عمر فاروق رضی اللہ عنہ (1) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی اللہ عنہ (1)

 [’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

عمر بن خطاب کی تاریخ پیدایش معلوم نہیں، البتہ ہجرت کے وقت ان کی عمر چالیس سال سے کچھ کم تھی۔ اس حساب سے وہ عام الفیل کے۱۳سال بعداور حرب فجارکے ۴ سال بعد پید ا ہوئے ہوں گے ۔ عیسوی حساب سے ان کا سن پیدایش قریباً ۵۸۱ء بنتا ہے۔ وہ قریش کے قبیلہ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے عدوی کہلاتے تھے۔یہ قبیلہ بنو ہاشم اور بنو امیہ جیسا مرتبہ نہ رکھتا تھا، البتہ بنو عبد شمس سے ان کا مقابلہ رہتا تھا۔ بنوعدی میں علم و حکمت کا چرچا ہوا تو قبائل میں اٹھنے والے جنگ وامن یا قبائلی مفاخرت کے تنازعات نمٹانے کی ذمہ داری (سفارت مفاخرت)اسے سونپی گئی۔اس موروثی وزارت پر عمر بھی فائز ہوئے۔ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی مملکت قائم فرمائی تو انھیں ان کے منصب پر بحال فرمایا۔
عمررضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب یوں ہے: عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اﷲ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔عدی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے آٹھویں جدمرہ بن کعب کے بھائی تھے، اس طرح کعب پر ان کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے ۔ بتوں کی پوجا سے کنارہ کشی کرنے والے زید بن عمروبن نفیل بھی بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ عمرکے والدخطاب بن نفیل زید بن عمرو بن نفیل کے چچا ہونے کے ساتھ ماں جاے بھائی بھی تھے، اس لیے کہ ان دونوں کی ماں جیداء پہلے نفیل اور پھر ان کے بیٹے عمرو کے نکاح میں رہی۔ جاہلیت میں ایسی شادیاں عام تھیں، قرآن مجید نے انھیں’ زواج مقت ‘(گناہ کی شادی)کا نام دے کر حرام کردیا۔جب زید نے بتوں کی پوجا اور ان کے چڑھاوے چھوڑے اور لوگوں کو بھی ان کی عبادت سے منع کرنے لگے تو خطاب نے ان کی شدید مخالفت کی اورقبیلے کے لوگوں کے ساتھ مل کرانھیں مکہ سے باہر نکال دیا۔ خطاب نے عربوں کی مشہور جنگ حرب فجار میں بھی شرکت کی ۔
خطاب نے کثرت اولاد کی خاطر کئی شادیاں کیں ، ان کی ایک زوجہ حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ بن عبد اﷲ بن عمر بن مخزوم سے عمر پیدا ہوئے۔ اپنے قبیلے میں ایک ممتاز مقام رکھنے کے باوجود خطاب مال و دولت والے نہ تھے،ایک زمانے میں وہ لکڑیاں ڈھوتے تھے ۔ عمر جوان ہوئے تو وہ بھی مکہ کے نواح ضجنان میں اپنے باپ کے اونٹ چرانے لگے ۔عمر کا قد اتنا لمبا تھا کہ کسی بھی مجمعے میں سب سے ممیز نظر آتے۔رنگ سرخی مائل سفیداور جسم بھرا ہوا تھا۔دائیں اور بائیں،دونوں ہاتھوں سے ایک طرح کام کر لیتے۔ کشتی اور گھڑ سواری کے شوق ان کو شروع سے تھے،دوڑتے گھوڑے پراچک کر بیٹھ جاتے ۔پھر شاعری سننے لگے اورماہر انساب بن گئے ۔ ۲۰ سال کے ہوئے تو حج کے موقع پر منعقد ہونے والے بازارعکاظ کے دنگل کی کشتیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور ہر بار جیتتے ،حاجیوں کی اگلی منزل بازار مجنہ کوچ کرنے سے پہلے گھڑدوڑ میں حصہ لیتے اور سب کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ کئی سال ان کا یہ معمول رہا ، ایک سال عکاظ وقت پر نہ پہنچ پائے تو معلوم ہواکہ انھوں نے تجارت شروع کر دی ہے اور اپنے قبیلے عدی بن کعب کی روایت پر عمل کرتے ہوئے قریش اور بنو ثقیف کے مابین ہونے والا تجارتی نزاع نمٹانے میں مصروف ہیں ۔ وہاں سے فارغ ہونے پر اپنے سیاہ گھوڑے پر سوار ہو کر عکاظ آئے ، اپنا سامان تجارت فروخت کیا اور اس میں بھی اول رہے۔
