عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (13) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (13)

 سیرت و عہد

سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ عمال کونصیحت کرتے کہ حسب و نسب کا لحاظ کیے بغیر سب لوگوں سے ایک جیسا سلوک کرو، رشوت سے بچو اور من مانے فیصلے نہ کرو۔ایک بار لوگوں سے پوچھا: اگر میں اپنے تئیں بہترین شخص کوتمھارا عامل بناؤں پھر اسے انصاف کرنے کا پابند کر دوں تو کیاخیال ہے، میں نے اپنا فرض ادا کر دیا؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، حضرت عمر نے کہا: ہر گز نہیں !ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک میں یہ جانچ نہ لوں کہ آیا اس نے میرے حکم پر عمل بھی کیا ہے؟ خلیفۂ ثانی عمال کا کڑا محاسبہ کرتے تھے ، بعض اوقات محض شبہ کی بنا پر ان کو معزول کر دیتے۔انھوں نے رعایا کے اعتراض پر ایسے حاکم بھی ہٹا دیے جن سے وہ خود مطمئن تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو کوفے کی گورنری سے الگ کرنا اس کی مثال ہے۔ لوگوں کے الزامات سامنے آنے پر حضرت محمد بن مسلمہ کو تحقیقات کے لیے بھیجا گیا۔ حضرت سعد تمام الزامات سے بری ہو گئے، تاہم حضرت عمرنے انھیں الگ کرنا ہی قرین مصلحت سمجھا۔ انھیں خبر ملی کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح اپنے اہل خانہ پر کھلا خرچ کرنے لگے ہیں تو فوراً ان کا مشاہرہ کم کر دیا۔ حالات کی تنگی کے باعث اور کم کھانے کی وجہ سے ان کا چہرہ مرجھا گیا، ان کے کپڑے پھٹ گئے ، جیب خالی ہونے کی وجہ سے وہ نئے کپڑے نہ بنوا پائے تو حضرت عمر نے کہا: اﷲ ابوعبیدہ پر رحم کرے !کتنا ہی پاک باز اور صبر والا ہے ۔
خلیفۂ دوم ہر سال حج کے موقع پر اپنے گورنروں کو مکہ طلب کرتے۔ ان سے اور ان کی رعایاسے سوال جواب کرتے تاکہ ان کے کنٹرول والے علاقوں کی صحیح صورت حال کا علم ہو سکے۔وہ ان کے تقرری سے پہلے والے اثاثوں کا ریکارڈ رکھتے ،بعد میں ہونے والے اضافے کو مشتبہ سمجھ کر قبضہ میں لے لیتے اور لوگوں میں بانٹ دیتے، پھر کہتے: ہم نے تمھیں تاجر نہیں عامل مقرر کیا تھا۔ اس سختی کے باوجود عمال فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے، حضرت عمر ان کے کام میں دخل نہ دیتے تھے۔ جب ان کی کوئی شکایت یابے انصافی سامنے آتی تب ہی حرکت میں آتے۔وہ اپنے عامل کا بیان بھی سنتے، اس میں وزن پاتے تو قبول کر لیتے۔گورنر شام حضرت معاویہ بن ابو سفیان پر اعتراض تھا کہ انھوں نے اپنے دروازے پردربان بٹھا رکھے ہیں اور ضرورت مندوں کو باہر کھڑا رکھتے ہیں۔ جب انھوں نے صفائی دی کہ اس علاقے میں دشمنوں کے جاسوس کثرت سے ہیں ،ان سے بچاؤ کے لیے ایسا کرنا پڑا ہے تو وہ خاموش ہو گئے اور کہا: میں تمھیں کوئی حکم دیتا ہوں، نہ روکتا ہوں۔ گورنر حمص حضرت عمیربن سعد نے تمام مال فے اہل حمص پر خرچ کر دیا۔ حضرت عمر نے تحقیق کر لی کہ واقعی ایسا ہوا ہے تو ان کی تعریف کی۔وہ کہا کرتے: میری تمنا ہے کہ مجھے عمیر بن سعد جیسا ایک اور شخص مل جائے تواسے مسلمانوں کی خدمت پر مامور کردوں۔ امیرالمومنین ایک دفعہ ایک بڑی حویلی میں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے پاس موجود لوگوں سے کہا: اپنی اپنی خواہشیں بیان کرو۔ ایک نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ گھر درہموں سے بھرا ہوا ہو اور میں سار ے درہم اﷲ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں۔ دوسرے کا کہنا تھا: میری آرزو ہے کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہو اور میں سارا سونا اﷲ کی خاطر دے ڈالوں۔تیسرے نے اپنا ارمان یوں بیان کیاکہ یہ حویلی موتیوں اور جواہر سے پر ہواور وہ ان کو راہ خدا میں خرچ کر دیں۔ حضرت عمر نے کہا: اور تمنائیں بتاؤ۔ان کا جواب تھا کہ اس سے بڑھ کر کیا تمنا بتائیں؟ اب وہ خود بولے: میرا جی چاہتا ہے کہ یہ مکان ابوعبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھرا ہو اور میں ان سب کو اﷲ کی اطاعت میں عامل مقر رکر دوں،پھر انھوں نے کچھ مال حضرت حذیفہ کی طرف بھیجا، انھوں نے فوراً اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا، اسی طرح حضرت معاذ اور حضرت ابو عبیدہ کی جانب تھوڑا تھوڑا مال بھیجا تو انھوں نے بھی فوراً بانٹ ڈالا۔
منصب خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سختی نرمی میں بدل چکی تھی ۔ ان کے زہد، عدل اور ان کی شفقت پرسب کو بھروسا تھا، تاہم جب انھوں نے درہ پکڑااوراسے بے لاگ چلانا شروع کر دیا،کچھ لوگ ان سے خوف کھانے لگے۔ انھیں اپنے مسائل ان کے سامنے پیش کرنے میں ہچکچاہٹ ہونے لگی۔ اس صورت حال میں حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اﷲ عنہم جمع ہوئے، باہمی مشورے سے حضرت عبدالرحمان کو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیجا۔ انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ ان اصحاب کی مشاورت سے بات کرنے آئے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: عبدالرحمان، میں لوگوں کے لیے اتنا نرم پڑ گیا کہ مجھے اس نرم رویے سے اﷲ کاخوف آنے لگا، پھر میں سخت ہو گیا، حتیٰ کہ اس سختی کی وجہ سے مجھ پر خشیت الٰہی طاری رہتی ہے۔ مجھے بتاؤ، میں کہاں جاؤں؟ حضرت عبدالرحمان بن عوف روتے ہوئے نکلے اور کہا: ہائے! آپ کے بعد ان مسلمانوں کا کیا حال ہو گا؟
ابتداے خلافت میں حضرت عمر کار قضا تنہا انجام دیتے۔جب امور مملکت نے زیادہ مشغول کر دیا توانھوں نے ہر صوبے کے لیے الگ قاضی کاتقرر کیا،قاضی القضاۃ وہ خود ہی رہے۔ حضرت ابو الدرداء مدینہ کے، حضرت شریح کوفہ کے، حضرت ابو موسیٰ اشعری بصرہ کے اور حضرت قیس بن ابو العاص سہمی مصر کے قاضی مقرر ہوئے۔ یہ سب کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق خود فیصلہ کرتے ۔ان کے بعض فیصلے ضرب المثل بن گئے۔ایک بار حضرت عمر نے کسی سے گھوڑا خریدا،وہ اس کی چال پرکھنے کے لیے اس پرسوار ہی ہوئے تھے کہ وہ گرپڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ انھوں نے گھوڑا لوٹانا چاہا تو وہ شخص نہ مانا۔آخر طے ہوا کہ کسی کو ثالث بنایا جائے ۔بائع کی مرضی سے قاضی شریح سے رجوع کیا گیا۔انھوں نے فیصلہ دیا کہ امیر المومنین، اپنا خریدا ہوا گھوڑا رکھ لیں یا اسی حالت میں واپس کریں، جیسا لیا تھا۔ اس فیصلے کو حضرت عمر نے سراہا، یہی حضرت شریح کوفہ کے منصب قضا پر ۶۰ سال برقرار رہے۔ عہدفاروقی کے اختتام تک امارت اور قضا کلی طور پر الگ الگ ہوگئے۔
