عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (2) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (2)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

عمر رضی اﷲ عنہ کو اپنے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کا یقین ہوگیا تو وہ ا س فکر میں مصروف ہو گئے کہ آپ کے بعد ملت اسلامیہ کی کیا صورت ہو گی؟ انھیں علم تھاکہ صرف مسلمانوں کی وحدت ہی انھیںآنے والے فتنوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے، چنانچہ وہ فوراً امین امت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس پہنچے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی اجازت چاہی۔ انھوں نے جواب دیا: جب سے تم نے اسلام قبول کیا ہے ، میں نے ایسی نادانی کی بات تم سے نہیں سنی۔ کیاتم میری بیعت کرو گے، جب کہ ثانی اثنین صدیق ہمارے درمیان موجود ہیں؟ ان کی گفتگو جاری تھی کہ انھیں سقیفۂ بنی ساعدہ میں انصار کے اجتماع کی خبر ملی۔ عمر نے فوراً ابو بکر کو بلایا جورسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے انتظام میں مصروف تھے اور یہ تینوں سقیفہ کی طرف چل پڑے ۔ابوبکر نے بڑی نرمی سے انصار کو سمجھایا کہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں خلیفہ قریش سے ہونا چاہیے۔ عمر خاموش بیٹھے رہے،جب حباب بن منذر نے انصار و مہاجرین سے دو الگ الگ خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم قریش میں سے تھے اور عرب صرف قریش ہی کی خلافت پر راضی ہوں گے ۔ان دونوں میں تلخ کلامی ہوئی تو ابو عبیدہ نے یوں مداخلت کی: اے انصاریو، تم نصرت و حمایت میں سب سے آگے تھے، اب اس حمایت دین کو چھوڑنے اور بدل دینے میں اولیت نہ اختیار کرو۔ان کی اس بات سے انصار نرم پڑے ،ابوبکر نے اتحاد امت کے لیے یہ موقع غنیمت جان کر عمر اور ابو عبیدہ، دونوں کا ہاتھ پکڑا اور انصار کوان میں سے ایک کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت دی۔ اس مرحلے پر سیدنا عمر ہی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، انھوں نے ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو ہاتھ بڑھانے کو کہا اور یہ کہہ کر ان کی بیعت کر لی کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ ہی کو مسلمانوں کی امامت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ،آپ ہی خلیفۂ رسول ہوں گے۔عمر کے بعد ابو عبیدہ اورانصار کے بشیر بن سعد نے بیعت کی اور پھر تمام مہاجرین و انصار بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ یوں خلافت کا یہ قضیہ بخیر وخوبی انجام کو پہنچا۔دوسرے روز عمر نے لوگوں سے معذرت کی کہ مجھے غلط فہمی تھی کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود رہیں گے، اس لیے مجھ سے ایسا طرز عمل سرزد ہوا، انھوں نے سب مسلمانوں کو خلیفۂ اول کی بیعت عام کی دعوت دی۔