عمر نے سختی اور درشتی اپنے والد سے وراثت میں پائی پھر ان کی پہلوانی نے اسے برقرار رکھا ۔خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے دعا مانگی:’’ا ے اﷲ، میں سخت ہوں ،مجھے نر م کر دے، میں کمزور ہو ں ،مجھے طاقت دے ، میں بخیل ہوں،مجھے سخی کر دے۔‘‘ اپنے والد کی طرح وہ بھی امیر نہ تھے۔شام و یمن اور ایران و روم کی طرف تجارتی سفر کرنے سے بھی ان کی غربت میں کمی نہ آئی،شاید ان کا مزاج تجارت سے لگا نہ کھاتا تھا۔وہ ان سفروں میں مال کمانے سے زیادہ اپنا علم بڑھانے کی سعی کرتے۔بعثت نبوی کے وقت قریش کے کل ۱۷ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے،ان میں ایک عمرتھے۔
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیاتو عمر نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔وہ ان قریشیوں میں سے تھے جو صابیوں (اپنے آبائی دین سے نکل جانے والوں )کے سخت خلاف تھے۔ زید بن عمرو،ورقہ بن نوفل ،عثمان بن حویرث اور عبد اﷲ بن جحش جیسے لوگ ان کے نزدیک گردن زدنی تھے، کیونکہ وہ عام لوگوں کو بھٹکا نے کی پوزیشن میں تھے۔ ۲۵ برس کا جوان ہونے کی وجہ سے ان کا آبائی دین سے تعصب حد سے بڑھا ہوا تھا۔بتوں کی پوجا ٰ چھوڑنے کی دعوت ایسی تھی کہ انھوں نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو خوب برا بھلا کہا اور ان کے قتل کے درپے ہو گئے۔ ان کا ارادہ پختہ تھا کہ بنو ہاشم نے ان کواس عمل کے برے نتائج سے متنبہ کیا تب وہ باز آئے۔مسلمانوں نے حبشہ کوہجرت کی تو ان کا یہ عزم ایک بار پھر عود کر آیا۔ایک بارعمر نے ایک مسلمان ہو جانے والی لونڈی کو اتنا مارا کہ خود تھک کر بے حال ہو گئے،ابوبکروہاں سے گزرے تو انھوں نے اس لونڈی کو خرید کر آزاد کیا۔
مشہور روایت یہ ہے کہ عمر بن خطاب نے بعثت نبوی کے چھٹے سال ہجرت سے ۴ سال قبل ذو الحجہ کے مہینے میں اسلام قبول کیا، تب ۴۵مرداو ر۲۱ عورتیں مسلمان ہوئی تھیں اور عمر۲۷ برس کے تھے۔یہ بھی معلوم ہے کہ اسی وقت حبشہ کو پہلی ہجرت ہوئی جس میں قریباً۹۰ مسلمانوں نے شرکت کی جب کہ ۴۰مسلمان مکہ رہے۔ اس طرح حساب لگایا جائے تو اس وقت کل مسلمانوں کی تعداد ۱۳۰ بنتی ہے۔عمر کے مسلمان ہونے کی وجہ ان کی قومی عصبیت بتائی جاتی ہے،وہ دین قریش پر اسلام کی آمد سے پڑنے والی مصیبت کا ازالہ چاہتے تھے کہ ہجرت حبشہ نے ان میں قریش کے تتر بتر ہونے کاشدید احساس پیدا کر دیا۔ ام عبداﷲ بنت ابو حثمہ سے ان کی جو گفتگو ہوئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے بکھرنے پر رنجیدہ تھے۔انھیں اس کا حل یہی سوجھا کہ اسلامی دعوت کے منبع محمدکو(نعوذ باللہ) قتل کر دیں تاکہ قوم پھر متحد ہو جائے۔ابو جہل نے اس پرانھیں۱۰۰ اونٹ اور ۱۰۰۰ اوقیہ چاندی انعام دینے کا وعدہ کیا۔ وہ اپنی تلوار لہراتے ہوئے دار ارقم کو روانہ ہوئے جہاں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسلمان مجتمع تھے۔راستے میں نعیم بن عبداﷲ ملے ،انھوں نے سمجھایا کہ اگر تم نے محمدکو قتل کیا تو بنو عبد مناف تمھیں جیتا نہ چھوڑیں گے۔تم اپنے گھر کے معاملات کیوں نہیں سدھار لیتے ۔ تمھاری بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی سعید بن زید مسلمان ہو چکے ہیں۔عمرفوراً واپس پلٹے،بہن کے گھر میں حضرت خباب بن ارت سورۂ طہٰ کی تعلیم دے رہے تھے۔ اپنے بہنوئی سے گتھم گتھا ہوئے اور بہن کا سر پھاڑ دیا۔اس سب کے باوجود ان کے ارادے میں کوئی کمی نہ پا کر بالآخر انھوں نے قرآن کا وہ صفحہ مانگا جو وہ پڑھ رہے تھے ۔آیات قرآنی تلاوت کرنے کی دیر تھی کہ ان کی کیفیت بدل گئی اور رونے لگے۔ حضرت خباب نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا اور انھیں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ دعا سناکر دعوت اسلام دے ڈالی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال ہی میں فرمائی تھی:’’اے اﷲ ،اسلام کوابوالحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب کی تائید عطا کر ۔‘‘ عمرنے فی الفور خدمت نبوی میں پیش ہونے کی خواہش کی۔حضرت خباب انھیں کوہ صفا کے قریب ایک گھر میں لے آئے۔ جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور کچھ صحابہ جمع تھے، ان سب کے سامنے عمر نے اسلام قبول کر لیا۔ دوسری روایات کے مطابق جوحضرت عمرنے خود بیان کیں، خانۂ کعبہ میں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سورۂ حاقہ کی آیات’ انہ لقول رسول کریم و ما ہو بقول شاعر قلیلاً ما تؤمنون ولا بقول کاہن قلیلاً ما تذکرون تنزیل من رب العالمین‘’’بے شک یہ ایک بزرگ فرشتے کا (لایا ہوا) کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں،تم بہت کم ایمان لاتے ہو اور نہ قول ہے کسی کاہن کا ،تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔‘‘(۴۰۔۴۳) کی تلاوت سن کر ان کا دل پسیج گیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔(مسنداحمد)
جب حضرت عمر کو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام کے سچا ہونے کا یقین ہو گیا تو ان کی قومی عصبیت حق کے لیے عصبیت میں بدل گئی۔انھیں یقین ہو گیا کہ قوم اس نئے دین کے اندر پھر متحد ہو جائے گی۔حضرت عمر کے قبول اسلام پر آمادہ ہو جانے اور ابو جہل کے کفر پر اصرار کرنے کی ظاہری وجوہ یہ ہیں:ابو جہل بنو عبد شمس میں سے ہونے کی وجہ سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاصمت رکھتا تھا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبد مناف سے تعلق رکھتے تھے، زمانۂ جاہلیت سے ان دونوں قبیلوں میں باہمی مفاخرت کی کشمکش رہی ہے۔ حضرت عمر کے قبیلے بنو عدی اور بنو عبد مناف کے بیچ ایسا تنافس نہ تھا ۔عمررضی اللہ عنہ مسلمان ہوتے ہی اسلام کی تبلیغ پر کمر بستہ ہو گئے۔انھوں نے اپنے اسلام کی خبرفوری طور پرابو جہل کو دی پھر جمیل بن معمر جمحی کو جا کر بتایا جو بات پھیلانے میں مشہور تھا۔اس نے حرم کے باہر کھڑے ہو کر شور مچا دیا کہ عمرصابی ہو گیا، سب لوگ عمر پر پل پڑے اور انھیں پیٹنا شروع کر دیا ۔اس موقع پر عاص بن وائل سہمی نے ان کو بچایا۔اسی نے قریش کو خبر دار کیا کہ اگر تم نے عمر(رضی اللہ عنہ) کو نقصان پہنچانا چاہا تو میں اس کا ساتھ دوں گا۔ حضرت عمر کی ترغیب پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کی دو قطاریں بنا کر کعبہ کو روانہ ہوئے ، ایک قطار میں حضرت حمزہ اور دوسری میں حضرت عمر تھے ۔قریش کو ان کے قریب آنے کی جرات نہ ہوئی۔اس طرح مسلمان بیت اﷲ میں علانیہ نمازیں ادا کرنے لگے۔حضرت عبداﷲبن مسعودحضرت عمر کے اسلام کو ایک فتح قرار دیتے ہیں،ان کے مسلمان ہونے کے بعد قریش کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کیا جو مسلمانوں کو دی جانے والی اذیتوں سے خوف زدہ ہو کر قبول اسلام سے ہچکچا رہے تھے۔
