہا جاتا ہے ) مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو اسے بھی اسی طرح تقسیم کرنے کی تجویز آئی۔عمر رضی اﷲ عنہ نے مخالفت کی ۔ ان کا کہنا تھا،اگر یہ زمین فاتحین میں بانٹ دی گئی تو مسلمانوں کی اگلی نسلوں کے لیے کیا بچے گا؟ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کہا،اراضی بھی مال فے ہے اور اس پر غانمین کا حق ہے۔جہاد میں حصہ لینے والے فوجی بھی سمجھتے تھے ،عمر ان کا حق مار رہے ہیں۔ وہ تب بھی اپنی بات پر مصر رہے تو مشاورت کا فیصلہ ہوا۔ عبدالرحمانبن عوف کی راے بیان ہو چکی ،عثمان،طلحہ اور علی رضی اﷲ عنہم نے عمر کی راے کو ترجیح دی۔ اوس کے پانچ اور خزرج کے پانچ اہل راے سے مشورہ کیا گیا ۔ حضرت عمر سمجھتے تھے ، اراضی تقسیم کرنے سے بہت سے لوگ اس سے محروم ہو جائیں گے، حکومت کی ضرورتیں بقیہ ۵/ا علاقے سے پوری نہ ہو سکیں گی ، باشندگان کے چلے جانے اور فوج کے منتشر ہو جانے کی وجہ سے اسلامی مملکت کی سرحدات کی حفاظت دشوارہو جائے گی اور زمین کے قابضین کو دوسری جگہ کھپانا نا ممکن ہو جائے گا ۔اس لیے انھوں نے اس زمین پر خراج لگانے کی تجویز پیش کی۔ ان کی راے قرآن و سنت کی کسی صریح نص پر مبنی نہ تھی،اس کی بجائے مسلمانوں کی منفعت عامہ ان کے پیش نظر تھی۔ مجلس شوریٰ کی اکثریت نے عمر کے حق میں فیصلہ دے دیاتو عثمان بن حُنیف انصاری کو سواد عراق کا والی مقرر کیا گیا۔ان کے حسن انتظام سے محض کوفہ کا سالانہ خراج ۰ا کروڑ درہم سے زیادہ وصول ہوا۔ شام کی فتح کے موقع پر بھی یہی سوال اٹھا ،تب زبیر بن عوام اور بلال بن رباح نے مفتوحہ اراضی تقسیم کرنے پر زور دیا۔ سیدنا عمر نے اسی استدلال کی بنا پر اسے قابضین کے ہاتھ رہنے دیا۔بے آباد زمین اسلامی حکزمت کی ملکیت ٹھہری۔
عمر رضی اﷲ عنہ کے اجتہادات میں دانش اور پختگی ہونے کے ساتھ غریب رعایا سے ملاطفت جھلکتی تھی ۔وہ اہل ایمان کی نفسانی کم زوریاں دور کرکے ان کے اندرونی خیر کی نشو نما کرناچاہتے تھے۔ ایک رات وہ مدینہ کی گشت پر تھے کہ کسی عورت کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا۔

 

الا سبیل الی خمر فاشربہا
ام ہل سبیل الی نصر بن حجاج

 

( کوئی طریقہ ہے کہ شراب مل جائے اور میں پی لوں؟یا نصر بن حجاج کو پانے کی کوئی راہ بھی ہے؟)

صبح ہوئی تو عمرنے نصر کاپتا چلا کر اسے اپنے پاس بلا لیا۔وہ خوب صورت بالوں والا ایک خوب رو نوجوان تھا۔ انھوں نے اس کے بال کٹوادیے ،اس کا چہرہ نمایاں ہوا تو وہ اور خوب صورت دکھائی دینے لگا۔ اسے عمامہ باندھا گیا تو اس کا حسن مزید نکھر گیا۔عمرنے کہا ، اب یہ ہمارے ساتھ نہیں رہے گا۔ اس کی ضروریات کا حساب لگا کر اسے کچھ رقم فراہم کی اور بصرہ رخصت کر دیا۔کیا خوب صورت ہونا اس کا جرم تھا کہ اسے جلا وطن کر دیا جاتا؟ لیکن عمر مسلمانوں کے خلیفہ ہونے کے ساتھ ان کے مربی بھی تھے ۔ مدینہ کی عورتوں کو فتنے سے بچانے کے لیے انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ کسی اورشب کاذکر ہے،انھوں نے کچھ خواتین کو باتیں کرتے سنا۔ ایک نے پوچھا،مدینہ میں سب سے زیادہ خوب صورت کون ہے؟دوسری نے جواب دیا،ابوذئب۔عمر نے اس کی بھی طلبی کر لی ، وہ واقعی خوب صورت تھا۔ عمر نے کہا ،اﷲ کی قسم !تم سچ مچ ذئب (عورتوں کا شکارکرنے والا بھیڑیا )ہو۔بات ابو ذئب کی سمجھ میں آ گئی ۔اس نے خود ہی کہا،مجھے بھی بصرہ بھیج دیا جائے۔
ایک رات ایک عورت اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کو کہہ رہی تھی۔بیٹی نے کہا،اماں !عمر نے اس سے منع کیا ہے۔ ماں نے کہا ،اس ظلمت شب میں عمر کہاں سے آئیں گے؟بیٹی نے کہا،اﷲ تودیکھ رہا ہے۔صبح سویرے عمر نے اپنے بیٹوں کو بلاکر کہا ،تم میں سے کوئی اس لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے؟عاصم مان گئے، اسی سنجوگ سے ام عاصم پیدا ہوئیں جوپانچویں خلیفۂ راشد عمربن عبدالعزیز کی ماں ہوئیں۔طلحہ بن عبیداﷲ نے عمر کو رات کے وقت ایک گھر میں جاتے دیکھا ۔وہ کھوج لگانے کے لیے اندر گئے تو ایک معذور بڑھیا پائی ۔اس نے بتایا،یہ شخص میری ضرورتیں پوری کرنے آتا ہے۔طلحہ خود سے یوں ہم کلام ہوئے، تیرا ناس ہو !تو عمر کی لغزشیں ڈھونڈرہا ہے۔ 