خلافت کا فیصلہ ہونے کے بعددوسرا اہم مسئلہ جیش اسامہ کو روانہ کرنا تھا۔ اسامہ بن زید نے عمر رضی اﷲ عنہ کی وساطت سے حضرت ابو بکر سے درخواست کی کہ وہ ان کے جیش کو مدینہ بلا لیں تاکہ وہ مشرکین کے خلاف ان کی مدد کرسکے ۔ادھر انصار نے عمر کے ہاتھ خلیفۂ اول کو پیغام بھیجا کہ اگر لشکرضرور بھیجنا ہے تو اسامہ سے زیادہ عمر رکھنے والا جرنیل مقرر کریں۔ عمر یہ دونوں مطالبات لے کر ابو بکر کے پاس پہنچے تو انھوں نے انتہائی سخت جواب دیا کہ اگر مجھے کتے اور بھیڑیے اچک لے جائیں تو بھی اس فیصلے کو رد نہ کروں گا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا ہو۔ اس لشکر میں عمر ایک عام سپاہی کی حیثیت سے شامل تھے،ابو بکر لشکر کو رخصت کرکے واپس لوٹنے لگے تھے کہ انھوں نے اسامہ سے درخواست کی کہ عمر کو میری مدد کے لیے چھوڑ جائیں،ان کی اجازت ہی سے عمر مدینہ آ سکے۔مدینہ کے پڑو س میں رہنے والے قبائل عبس و ذبیان نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو بھی ان دو جلیل القدر اصحاب رسول کا اختلاف ظاہر ہوا۔ عمر ان لوگوں میں شامل تھے جومانعین زکوٰۃ کے خلاف فوج کشی نہ کرناچاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جس نے کلمۂ لا الٰہ کہہ دیا مجھ سے اپنے مال و جان بچا لیے ۔ ابوبکرنے جواب دیا کہ اﷲ کی قسم میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا، اس لیے کہ یہ دونوں فرائض اس کلمے ہی کا حق ہیں ۔عمر فرماتے ہیں کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ اﷲ نے ابو بکر کو اس بارے میں شرح صدر عطا کیا ہے، میں نے تب جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔مانعین سے نمٹنے کے بعد مرتدین سے جنگ کا مرحلہ آیا تو عمر اور دوسرے اصحاب رسول نے کوئی اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ ابو بکر کی فراست و بصیرت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ اسی سلسلے کی جنگ بطاح میں اسلامی فوج کے سپہ سالارخالد بن ولید نے مرتد قبیلے بنو تمیم کے سردار مالک بن نویرہ کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوہ سے شادی کر لی تو اس معرکے میں شریک ایک انصاری صحابی ابوقتادہ اور مالک کا بھائی متمم بن نویرہ مدینہ آئے۔یہ دونوں سیدنا ابوبکر سے ملے اور الزام لگایا کہ مالک کو اسلام قبول کرنے کے بعد قتل کیا گیا اور خالد اس کی بیوی کو زمانۂ جاہلیت سے پسند کرتے تھے۔ ابوبکر نے مالک کی دیت اس کے بھائی کو ادا کی،ابو تمیم کے قیدیوں کو چھوڑنے کاحکم دیا اور ابوقتادہ کی خالد پر طعنہ زنی کو نا پسند کیا۔ابو قتادہ حضرت عمر کے پاس جا پہنچے، سیدنا عمر نے خلیفۂ اول سے مطالبہ کیا کہ وہ خالد سے مالک کاقصاص لیں۔وہ نہ مانے پھر سیدنا عمر نے خالد کی معزولی پراصرار کیا،بات اس وقت ختم ہوئی، جب ابوبکر نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں اس تلوار کو میان میں نہ ڈالوں گا جو اﷲ نے کافروں پر سونتی ہے ۔خالد مدینہ آئے تو ابوبکر نے انھیں تنبیہ کر کے مسیلمہ کذاب کی سر کوبی کے لیے روانہ کر دیا ۔جنگ یمامہ کے بعد خالد بن ولید نے بنو حنیفہ کے سردار مجاعہ کی نوجوان بیٹی سے شادی کی تو ابو بکر نے انھیں خط لکھا کہ تمھارے سامنے ۱۲۰۰ مسلمان شہیدہوئے اور تم عورتوں سے نکاح کرتے پھرتے ہو۔ خالد نے خیال ظاہر کیا، اس سرزنش کے پیچھے میرے بھانجے عمر بن خطاب کا ہاتھ ہے۔
یمامہ کی جنگ میں قرآن کے کئی حفاظ شہید ہوئے تو عمر ہی تھے جنھوں نے ابو بکرکو مشورہ دیا کہ قرآن مجید کو مصحف کی شکل میں جمع کیا جائے۔ وہ متردد تھے کہ یہ کام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو میں کیسے کروں ؟ عمر نے انھیں دلائل سے قائل کیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب زید بن ثابت کے ہاتھوں یہ عظیم فریضہ سر انجام پایا۔ ابوبکر نے مسلمانوں سے عراق کی طرف فوجیں بھیجنے کے بارے میں مشورہ کیا تو کسی نے حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ عمرنے پکار کر کہا: لوگو ، تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تمھیں ایک ایسے کام کی دعوت دے رہے ہیں جس میں تمھاری بقا اور زندگی ہے تب سب جہاد کے لیے آمادہ ہو گئے۔عراق کی جنگ انتہائی اہم تھی ،اس میں فتح ہوئی تو عظیم اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ ابو بکرکے عہد خلافت میں عمر دو سال قاضی رہے، مگر ان کے پاس کوئی قضیہ نہ آیا،یہ اس پاکیزہ دور کی کرامت سے اور عمر کے بے لاگ عدل کی شہرت کی وجہ سے ہوا۔کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ ان کے سامنے غلط حقائق پیش کر کے یا چرب زبانی سے کام لے کر اپنے حق میں فیصلہ کرا سکتا ہے۔ مر ض الموت میں ابو بکر نے خلیفہ کا انتخاب کرنا ضروری سمجھا، عبد الرحمان بن عوف ، عثمان،سعید بن زیداور دوسرے اصحاب رسول کے مشورے سے انھوں نے عمر بن خطاب کو اپنا جان نشین مقرر کیا، انھوں نے مسجد نبوی میں جھانک کر وہاں موجود لوگوں سے اپنے فیصلے کی تائیدبھی کرائی۔پھر انھوں نے عمر کو بلایا اور عراق و شام میں جنگ جاری رکھنے کی وصیت کی، انھوں نے ان کو حق پر چلنے کی تلقین کی۔
۲۲ جمادی الثانی ۱۳ھ کی رات ابو بکر کی تدفین سے فارغ ہو کرعمر گھر آئے اور اگلے روز ،اپنی خلافت کے پہلے دن کی مصروفیت کے بارے میں سوچنے لگے۔ انھوں نے اﷲ سے صحیح راہ سجھانے کی دعا کی۔فجر کی نماز کے بعدان کی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا ،ظہر کے وقت خوب بھیڑ ہو گئی تو وہ منبر پر بیٹھے اور حمد و ثنا اور صلاۃ و سلام کے بعد ابوبکر کے فضائل بیان کیے اور فرمایا کہ لوگو، میں تمھاری طرح کاآدمی ہوں اگر مجھے خلیفۂ رسو ل اﷲ کی حکم عدولی کا خوف نہ ہوتا تو میں تمھاراسر براہ نہ بنتا ۔ انھوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور دعا کی کہ اے اﷲ ،میں سخت ہوں،مجھے نرم کر دے۔ اے اﷲ، میں کمزور ہوں، مجھے قوت دے دے۔ا ے اﷲ، میں بخل رکھتا ہوں، مجھے سخی دل بنا دے۔پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے تمھار ا جو معاملہ درپیش ہو گا ،اسے اچھے طریقے سے اور امانت داری سے نمٹانے میں کوئی کسر نہ چھوڑوں گا۔نماز کی امامت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے حاضرین کو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ عراق جانے کی دعوت دی۔ لوگوں نے تردد ظاہر کیا، کیونکہ انھیںیاد تھا کہ شام کا معرکہ ابو عبیدہ بن جراح ،عمرو بن عاص اور یزید بن ابو سفیان سے سر نہ ہوا تھا اور خالد بن ولید ہی کی مدد سے اس میں فتح حاصل ہوئی تھی۔عمر نے توقف کیا اور واپس مسجد نبوی کو ہو لیے جہاں لوگ ان کی بیعت کرنے کے منتظر تھے۔عشا کے بعد فراغت ہوئی ،یہ رات بھی انھوں نے سوچتے سوچتے جاگ کر گزاری۔ بیعت اگلے دن بھی مسلسل جاری رہی،ظہر کے وقت انھوں نے سب کو ہدایت کی کہ ارتداد کی جنگوں میں مرتدین کے پکڑے ہوئے قیدی لوٹا دیں۔
