عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (5) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (5)

 [’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

جنگ قادسیہ کے بعد ایرانی فرار ہو کر بابل اور ایران کے مختلف اطراف میں بکھر گئے۔مسلمان دو ماہ وہیں مقیم رہے،انھوں نے اپنی تکان اتاری اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے عرق النسا (sciatica)سے افاقہ پایا۔تب خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق نے انھیں حکم دیا کہ بچوں اور عورتوں کو عتیق میں چھوڑ کر مدائن کوکوچ کریں۔حضرت سعد نے زہرہ بن حویّہ کو مقدمہ کے طور پر آگے بھیجا، وہ حیرہ سے ہوتے ہوئے مدائن کو چلے۔بُرس(بیر نمرود) کے مقام پرانھوں نے ایک ایرانی دستے کوشکست دی، بابل کی راہ پرفیرزان کی فوج کو ہزیمت سے دوچار کیا۔ کوثیّ کے مقام پر شہریار نے ان کی فوج کو للکارا۔یہ وہی مقام ہے جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید کیا تھا،وہ قید خانہ ابھی موجودتھا ۔مقابلہ شروع ہوا تو زہرہ نے بنو تمیم کے نائل بن جعشم کو بھیجا۔شہریار انھیں گراکر ان کے سینے پر سوار ہو گیا ، اس کا انگوٹھا ان کے دانتوں تلے آ گیا ، انھوں نے اسے ہی چبا ڈالا ۔اب شہریار نیچے تھا اور نائل اوپر، انھوں نے خنجر نکالا اور اس کا پیٹ چاک کر دیا۔شہریار کی فوج بھاگ نکلی ، حضرت سعد پہنچے تو شہریار کا قیمتی لباس اور ہتھیار نائل کے حوالے کیے۔وہ کچھ دیر کے لیے بابل میں ٹھہرگئے، زہرہ اور ہاشم بن عتبہ نے مدائن کا رخ کیا۔ راستے میں سابقہ ملکۂ ایران بوران بنت کسریٰ کے دستے سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی۔اس میں شامل ایرانی روزانہ حلف اٹھاتے تھے کہجب تک زندگی ہے ملک ایران پر زوال نہ آنے دیں گے۔خسرو کا پالتو شیربھی ان کے ساتھ تھا ،ہاشم نے لپک کر وار کیا اور تلوار سے شیر کا کام تمام کر دیا۔ اس دستے نے بھاگ کر بہرہ شیر(بہرسیر) میں پناہ لی۔زہرہ ساباط پہنچے تو وہاں کے باشندوں نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر صلح کر لی۔حضرت سعد کے دستوں نے دجلہ و فرات کے مابین کارروائیاں کر کے ایک لاکھ دہقانوں کو قید ی بنا لیا تھااور ان کے گرد خندقیں کھود دی تھیں۔ان کے سردار شیر زاد نے جزیہ و خراج دینے کی پیش کش کر کے امن کی درخواست کیجو حضرت سعد نے مان لی، عمررضی اﷲ عنہ نے ان کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اب عرب کی سرحد وں سے لے کر دارالخلافہ مدائن تک تمام ایران خلافت اسلامی کے زیر نگیں ہو چکا تھا، ا س لیے انھیں عقب سے حملے کا اندیشہ نہ رہا۔