عمرکا دروازہ تھا نہ دربان ۔نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے مسجد میں بیٹھ جاتے تاکہ کوئی ضرورت مند ان سے مل سکے۔ ایک دوپہر کونیند محسوس ہوئی تو درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے۔اتفاق سے قیصر روم کا سفیر آیا ،انھیں دار الامارہ میں نہ پایاتو پوچھتا پچھاتا وہاں پہنچ گیا ۔انھیں کسی محافظ کے بغیر یوں تنہا سوئے ہوئے دیکھ کر بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا،میرا آقا ظلم کرتا ہے ،اس لیے پہرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔آپ عدل و انصاف کرتے ہیں ،اس لیے چین کی نیند سو رہے ہیں۔ سفر میں عمر رضی اﷲ عنہ کے لیے کوئی خیمہ نصب نہ کیا جاتا ،کسی درخت پر چادر ڈال کر سایہ کر لیتے، اونٹ کے پالان کا بستر بناتے اور اپنے سامان کے بیگ کو تکیے کے طور پر استعمال کر لیتے۔ سفر حج میں ان کے ۱۶ دینار خرچ ہو گئے تو بیٹے سے کہا،ہم نے بہت اسراف کر لیا۔ 
امیر المومنین کو ہر وقت اپنی رعایاکی فکر رہتی تھی۔ یہ ان میں حد درجہ پائی جانے والی خشیت الٰہی کا پرتو تھی۔فرماتے تھے، اگر کنار فرات کوئی اونٹ (یا کتا) بھی بھوک سے مر گیا تو مجھے ڈر ہے ،آل عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ اپنے گورنروں کی کارکردگی یہ سوالات پوچھ کر جانچتے، کیا وہ بیماروں کی تیمار داری کرتا ہے؟غلاموں کی خبرگیری کرتا ہے؟ کم زور سے حسن سلوک کرتا ہے؟کیا دروازے پربیٹھتا ہے ؟(یعنی دربان تو نہیں مقرر کر رکھا؟)ان میں سے ایک سوال کا جواب بھی ناں میں ہوتا تو وہ گورنر کومعزول کر دیتے۔خلیفۂ دوم غیر مسلموں سے شفقت سے پیش آتے۔ مدینہ میں ایک یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا توسورۂ توبہ کی آیت ’انما الصدقات للفقراء والمساکین...‘ (۶۰) بلاشبہ صدقات (زکوٰۃ و خیرات) فقیروں، مسکینوں۔ ۔۔ کا حق ہیں ۔‘‘ پڑھی اورکہا ،یہ تو مسکین ہے چنانچہ اس کا روزینہ مقرر کر دیا۔سفر شام کے د وران میں بھی انھوں نے مال زکوٰۃ میں سے کئی غریب نصرانیوں کے وظیفے منظور کیے۔ شام کے ایک یہودی کی زمین ہتھیا کر مسجد بنا لی گئی تھی ۔ امیر المومنین نے مسجد گرا کر زمین اس کے مالک کو واپس دلائی۔ لبنان کے پروفیسر شکری قرداحی کے مطابق ۹۳۳اء تک اس یہودی کے گھر کا لوگوں کوعلم تھا۔ حضرت عمر نے غیرمسلم اہل جزیہ کے تین درجے مقرر کیے ،مال دار ، متوسط اور غریب ۔ سال میں ایک بار لیے جانے والے جزیہ کی مقدار ایک خاندان کے ایک دن کے اخراجات کے مساوی تھی۔عورتیں ،بچے ، بوڑھے، معذور، راہب اور ایک سال تک فوجی خدمت انجام دینے والے غیر مسلم اس سے مستثنیٰ تھے۔عہد رسالت ؐ سے غیر مسلموں سے دہری چنگی (۵222) وصول کی جاتی تھی ۔ سیدنا عمرایک بار جمعے کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک تغلبی نصرانی نے انھیں روک کر چنگی والوں کی کوئی شکایت کی۔انھوں نے ’’نہیں ! ایسا نہیں ہو سکتا‘‘کہہ کر اپنا خطاب جاری رکھا۔ نصرانی کو ان کی بات سمجھ نہ آئی، وہ جز بز ہو کر سرحد پر واپس پہنچا تو عمر کا حکم پہلے سے پہنچ چکا تھا۔ 
خلیفۂ ثانی نے سکہ سازی سرکاری کنٹرول میں لے لی تھی۔پرانے سکہ ساز ملازمت پر برقرار رکھے گئے ۔حکومت خود بھی سکے ڈھالتی ،لوگ بھی اپنا سونا چاندی لا کر اجرت پر ڈھلائی کرا لیتے۔مغرب کے کئی عجائب گھروں میں اس وقت کے سکے موجود ہیں۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ قرآن کی تعلیم عام کرنے کے لیے طلبہ کو وظائف دیتے۔کوفہ کی جامع مسجد میں عبداﷲبن مسعود تعلیم دیتے۔انھیں خاص طور پر ہدایت تھی کہ قرآن بنو ہذیل کی طرز کی بجائے قریش کے فصیح لہجے میں پڑھیں۔ مسجد نبوی ؐمیں عقیل بن ابو طالب انساب اور ایام عرب کی تدریس کرتے۔ خلیفۂ دوم نے ابو الاسود دؤلی کو صرف و نحو مدون کرنے کا حکم دیا۔ مہاجرین و انصار کی موجودگی میں ہر عامل سے عہد لیتے ،وہ ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھے گا ،چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا ،باریک کپڑے نہ پہنے گااورلوگوں کی حاجتوں کے آگے دربان نہیں بٹھائے گا۔ وہ ہر فوجی دستے کے ساتھ ترجمان اور طبیب بھیجتے۔