حضرت ابو ہریرہ بحرین سے ۵ لاکھ درہم مال غنیمت لائے تو حضرت عمر سوچ میں پڑ گئے، اتنا مال گن کر بانٹیں یا تول کر دیں۔ اس کی حفاظت کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا، اس سے قبل وہ آنے والا تمام مال فوراًبانٹ دیتے تھے اور بیت المال قریباًخالی رہتا۔فوری تقسیم سے یہ امکان رہتا تھا کہ جو لوگ موقع پرموجود نہ ہوں، فے سے محروم رہ جائیں اور حاضرین زیادہ حصہ لے جائیں۔ ولید بن ہشام اور کچھ اور لوگوں نے مشورہ دیا کہ عجمی ممالک کی طرح دیوان بنالیا جائے ۔فارسی میں دیوان اس رجسٹر کوکہتے ہیں جس میں فوجیوں کے نام، پتے اور ان کی مقررہ تنخواہیں درج ہوتی ہیں، پھر یہ اس دفتر (محکمہ ) کا نام ہو گیا،جہاں امور خزانہ انجام دیے جاتے ہیں۔حضرت عمر نے قریش کے علماے انساب حضرت عقیل بن ابو طالب،حضرت مخرمہ بن نوفل اور حضرت جبیر بن مطعم کو بلا کر ان لوگوں کی فہرستیں مرتب کرنے کا حکم دیا جنھیں وظائف دینا مقصود تھا۔ قریش کے سردار حکیم بن حزام کا خیال تھا کہ وظیفے پانے پر قریش اپنا آبائی پیشہ تجارت چھوڑ دیں گے اور ضرورت پڑنے پر تجارت ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ یہ اندیشہ امیر المومنین کو بھی تھا، جو کچھ ہی عرصے بعددرست بھی ثابت ہوا جب اسلامی دارالخلافہ مدینہ سے دمشق، پھر بغدادمنتقل ہوا۔ تب وہ چاہتے تھے کہ لوگ جہاد کے لیے فارغ رہیں، اس لیے انھوں نے مفتوحہ اراضی بھی فوجیوں میں نہ بانٹی تاکہ وہ زراعت میں لگ کر جہاد سے غافل نہ ہو جائیں۔ اس مقصد کا لحاظ کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت عمر لوگوں کو کسب معاش پر انگیخت بھی کرتے تھے۔ انھوں نے ایک آدمی کو درویش بنے ہوئے دیکھا تو اسے درہ مار دیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جس کے پاس کچھ مال ہو، وہ اسے کام میں لائے اور جس کی اپنی زمین ہو، وہ اسے آباد کرے۔ 
سیدنا عمر فاروق نے تدوین دیوان اور تقسیم وظائف میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے قرابت داری کو محور بنایا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین رشتہ داروں کے بھاری وظائف مقرر کیے اوراس ضمن میں جہاد و سبقت کا لحاظ نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب۲ا ہزار درہم ،پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب ۶ ہزار اور ازواج مطہرات ۰ا ہزار درہم سالانہ پانے لگیں۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کاوظیفہ ان سے آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاص محبت کا لحاظ کرتے ہوئے ۲ا ہزار مقرر کیا گیا۔اس اصول کو ملحوظ رکھنے سے حضرت عمر کا اپنا قبیلہ بنوعدی دور جا پڑا۔اہل قبیلہ ان کے پاس شکایت لے کر پہنچے توانھیں کہا: تم چاہتے ہو کہ میں تمھاری خاطر اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھوں۔ ہم نے دنیا و آخرت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وجہ سے کمائی ہے، اس لیے انھی کو اور ان کی قوم کو ترجیح دیں گے۔