بابل کے بعد تعمیر ہونے والا ایرانی دارالخلافہ مدائن شان وشوکت میں اس قدیم شہر پر فوقیت رکھتا تھا،دجلہ اسے اس کے جڑواں شہر بہرہ شیر(بہر سیر) سے جدا کرتا تھا۔مدائن کا قدیم یونانی نام طیسفون تھا اوربہرہ شیر سلوقیہ کہلاتا تھا۔ یزد گرد کے اجداد نے ان شہروں پر قبضہ کر کے ان کے نام بدل ڈالے تھے۔بغداد ان دونوں سے ۳۰ کلو میٹر دور شمال میں تھا۔ پیش تر اس کے کہ وہاں کے باشندے دفاع کی کوئی تدبیر کرتے، امیر جیش اسلامی حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان شہروں پر جلد حملے کا فیصلہ کر لیا۔وہ فوج لے کر بہرہ شیر پہنچے تو وہاں کے لوگ شہر بند ہو چکے تھے۔انھوں نے منجنیقوں سے سنگ باری کی، لیکن شہر کی مضبوط فصیل پر کوئی اثر نہ ہوا۔بہر سیر دجلہ پر بنے ہوئے ایک پل کے ذریعے سے مدائن سے متصل تھا،وہاں سے غذائی اور فوجی امداد کی آمد کا سلسلہ برابر جاری تھا۔اس لیے محاصرہ طول پکڑتا گیا، ۹ ماہ یا ۱ سال کے اس طویل عرصے میں وقتاً فوقتاً ایرانی جتھے شہر سے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کرتے، لیکن مار کھاکر لوٹتے۔ مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر ایرانیوں کا صبر جواب د ے گیا۔انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کو مغلوب نہ کر سکیں گے۔تب شاہ یزدگرد نے حضرت سعد کو پیغام بھیجا کہ دجلہ کو عرب و عجم کے مابین حد فاصل بنا لیا جائے،دریا کے ادھر والا علاقہ مسلمان لے لیں اوراس طرف کا ایرانیوں کے لیے چھوڑ دیں ۔اس صورت حال میں جبکہ مدائن سامنے تھا اور ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے، صلح کا موقع نہ رہا تھا۔اس لیے حضرت سعدنے انکار کا پیغام دے کر ایک ایلچی روانہ کردیا اور فوراً بہرہ شیر(بہر سیر) کا محاصرہ تنگ کر کے اس پر سنگ برسانے کا حکم دیا۔ادھر سے نیزہ چلا نہ تیرتو فصیل پھلانگ کر شہرکا دروازہ کھولا گیا۔شہر میں ایک آدمی کے سوا کوئی نہ تھا،ایرانیوں نے جاتے جاتے دجلہ کا معبر جلا دیا اور کشتیوں کو دریا کے اس پار منتقل کر دیا تھا۔اب پر شور موجیں مارتا ہوا دریاے دجلہ اسلامی فوج کی پیش قدمی کو روکے ہوئے تھا۔اس کے دوسری طرف کسریٰ کا سفید محل (قصر ابیض ) چمک رہا تھا،اسے نوشیرواں نے ۵۵۰ء میں تعمیر کیا تھا۔یزدگرد نے مدائن والا کنارہ مضبوط بنا کر مسلمان فوج کی آمد مستقلاً روکنے کی تدبیریں سوچیں، لیکن کوئی راہ نہ پا کر فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ اس نے اپنے خزانے سمیٹے ،اہل و عیال اور غلاموں باندیوں کا قافلہ تیار کیا اور حلوان کو روانہ ہو گیا۔اب اس پارعزم و ہمت سے محروم ایک قوم تھی جس کا قائد اسے چھوڑچکا تھا،ا سے کامیابی کی کوئی توقع نہ تھی ۔ ادھر ایمان و یقین سے پرمسلمان فتح کے لیے بے تاب تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ دجلہ کے کنارے کھڑے اسے عبور کرنے کی فکر میں تھے۔انھیں ایک ہی ترکیب سوجھی کہ کچھ لوگ دریا پار کر کے دوسرے کنارے تک پہنچیں اورپھر وہ وہاں کھڑے ہوئے ایرانیوں کو ہٹا کر باقی لشکر کو دریا پار کرانے میں مدد دیں۔ ان کی تجویز پرسب سے پہلے عاصم بن عمرو رضی اﷲ عنہ نے لبیک کہا،پھر مزید۶۰۰رضا کارآگے آ گئے۔ ان میں سے ۶۰گھڑ سوارسبقت کرنے کو تیار ہوگئے، پہلے ان کے قائد حضرت عاصم نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈالا پھرباقی سب پانی میں کود پڑے۔یہ’’خطروں میں کودنے والادستہ‘‘ دجلہ کے وسط میں پہنچا توحضرت قعقاع بن عمرو کی سرکردگی میں باقی شہ سواروں نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں ،اسے ’’خاموش دستے ‘‘کا نام دیا گیا۔