انھوں نے گھوڑوں کی افزائش نسل کی خصوصی ہدایت کی،جانوروں کو خصی کرنے سے منع کیا۔ عمرانھیں منہ پر مارنے اور ان پرحد سے زیادہ بوجھ لادنے سے روکتے۔فوجیوں کوبھیجے جانے والے گھوڑے نقیع کی چراگاہ میں رکھے جاتے اورصدقے کے اونٹوں کے لیے ربذہ اورشرف کے سبزہ زار مخصوص تھے۔
ایک دن سیدنا عمر نہا دھو کرجمعہ کی نماز کو جا رہے تھے کہ ایک گھر کی بالائی منزل کے پرنالے سے گندا پانی ان پر گرا۔ مضرت عامہ کا مداوا کرنے کے لیے انھوں نے یہ پرنالہ اکھڑوا دیا۔یہ گھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کا تھا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے اسے نصب فرمایا تھا تو حضرت عباس کو اپنے کندھے پر چڑھا کر اسے دوبارہ ا س کی جگہ لگوایا۔ 
حضرت عمر نے عورتوں کا مہرکم از کم رکھنے کا مشورہ دیا۔انھوں نے ان کو قبطی سوت سے بنے ہوئے کپڑے (قبطیہ) پہنانے سے منع کیا کیونکہ یہ ململ کی طرح باریک ہوتا تھا۔جسم اگراندر سے نہ جھلکتا تو بھی اس کی ہےئت نمایاں ہو کررہتی۔
خلیفۂ ثانی نے قرضۂ حسنہ دینے کے لیے بیت المال میں ایک الگ شعبہ قائم کیا۔ اس بے سود قرضے سے کوئی کاروبار کرتا تو اس سے نصف منافع لیا جاتا۔اگر خسارہ ہوتا تو وہ صرف اصل زر کا ضامن ہوتا۔اس مد میں خود انھوں نے کئی بار قرض لیا ،جب لوٹانے میں دیر ہوتی تو افسر بیت المال تقاضا کرتا اور انھیں فوراً ادائی کرنا پڑتی ۔وقت وفات سرکاری خزانے کو ان سے ۸۰ ہزار سے زائددرہم مطلوب تھے ۔انھوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی ،یہ رقم فوری طور پر جمع کرائی جائے۔ معاقل (دیت و تاوان)کا نظام عہد نبویؐ(ا ھ )سے رائج تھا،عمر نے اس کو وسعت دی۔ کسی شخص سے اتفاقاً قتل ہو جاتا اور اسے خون بہا دینا ہوتا یا کوئی مسلمان دشمن کے ہاتھوں قید ہو جاتا تو اسے فدیہ دے کر چھڑانا ہوتا تو متعلقہ شخص کے غریب ہونے کی صورت میں اس کا قبیلہ یہ خطیر رقم (۰۰ا اونٹ) ادا کرتا۔ عہد فاروقی میں متعلقہ چھاؤنی یا دیوان کے افراد اپنے رفیق کی مدد کو آتے۔
عمر کے داماد نے ان سے سوال کیاتو اسے جھڑک دیا۔ پوچھا گیا،آپ نے اسے رد کیوں کیا؟فرمایا ،اس نے مجھ سے اﷲ کا مال مانگا تھا جس میں میں خیانت نہیں کر سکتا۔ میرا مال مانگا ہوتا تو اور بات ہوتی ۔پھر ۱۰ ہزار درہم اسے بھجوا دیے۔ حضرت عثمان فرماتے تھے ،عمر اﷲ کی رضا کے لیے اپنے اعزہ و اقارب کو محروم رکھتے تھے اور میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے انھیں عطیات دیتا ہوں۔ 
عمر میں غیرت ایمانی حد درجہ پر تھی۔بشر نامی ایک منافق کا کسی یہودی سے جھگڑا ہوا توان دونوں کا مقدمہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا۔آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔منافق راضی نہ ہوا ،اس نے کہا ،چلو! عمر بن خطاب کو حکم بناتے ہیں۔یہودی نے ان کو بتایا،ہمارا فیصلہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کر دیا ہے لیکن یہ اس سے مطمئن نہیں۔عمر نے بشر سے پوچھا ،کیا یہی بات ہے؟اس نے اثبات میں جواب دیاتو انھوں نے کہا ،تم یہیں کھڑے رہو، میں ابھی آتا ہوں۔ اندر سے تلوار سونت کر نکلے اور منافق کی گردن اڑا کر کہا،جو اﷲ اور رسولؐ کے فیصلے سے راضی نہ ہو ،میں اس کا یہی فیصلہ کر سکتا ہوں۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان کا قلبی تعلق اوران کی محبت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ فرمایا،میں نے کلثوم بنت علی مرتضیٰ سے نکاح کیا ہے حالانکہ مجھے عورتوں کی حاجت نہیں۔اس لیے کہ میرا آپؐسے نسبی تعلق قائم ہو جائے ۔ہو سکتا ہے ،روز قیامت یہ آپؐ کے ارشاد کے مطابق میرے کام آ جائے۔ 
۱۳ھ میں حضرت عمر خلیفہ بنے،اس سال انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف کو اپنی جگہ امیر حج بنا کر بھیجا۔ پھر خلافت کے مسلسل ۱۰ سال وہ لوگوں کے ساتھ حج ادا کرتے رہے۔۲۳ ھ میں اپنے آخری حج میں وہ امہات المومنین کو ساتھ لے کر گئے۔انھوں نے اپنے عہد خلافت میں ۳ عمرے کیے،رجب ۱۷ھ، رجب۲۱ھاور رجب ۲۲ھ میں۔ مقام ابراہیم ؑ بیت اﷲ سے متصل تھا ،انھوں نے اسے ذرا پیچھے کر دیا جہاں یہ آج کل ہے۔ ۲۳ھ کے حج میں وہ منیٰ سے واپس ہوئے تو ریگزار (بطحاِ مکہ) میں ایک جگہ اونٹ کو بٹھایا،ریت کا ٹیلا سا بنا کر اس پر لیٹ گئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی،اے اﷲ!میری عمر زیادہ ہو گئی ہے، قویٰ کمزور پڑ گئے ہیں(یا ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں) اور میری رعایابڑھ گئی ہے ،اس سے پیشتر کہ میں کوئی کمی و کوتاہی کروں مجھے اپنے پاس بلا لے۔ انھوں نے یہ دعا بھی مانگی، اﷲ! میں تیری راہ میں شہید ہونا اور تیرے رسول ؐکے شہر میں دم دینا چاہتا ہوں۔ 