یہ قاعدہ ان کے اپنے قول کے خلاف تھا کہ بخدا، اگر عجمی ایسے عمدہ اعمال بجا لائے جو ہم نہ کر سکے تو وہ روز قیامت ہم سے زیادہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہوں گے۔ عہد صدیقی میں بھی اس کی نظیر نہ ملتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت ابو بکر سے جو سب کو ایک جتنا وظیفہ دیتے تھے، کہا گیا کہ آپ مال کی تقسیم میں اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں کو ترجیح کیوں نہیں دیتے؟ انھوں نے جواب دیا: وہ اﷲ کی خاطر ایمان لائے، وہی روز قیامت ان کو پورااور کامل اجر دے گا،اس دنیا میں تو گزارہ چلتا ہے۔کسی معترض نے حضرت ابوبکر کی یہ بات حضرت عمر کے سامنے بیان کی تو انھوں نے جواب دیا: میں ان لوگوں کو جنھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنگ کی ،ان لوگوں کے برابر کیسے کر دوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ لڑے۔انھوں نے اصحاب بدر کا وظیفہ سب سے بڑھ کر۵ ہزار درہم سالانہ مقرر کیا،مہاجرین حبشہ اور جنگ احدسے صلح حدیبیہ تک کے غزوات میں شامل ہونے والوں کے لیے ۴ ہزار اوراہل بدر کے بیٹوں کے لیے ۲ ہزار درہم کی منظوری دی۔ حسنین رضی اﷲ عنہما اس رقم کے علاوہ مد قرابت سے حصہ بھی پاتے۔ہر اس صحابی کاوظیفہ جو فتح مکہ سے قبل ایمان لایا، ۳ہزار سالانہ تھا۔ قادسیہ اور شام کی جنگوں میں حصہ لینے والوں کو ۲ ہزاراور بعد کے معرکوں کے غازیوں کو ایک ہزار درہم ملتے۔ مدینہ میں بسنے والوں کو ۵۰۰ا، یمن ، شام اور عراق کے باسیوں کو ۳ سو سے ۲ ہزار درہم تک دیے جاتے۔ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے سرداران قریش حضرت صفوان بن امیہ، حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمرو کو تھوڑی رقم ملی تو انھوں نے پس وپیش کی اور کہا: ہم سے زیادہ کون عزت دار ہے؟ حضرت عمر نے فرمایا: میں نے حسب و نسب نہیں، بلکہ ’سبقت الی الاسلام‘ کی بنا پر وظیفے مقرر کیے ہیں۔ عہد فاروقی میں ہر نومولود کو ایک سو درہم سالانہ دیے جاتے جب وہ بڑا ہوتاتو یہ رقم دگنی ہو جاتی۔ ایک بارانھوں نے آرزو کی کہ اگر مال غنیمت کی بہتات ہوئی تو میں ہر کسی کو ۴ ہزار درہم سالانہ دوں گا، ایک ہزار اس کے اپنے سفر خرچ کے طور پر، ایک ہزار اس کے اہل خانہ کے نان ونفقہ کے لیے، ایک ہزاراسلحہ خریدنے کے لیے اور ایک ہزارگھوڑا خچر رکھنے کے لیے۔ حضرت سالم بن عبداﷲ کہتے ہیں: کوئی شخص ایسا نہ رہا کہ حضرت عمر نے اس کا وظیفہ مقرر نہ کیا ہو۔ حضرت عمر فرماتے تھے: ہر شخص کا اس بیت المال میں حق ہے، اس تک پہنچے یا دبا لیا جائے، خلیفہ بھی عام مسلمان جتنا حصہ لے سکتا ہے۔بسا اوقات مدینہ اور اس کے نواحی قبائل میں وہ خودچل کر جاتے اور ہر فرد کا وظیفہ اس کے ہاتھ میں تھماتے۔ کہتے: میری زندگی رہی توکوہ صنعا میں بکریاں چرانے والے ہر گلہ بان کو اس کی جگہ اس کا حصہ ملا کرے گا۔دوسرے صوبوں اور قبیلوں کے دیوان ان کے گورنروں اور سرداروں کے پاس ہوتے اور وہاں وظائف کی تقسیم ان کے ذمہ ہوتی۔اگر ان کی طرف سے کوئی کوتاہی ہوتی تو فوراً باز پرس کی جاتی۔ 
