عمر فاروق رضی ﷲ عنہ-9 - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ-9

 [’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

سیرت و عہد

حضرت نعمان مانعین زکوٰۃ کے خلاف مہم میں حضرت ابو بکر کے میمنہ میں شامل تھے اور عراق کی تمام جنگوں میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ ساتھ رہے تھے۔ وہ قادسیہ اور خوزستان میں بہادری کے جوہر دکھا چکے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے انھیں کسکر کا عامل مقرر کیا تو انھوں نے حضرت عمر کو شکایت بھیجی کہ مجھے خراج کی وصولی کا کلکٹر بنا دیا گیا ہے، حالانکہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر نے ان کے پروانۂ تقرری میں لکھا کہ کفار عجم مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نہاوند میں جمع ہو گئے ہیں۔یہ خط ملتے ہی ماہ روانہ ہو جاؤ۔اہل کوفہ تمھارا ساتھ دیں گے۔ ماہ میں اپنی فوجیں منظم کرنے کے بعد فیرزان کا مقابلہ کرنے نکل پڑنا۔انھوں نے والئ کوفہ حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان کو علیحدہ خط لکھا، حضرت نعمان کا ساتھ دینے کے لیے کوفہ سے بڑی تعداد میں لوگ جمع کر لوجو حضرت حذیفہ بن یمان کی کمان میں ماہ جائیں۔ جنگ نہاوند میں حضرت نعمان کو کوئی حادثہ پیش آئے تو حضرت حذیفہ ان کی جگہ لیں اور حضرت حذیفہ کے نہ ہونے کی صورت میں حضرت نُعیم بن مقرن کمان سنبھالیں۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے حضرت جریر بن عبداﷲاور حضرت مغیرہ بن شعبہ سمیت سات آدمیوں کے نام لیے۔ یہ خط سائب بن اقرع کے ہاتھ بھیجا گیا، حضرت عمر نے پیش آمدہ معرکے میں سائب کومال فے کی وصولی کا انچارج بھی مقرر کیا۔ ایک مکتوب حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بھی ارسال کیا کہ بصرہ سے کمک لے کر ماہ پہنچو۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے سلمیٰ بن قین، حضرت حرملہ بن مریطہ اور ایران میں موجود دوسرے کمانڈروں کو ہدا یت کی کہ اپنی اپنی جگہ ایرانیوں کو الجھائے رکھوتاکہ ان کی طرف سے نہاوند مدد نہ پہنچ سکے ۔
تینوں اطراف سے فوجیں آ گئیں تو جیش نعمان رضی اللہ عنہ مکمل ہوا، اگلا مرحلہ حلوان تھا۔ یہاں آ کر حضرت نعمان نے نہاوند پہنچنے والے راستوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ انھوں نے حضرت طلیحہ بن خویلد، حضرت عمرو بن معدیکرب اور حضرت عمرو بن ابو سلمیٰ کوبھیجا۔ تینوں کی اطلاع تھی کہ رستہ صاف ہے اوراس میں کوئی فوجی سرگرمی نہیں۔ ا ب جیش نے کوچ کیااور اپنی منزل نہاوند پہنچا، حضرت نعمان نے قلعے کے پاس پڑاؤ ڈالا۔ ڈیڑھ لاکھ کا لشکر رکھتے ہوئے بھی فیرزان نے مسلمانوں کی ۳۰ ہزار نفوس پرمشتمل فوج سے بات چیت ضروری سمجھی۔وہ قادسیہ کا مفرور تھا اور اسلامی فوج کی شجاعت آزما چکا تھا۔اس کے کہنے پر حضرت مغیرہ بن شعبہ کوبھیجا گیا۔ فیرزان تاج پہنے طلائی کرسی پربیٹھا ہوا تھا۔چمک دار بھالے اور نیزے لیے کئی گارڈ اسے گھیر ے ہوئے تھے۔ اس نے حضرت مغیرہ کو دھمکی دی کہ اگر تم نے فوج کشی ترک نہ کی تو ہم کسی کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ وہ اطمینان سے بولے: رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ہمیں فتح ونصرت ہی حاصل ہوتی رہی ہے، ہم تمھیں مغلوب کر کے رہیں گے یا اسی سرزمین میں جان دے دیں گے۔ حضرت مغیرہ واپس حضرت نعمان کے پاس آئے اور انھیں رپورٹ دی۔ اب جنگ کا مرحلہ شروع ہوا ،پہلے دودن کوئی فوج غلبہ حاصل نہ کر سکی۔ نہاوند کے قلعہ کے باہر آہنی خار نصب تھے ، بیچ بیچ میں کچھ راستے چھوڑے گئے تھے۔ایرانی ان راستوں سے نکلتے اور مسلمان فوجیوں کو لوٹ مار کر واپس چلے جاتے ۔جب مسلمان ان پر جوابی حملہ نہ کرپاتے تو مضطرب ہو جاتے۔ حضرت نعمان بن مقرن نے اپنے لشکر کے آزمودہ کار جرنیلوں سے مشورہ کیا۔ حضرت عمرو بن معدیکرب نے پے درپے حملے کرنے کا مشورہ دیا، ان کے خیال میں ایرانی اسی طرح قلعے سے باہرآ سکتے تھے۔ حضرت طلیحہ بن خویلد نے کہا: ہم حیلہ کر کے ایرانیوں کو میدان جنگ میں لاسکتے ہیں ۔اسی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ ہوااور ذمہ داری حضرت قعقاع کو دی گئی۔ وہ علی الصبح کچھ فوج لے کر نکلے اور شہر پر تیراندازی شروع کردی پھر فصیل پھلانگنے کی کو شش بھی کی۔پہرے دار انھیں روکنے کی کوشش کرتے تو ان کے ساتھی بڑھ بڑھ کرحملہ کرتے۔ پہرے پر مامور ایرانیوں نے جب چند مٹھی بھرمسلمانوں ہی کواس مہم میں مصروف پایا توان کا پیچھا کرتے ہوئے فصیل اور اس کے گرد بچھے خاردار حصار سے باہرنکل آئے۔ حضرت قعقاع نے کچھ دیر جم کر مقابلہ کیا پھر اپنا دستہ لے کر بھاگ نکلے۔ جب وہ اتنی دور نکل آئے کہ ان کا تعاقب کرنے والے ایرانی فوجیوں کا پیچھے کی طرف دھیان نہ رہا تو کثیر تعداد میں مسلمان فوجیوں نے فصیل کے پاس پوزیشنیں سنبھال لیں۔فیرزان نے سپاہ اسلامی کی پسپائی کی خبر سنی تواس پرکاری ضرب لگانے کے لیے اپنی تمام فوج شہر سے باہر نکال لایا۔ شہر کے دروازے پر چند پہرے دار ہی رہ گئے تھے۔ حضرت قعقاع نے کافی دور جا کر اپنے دستے کو روکااورواپس اسلامی فوج سے آ ملے۔ حضرت نعمان نے ہدایت جاری کی کہ سورج ڈھلنے سے پہلے ایرانیوں سے جنگ نہ چھیڑی جائے، لیکن ایرانی فوج زوال سے قبل ہی آ کر مقابلے پرکھڑی ہو گئی۔ان کی جانب سے تیر چلا کر کچھ مسلمانوں کو زخمی کیا گیا تو بھی انھوں نے لڑائی شروع کرنے کی اجازت نہ دی۔ زوال کے وقت نعمان رضی اللہ عنہ اپنے سیاہ گھوڑے پر سوار ہو کر فوج کے تمام رسالوں میں گئے اور جوانوں کی ہمت بندھائی ۔انھوں نے ہدایت دی کہ میری پہلی تکبیرپر چست ہو جانا، دوسری پراسلحہ بند اور جب میں تیسری دفعہ اﷲ اکبر کا نعرہ لگاؤں تودشمن پر ٹوٹ پڑنا۔ جوں ہی ان کا نعرہ بلند ہوا ،سپاہیوں نے دھاوا بول دیا،وہ عقاب کی سی تیزی سے ایرانیوں پروار کرتے رہے۔ ایرانیوں کے کشتوں کے پشتے لگ گئے، لیکن انھوں نے بھی سخت جوابی حملے کیے ،فوجیوں کی للکاروں کے ساتھ تلواروں کے تلواروں سے ٹکرانے کا شوربرپا ہو گیا۔ سورج ڈوبنے کوآ گیا ،اس قدر ایرانی مارے گئے کہ میدان جنگ ان کے خون سے لتھڑ گیا۔ حضرت نعمان اسلامی پرچم تھامے ہوئے دشمن کے قلب میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا پھسلا، وہ گرے تھے کہ ایک تیر ان کے پہلو میں آن لگا۔ان کے بھائی حضرت نُعیم نے ان کے جسم کو کپڑے سے ڈھانک دیا اور پرچم حضرت عمر کی ہدایت کے مطابق حذیفہ رضی اللہ عنہ کو تھما دیا۔اندھیرا چھا چکا تھا اور جنگ کا بازار گرم تھا۔ حضرت حذیفہ فوج کی کمان کرتے رہے اور کسی کو خبرنہ ہوئی۔ رات گئے ایرانی پسپا ہوئے ، ان کے اپنے بچھائے ہوئے خاروں نے ان کی واپسی کی راہ مسدود کر دی۔ اس طرح ا ن کے فوجی کثرت سے مارے گئے،کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں، لیکن زیادہ تر قلعے کے گرد کھدی گہری خندق میں گرنے سے ہلاک ہوئے۔ اہل تاریخ کا کہنا ہے کہ مقتولوں کی تعداد ا لاکھ ۲۰ ہزار تھی۔
اس مرحلے پر فیرزان نے اپنی فوج کو چھوڑااور گھوڑادوڑاتے ہوئے اکیلے ہی ہمدان کی راہ پکڑی۔ حضرت نُعیم نے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا اورقعقاع کو اس کا پیچھا کرنے کو کہا۔فیرزان بھاگتا ہوا درۂ ہمدان جا پہنچا ،آگے سے شہد سے لدے ہوئے خچروں اورگدھوں کا قافلہ آ رہا تھا۔وہ گھوڑے سے اتر آیا اورپہاڑوں میں چھپنے کی کوشش کی، لیکن حضرت قعقاع نے اسے جا لیا اور جہنم رسید کیا۔ اس واقعے کی وجہ سے اس درے کو درۂ شہد کہا جانے لگا۔ کچھ اور بھگوڑوں نے بھی ہمدان میں پناہ لی ۔مسلمانوں نے ہمدان کا محاصرہ کر لیا تو شہر کے باشندگان اور پناہ گیر صلح پر مجبورہوگئے۔نہاوندفتح ہونے کے بعد حذیفہ نے ہر سوار کو ۶ ہزار اور پیادہ کو ۲ ہزار درہم حصہ دیا۔ انھوں نے باہر رہ کر فوج کی مدد کرنے والوں کوبھی عطیات دیے اورباقی غنائم حضرت عمر کے مقرر کردہ مُحصّل سائب کے حوالے کیے ۔ اس موقع پر پارسی آتش کدے کا والی ہرند حذیفہ کے پاس آیا ۔اس نے قیمتی جواہرات کے دوصندوق اس شرط پردینے کی پیش کش کی کہ اسے امان دے دی جائے۔ یہ شاہ ایران نے اپنے برے وقت کے لیے اس کے پاس رکھوائے ہوئے تھے۔اہل جیش صندوق پاکر بہت خوش ہوئے، لیکن سب نے فیصلہ کیا کہ مال غنیمت میں ملنے والا حصہ ہی ہمارے لیے کافی ہے ۔یہ صندوق امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے ذاتی حصے کے طورپر رکھ لیے جائیں۔