حضرت مغیرہ بن شعبہ کا عیسائی غلام ابو لؤلؤہ فیروز فارسی عصبیت رکھتا تھا ،مدینہ میں ایرانی غلاموں کو دیکھ کراسے دکھ ہوتا۔ایک بار اس نے حضرت عمر کو راستے میں روک لیا اورکہا،مغیرہ سے سفارش کریں کہ میرالگان کم کر دیں۔ انھوں نے پوچھا،لگان ہے کتنا؟اس نے بتایا،۲(یا ۴) درہم یومیہ ۔پھر سوال کیا ،کام کیا کرتے ہو؟ وہ ترکھان، لوہار اور نقش گر تھا اورچکیاں بھی بناتا تھا، آخری کام ہی اس نے بتایااور باقیوں کا ذکرنہ کیا۔عمر نے پوچھا ،کتنے کی چکی بنا لیتے ہو؟اور کتنے کی بیچتے ہو؟ اس کی تفصیل سن کر انھوں نے کہا ،تب تو خراج زیادہ نہیں۔وہ رخصت ہونے لگاتو انھوں نے کہا،ہمیں ہوا سے چلنے والی چکی نہ بنا دو گے؟ اس نے جواب دیا،اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لیے ایسی چکی بناؤں گا کہ عالم شرق و غرب میں اس کی مثال دی جایا کرے گی۔عمر نے کہا، اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔یہاں سے ابولؤلؤہ ہرمزان اور جفینہ کے پاس پہنچا اور ان سے ایک خنجر مستعار لیا۔ عبدالرحمان بن ابو بکر کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ گھبرایا اور خنجر اس کے ہاتھ سے گر گیا تاہم انھیں اس کے عزائم کا اندازہ نہ ہو سکا۔اگلے روز کعب احبار امیر المومنین کے پاس آئے اور کہا ،۳دنوں میں آپ وفات پا جائیں گے۔ انھوں نے پوچھا ،تمھیں کیسے پتا چلا؟کعب نے بتایا، میں نے تورات میں پڑھا ہے ۔عمر حیرت سے بولے ،اﷲ رے!تو نے عمر بن خطاب کا ذکر تورات میں پا لیا؟ انھوں نے کہا ،نام تو نہیں لیکن حلیہ اور صفات آپ ہی کی ہیں۔عمر خاموش ہو گئے اور کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔جب کعب نے کہا، آپ دعا کریں ،ہو سکتا ہے ، اﷲ آپ کو اور مہلت دے دے تو انھوں نے اﷲ سے التجاکی،مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ مجھ میں کوئی وہن ہو نہ نشانۂ ملامت بنوں ۔شہادت سے پہلے انھوں نے خواب دیکھا، ایک سرخ مرغ نے ان کو ٹھونگے مارے ہیں۔انھوں نے ا س کی یہی تعبیر سمجھی کہ کوئی عجمی ان کو قتل کرے گا۔ 
بدھ ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ھ کی فجر ہوئی،سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نماز پڑھانے مسجد نبویؐ میں آئے۔ابھی صفیں سیدھی نہ ہوئی تھیں کہ ابو لؤلؤہ نے کٹار سے اچانک ان پر حملہ کر دیا۔ اس نے چھ وار کیے،ایک زیر ناف لگا جو مہلک ثابت ہوا ۔ عمر چلائے ،اس کتے کوپکڑو ! اس نے مجھے قتل کر دیا ہے اورقرآن کی آیت’’ وکان امر اﷲ قدراً مقدوراً،اﷲ کا حکم وہ تقدیر ہے جو پوری ہوکر رہتی ہے ‘‘(احزاب ۳۸)پڑھتے ہوئے گر پڑے ۔لوگ اس کی طرف لپکے،اس نے خنجر گھمایا اور ۱۲ مزید افراد کو شدید زحمی کر دیا جن میں سے ۶(یا ۹)اسی موقع پر شہید ہو گئے،باقیوں نے بعد میں جان دی۔عبد اﷲ بن عوف نے اس پر اپنا چغہ ڈال کر اسے قابو کیا۔ گرفت میں آنے سے پہلے وہ اپنے خنجر پر گرا اور اپنی جان بھی لے لی۔ عمر کومعلوم ہوا کہ ان کا قاتل ابو بؤلؤہ ہے تو فرمایا،اﷲ کاشکر ہے ، میں ایسے شخص کے ہاتھوں مارا جا رہا ہوں جس نے اﷲ کے حضور ایک سجدہ بھی نہیں کیا۔وہ کلمۂ لا الہپڑھ کرمیرے خلاف کوئی حجت نہیں پیش کر سکتا۔ اسی ہنگامے میں دن چڑھنے کو تھا کہ انھوں نے عبدالرحمان بن عوف کو بلا کر نماز پڑھانے کو کہا۔عبدالرحمان نے سورۂ عصر اور سورۂ کوثر (یا نصر و عصر ) کی تلاوت کرکے مختصرنماز پڑھائی۔ عمربے ہوش ہو گئے تو انھیں اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ہوش میں آتے ہی دوبارہ تسلی کی کہ اہل ایمان نماز پڑھ چکے ہیں ؟فرمایا،اس شخص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جس نے نماز ضائع کی پھر خود بھی اس حال میں وقت پرنماز ادا کی کہ زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔انھوں نے زندگی کی باقی دو نمازیں بھی انھی کپڑوں میں ادا کیں۔ سب سے پہلے حضرت عبداﷲ بن عباسآئے تو ان سے کہا، منادی کرا کے لوگوں سے پوچھو! کیا یہ قاتلانہ حملہ ان کے مشورے سے ہواہے؟ سب نے اس عمل شنیع سے اﷲ کی پناہ مانگی اور کہا،ہم تو دعا گو ہیں اﷲ ہماری عمر بھی آپ کو لگا دے ۔ اب بنو حارث کا طبیب آیا،اس نے عمر سے مشور ہ کر کے انھیں نبیذ (شربت کھجور) پلائی تووہ زخموں سے باہر نکل آئی، دوسرا طبیب ابو معاویہ سے تھا ،اس نے دودھ دیا تو وہ بھی خارج ہو گیا۔ انھیں بتا دیا گیا، جانبری کی امید نہیں۔رات ہونا بھی مشکل ہے ،جو ضروری کام نمٹانا چاہتے ہیں نمٹا لیں۔انھوں نے لوگوں کواپنے پاس رونے پیٹنے سے منع کر دیا۔میری ماں ہلاک ہو ،اگر اﷲ میری بخشش نہ کرے ۔ 
خلیفۂ ثانی نے اپنے قرض کے بارے میں پوچھا۔انھیں بتایا گیا،ان کے ذمہ ۸۶ ہزار درہم واجب الادا ہیں تو اپنے بیٹوں کو اپنا مال بیچ کر فوراً قرض اتارنے کی وصیت کی۔ کہا،اگر آل عمر سے ادا نہ ہواتو بنو عدی بن کعب سے لینا، اگر ان سے بھی پورا نہ ہواتو قریش سے وصول کرنا،ان کے بعد کسی سے نہ مانگنا۔ عبداﷲ بن عمر نے ایک ہفتے کے اندر اندر یہ قرضہ چکا دیا۔ایک نصرانی(یا مجوسی)غلام کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے کی وجہ سے انھیں اندیشہ ہوا کہ غیرمسلم شہری انتقام کا نشا نہ نہ بن جائیں اس لیے غیر مسلموں سے حسن سلوک کی خاص طور پرتاکید کی۔ابتدائے خلافت میں حضرت عمر نے مرتدین کے جنگی قیدی ان کے کنبوں میں واپس بھیج دیے تھے ۔وقت شہادت بھی وہ بے بس غلاموں کو نہ بھولے ۔انھوں نے اپنے سارے غلام آزادکرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ باقی تمام عرب قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا۔ان کا بدل بیت المال سے ادا کیا گیا۔جا نشینی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔مشاورت کے لیے انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف کو بلایاتووہ سمجھے، خلافت مجھے سونپنا چاہتے ہیں۔ کہا،واﷲ !میں اس کام میں نہ پڑوں گا۔ عمرکئی بار کہہ چکے تھے ، اگر ابو عبیدہبن جراح یا ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالمزندہ ہوتے تو انھیں بے دھڑک خلیفہ مقرر کر دیتا۔ حضرت علی کو ترجیح دینے کے باوجودنام زد نہ کیا کیونکہ وہ ان کے سسر تھے۔آخر کار فرمایا، ان ۶ آدمیوں کو بلاؤ جن سے رسول اﷲ صلی علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے راضی تھے۔یہ اصحاب عشرۂ مبشرہ میں سے ۶ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت طلحہ بن عبید اﷲ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف تھے ۔ عمر نے ان میں سے ساتویں زندہ صحابی سعید بن زید کو اس وجہ سے خارج کر دیا کہ وہ ان کے قبیلہ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت سعد بن ابی وقاص کا نام لیتے ہوئے بطور خاص فرمایا، میں نے انھیں ان کے کسی قصور یا خیانت کی وجہ سے معزول نہ کیا تھا۔ طلحہ اس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے۔عمر نے اپنے بیٹے عبد اﷲ کو اس شرط پر شامل کیا کہ وہ منتخب نہ کیے جائیں۔ان کو ہدایت کی، ووٹ برابرہونے کی صورت میں اپنا فیصلہ کن ووٹ اس بزرگ کو دیں جسے عبدالرحمان منتخب کرنا چاہتے ہوں۔خلیفہ کا انتخاب ہونے تک صہیب بن سنان کو امام مقرر کیا۔انھوں نے ابو طلحہ انصاری کواپنا نائب بنا کر حکم دیا،کچھ ساتھیوں کے ساتھ اس گھر کے دروازے پر پہرہ دیناجہاں خلیفہ کا انتخاب ہو رہا ہو۔کسی کو اندر نہ جانے دینا اور مجلس انتخاب کو ۳دن سے زیادہ مہلت نہ دینا۔ اگر کسی نے مسلمانوں کی مرضی کے بغیر ان پر مسلط ہونے کی کوشش کی تو اس کی گردن اڑا دینا۔ 