زیادہ عرصہ نہ گزراتھاکہ قریش کی ایذا رسانی پھر بڑھ گئی۔انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبے کا مقاطعہ کر کے اسے شعب ابو طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔تین سال کے اس بائیکاٹ میں رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرام مہینوں میں مکہ کو اترتے ،باہر سے آئے ہوئے حاجیوں کواپنی دعوت پیش کرتے اور کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کر لیتے ۔یہ محاصرہ ختم ہوا پھرعام حزن گزر ا تو عقبہ کی پہلی اور دوسری بیعتیں ہوئیں ۔حالات کے پیش نظر مسلمان یثرب کو جانے لگے پھر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذن ہجرت ہوا۔اس تمام عرصے میں حضرت عمر کا کیا کردار رہا، تاریخ اس بارے میںیکسر خاموش ہے ۔گمان ہے ،وہ بھی شدائد برداشت کرتے رہے ہیں۔اس دوران میں ان سے متعلق کوئی واقعہ ذکر نہ ہوا، اس لیے کہ تحمل و برداشت کے اس دور میں ان کی شجاعت و فتوت کا اظہار نہ ہو سکتا تھا۔ حضرت عمر بھی ہجرت کرنے والوں میں شامل ہو گئے، عام خیال ہے ، انھوں نے بھی تمام مسلمانوں کی طرح پوشیدہ طور پر کوچ کیا تاہم حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ وہ مکہ چھوڑنے سے پہلے بیت اﷲ گئے ،طواف کیا اور قریش کو چیلنج کر کے شہر سے نکلے۔(ابن عساکر)یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی، اس لیے کہ پیغمبر علیہ السلام کا عام فرمان تھا کہ مسلمان خاموشی سے تنہا یا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں ہجرت کریں۔قبا پہنچ کر حضرت عمرنے حضرت رفاعہ بن عبد المنذر کے گھر قیام کیا جن کا تعلق قبیلۂ بنو عمرو سے تھا ۔بعدمیں جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم او رحضرت ابو بکر وہاں پہنچے توحضرت عمر آپ کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ پہنچے اور مسجد نبوی اوراس سے ملحقہ حجرۂ رسول کی تعمیر میں حصہ لیا۔ آپ کے حکم سے مدینہ میں مواخات قائم ہوئی توعتبان بن مالک خزرجی عمررضی اللہ عنہ کے بھائی بنے۔ اگرچہ حضرت ابوبکر،حضرت معاذ بن عفرااورحضرت عویم بن ساعدہ کے ساتھ عمررضی اللہ عنہ کی مواخات کی روایتیں بھی موجود ہیں، لیکن وہ قوی نہیں۔ انصار و مہاجرین کے اس بھائی چارے نے مشرکوں اور یہودیوں کی عسکری قوت کو گہنا دیا ،یہی وجہ ہے کہ یہود مسلمانوں کے ساتھ پر امن بقاے باہمی کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔
مدینہ منورہ میں عمررضی اللہ کی صلاحیتیں بروے کار آنے کے مواقع بھی فراہم ہو گئے۔ یہاں ان کی صفت اجتہاد نمایاں ہوئی۔نماز کے لیے مسلمانوں کو بلانے کا طریقہ سوچنا پڑا تو بگل یا سنکھ کی تجویزیں سامنے آئیں، اگرچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں نا پسند کرتے تھے۔ حضرتعمر کی ذمہ داری لگی ،صبح بازار سے دو لکڑیاں لا کرناقوس(سنکھ) بنائیں کہ انھیں خواب آیا ، ناقوس نہ بجاؤ ،بلکہ نماز کے لیے اذان دیا کرو۔روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن زید کو بھی ایسا ہی خواب آیا ،ایک فرشتے نے ان سے ناقوس خرید لیا اور کلمات اذان تلقین کیے۔یہودیوں کی سازشوں کا توڑ کرنے اور قریش کو مرعوب کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرایا بھیجنے شروع کیے تو حضرت حمزہ،حضرت عبیدہ بن حارث،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اﷲ بن جحش کو امیر مقرر کیا اور عمررضی اللہ عنہ کو مدینہ میں مقیم رکھنا پسند فرمایا ۔ نجران کے عیسائیوں سے عقائد کی بحث چھڑی تو حضرت عمر کی شدید خواہش تھی کہ انھیں فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے، کیونکہ یہی سفارت تو ان کا آبائی پیشہ تھا، لیکن پیغمبر علیہ السلام کی نگہ انتخاب ابوعبیدہ بن جراح پرپڑی۔