مدینہ میں عمر رضی اﷲ عنہ کو نہاوند ہی کی فکرتھی، راتوں کواٹھ اٹھ کروہ فتح کی دعائیں مانگتے۔حذیفہ خوش خبری سنانے کے لیے طریف بن سہم کوبھیج چکے تھے ، مال فے اورخسروی صندوق لے کر سائب بعد میں روانہ ہوئے۔ نصرت کی خبر سن کر امیر المومنین سجدے میں گرپڑے۔ پھرانھوں نے حضرت نعمان کے بارے میں استفسار کیا۔ان کی شہادت کاپتا چلا تو اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ باقی شہدا کے بارے میں بھی فرداًفرداًاستفسار کیا، رات کا وقت تھا ، خمس مسجد نبوی میں رکھوا کر حضرت عمر نے حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن ارقم کو نگرانی کے لیے مقرر کیا۔ جب وہ گھر پہنچے توجواہرات کے صندوق ان کے سپرد کیے گئے اور بتایاگیا کہ یہ غازیوں کی خواہش کے مطابق خاص آپ کے لیے رکھے گئے ہیں ۔سائب کوفہ پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر کے قاصد نے آن لیا، وہ فوراً ہی مدینہ پلٹ آئے۔خلیفۂ ثانی نے کہا: تیرا بھلا ہو! رات بھر خواب میں فرشتے مجھے ان صندوقوں کی طرف گھسیٹ گھسیٹ کر لے جاتے رہے۔یہ آگ سے بھڑک رہے تھے اور وہ مجھے ان سے داغنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انھیں مسلمانوں میں بانٹ دوں گا۔ انھیں دور لے جاؤ اور بیچ کر رقم مسلمانوں کے عطیات میں شامل کر دو۔سائب بن اقرع نے ان صندوقوں کے جواہرات کوفہ کی مسجد میں فروخت کے لیے رکھے ،عمرو بن حریث مخزومی نے ۲۰ لاکھ درہم میں خرید لیے اور۴۰لاکھ درہم میں و اپس ایرانیوں کو فروخت کر دیے۔طبری کی روایت کے مطابق سیدنا عمر نے انھیں فاتح نہاوند حذیفہ کے پاس واپس بھجوادیا اور انھوں نے ۴۰ لاکھ میں بیچ کر ہر گھڑ سوار کو ۴ ہزار درہم اضافی حصہ دے دیا۔
تمام اہل اسلام فتح نہاوندسے بے حد خوش تھے بالخصوص اہل کوفہ کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔انھوں نے اسے ’’فتح الفتوح‘‘ کا نام دیا۔حقیقت یہی ہے کہ ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے،سقوط نہاوند کے بعدانھیں ان کے اپنے وطن ہی میں جاے قرار نہ مل سکی۔ امیر المومنین عمر رضی اﷲ عنہ بھی بے حد خوش تھے ، انھوں نے اس جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے والوں کو مزیددو دو ہزاردرہم عطا کیے۔ طبری کے خیال میں یہ معرکہ ا۲ھ میں جبکہ دوسری روایت کے مطابق ۹اھ میں پیش آیا۔ ابوموسیٰ اشعری نہاوند سے واپس ہوئے تو دینور میں پڑاؤ ڈالا ،پانچویں دن مختصر جنگ ہوئی اور وہاں کے رہنے والوں نے صلح کر لی۔پھر انھوں نے سیروان کو زیر کیا۔صیمرہ کے باشندے حضرت ابوموسیٰ کے مقرر کردہ عامل کوجزیہ و خراج دینے پر آمادہ ہوئے اور حضرت حذیفہ بن یمان نے ماہ کے حاکم دنبار سے صلح کا معاہدہ کیا۔
جنگ نہاوند کے بعد امیر المومنین عمر رضی اﷲ عنہ نے ایران میں موجود اسلامی افواج کی تنظیم نو کی۔انھوں نے احنف بن قیس کو خراسان کا کمانڈر مقرر کیا ، مجاشع بن مسعود کی تقرری اردشیر اور سابور کے لیے اورعثمان بن ابو العاص کی اصطخرکے لیے کی، ساریہ بن زُنیم کودرابجرد بھیجا۔خلیفۂ دوم نے حضرت سہیل بن عدی کو کرمان کا علم دیا، عاصم بن عمروکو سجستان اور حکم بن عمرو کومکران کے پرچم عطا کیے ۔ اسی اثنا میں یزدگرد رے سے اصفہان جا پہنچا اور وہاں کے لوگوں کوجنگ پر اکسانے لگا۔ حضرت عمر نے حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان اور حضرت نعمان بن مقرن کے لشکر اصفہان روانہ کر دیے۔ ان کی خواہش تھی کہ یزدگرد قید ہو جائے تاکہ ایران کے محاذ پر جنگ کا خاتمہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ ابن عتبان کی فوج کو اصفہان کے باہر ایک بڑے ایرانی لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے سپہ سالار استندار نے کوئی مہلت دیے بغیر جنگ چھیڑ دی۔ اس کی توقع کے برعکس بھاری تعداد میں ایرانی مرنے لگے تو ایک بوڑھا ایرانی سورما شہریار بن جاذویہ جو مقدمے کی کمان سنبھالے ہوئے تھا، آگے بڑھا اور مبارزت کے لیے للکارا۔ عبداﷲ بن ورقا نکلے اور اسے جہنم رسید کیا۔ اس کی ہلاکت کے بعد ایرانی مضطرب ہو کرپلٹے اور اصفہان کے شاہی محلات جیّ کی فصیل میں پناہ لی، یزدگرد کرمان کو بھاگ گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان نے جیّ کا محاصرہ کر لیا۔پہلے ایرانی قلعے سے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملے کرتے رہے، پھر تنگ آ کر ایک فیصلہ کن معرکے کے لیے صف آرا ہوئے۔ جنگ سے پہلے اصفہانیوں کا سالار فاذوستان عبداﷲ کے پاس آیا اور کہا: اپنے ساتھیوں کا خون کرنے سے بہتر ہے ہم دوبدو مقابلہ کر لیں۔ جوبچ گیا ، غالب آ جائے گا۔ کچھ دیردونوں میں زور آزمائی ہوئی تھی کہ فاذوستان بولا: تجھ جیسے دلیر سے لڑنے کے بجائے میں محض ایک شرط پراصفہان تمھارے حوالے کرنے کو تیار ہوں،ہم میں سے جو اصفہان چھوڑ کر جانا چاہتا ہے، اسے نہ روکو۔اس طرح اصفہانی اہل ذمہ میں شامل ہو گئے ،صرف ۳۰ آدمی ایسے تھے جنھوں نے کرما ن جانا پسند کیا۔
دوسری طرف بحر قزوین (کشرین)کے جنوب میں واقع شہروں کے حکمران قادسیہ میں جہنم واصل ہونے والے جرنیل رستم کے بھائی اسفندیار کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے اورمسلمانوں کی رے کی جانب پیش قدمی روکنے کی پیش بندی کرنے لگے ۔اہل ہمدان کو ان کے گٹھ جوڑ کا پتا چلا تو وہ بھی خلافت اسلامی سے کیا ہوا معاہدۂ صلح توڑ کر ان کے ساتھ مل گئے۔ حضرت عمر نے حضرت نُعیم بن مقرن کو حکم دیا کہ جلد از جلد ہمدان پہنچو اور وہاں کے باشندوں کو ایسا سبق سکھاؤ کہ پھر کوئی عہد شکنی کی جرأت نہ کرے۔ اہل ہمدان جب ان کے محاصرے میں آ گئے تو صلح کی درخواستیں کرنے لگے۔ حضرت نُعیم نے صلح قبول کر لی، انھوں نے عروہ بن زیدکو فتح کی بشارت دے کر مدینہ بھیجا ۔ حضرت عمر نے سجدۂ شکرادا کیا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ واج رودکے مقام پرتین اطراف سے حرکت کر کے ایرانی قوتوں نے ڈیرا ڈال دیا ہے،دیلم سے مُوتا ،رے سے زبندی(زینبی) اور آذر بائیجان سے اسفندیار اپنا اپنالشکر لے کر پہنچ چکے ہیں تو فوراً حضرت نُعیم کو خط لکھا کہ ہمدان پر اپنا نائب مقرر کر کے رے کی جانب کوچ کرو اور اہل فارس کی جمعیت کا مقابلہ کرو۔ چنانچہ حضرت نُعیم نے یزید بن قیس کووالئ ہمدان مقرر کیا اور ۲ا ہزار کا جیش لے کرواج رود پہنچے۔ وہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے معلومات حاصل کرکے چلے تھے، لیکن ایرانیوں نے میدان جنگ میں ان کی فوج اترتے ہی دھاوا بول دیا ۔جنگ نہاوند کی مانند سخت لڑائی ہوئی، تاہم شام ہونے تک ایرانی شکست کھا چکے تھے، شاہ دیلم مُوتا اس جنگ میں مارا گیا۔جنگ میں شریک رے کی فوج نے بھی شکست کھائی، لیکن شہر رے کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔ بہرام کا پوتا سیاوخش وہاں کا حکمران تھا۔ اسے یقین تھا کہ واج رود کے بعد مسلمان میری حکومت کے درپے ہوں گے۔اس نے دنباوند ،طبرستان ، قُومس اورجرجان سے فوجی مدد طلب کر رکھی تھی۔ جیش نُعیم سے کئی گنا زیادہ فوجی قوت اکٹھی ہو گئی تو وہ رے میں قلعہ بند ہو گیا۔ اسے یقین تھا کہ اسلام کے سپاہی اس پر غالب نہ آ سکیں گے ۔رے کے بڑے آتش کدے اور اس کے گرد قائم معبدوں کی وجہ سے تمام مجوسی اس شہر کی حفاظت کومذہبی فرض سمجھتے تھے۔سیاوخش نے واج رود میں ہزیمت اٹھانے کے بعد زبندی(زینبی )کو سخت برا بھلا کہا تھا اور اسے اس کے منصب سے معزول کر دیا تھا۔ وہ آزردہ ہوکر حضرت نُعیم سے آملا۔ جبل رے کے دامن میں جنگ شروع ہوئی ،پہلا د ن سخت گزرا اورکوئی فوج برتری حاصل نہ کر سکی۔زبندی (زینبی) نے حضرت نُعیم کو مشورہ دیا کہ آپ ایرانیوں کو جنگ میں الجھائے رکھیں اور میں خفیہ راستے سے شہر کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ انھوں نے اپنے بھتیجے منذر بن عمرو کی قیادت میں کچھ گھڑ سوار زبندی(زینبی)کے ساتھ بھیجے اور خود رات بھررے کا دفاع کرنے والی فوج پر تیر اندازی کرتے رہے۔فوج اندرون شہر کا دھیان نہ رکھ سکی۔ فجر کے وقت شہرکے اندر تکبیر کے نعرے بلند ہوئے تو رے والوں کویقین ہو گیا کہ ہم گھر گئے ہیں۔ ان پرآخری اور فیصلہ کن حملہ ہوا، کئی کھیت رہے اور کئی گھائل ہوئے ،باقیوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ مسلمانوں کو رے سے معرکۂ مدائن جتنا مال فے حاصل ہوا۔ حضرت نُعیم نے فوجی تنصیبات اور قلعوں کو مسمار کرا کرقدیم شہر کے پڑوس میں ایک نیا شہر بسانے کا حکم دیا۔انھوں نے زبندی (زینبی) کو حاکم رے مقرر کیا۔ فتح کی خوش خبری کے ساتھ خمس امیر المومنین کی خدمت میں ارسال کر دیاگیا۔ یوں آل بہرام کا خاتمہ ہوا ،رے کی عظمت و شوکت اسلامی ادوارمیں بھی برقرار رہی تا آنکہ منگولوں نے اسے تاراج کیا ،تب اس کے شمال مغرب میں واقع تہران کو دار الخلافہ بنالیا گیا۔اس کے کھنڈرات اس کے شان دار ماضی کا پتا دیتے ہیں۔واقدی کا کہنا ہے کہ ہمدان و رے کے معرکے۲۲ھ میں پیش آئے جبکہ سیف کے خیال میں ان کا سن وقوع۹اھ ہے۔