عمر نے اپنے جا نشین کو وصیت کی ، مہاجرین کے حقوق کا خیال رکھے، انصار سے اچھا برتاؤ کرے، اپنے رشتہ داروں کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دے۔ شہریوں سے زیادہ ٹیکس نہ لے،بدوؤں سے حسن سلوک کرے،ان کی زکوٰۃ انھی کے فقرا میں بانٹ دے۔ذمیوں سے کیے ہوئے معاہدے پورا کرے،ان کی حفاظت کرے اور ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔انھوں نے خواہش کی ،ان کے مقررکردہ گورنر ایک سال تک برقرار رکھے جائیں۔بعد ازاں حضرت عثمان نے اس ہدایت پر عمل کیا۔حضرت عمر نے دادااور کلالہ کی وراثت کے بارے میں اپنی راے شانے کی ایک ہڈی (scapula) پر تحریر کر رکھی تھی۔شاید انھیں اس پر پورا اطمینان نہ تھا اس لیے اپنے بیٹے سے کہہ کر وہ ہڈی منگوائی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریر مٹائی۔خلیفۂدوم نے عبداﷲ کوام المومنین سیدہ عائشہ کے پاس بھیجا اور فرمایا،ان سے کہنا،عمر سلام کہتا ہے،امیر المومنین نہ بولنا۔پھر ان سے اجازت مانگنا، انھیں ان کے دونوں ساتھیوں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دے دی جائے۔حضرت عائشہ اپنے حجرے میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ عمر کی درخواست سن کر فرمایا، وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن اب عمر کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔عمر نے عبداﷲ سے کہا، میری میت جب حجرہْ عائشہ پہنچے تو دوبارہ اذن مانگنا ۔اگر انھوں نے اس وقت منع کر دیا توعام مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دینا۔ انھوں نے میت کو مشک لگانے سے منع کیا۔ 
آخری لمحات میں حضرت عمر پر خشیت الٰہی پوری طرح غالب آ گئی ۔انھوں نے بار بار کہا،اگر پوری زمین میری ملک ہوتی تو اسے آنے والی ہولناکی کے بدلے فدا کردیتا۔پھر بستر سے ہاتھ بڑھا کر ایک تنکا اٹھایااور کہا،کاش میں یہ تنکا ہی ہوتا اور میری ماں مجھے نہ جنتی۔ عبداﷲ بن عباس نے تسلی دی ،آپ نے کتاب اﷲ کے مطابق فیصلے کیے اورانصاف سے تقسیم کی۔عمر نے فرمایا، اس بات کی شہادت دو۔حاضرین میں سے کسی نے کہا،آپ کو دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۔ انھوں نے اپنے بیٹے عبداﷲ سے کہا،میرا رخسار زمین پر رکھ دو۔انھوں نے پس وپیش کی توانھیں ڈانٹا۔ جب ان کے حکم کے مطابق رخسار زمین سے لگا دیا گیاتو پاؤں رگڑ کر آہ وزاری کی،میری ماں ہلاک ہو اگر اﷲ نے میری بخشش نہ کی۔بار باریہ الفاظ ان کے منہ سے نکل رہے تھے کہ ان کی روح پرواز کر گئی۔ 
بدھ۲۶ ذی الجحہ(ابن کثیر:ہفتہ) کی شام سیدنا عمر نے جان جان آفرین کے سپرد کی۔جمعرات ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ھ (ابن کثیر کے خیال میں اتواریکم محرم ۲۴ھ) کی صبح ان کا جنازہ حجرۂ عائشہ میں لے جایا گیاتو انھوں نے دوبارہ اجازت دی،سلامتی سے آ جائیے۔ حضرت صہۂ بن سنان نے مسجد نبوی ؐ میں نمازجنازہ پڑھائی۔عصا سے عمر کا قد ماپ کر قبر کھودی گئی،حضرت ابو بکر کا سر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کندھوں کے برابر تھا،حضرت عمر کا ان کے کندھوں کے برابر رکھا گیا ۔ یوں جگہ تنگ ہو گئی تو حجرے کی دیوار میں نقب لگا کرپاؤں رکھے گئے ۔ولیدبن عبدالملک کے عہد میں یہ دیوار گری توحضرت عمر کا پاؤں نظر آنے لگا۔ حضرت صہیب،حضرت علی،حضرت عثمان،حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن عمر نے میت کو قبر میں اتارا۔ طلحہ بن عبیداﷲتدفین میں بھی شامل نہ ہو سکے۔ 
حضرت عبدالرحمان بن عوف نے آلۂ قتل چھرابتایا جو انھوں نے پہلے ہرمزان اور جفینہ کے پاس دیکھا پھر حضرت عمر کی شہادت کے وقت ابولؤلؤہ کے پاس سے ملا۔ عبدالرحمان بن ابو بکر کے بیان کے مطابق وہ دو دھاری خنجر (کٹار) تھاجو ابولؤلؤہ کے ہاتھ سے اس وقت گرا تھا جب وہ ہرمزان اور جفینہ سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔یہی زیادہ مشہور ہے۔ عبید اﷲ بن عمر نے قتل کی سازش میں ان دونوں کی شرکت کا سنا تو گلے میں تلوارلٹکاکر نکل کھڑے ہوئے۔ پہلے ہرمزان کو بلاکر اس پر وار کیا ،اس نے کلمہ پڑھتے ہوئے جان دی پھر پیشانی پر تلوار چلا کر جفینہ کو قتل کیا۔عبید اﷲ نے جوش غضب میں ابو لؤلؤہ کی چھوٹی بچی بھی ماررڈالی جو مسلمان تھی اور کہا،یہ اجنبی فساد کی جڑ ہیں۔ وہ مدینہ میں موجود تمام عجمیوں کو ختم کر دینا چاہتے تھے کہ عبدالرحمان بن عوف اور دوسرے اہل ایمان نے انھیں قابو کر کے قید کر دیا۔ سیدنا عثمان نے خلیفہ بنتے ہی عبیداﷲ کو بلایا ،وہ انھیں قصاص میں قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ انھوں نے دو مسلمانوں اور ایک ذمی کی جان لی تھی۔حضرت علی نے ان کی تائید کی لیکن باقی مسلمانوں نے کہا ،کل عمر شہید ہوئے، آج ان کے بیٹے کو قتل کر دیا جائے؟عمرو بن عاص نے مشورہ دیا،یہ قتل خلیفۂ ثالث کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہو چکے تھے اس لیے ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔پھر بھی حضرت عثمان نے ہرمزان کے بیٹے سے قصاص لینے کو کہا لیکن اس نے معاف کر دیا۔انھوں نے جفینہ اورابو لؤلؤہ کی بیٹی کی دیت اپنی جیب سے ادا کر دی۔