بیعت تیسرے روز بھی جاری رہی ،جب لوگ نماز ظہر ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو عمر نے ان سے پھر خطاب کیا، مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوگ میری سختی سے خوف زدہ ہیں۔ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے غلام اور خادم کی طرح رہا،میں ایک تلوار کی طرح تھا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم اس تلوار کو میان کے اندر کر دیتے۔ ابوبکر خلیفہ بنے تو میں ان کا ساتھی اور مددگار بن گیا، میری سختی ان کی نرمی سے مل جاتی اور وہ مجھے کنٹرول کر لیتے۔ تمھارے معاملات کی ذمہ داری مجھ پر آئی تو میری سختی نرم پڑ گئی ہے ۔اب یہ مسلمانوں پر ظلم و تعدی کرنے والوں کے لیے مخصوص ہو گئی ہے ، دین و سلامتی رکھنے والوں کے لیے میں تم سب سے زیادہ نرم ثابت ہوں گا۔جو کسی پرظلم کرے گا ، میں اس کا رخسار زمین پر رکھ کر اس کے دوسرے رخسار پر اپنا پاؤں رکھ دوں گاحتیٰ کہ وہ حق کا اقرار کرے۔اس کے ساتھ ساتھ امن کے ساتھ رہنے والوں اور نیکی کرنے والوں کے لیے میں اپنے گال زمین پر بچھا دوں گا۔مجھ پر لازم ہے کہ تمھاری آمدن میں سے کوئی نا جائز وصو لی نہ کروں،تمھیں زیادہ وظیفے دوں ،تمھاری سرحدوں کی حفاظت کروں اور تمھیں گھروں سے زیادہ دور نہ رکھوں۔اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے میری مدد کرو۔ پھرعمر نے ظہر کی نماز پڑھائی اور گھر چلے گئے۔لوگ ان کی تقریر سے متاثر ہوئے، البتہ عراق و ایران جانے سے خوف زدہ رہے۔عصر کے وقت مثنیٰ بھی آئے ،انھوں نے کہا کہ لوگو، ہم نے ایران کے بہترین سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے ،ان شاء اﷲ ہمیں آیندہ بھی فتوحات حاصل ہوں گی۔ پھر عمر گویا ہوئے کہ اﷲ اپنے دین کو غالب کر رہا ہے، وہ اپنے مددگار کو غلبہ عطا کرے گا اور اپنے بندوں کو امتوں کی میراث دے گاتو کہاں ہیں اﷲ کے نیک بندے؟ ابو عبید ثقفی اور سلیط بن قیس بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے۔ رفتہ رفتہ مدینہ سے ایک ہزار مسلمان جہاد میں شامل ہونے کونکل آئے۔ حضرت عمر مسلمانوں کا یہ اجتماع دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اب اس دستے کی سربراہی کا مسئلہ تھا جس میں صرف اہل مدینہ شامل تھے، یہ لوگ بنو بکر بن وائل کے مثنیٰ کو قیادت نہیں دینا چاہتے تھے۔ عمر نے پہلے رضاکار ابو عبید کو لشکر کی قیادت سونپی، انھیں اصحاب رسول سے مشورہ کرنے اور جنگ میں جلد بازی سے بچنے کی نصیحت کی پھرلشکر کو فوری طور پر کوچ کرنے کا حکم دیا ۔
حضرت ابو بکر کی وفات کے اگلے روز ہی حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو خط لکھا جس میں خلیفہ کی وفات کی خبر کے ساتھ حضرت خالد بن ولید کی معزولی اور ان کی جگہ ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر کرنے کا فرمان درج تھا۔ انھوں نے یہ نصیحت بھی لکھی کہ مال غنیمت کی امید میں مسلمانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد کو فوری طور پر معزول کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ اہل تاریخ نے اس ضمن میں بہت کلام کیا ہے ۔اصل میں وہ حضرت ابوبکر کے عہدہی میں انھیں ہٹوانا چاہتے تھے، لیکن ان کے بار بار کے مشوروں کو ابو بکر نے رد کیا۔ ابو بکرخالد کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد ات کو اپنا مطمح نظر بنائے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو سیف اﷲ قرار دیا تھا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قرار دی ہوئی تلوار کو میان میں ڈالناابو بکرکے بس میں نہ تھا۔پھر خالد کی کارکردگی ایسی رہی کہ کوئی اس معیار تک نہ پہنچ سکا ۔ان کے بر عکس عمر سخت محاسبہ کرنے والے تھے، اپنے دور خلافت میں انھوں نے اپنے گورنروں اور عمال کا کڑا محاسبہ کیا، لہٰذا ان کے مزاج کے مطابق اس کے سوا کوئی فیصلہ نہ ہو سکتا تھا کہ اپنے سپہ سالار کے کردار پر کوئی داغ دھبہ بھی برداشت نہ کیا جائے اور اسے چلتا کیا جائے۔ خالد کے بارے میں ان کی رائے پہلے سے بنی ہوئی تھی اور اسی پرانھوں نے عمل کر دیا۔ ان کو خالد پریہ اعتراض بھی تھا کہ وہ جنگ میں جلد بازی کرتے ہیں جس سے بے گناہ افراد کی جانوں کو خطرہ رہتا ہے ۔ اس کے برعکس وہ ابو عبیدہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے،ان کے پیش نظر بھی آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد رہا جس میں آپ نے ابو عبیدہ کو اس امت کا امین قرار فرمایا تھا ۔ سربراہ مملکت کے لیے اپنی پسند کے ماتحت کے ساتھ کام کرنا آسان ہوتا ہے، وہ اس کی بات یہاں تک کہ اشارے کو سمجھ لیتا ہے یوں امور مملکت نمٹانا آسان ہو جاتا ہے ، یہ امر بھی اس سلسلے میں فیصلہ کن رہا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کے ساتھ باہم امن وسلامتی سے رہنے کے معاہدات فرمائے، لیکن جب انھوں نے بدر و احد کی جنگوں میں مشرکوں کی مدد کر کے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے قتال کر کے انھیں مدینہ سے نکال باہر کیا۔ محض خیبر میں کچھ یہودی رہ گئے جو نصف پیداوار دینے کی شرط پر اپنی زمینیں کاشت کرنے کے لیے آزاد تھے۔ نجران کے عیسائیوں سے بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جزیہ وصول کرنے کی شرط پر صلح فرمائی۔ خلافت صدیقی میں یہ معاہدے برقرار رہے۔ عمرفاروق خلیفہ بنے تو انھوں نے ان عہود پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی، ان کی دلیل تھی کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں نصیحت فرمائی تھی: جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہنے دیے جائیں۔ (مسند احمد، مسند سیدہ عائشہ) انھوں نے یمن کے گورنر یعلیٰ بن امیہ کو ذمہ داری سونپی کہ نجران کے عیسائیوں میں سے جو اپنے دین پر قائم رہنا چاہتا ہے، اسے حدود عرب سے نکال کر یمن یاجزیرۂ عرب کے نواح میں آباد کردیا جائے۔ مستشرقین نے عمر رضی اﷲ عنہ کے اس اقدا م کو تعصب قرار دیا ہے۔ مسلمان مورخین نے اس کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے بعض درست بھی ہیں، لیکن صحیح وجہ یہ ہے کہ عہدفاروقی میں جزیرہ نماے عرب کی وحدت قائم ہو چکی تھی، اس لیے پیغمبر علیہ السلام کے اس فرمان پر عمل کرنا ممکن ہو گیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو تلقین کی کہ اہل نجران کوعیسائیت پر قائم رہنے کی کامل آزادی دی جائے ، ان کی جان ومال کا تحفظ کیا جائے اور انھیں جزیرۂ عرب سے باہر ویسی ہی یا اس سے بہتر زمینیں دی جائیں جس طرح کی وہ حدود عرب میں رکھتے تھے ۔خلیفۂ ثانی کے اس حکم کو گزشتہ صدی کی پروٹسٹنٹ اورکیتھولک عیسائی حکومتوں کے طرز عمل سے کسی طرح مشابہ قرار نہیں دیا جا سکتا جو انھوں نے اپنے اپنے مخالف فرقے کے عیسائیوں کو جلا وطن کرکے، انھیں گوناگوں اذیتیں دے کر اور ان کی جانیں لے کر روا رکھا۔ عیسائیوں کے بعد عمر نے خیبر کے یہودیوں کو بھی جزیرۂ عرب سے باہر آباد ہونے کا حکم دیا تو کسی کو حیرت نہ ہوئی، کیونکہ یہ ان کی اسی پالیسی کا تسلسل تھا۔
مطالعۂ مزید: الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین)، رحمۃ للعالمین (قاضی سلیمان منصور پوری)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Nov 30, 2016
3092 View