دوسرے کنارے پر کھڑے ایر انی پکار اٹھے ، یہ دیوانے ہیں یا جن؟پھر انھوں نے مسلمانوں کو روکنے کے لیے تیر اندازی شروع کر دی۔حضرت عاصم نے بھی اپنے ساتھیوں کو تیر برسانے کا حکم دیا۔ ان کے تیروں سے کئی ایرانی گھوڑوں کی آنکھیں پھوٹ گئیں تو وہ اپنے سواروں کو دجلہ میں گراتے ہوئے واپس دوڑے۔ حضرت عاصم کا دستہ کنارے پر پہنچا تو تمام ایرانی بھاگ لیے اورجب حضرت قعقعاع اور ان کے ساتھی پار اترے تودریا کا کنارہ خالی تھا۔اب حضرت سعد نے تمام سواروں کو دریا میں کودنے کا حکم دیا۔دجلہ اسلامی لشکر سے بھر گیا ،اس وقت پانی نہیں، ہر طرف گھوڑوں اور گھڑ سواروں کے سر نظر آتے تھے۔ پار سے کشتیاں لا کر پیادوں اور ساز و سامان کو منتقل کیا گیا۔ یوں دجلہ سیل اسلامی کی ایک موج اور’’بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ عہد فاروقی کے اس اہم واقعے کی تلمیح بن گیا۔اس سارے معرکے میں محض بنو طے کا ایک شخص شہیدہوا،دجلہ عبور کرتے ہوئے ایک مسلمان کا لکڑی کا پیالہ دریامیں گر گیا ، اسے بھی پکڑ لیا گیا۔اگر ۱۴ویں صدی عیسوی میں تیمور لنگ نے اسی طرح دجلہ عبور نہ کیا ہوتا تو شاید مستشرقین کو یہ واقعہ ماننے میں بھی تامل ہوتا۔
تمام اہل مدائن فرار ہو چکے تھے ، قلعہ بندوں نے جزیہ مانا اور قصر ابیض مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔قائد جیش اسلامی حضرت سعد نے ساسانیوں کے ا س محل میں داخل ہو کر شکرانے کے نفل ادا کیے،بعد ازاں انھوں نے شاہی ایوان کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ اس محل میں ۳۰ کھرب دینار کا خزانہ،تحائف اور آرایش و زیبایش کا سامان تھا۔حضرت سعد نے یزدگرد کو پکڑنے کے لیے ایک فوجی رسالہ روانہ کیا ،بادشاہ تو ان کے ہاتھ نہ آیا، البتہ وہ قافلے کے کچھ افراد اور شاہی خزانہ لے آئے،خسروی تا ج اور خلعتیں بھی ان کے ہاتھ لگیں ۔ اس طرح کے مواقع پر فاتح لشکر کے سپاہی لوٹ مار کرتے ہیں اور اپنی جیبیں خوب بھرتے ہیں، دنیا کو حیرت ہو گی کہ ایسا ایک واقعہ بھی پیش نہ آیا۔حضرت سعد بن ابی وقاص کو کہنا پڑا کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کی فوقیت کا فیصلہ نہ فرمایا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ فوجی بھی بدریوں جیسی فضیلت رکھتے ہیں۔جنگ ردہ میں مرتدین کی سربراہی اور پھر ارتداد سے توبہ کرنے والے طلیحہ،عمروبن معدی کرب اور قیس بن مکشوح اس معرکے میں بھی شریک تھے۔جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے ان کے بارے میں گواہی دی، میں نے ان جیسا امانت دار نہیں دیکھا۔حضرت سلیمان باہلی مال غنیمت کی تقسیم پر مامور تھے۔ مال غنیمت کا ۵/۴ واں حصہ فوجیوں میں تقسیم کیا گیا۔ ۶۰ ہزار گھڑ سواروں نے اس جہاد میں حصہ لیا تھا ، ہر ایک کے حصے ۱۵ ہزار دینار آئے۔ حضرتسعد نے مدائن کے خالی گھر بھی فوجیوں میں بانٹ دیے ،ان میں سے کچھ نے اپنے با ل بچے حیرہ اور دوسرے شہروں سے لا کر ان گھروں میں بسادیے۔ خمس الگ کرتے ہوئے حضرت سعد نے اہل لشکرکی اجازت سے وہ بیش قیمت ریشمی شاہی قالین بھی اس میں شامل کر دیاجس پر سونے،موتیوں اور جواہرات سے ایران کا نقشہ بنا ہواتھا ۔ بشیر بن خصاصیہ اس مال کو لے کر مدینہ پہنچے۔سیدنا عمر نے حضرت سراقہ بن مالک کو بلا کر کسریٰ کا لباس ،تاج اور کنگن سونپے۔یوں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت فرمائی تھی۔پھر حضرت عمر نے ہاتھ بلند کیے اور دعا کی:اے اﷲ، تو نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نعمتیں نہیں دیں، حالانکہ وہ تمھیں زیادہ محبوب تھے اور تو نے ابو بکر(رضی اللہ عنہ) کو بھی ان سے محروم رکھا،حالانکہ وہ تمھیں مجھ سے زیادہ پیارے تھے۔میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تو نے یہ سب مجھے آزمانے کے لیے دیا ہو۔پھر وہ اتنا روئے کہ ان کے پاس موجود ہر شخص کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔ انھوں نے حضرت عبد الرحمان بن عوف کی ذمہ داری لگائی کہ شام ہونے سے پہلے پہلے ان کے حصے کا مال تقسیم کر دیا جائے۔پھر انھوں نے خمس اہل مدینہ میں تقسیم کیا ، ہر ایک کا حصہ اس کے مقام و مرتبے کے مطابق متعین کیاگیا،جو لوگ موجود نہ تھے ،ان کا حصہ الگ کر دیا گیا ۔اب حضرت عمر فاروق نے قالین کے بارے میں صحابۂ کرام کی رائے لی، اس موقع پر حضرت علی نے خوب حق نصیحت اداکیا۔انھوں نے کہاکہ اگر آپ نے قالین کو اسی شکل میں برقرار رکھا تو کل کلاں کوئی شخص استحقاق کے بغیر ہی اس کا مالک بن بیٹھے گا۔حضرت عمر کی دنیا سے بے رغبتی دیکھیے، اس مشورے سے بہت خوش ہوئے ۔انھوں نے فی الفور اس قیمتی قالین کے کئی ٹکڑے کر کے لوگوں میں بانٹ دیے۔ قالین کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ علی رضی اﷲ عنہ کے حصے میں آیا ہوامعمولی ٹکڑا ۲۰ ہزار دینار میں بکا۔
ادھر ایوان کسریٰ میں اذان و اقامت کی آوازیں بلند ہوتیں،حضرت سعد امامت کراتے اور لوگوں کو وعظ کہتے۔ انھوں نے ایرانیوں سے مزید جنگ کرنے کی کوئی پلاننگ نہ کی، کیونکہ خلیفۂ ثانی کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہ ملا تھا، البتہ وہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے ایران کی بھگوڑی قوت مقتدرہ کی کھوج میں رہتے ۔انھیں معلوم ہواکہ یزدگرد حلوان جا رہا تھا کہ ایران کے اطراف و اکناف سے بے شمارفوجی اور جنگ جو اس کے ساتھ آ ملے ہیں۔اس نے مہران کو ان کا کمانڈر مقرر کر کے اس نئی فوج کو مدائن سے ۶۵ کلو میٹر دور جلولا کے قلعہ نما شہر میں بھیج دیا ہے۔ قادسیہ میں مسلمانوں کے ہاتھ ہلاک ہونے والے ایرانی جرنیل رستم کا بھائی خرزادبن فرخ زاد بھی وہاں جنگی تیاریوں میں مشغول ہے۔ اس نے جلولا کے گرد خندق کھدوا کر اس کے گرد لوہے کی خاردار تار نصب کروا دی ہے اورشہر کو آنے والے تمام راستوں پرکانٹے (گوکھرویابھگھڑے کے خار)بچھوا دیے ہیں۔ہر طرح کے ہتھیار اور کیل کانٹے سے لیس ایک نیا لشکر تیار ہواچاہتا ہے ۔ ایرانی اس فوجی اجتماع سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر فاروق سے ہدایات مانگیں ۔انھوں نے حکم ارسال کیاکہ ہاشم بن عتبہ ۱۲ ہزار فوج لے کر جلولا روانہ ہوجائیں اور قعقاع بن عمرو کو مقدمہ پر مقرر کیا جائے۔ خلیفۂ ثانی نے میمنہ و میسرہ پر دو بھائیوں حضرت سعد بن مالک اور حضرت عمر بن مالک اور ساقہ پر حضرت عمرو بن مرہ جہنی کی تقرریاں بھی کیں۔یہ صفر ۱۷ھ کا واقعہ ہے ۔ہاشم چوتھے روز جلولا پہنچے تو ایرانیوں کو قلعہ بند پایا۔ انھیں حلوان سے جبکہ مسلمانوں کو مدائن سے کمک پہنچ رہی تھی۔محاصرہ شروع ہواتو اڑھائی ماہ جاری رہا ۔اس دوران میں ایرانی قلعہ سے نکل کر مسلمان محاصرین پر حملہ بھی کرتے، لیکن شکست کھا کر لوٹتے۔تنگ آ کر ایک صبح مہران نے اسلامی فوج پر حملہ کر دیا۔ تیروں ، تلواروں ،نیزوں اور کلہاڑوں سے ہونے والی یہ جنگ عصر تک کسی نتیجے پر پہنچتی نظر نہ آتی تھی۔ نماز قصر ادا کرنے کے بعد حضرت قعقاع نے سپاہیوں کو یک جان ہو کر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کا حکم دیا۔ان کی کمان میں اسلامی فوج نے خندق تک یلغار کر لی تھی کہ اندھیری رات ہو گئی،سپاہی جنگ اگلے دن کے لیے موقوف کرنا چاہتے تھے۔حضرت قعقاع نے حملہ جاری رکھنے کو کہا ۔سخت لڑائی شروع ہوئی تو ایرانی گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے۔اس ایک رات میں ایک لاکھ ایرانی کھیت رہے، باقیوں نے حلوان کو راہ فرار اختیار کی جہاں ایران کا شکست خوردہ بادشاہ یزدگرد مقیم تھا ۔ حضرت قعقاع نے ان کا پیچھا کیا ،مہران مارا گیا جبکہ فیرزان جان بچا کر یزدگردتک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔وہ حلوان پہنچے تو معلوم ہواکہ یزدگر د وہاں سے بھی فرار ہو کر رے جا چکا ہے،جاتے ہوئے اس نے خسرو شنوم کی کمان میں ایک فوج وہاں متعین کر دی ہے۔ شنوم نے شہر سے نکل کرحضرت قعقاع کا مقابلہ کیا،مگر اسے شکست کھانی پڑی، اس طرح حضرت قعقاع نے حلوان پر قبضہ کر لیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے جلولا اور حلوا ن کی فتح کی خوش خبری دے کر زیاد کو مدینہ روانہ کیا ، مال غنیمت کا خمس ان کے ساتھ تھا ۔ انھوں نے امیر المومنین سے ملک ایران میں مزید پیش قدمی کرنے کی اجازت بھی مانگی۔زیاد شام کے وقت مدینہ پہنچے۔ فاروق اعظم بہت خوش ہوئے،انھوں نے صحابۂ کرام کو جمع کر کے تمام واقعات تفصیل سے سنے۔ پھر مال غنیمت کی نگرانی وحفاظت کرنے کا انتظام کیا اور حکم دیاکہ یہ انبار صحن مسجد میں اسی طرح موجود رہے۔ اگلے دن فجر کے بعد انھوں نے تمام مال و اسباب لوگوں میں تقسیم کیا ۔ جواہرات کے ڈھیر اور کثرت سے موجود بیش قیمت مال غنیمت دیکھ کرسیدنا عمر رو پڑے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہاکہ امیرالمومنین، یہ تو مقام شکر ہے، آپ رورہے ہیں؟ان کا جوا ب تھا:اﷲ تعالیٰ جس قوم کو دنیا کی دولت عطا فرماتاہے، اس میں رشک و حسد پیدا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں تفرقہ پڑجاتا ہے ۔مجھ کو اسی تصور نے رلا دیا۔ انھوں نے حضرت سعد کے خط کا جواب بھی ارسال کیاکہ مسلمانوں نے ایران و عراق میں پیہم صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ابھی چند روز اپنے لشکر کو آرام کرنے کا موقع دو۔