سقوط رے کے بعد آس پاس کے علاقوں کی مزاحمت ختم ہوگئی ۔اہل دنباوندرے والوں کا ساتھ دے کر ہزیمت اٹھا چکے تھے اس لیے ۲ لاکھ درہم سالانہ جزیہ کا اقرار کر کے حضرت نُعیم کے ساتھ صلح کر لی۔ حضرت عمرنے ان کے بھائی سویدبن مقرن کو قُومس بھیجاتو کوئی مقابلے کے لیے نہ نکلا۔ سوید یہاں سے بسطام پہنچے اور شاہ جرجان کو خط لکھا کہ صلح کر لو یا اسلامی افواج کا سامنا کرو۔اس نے صلح میں خیر سمجھی۔ طبرستان کے بادشاہ نے دیکھا کہ مسلمان جنوب اور مشرق دونوں طرف سے اس کے سر پر آن پہنچے ہیں تو اس نے بھی جزیہ دینا قبول کیا۔اسی اثنا میں خلیفۂ ثانی نے حضرت عتبہ بن فرقداور حضرت بکیر بن عبداﷲ کو آذربائیجان کی مہم کے لیے مامور کیا۔ پہلے بکیر فوج لے کر چلے ،ان کا مقابلہ اسفند یار سے ہوا جو واج رود میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اپنے لشکرکے ساتھ واپس جا رہا تھا ۔ اس نے ایک زوردار جنگ کے بعد شکست کھائی اورقید ہوا۔ سماک بن خرشہ(ابو دجانہ)کی قیادت میں حضرت نُعیم کی بھیجی ہوئی کمک بعد میں پہنچی۔ ادھرعتبہ کی سپاہ نے اسفند یار کے بھائی بہرام کی فوج کو مار بھگایاتو آذربائیجان کا پہاڑی اور میدانی تمام علاقہ مفتوح ہوگیا۔اب امیر المومنین نے حضرت عتبہ کو آذربائیجان کا گورنر مقرر کیا، انھوں ہی نے اسفندیار کے ساتھ صلح کامعاہدہ طے کیا۔عمر نے بکیر کو آذربائیجان سے آگے بحر قزوین پر واقع باب الابواب (دربندشروان) نامی بندرگاہ کی طرف جانے کا حکم دیا جہاں شاہ ارمینیاشہربراز کی حکومت تھی ۔ان کی ہدایت پر حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بھی سراقہ بن عمرو کی کمان میں ایک لشکر اس طرف بھیجا، عبدالرحمان بن ربیعہ سالارمقدمہ تھے۔ شہر برازنے عبدالرحما ن سے رابطہ کر کے صلح کی درخواست کی۔انھوں نے سراقہ کے پاس بھیج دیا، جنھوں نے بغیرجنگ کیے دربند (باب الابواب) کا زیر ہونا منظور کر لیا۔معاہدہ میں طے پایا،جو اسلامی فوج کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرے گا، اس سے جزیہ ساقط ہو جائے گا ۔یہ شق منظوری کے لیے حضرت عمر کے پاس پہنچی توانھوں نے تحسین کے ساتھ اجازت دے دی۔ اب سراقہ نے کچھ دستے ارمینیا کی پہاڑی بستیوں میں بھیجے، اہل موقان کے علاوہ سب جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوئے۔بکیر نے شہر کا محاصرہ کر لیا تو انھیں بھی صلح کرنا پڑی۔اسی دوران میں سراقہ نے وفات پائی اور کمان عبدالرحمن بن ربیعہ کے ہاتھ آئی۔ان کا ارادہ ترکستان پر فوج کشی کا تھا کہ خلیفۂ دوم عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر آ گئی، چنانچہ یہ مہم عہد عثمانی میں سر ہوئی۔
مطالعۂ مزید:البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،الفاروق عمر(محمد حسین ہیکل)۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2008
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Apr 11, 2017
3032 View