مال کی تقسیم میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر اعتراضات بھی کیے گئے۔ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے بیٹے حضرت عمر کا وظیفہ ۴ ہزار درہم تھا۔دوسری زوجہ مطہرہ زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہاکے فرزند حضرت محمدنے اعتراض کیا کہ حضرت عمر کو مجھ سے زیادہ درہم دیے جاتے ہیں، حالانکہ ہجرت و جہاد میں ہمارے ماں باپ بھی شامل تھے؟ حضرت عمر نے جواب دیا: اس لیے کہ عمر تم سے زیادہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب تھا۔ حضرت اسامہ بن زید کو ۴ ہزار درہم سالانہ دیے جانے پر ان کے اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ نے اعتراض اٹھایا کہ میں حضرت اسامہ سے زیادہ غزوات میں حصہ لے چکا ہوں اور مجھے ۳ ہزار درہم ملتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ وہ تم سے زیادہ اور اس کا باپ تمھارے باپ سے بڑھ کر آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو محبوب تھا۔ 
طبری کہتے ہیں: تالیف دیوان اور تعین وظائف کا کام ۵اھ میں ہوا۔ حضرت ابن سعد کے خیال میں ۲۰ھ میں یہ کار خیر انجام پایا، تب تک ایران وعراق اور مصر و شام فتح ہو چکے تھے۔مال غنیمت کے علاوہ جزیہ و خراج بھی فراوانی سے آنے لگے تھے۔ 
کچھ مسلمانوں نے مال وظائف کو تجارت میں لگایااور خوب نفع کمایا،تاہم ایسے اہل ایمان بھی تھے جو اسے کھڑے کھڑے بانٹ دیتے۔ ام المومنین زینب بنت جحش کو عطیے کی رقم ملی تواس پر کپڑا ڈال دیا، خود اوٹ میں ہو کر حضرت برزہ بنت رافع سے کہا: خوب مٹھیاں بھر لو اور اپنے رشتہ داروں اور یتیموں میں تقسیم کر دو۔ جب کپڑ ا ہٹایا گیا تو کل ۲۵ درہم ان کے لیے بچے، تب انھوں نے دعا کی: اے اﷲ، اگلے سال مجھے حضرت عمر کا وظیفہ نہ ملنے پائے۔ ایسا ہی ہوا، اختتام سال سے پہلے ان کی وفات ہو چکی تھی۔
شعر کی طرف میلان رکھنے کے باوجود حضرت عمررضی اﷲ عنہ فحش اور دروغ پر مبنی شعر کہنے پر شاعروں کی گرفت کرتے تھے۔ حطےۂ گندے اشعار کہتا تھا،مدح و ذم پر آتا تو وہ باتیں کہتا جو اس کے ممدوح یا نشانۂ ہجو کو پتا بھی نہ ہوتیں۔ زبرقان بن بدر کی ہجو کرنے پراس کی شکایت امیرالمومنین کے پاس چلی گئی۔انھوں نے حضرت حسان بن ثابت سے مشورہ کیا۔ جب انھوں نے زبرقان کی شکایت کو درست قرار دیا تو حضرت عمر نے حطےۂ کو جیل میں ڈال دیا۔ اس نے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا تو چھوٹا۔سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا عہد آیا تو حطےۂ نے پھر سے ہجو شروع کر دی۔ خلیفۂ دوم نے بنو عجلان کی ہجو کرنے والے شاعر کو بھی قیدکیا اور پٹوایا ۔ 
حضرت عمر کو قرآن کی تلاوت سے بے حد شغف تھا ۔کتنے ہی آنسو انھوں نے تلاوت کرتے اور سنتے بہا دیے۔ وہ غصہ میں ہوتے یا کسی سے انتہائی خفا ہوتے اور وہ قرآن مجیدکی تلاوت شروع کر دیتاتو ان کا تمام غصہ جاتا رہتا ۔
ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت سلمان فارسی سے پوچھا: میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟ انھوں نے جواب دیا: اگر آپ نے مسلمانوں کے محصولات میں سے ایک درہم بھی نا حق استعمال کر لیاتو خلیفہ نہیں بادشاہ سمجھے جائیں گے۔ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔انھوں نے یہی سوال پھراور لوگوں کے سامنے رکھاتو جواب آیا کہ خلیفہ صرف حق سے لیتا ہے اورحق ہی سے دیتا ہے ،آپ کی مثال بھی یہی ہے۔