محمد حسین ہیکل کہتے ہیں،محض ابو لؤلؤہ کے خراج کا زیادہ ہونا اور عمر کا اس کی سفارش نہ کرنا ان کی جان لینے کا باعث نہیں ہو سکتا۔ایک ایرانی نے عمر کو قتل کی دھمکی دی ،ایک یہودی نے انھیں تنبیہ کی اور اس سازش کے پس منظر میں ایک اورایرانی اور ایک عیسائی شریک تھے۔اس طرح یہ عمر رضی اﷲ عنہ کو منظر سے ہٹا کر مسلمانوں کی جمعیت منتشر کرنے کا سہ فریقی منصوبہ تھا جو فوری طور پر کامیاب نہ ہوا۔مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوئی اور خلافت کا شیرازہ بکھر گیا تو یہ پاےۂ تکمیل کو پہنچا۔ 
مجلس انتخاب کا اجلاس ہواتو اولاً یہ معلوم کیا گیا کہ کون خلیفہ بننے کی خواہش نہیں رکھتا۔حضرت عثمان اور حضرت علی کے علاوہ باقی چاروں اصحاب رسولؐ یہ منصب نہ چاہتے تھے۔زبیر علی کے اورطلحہ عثمان کے حق میں دست بردار ہو گئے، سعد نے اپنااختیار عبدالرحمان کوسونپ دیاجوخود بھی پیچھے ہٹ چکے تھے۔ انھی کی ذمہ داری لگی کہ وہ عثمان وعلی میں سے ایک کو منتخب کرلیں۔ بنو ہاشم حضرت علی کو خلیفہ بنانے چاہتے تھے جب کہ قریش کی باقی شاخیں چاہتی تھیں ،نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں اکٹھی نہ ہو ں۔عبدالرحمان نے ممکن حد تک سب اہل ایمان سے مشورہ کیا،انفرادی اور اجتماعی طور پر ،پوشیدہ اور علانیہ حتیٰ کہ وہ عورتوں ،بچوں اور مدینہ میں وارد ہونے والے مسافروں کے پاس بھی گئے۔ ایک جم غفیر نے حضرت عثمان کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے بھی یہی فیصلہ کر لیا۔ اعلان کرنے سے پہلے انھوں نے انھوں نے حضرت علی سے پوچھا ،اگر آپ کو خلافت نہ ملی تو آپ کے خیال میں یہ ذمہ داری کسے اٹھانی چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا،عثمان کو۔یہی بات انھوں نے حضرت عثمان سے پوچھی تو انھوں نے حضرت علی کا نام لیا۔ انھوں نے ان دونوں سے اقرار لیا کہ وہ منتخب خلیفہ کی پوری اطاعت کریں گے ۔ منبر رسولؐ پر چڑھ کران دونوں سے پھرپوچھا ،کیا وہ کتاب اﷲ ،سنت رسول اﷲؐاورشیخین ابو بکر و عمر کے عمل کے مطابق کام کریں گے؟ان کے اقرار کے بعد عبدالرحمان بن عوف نے حضرت عثمان کا ہاتھ تھاما،آسمان کی طرف سراٹھا کر اﷲ کو گواہ بنایااورکہا، میں نے یہ ذمہ داری عثمان کو سونپ دی ہے۔ بیعت عامہ اس کے بعد ہوئی۔
سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی عمر ۶۰ سال ہوئی،۵۳ سے لے کر۶۳ سال تک مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ان کا دور خلافت ۱۰ سال۵ مہینے ۲۱(دوسرا قول:۱۰ سال ۶ ماہ۴دن) دن رہا۔ انھوں نے زمانۂ جاہلیت میں تین شادیاں کیں، (۱) زینب بنت مظعون جن سے عبداﷲ ،عبدالرحمان(اکبر) اور حفصہ پیدا ہوئے۔(۲) ملیکہ بنت جرول جن سے عبیداﷲ اور زید(اصغر)نے جنم لیا۔ملیکہ نے اسلام قبول نہ کیااور نکاح فسخ ہونے کے بعد ابو جہم بن حذیفہ سے شادی کر لی۔ا بن سعدنے ان کا نام کلثوم بنت جرول بتایاہے۔ (۳) قریبہ بنت ابو امیہ جو بے اولاد اور غیرمسلم رہیں۔ بعد میں عبدالرحمان بن ابو بکر کی زوجیت میں آئیں۔ قبول اسلام کے بعد عمر کی۴ شادیاں ہوئیں۔ (۱) ام حکیم بنت حارث جن سے فاطمہ کی ولادت ہوئی۔کہا جاتا ہے ،ان کو طلاق دے دی تھی۔(۲)جمیلہ بنت ثابت جن کا نام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عاصیہ سے تبدیل کر کے جمیلہ رکھا تھا۔ان سے عاصم متولد ہوئے۔ انھیں بھی طلاق دے دی (۳) ام کلثوم جو حضرت علی اور سیدہ فاطمۃ زالزہرا کی بیٹی تھیں۔ان سے زید(اکبر) اور رقیہ پیدا ہوئے۔ (۴) عاتکہ بنت زید جو عمر سے پہلے عبداﷲ بن ابوبکر سے اور ان کی شہادت کے بعد زبیر بن عوام سے بیاہی گئیں۔ان سے عیاض متولد ہوئے۔ یمن سے تعلق رکھنے والی لھیّہ ام ولد تھیں،ان سے عبدالرحمان (اوسط) نے جنم لیا۔ عبدالرحمان (اصغر) دوسری ام ولد سے پیدا ہوئے۔ فکیھہ بھی ام ولد تھیں ، ان سے عمر کی سب سے چھوٹی بیٹی زینب کی ولادت ہوئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ام کلثوم بنت ابو بکرکو نکاح کا پیغام بھیجا تو انھوں نے انکار کر دیا اورکہا ، آپ سخت زندگی بسرکرتے ہیں۔وہ حضرت عائشہ کی ترغیب پر بھی آمادہ نہ ہوئیں۔