ادھر اسلامی افواج کے کمانڈران چیف حضرت ابوعبیدہ بن جراح ذو الکلاع میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے،ان کی منزل حمص(امیسا)تھی۔ حمص شام کا ایک شہر اور ضلع ہے ۔یہاں سورج کا مندر تھا جہاں دور دور سے بت پرست پوجا کرنے آتے۔ حمص، انطاکیہ اور بیت المقدس ہی چندبڑے اور مرکزی مقامات رہ گئے تھے۔ جہاں شرک کی حکمرانی تھی۔ حضرت ابوعبیدہ ابھی ذوالکلاع میں تھے کہ قیصر روم ہرقل نے قوذر بطریق(آتش پرستوں کا پجاری) کو ان کا راستہ روکنے بھیجا۔اس کی فوج حمص سے چل کر مرج روم پہنچی تھی کہ قیصر نے اس کی کمک کے لیے شمس بطریق کا دستہ روانہ کیا۔ دونوں بطریقوں(پجاریوں)کی فوج اسلامی فوج سے آ ٹکرائی ۔شمس بطریق حضرت ابو عبیدہ کے ہاتھوں مارا گیا اور رومی پیٹھ پھیر کر واپس حمص بھاگے۔قیصر اپنی فوج کی ہزیمت دیکھ کر الرابا کو کوچ کر گیا۔اب حضرت ابوعبیدہ بن جراح مرج روم سے اپنی فوج لے کر حمص آ ئے،انھوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ ہرقل نے بہت کوشش کی کہ باہر رہ کر اہل حمص کو مدد پہنچائے، لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔ آخر کار اہل حمص مجبور ہو گئے کہ مسلمانوں سے انھی شرائط پر صلح کر لیں جو دمشق والوں نے اپنا شہر مسلمانوں کے حوالے کرتے ہوئے مانی تھیں۔ حمص زیر ہواتو حمص اور قنسرین کے درمیان واقع ایک شہرحمات(حماۃ)پر حملہ کیا گیا،وہاں کے سکان نے بھی جزیہ دینے کی شرط مان کر صلح کر لی۔اب شیرز اور معرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ لاذقیہ کے رہنے والے عیسائیوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا، مگر وہ بھی مغلوب و مفتوح ہوئے پھر سلمیہ مسلمانوں کے قبضے میںآیا۔اس موقع پرحضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد بن ولید کی کمان میں ایک فوج قنسرین روانہ کی۔وہاں ہرقل کا نائب میناس موجودتھا، اس نے حضرت خالدبن ولید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، لیکن اﷲ کی تلوار سیدناخالدکے آگے اس کی کچھ نہ چلی ۔ وہ قنسرین میں قلعہ بند ہوگیا،مسلمانوں کا محاصرہ کچھ دیر جاری رہا ،انجام کار اہل قنسرین نے ہتھیار ڈال دیے۔حضرت عمر اس فتح سے بہت خوش ہوئے ، انھوں نے حضرت خالد کے اختیارات میں نمایاں اضافہ کر دیا۔
اب حضرت ابوعبیدہ حلب جا رہے تھے ۔ابھی وہاں پہنچے نہ تھے کہ اطلاع آئی کہ قنسرین والے معاہدۂ صلح توڑ کر آمادۂ بغاوت ہو گئے ہیں۔انھوں نے فی الفورایک فوجی دستہ واپس قنسرین روانہ کیا۔ اہل شہرپھر محصور ہوئے اور انجام کار بھاری تاوان دے کرچھوٹے ۔ حضرت ابو عبیدہ حلب سے دور تھے کہ عیاض بن غنم کی سر براہی میں ان کے بھیجے ہوئے مقدمہ نے حلب شہر کا محاصرہ کر لیا۔ حلب کے باشندگان نے بھی اب تک کی شرائط فتح پر صلح کی اور شہر عیاض بن غنم کے سپرد کر دیا۔ صلح نامے پر حضرت ابو عبیدہ کے دستخط ثبت ہوئے۔
مطالعۂ مزید:البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )،تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2007
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jan 06, 2017
4027 View