بادشاہوں کی مثال اس کے برعکس ہے ،وہ ظلم و جور کر کے مال حاصل کرتے ہیں اور اسی طرح خرچ کر دیتے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق کی کوشش ہوتی کہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کے ساتھ ان کی روح کو بھی ملحوظ رکھا جائے، یعنی ان مقاصد کو نہ بھولا جائے جن کی خاطر وہ احکام آئے۔ وہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات واعمال کا مقصد سمجھ کر اسی کو پانے کی جستجو کرتے۔قریش کے بڑے بڑے سردار وں نے اسلام قبول کیا تو مال زکوٰۃ میں ان کا حصہ مقرر ہوا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں عطیات بھی عطا فرماتے ۔ چنانچہ حضرت ابوسفیان، حضرت اقرع بن حابس، حضرت عباس بن مرداس، حضرت صفوان بن امیہ اور حضرت عیینہ بن حصن کوسو سو اونٹ ملتے۔ خلیفۂ اول کے دور میں یہی دستور جاری رہا، حضرت عیینہ اور حضرت اقرع کے مطالبے پر حضرت ابو بکر نے انھیں کچھ جائداد بھی لکھ کر دی۔ ان کی وفات کے بعد وہ ان کا پروانہ لے کر حضرت عمر کے پاس آئے۔انھوں نے اسے پھاڑ دیا اور کہا: اﷲ نے اسلام کو عزت دی اور تم سے بے نیاز کر دیا ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ انھوں نے قرآن مجید کی آیت منسوخ کردی ،حاشا وکلاّ، انھیں اس کا کوئی حق نہ تھا۔انھوں نے محض چند افراد کو عطیات دینے سے انکار کیا،وہ خودبھی مؤلفۃ القلوب (جن کی تالیف قلب کا حکم اﷲ نے دیاہے)کی مد میں سے لوگوں کو رقوم دیتے رہے ۔چنانچہ ہرمزان نے اسلام قبول کیا تو ایک رقم اس کے لیے مختص کی جو کچھ عرصہ تک دی جاتی رہی۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب اپنی بیویوں کو طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے پہلے ر جوع کر لیتے۔یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا، ان کا مقصد ہوتا کہ عورت کو خود بسائیں نہ کسی اور مردسے شادی کے لیے آزاد ہونے دیں۔قرآن مجید نے مردوں کا یہ حق دو طلاقوں میں محدود کردیااور تیسری طلاق کے بعد رجوع کرنے کی آزادی ختم کر دی۔ عہدفاروقی میں عراق و شام کے جنگی قیدیوں میں بے شمار عورتیں بھی مدینہ آئیں توان سے عقد زواج استوار کرنے کے لیے لوگ اپنی بیویوں کو ایک ہی طہر میں تین تین طلاقیں دینے لگے۔ حضرت عمر نے کہا: لوگ اس کام کو ’جوسوچ بچار چاہتا ہے‘ جلدی جلدی کرنے لگے ہیں۔ ہم ان کے عائلی فیصلوں کو نافذ کیوں نہ کر دیں۔چنانچہ وہ اس طرح کی طلاقوں کو لاگو کرتے اور طلاق دینے والے کو درست طریقہ نہ اپنانے پر درے بھی مارتے۔ ابن تیمیہ اور اہل ظاہر کے سوا تمام فقہاے امت نے حضرت عمرکے اسی فتویٰ کو اپنا یا ہے۔ صحابہ اپنا فتویٰ محض ایک راے سمجھ کر دیتے، وہ دوسرے کو حق دیتے کہ اس سے اختلاف کرے۔ کسی شخص نے اپنا کوئی مسئلہ حضرت علی اورحضرت زید بن ثابت کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اپنی راے دے دی حضرت عمر کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا: یہ قضیہ میرے پاس آتا تو یوں فیصلہ کرتا۔اس آدمی نے کہا: تو پھر رکاوٹ کیاہے ؟قوت نافذہ تو آپ ہی کے پاس ہے۔انھوں نے جواب دیا: اگر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا، لیکن میں نے تو اپنی راے بتائی ہے۔ میری راے علی و زید کے فیصلوں کو ختم نہیں کر سکتی۔