بدر کے موقع پر آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے قریش کے تین گنا بڑے لشکر سے جنگ کرنے یا واپس لوٹ جانے پر مشورہ کیا تو حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عمربھی جنگ کا مشورہ دینے والوں میں شامل تھے۔ ان کا آزاد کردہ غلام مہجع بن صالح اس معرکے کا پہلا شہید تھا۔خودانھوں نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو جہنم واصل کیا۔جنگ کے خاتمے پر قریش کے ۷۰افراد مسلمانوں کی قید میں آئے، اکثر یت ان کے سرداروں اور زعما کی تھی۔قیدیوں نے ابو بکررضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ انھیں ویسے ہی یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے جبکہ حضرت عمر کا اصرار تھا کہ اﷲ کے ان دشمنوں کی گردنیں اڑا دی جائیں،جنھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھٹلایا ،انھیں مکہ چھوڑنے پر مجبور کیااورپھر ان سے جنگ و قتال کیا۔آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ فرمایا تو فیصلہ ہوا کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔فوراً آسمان سے وحی نازل ہوئی:’تریدون عرض الدنیا واﷲ یرید ا لآخرۃ‘،’’تم دنیا کا مال (فدیہ)چاہتے ہو اور اﷲ آخرت کا مطالبہ کرتا ہے ۔‘‘(الانفال۸: ۶۷)اس طرح حضرت عمر کا موقف درست ثابت ہوا۔
سال گزرا تھا کہ قریش بدر کی جنگ کا بدلہ لینے کے لیے احد میں اکٹھے ہوئے۔ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو عمامہ اور زرہ پہنائی۔احد میں ابتدائی فتح ہوئی پھر شکست کا سامنا کرناپڑا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی افواہ پھیلی توتمام اسلامی لشکر منتشر ہوگیا۔ حضرت عمر بھی مایوس ہوکر بیٹھ گئے، لیکن جیسے ہی حقیقت کا پتا چلا فوراً پلٹے اور آپ کا دفاع کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔خالد بن ولید پہاڑ کے اوپر سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہتے تھے، لیکن حضرت عمر اور دوسرے صحابہ نے ان کا حملہ ناکام بنا دیا۔عزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کا پانی پر جھگڑا ہو گیا تو عبداﷲ بن ابی نے کہاکہ سر زمین یثرب میں ہمیشہ ہم بر سر اقتدار رہے ہیں ،ہم کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ جو ذلیل ہمارے ہاں پناہ لینے آئے ہیں ہمارے آدمیوں کو طمانچے ماریں ،ہم انھیں مدینہ سے نکال باہر کرتے ہیں ۔’یقولون لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منہا الاذل‘،’’(منافقین)کہتے ہیں،اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو معززترین انتہائی ذلیل کووہاں سے نکال باہر کرے گا۔‘‘(المنافقون۶۳: ۸) آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک خبر پہنچی ، حضرت عمر پاس تھے ، انھوں نے آپ کو مشورہ دیاکہ عباد بن بشر کو کہیں کہ ابن ابی کو قتل کر دے۔ آپ نے جواب میں فرمایا: کتنی بری بات ہے ،لوگ کہیں گے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتا ہے۔ رئیس المنافقین کی وفات کے بعدنبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا جنازہ پڑھانے لگے تو عمررضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اسلام کے خلاف اس کی چلی ہوئی چالیں بیان کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تدفین سے فارغ ہوئے تھے کہ یہ آیات نازل ہوئیں:’ولا تصل علی احد منہم مات ابداً ولا تقم علی قبرہ‘،’’ان (منافقین) میں سے جو مر جائے کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنااور نہ(تدفین کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔‘‘(التوبہ۹: ۸۴)یوں عمررضی اللہ عنہ کی رائے پھر صحیح ثابت ہوئی۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے حضرت عمر کو مکہ بھیجناچاہا تاکہ قریش کو مسلمانوں کی آمد کے مقصد اورعمرے کے پرو گرام کے بارے میں بتائیں۔حضرت عمر نے کہاکہ مجھے قریش کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے، کیونکہ بنو عدی میں میری حمایت میں اٹھنے والا کوئی نہیں رہا۔عثمان رضی اللہ عنہ اس کام کے لیے موزوں ہیں۔ پھر مسلمانو ں اور قریش میں معاہدۂ صلح ہوا ،حضرت عمر اس معاہدے کی شرائط پر سخت معترض ہوئے۔پہلے حضرت ابو بکر پھر رسو ل اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ شدید جذباتی کیفیت میں پوچھا:کیا آپ اﷲ کے رسول نہیں؟کیا ہم مسلمان نہیں؟کیا یہ لوگ مشرک نہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر کہا ،تو کس لیے ہمیں دین میں کم تر حیثیت دی جا رہی ہے؟اس پرجب آپ نے فرمایا کہ میں اﷲ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں ،اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ کروں گا اور وہ مجھے ہر گز ضائع نہ کرے گاتو حضرت عمر خاموش ہوگئے۔یہ واحد موقع تھا جس میں وحی نے حضرت عمر کے موقف کو غلط ثابت کیا۔ بعد میں وہ صدقہ اورصوم و صلوٰۃ کے ذریعے سے اپنی اس جسارت کی معافی مانگتے رہے۔
ہجرت کے بعد اگرچہ کئی سال تک شراب ممنوع نہ ہوئی تھی، لیکن حضرتعمر محسوس کرتے رہے کہ شراب پی کر اپنے ہوش و حواس قائم نہ رکھ سکنا، جن کی بدولت بعض قباحتیں وجود میں آتی ہیں اس لیے شراب نوشی سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔انھوں نے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:

ےَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَےْسِرِ قُلْ فِےْہِمَآ اِثْمٌ کَبِےْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ، وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا.(البقرہ۲: ۲۱۹)
’’لوگ آپ سے شرا ب اور جوئے (کے حکم)کے بارے میں پوچھتے ہیں۔کہہ دیں ،ان دونوں(کے استعمال ) میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فوائدبھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت بڑھا ہواہے۔‘‘

اس میں اگرچہ شراب کی تحریم نہ تھی۔ لیکن اس کا گناہ ہونا واضح کر دیا گیا تھا۔ بعض ایسے مسلمان جو رات کو کثرت شراب نوشی کے عادی تھے، ان کے لیے نماز فجردشوار ہوجاتی ۔عمررضی اللہ عنہ پھر آئے اور شراب کی اس برائی کے بارے میں حکم معلوم کیا، تب یہ آیت اتری:’ےٰایہا الذین آمنوا لا تقربوا الصلاۃ وانتم سکاریٰ حتیٰ تعلموا ما تقولون‘ ’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو،نماز کے قریب نہ پھٹکو جب تم نے نشہ کیا ہو حتیٰ کہ تمھیں معلوم ہو کہ تم کیابول رہے ہو۔‘‘(النسا۴: ۴۳) پھر ایک واقعہ ہوا۔ ایک انصاری اور ایک مہاجر شراب پی کر اونٹ کا گوشت کھا رہے تھے کہ کسی بات پران کا جھگڑا ہو گیا۔انصاری نے اونٹ کی ہڈی پکڑی اورمہاجر کے سرپر دے ماری، اس کا سر پھٹ گیا ۔دو قبیلوں میں لڑائی ہوئی تو پھر ایسی صورت حال پیدا ہوئی۔حضرت عمر تیسری مرتبہ یہ قضیہ سامنے لائے کہ شراب تو عقل اور مال کی دشمن ہے ۔اب اﷲ کا حتمی حکم آ گیا :

ےآاَیُّہَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَےْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّےْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ. اِنَّمَا ےُرِےْدُ الشَّےْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَےْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَےْسِرِ وَےَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ.(المائدہ۵: ۹۰۔۹۱)
’’اے ایمان لانے والو،بے شک شراب، جوا، بتوں کے تھان اور فال کے تیر یہ سب ناپاک، شیطان کے کام ہیں ،ان (میں سے ہر ایک )سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تم میں دشمنی اور نفرت پیدا کرے اور تمھیں اﷲ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم ان سے باز آؤ گے؟‘‘

عمر رضی اللہ عنہ کو محض عام مسلمانوں کے حالات کی فکر دامن گیر نہ ہوتی تھی، بلکہ وہ خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذاتی معاملات میں بھی مفید مشورے پیش کرتے ۔امہات المومنین رات کے وقت قضاے حاجت کو نکلتیں تو حجاب نہ ہونے کی وجہ سے پہچانی جاتیں ۔حضرت عمر نے مشورہ دیا ،آپ کے پاس برے بھلے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر اپنی ازواج کو حجاب کا کہہ دیں تو بہتر ہے۔ ان کے مشورہ دینے کے بعد آیۂ حجاب نازل ہوئی۔ ان کی بیٹی حضرت حفصہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت عائشہ سے زیادہ محبت کا تذکرہ کرتیں توان کو سمجھاتے اسی طرح جب سیدہ ماریہ کے ہاں ابراہیم کی ولادت ہوئی اور نومولود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا مرکز بن گیا تو حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ نے دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ اتحاد کرکے حالات میں کشیدگی پیدا کر دی، اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ آپؐ انھیں چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو اﷲ کی ناراضی سے خبر دار کیا۔دوسری طرف انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو صلح پر آمادہ کیا۔اہم امور میں دل چسپی رکھنے کی وجہ سے آں حضرت نے انھیں اپنا وزیر قرار دیا۔آپ انھیں ’یا اخی‘(میرا بھائی) کہہ کر بلاتے تو وہ بہت خوش ہوتے۔آپ ہی نے انھیں فاروق کا لقب بھی عطا فرمایا۔
وہ عمر جو سختی اور درشتی میں مشہور تھے، جب رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حواس میں نہ رہے اور کہنے لگے کہ منافق سمجھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں ۔وہ تو اپنے رب کے پاس گئے ہیں، اسی طرح جیسے موسیٰ بن عمران چالیس راتوں کے لیے گئے تھے اور مردہ کہلانے کے بعد لوٹ آئے تھے۔جب ابوبکر نے کہا کہ جو محمد کی بندگی کرتا تھا ،جان لے کہ محمد وفات پا گئے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر گویا ڈھے گئے۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)،الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )،تاریخ اسلام ( اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(پنجاب یونیورسٹی)

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت نومبر 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Nov 17, 2016
5861 View