حضرت عمربالوں پر مہندی لگاتے تھے۔ان کی انگوٹھی پرنقش تھا،کفی بالموت واعظاً یاعمر،اے عمر!موت کا نصیحت گر ہونا ہی کافی ہے۔ کپڑوں پر اکثر و بیشتر چار چار رنگ برنگے پیوند لگے ہوتے۔سائب بن یزید کہتے ہیں ،قحط کے سال میں نے ان کے تہ بند پر ۱۶ پیوند گنے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اگر میرے بعد نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘ (ترمذی:۳۶۸۶)کچھ صحابہ کا خیال تھا ،علم کا ۱۰/۹ حصہ عمر کے پاس اور باقی ۱۰/۱ دوسرے لوگوں کے پاس ہے۔ حضرت عائشہ نے کسی کے استفسارپر بتایا ،عمر کو فاروق کا لقب نبی صلی اﷲ علیہ سلم نے عطا فرمایا ۔آپؐکا ارشاد ہے، ’’اﷲ نے عمر کی زبان اوران کے دل پر حق جاری کر دیاہے۔‘‘(ترمذی :۳۶۸۲)آپؐ نے عمر کومخاطب کرکے فرمایا، ’’شیطان تم سے ڈرتا ہے ،عمرؑ !‘‘(ترمذی ۳۶۹۰) ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’میرے دو وزیر آسمانوں میں رہتے ہیں اور دو وزیروں کا تعلق زمین سے ہے ۔آسمانی وزیر جبریل و میکائیل اور زمینی ابو بکر وعمر ہیں۔‘‘ (ترمذی:۳۶۸۰،سند میں ضعف ہے )یہ فرمان نبوی ؐ توہرمسلمان نے جمعہ کے خطبات میں سناہو گا، ’’میری امت میں امت کا سب سے بڑھ کرترس کھانے والے ابو بکر ہیں اوران میں اﷲ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ شدت رکھنے والے عمر ہیں۔‘‘(مسند احمد :۱۳۹۹۰)حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں ،ہم ایک روز نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐنے فرمایا، ’’میں نہیں جانتا ،میں تمھارے ساتھ کتنی دیر رہ پاؤں گا۔ میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا۔‘‘آپؐ نے ابو بکر و عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔ (مسند احمد:۲۳۲۷۶)یہ وہ عمر تھے جنھوں نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنی آدھی جائیداد دے دی تھی اور خیبر میں زرخیز زمین خرید کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشورے سے اسے وقف کر دیا تھا۔اسلام لانے کے بعد انھوں نے اپنے قبیلے کے کسی شخص کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی سازش میں شریک نہ ہونے دیا۔غزوۂ بدر میں بھی ان کے قبیلے کا ایک کافر بھی نہ آیا۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، ’’میں ابوبکر کے بعد اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں؟فرمایا،وہ عمر ہیں۔ (مسند احمد:۸۳۳) حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ، ’’میں(خواب کے اندر)جنت میں داخل ہواتو ایک محل دیکھا ،پوچھا ،یہ کس کا ہے؟فرشتوں نے بتایا،یہ عمر کاہے۔‘‘(مسلم ۶۱۹۸) 
عمر کے چند اقوال : قوت کار اسی میں ہے کہ آج کا کام کل پر نہ ٹالو۔امانت ا س چیز کا نام ہے کہ انسان کا باطن اس کے ظاہر کے خلاف نہ ہو۔اﷲ سے ڈرو! تقویٰ کوشش سے حاصل ہوتا ہے ۔جو اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسی کو بچاتا ہے۔ عمر کو معلوم ہوا ،قریش کے کچھ افراد لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتے ہیں تو فرمایا، آپس میں ملاقاتیں کرتے رہو اور اپنی نشستیں عام کر دو۔اسی طرح تمھاری با ہمی الفت برقرار رہ سکتی ہے۔کسی شخص کا ذکر ان کے سامنے یوں ہوا،وہ اتنا صاحب فضل ہے کہ برائی کو جانتا تک نہیں۔ کہا ،تب تو ضرور برائی میں جا پڑے گا۔
مطالعۂ مزید:الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب (ابن عبد البر)، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء (شاہ ولی اﷲ دہلوی)، الفاروق عمر(محمد حسین ہیکل)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: ڈاکٹر حمید اﷲ)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2008
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 12, 2017
3584 View