خلیفۂ دوم نے نکاح متعہ ممنوع قرار دیا۔انھوں نے ان باندیوں (امہات اولاد)کی فروخت بھی بند کر دی، جن سے اولاد ہوجاتی، حالانکہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و عہد صدیقی میں اس کی اجازت تھی۔حضرت عمرنے دادی کے بجاے نانی کے حق میں وراثت کا فیصلہ دیا، کسی انصاری نے اعتراض کیا تو اس سے رجوع کر لیا۔
حضرت ابو بکر نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کو جمع کر کے فرمایا: تم رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث روایت کرتے ہو اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو۔یہ اختلاف تمھارے بعد بہت بڑھ جائے گا۔ لہٰذا کتاب اﷲ کو بیان کرنے پر اکتفا کرو۔حضرت عمر خلیفہ بنے تو اسی فیصلے کو شدت سے نافذ کیا،حتیٰ کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابو مسعود انصاری جیسے کبار صحابہ کو محض کثرت سے احادیث روایت کرنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا۔ حضرت ابو عمرو شیبانی کہتے ہیں: میں ایک سال حضرت ابن مسعود کی مجلس میں بیٹھتا رہا۔ وہ کم ہی ’وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘ کہتے۔ یہ الفاظ جب کبھی ان کی زبان پر آتے، ان پر کپکپی طاری ہو جاتی۔ حضرت ابو سلمہ نے ایک بار حضرت ابوہریرہ سے پوچھا: آپ حضرت عمر کے زمانے میں بھی اسی طرح احادیث بیان کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: تب میں ایسا کرتا تو وہ مجھے درہ مارتے۔ خلیفۂ دوم نے حضرت قرظہ بن کعب کو عراق بھیجاتو احادیث بیان کرنے سے روک دیا۔
شیخین ابو بکر و عمرکے زمانے کے قاضی کوئی حدیث سننے پراس کی دلیل طلب کرتے اور حدیث ثابت ہونے پر اسی کے مطابق فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ حضرت عمر کو خیال آیا کہ تمام سنتیں درج کرلی جائیں تاکہ بعد میں کوئی ان میں کمی بیشی نہ کر سکے۔ایک ماہ غور وفکر کرنے کے بعدیہ کہہ کر اس ارادے کو ترک کر دیا کہ کہیں یہ قرآن مجید کے متن سے خلط ملط نہ ہو جائیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو حضرت عثمان کی شہادت کے بعدجنگ جمل کے زمانے میں حضرت علی کے خلاف اور ان کے حق میں وضع کی جانے والی بے شمارحدیثیں جنم نہ لیتیں، کیونکہ انھیں پرکھنے کے لیے حضرت عمر کی مرتب کردہ کتاب سامنے ہوتی۔ کئی احادیث فضائل اعمال کو ثابت کرنے کے لیے یا اپنے من مانے عقائدکو بنیاد فراہم کرنے کے لیے گھڑلی گئیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ اگر خلیفۂ دوم کی تجویز پر ایسی کتاب لکھ لی گئی ہوتی تولوگ اسے قرآن مجید سے کم اہمیت نہ دیتے، یہی حضرت عمر نہ چاہتے تھے۔ 
مطالعۂ مزید: الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،التاریخ الصغیر(امام بخاری)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ( ابن حجر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ:ڈاکٹر حمید اﷲ)
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2008
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 26, 2017
2579 View