فوج کی حکمرانی کا اصل محرک - سید منظور الحسن

فوج کی حکمرانی کا اصل محرک

 

صدر پاکستان جناب جنرل پرویز مشرف نے آئینی ترامیم کا ایک مجوزہ پیکج پیش کیا ہے۔ اس میں صدر کے لیے نہایت اہم اختیارات مختص کیے گئے ہیں۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ صدر اپنی صواب دید پروزیر اعظم کو مقرر اور معزول کرنے کے مجاز ہوں گے، کابینہ اور قومی اسمبلی کو برطرف کر سکیں گے اور وزیر اعظم اور کابینہ کے کسی حکم نامے کونظر ثانی کے لیے واپس کر سکیں گے یا قومی اسمبلی میں بحث کے لیے بھیج سکیں گے۔
صدر مملکت کا یہ اقدام ہماری تاریخ میں معمول کا واقعہ ہے۔ یہ انھی روایات کا تسلسل ہے جو ان کے پیش رو اس میدان میں قائم کر چکے ہیں۔
۱۹۵۸ ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا کے توسط سے اقتدار سنبھالا ۔ کرسی صدارت پر فائز ہونے کے بعد انھوں نے ایک آئینی کمیشن مقرر کیا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پارلیمانی نظام کو ملک کے لیے ناموزوں قرار دیا۔اس کی سفارشات کی روشنی میں جنرل ایوب خان کی طرف سے نامزد کی گئی ایک کمیٹی نے ۱۹۶۲ ء کاآئین تشکیل دیا۔ اسے عوام کی تائید حاصل کیے بغیر نافذ کر دیا گیا۔ اس میں صدارتی نظام تجویز کیا گیا تھاجس کے تحت صدر تمام انتظامی اختیارات کا مرکز تھا۔ اسے گورنروں، وزرا اور انتظامی کمشنوں کے اراکین کے تقرر و تنزل کا اختیار حاصل تھا۔تمام اعلیٰ عہدوں پر اسی کی منشا کے مطابق تقرر ہوتا تھا۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے علاوہ باقی تمام بڑے عہدہ دار اس کے آگے جواب دہ تھے۔ وہ افواج پاکستان کا سربراہ تھا۔ خارجہ پالیسی اسی کی رائے کے مطابق تشکیل پاتی تھی۔ اس کی طرف سے جاری ہونے والے آرڈی نینس کا درجہ مقننہ کے پاس کردہ قانون کے برابر تھا۔اسے اسمبلی کے پاس کردہ مسودۂ قانون کو ویٹو کرنے کا حق حاصل تھا۔ یہ ویٹو اس صورت میں، البتہ کالعدم ہو سکتا تھا جب قومی اسمبلی کے دو تہائی ارکان اور اس کے بعد بنیادی جمہوریتوں کے اراکین کی اکثریت اسے کالعدم کرنے کی منظوری دے۔صدر کے پاس اسمبلی کو برطرف کرنے کا اختیار بھی تھا، تاہم اس صورت میں اسے خود بھی صدارت سے علیحدہ ہونا پڑتا۔
۱۹۷۷ ء میں جب جنرل ضیا الحق نے مارشل کے ذریعے سے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک میں ۱۹۷۳ ء کا آئین رائج تھا۔ یہ پارلیمانی نظام حکومت کا حامل تھا اور اس میں اختیارات کا مرکز وزیراعظم کا منصب تھا ۔ صدر کی حیثیت ایک علامتی سربراہ کی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے ایک لمبے عرصے تک مارشل لا کے ذریعے سے بلا شرکت غیرے اپنی حکمرانی قائم رکھی۔ ۱۹۸۴ ء میں ریفرنڈم کے ذریعے سے انھوں نے خود کو صدر منتخب کرا لیا۔ ۱۹۸۵ ء میں انتخابات منعقد کرائے اورنئی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے آئینی سطح پر اقتدار کو اپنی ذات میں مرتکز کر لیا۔اس ترمیم کی رو سے صدر وزیر اعظم کو نامزد کرتاتھا۔ وزیراعظم یا کابینہ کے کسی حکم نامے کو نظر ثانی کے لیے واپس بھیج سکتا تھا ۔ یہ محسوس کرکے کہ حکومت کو آئین کے مطابق چلانا ممکن نہیں رہا ، اسمبلی توڑ سکتا تھا۔ مالیاتی بل کے علاوہ کسی بھی بل کو نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ میں واپس بھیج سکتا تھا۔ اگر اسے وزیر اعظم پر اعتماد نہ رہے تو وہ اسے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فرمان جاری کر سکتا تھا۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کم و بیش ایک ہی نوعیت کے آئینی اختیارات ہیں جو ماضی کے فوجی حکمرانوں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق نے اپنے لیے مختص کیے اور اس وقت جنرل پرویز مشرف اپنے لیے خاص کر رہے ہیں۔ یہ اختیارات، بلا شبہ شخصی اور غیر جمہوری انداز حکومت کے آئینہ دار ہیں ، آئین کی روح کے منافی ہیں اورپارلیمانی طرز حکومت سے متصادم ہیں۔ فوجی حکمرانوں کے ایسے اقدامات کے بارے میں ہم اپنا نقد ’’اشراق‘‘ کے صفحات میں وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے ہیں ۔ یہاں ہمارے پیش نظر ان تنقیدات کا اعادہ نہیں ہے، بلکہ ان سے قطع نظر کرتے ہوئے ہمارا مقصود فوج کے اقتدار سے وابستہ رہنے کا محرک دریافت کرنا ہے اور اس کے مستقل تدارک کے لیے لائحۂ عمل تجویز کرنا ہے۔
فوج کے ہاں اقتدار سے وابستہ رہنے کااصل محرک کیا ہے؟ اس سوال کے دو مختلف جواب دیے جا سکتے ہیں:
ایک یہ کہ اس کا محرک ہوس اقتدار، جاہ طلبی اور مراعات کی تمنا جیسے اخلاقی امراض ہیں۔
دوسرے یہ کہ فوج یہ یقین رکھتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور جماعت یاادارہ حکمرانی کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔
اگر ہم پہلے جواب کو اختیار کرنا چاہیں توحقیقت یہ ہے کہ تاریخ سے اس کی تائید حاصل کرنا مشکل ہے۔ فوج کے وہ نمائندے جوبراہ راست مسند اقتدار پر فائز رہے یا وہ جو پس پردہ عوامی حکومتوں پر موثر ہوتے رہے، ان پر قومی خیانت کے حوالے سے انگلی اٹھانا محال ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے ذاتی اغراض کے لیے ملکی مفادکو قربان کر دیا۔ اسی طرح ان پر اخلاقی الزامات کی مثالیں بھی شاید ہی پیش کی جا سکیں۔
اس پہلو سے دیکھیں تو دوسرا جواب ہی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔اس ضمن میں فوج کا مقدمہ یہ ہے کہ ملک کے بیشترلوگ ناخواندہ ہیں، ان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ قومی مفاد کے حوالے سے صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں۔ان کے رہنماان کے جذبات بھڑکا کر انھیں بآسانی اپنے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں اور اس طرح اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت مفاد پرست، بدعنوان اور سیاسی بصیرت سے بے بہرہ افراد پر مشتمل ہے۔ چنانچہ یہ داخلی نظم و نسق چلانے اور خارجی امور سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام رہتے ہیں۔ سیاسی ادارے بھی چونکہ انھی پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے وہ ان کی تعمیری کاوشوں کا مرکز بننے کے بجائے ان کی بدعنوانیوں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔
یہی وہ نقطۂ نظرہے جسے جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان الفاظ میں پیش کیا تھا:

’’پاکستان کا ماحول پارلیمانی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی چودہ کروڑ آبادی میں سے ستر فی صد لوگ نا خواندہ ہیں، اس سے دنیا کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا حامل ہو۔‘‘

مزید براں جغرافیائی تنازعات اور سرحدی خطرات کی وجہ سے فوج یہ سمجھتی ہے کہ اسے اقتدار کے منابع سے الگ نہیں رہنا چاہیے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ سول حکومتیں نہ ان خطرات سے آگاہ ہو سکتی اور نہ ان کے تدارک کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام کر سکتی ہیں۔ اسی طرح اسے اس بات کا بھی یقین ہے کہ پاکستان کے عوام سیاست دانوں کی بہ نسبت ان پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں۔
ان تصورات کی بنا پر فوج کے ارباب حل وعقد اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو قومی معاملات سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے ۔ فوج کے افراد تعلیم یافتہ ہیں۔ قومی حمیت کا جذبہ ان کی روح کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہ نہایت منظم ہیں۔ ان کے اندر نیچے سے لے کر اوپر تک میرٹ کا منضبط نظام ہے ، اس وجہ سے اس ادارے کی قیادت ہمیشہ بہترین ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ان کی تربیت اس طریقے سے ہوتی ہے کہ یہ قومی مصلحتوں کے خلاف کسی مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ مستعد اور چاک و چوبند ہوتے ہیں ، اس لیے پیش نظر اہداف کو عام لوگوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے بعض دوسرے خصائص کی بنا پر پر یہ سول افراد کی بہ نسبت بہت بہتر کارکردگی پیش کر سکتے ہیں۔ چنانچہ جب تک اس ملک کی اکثریت تعلیم یافتہ ہو کر سیاسی شعور حاصل نہیں کر لیتی اور اہل سیاست میں قابل لوگ پیدا نہیں ہو جاتے، اس وقت تک ملک و قوم کی بقا اور تعمیر و ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ عنان اقتدار فوج ہی کے ہاتھوں میں رہے۔
فوج کا یہ مقدمہ جن اساسات پر مبنی ہے، انھیں ’’The Millitary & Politics in Pakistan‘‘ میں استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے نہایت خوبی سے بیان کیا ہے۔ کتاب کے تعارف میں انھوں نے بعض ماہرین سیاسیات ایس. ای. فائنر، جے.پی.لاول، سی.آئی. ای کم اورایم.جینو وٹز کی آرا کی روشنی میں لکھا ہے کہ نئی وجود پزیر ہونے والی اقوم میں فوج کوتین عوامل کی وجہ سے امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ایک یہ کہ فوج کو ملک سے باہر ترقی یافتہ فوجی قوتوں پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ غیر ملکی افواج سے رابطہ اسے بین الاقوامی معیارات اور فوجی لائحۂ عمل کے جدید طریقوں سے روشناس کراتا ہے۔اس کی سپاہ کی اکثریت اگرچہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے،مگر وہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاتی ہے۔ افسران مغربی ممالک کے فوجی تعلیی اداروں میں تربیت پاتے ہیں۔ وہاں وہ جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرتے اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے جنگی اصولوں سے رو شناس ہوتے ہیں۔ یہ چیز انھیں اپنے معاشرے کی پس ماندگی کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
دوسرے یہ کہ نئی اقوام کی سیاسی قیادت ملکی سا لمیت کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر ایک مستعد اور مضبوط فوج کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ وسائل کی کثرت سے فراہمی فوج کو جدید آلات اور تکنیکی صلاحیتوں کا حامل بنا دیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے فوجی امداداس کی ترقی کی رفتار کو بڑھا دیتی ہے۔ وہ ان ہتھیاروں اور آلات کے استعمال کو سیکھتے ہیں جن سے ملک کے دوسرے ادارے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک غیرترقی یافتہ ملک میں فوج کو ایک ترقی یافتہ ادارے کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔
تیسرے یہ کہ فوج محض ایک پیشہ ور ادارہ نہیں ، بلکہ ایک طرز زندگی ہے۔ فوج اپنے افراد کی اس طریقے سے تربیت کرتی ہے کہ ان کے ذہنوں سے علاقائی اور فرقہ دارانہ تعصبات کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور قومی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے ان کا اجتماعی تشخص نمایاں ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فوج کے افراد میں تنظیم اور یک جہتی پیدا ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں منفرداور ممتاز مقام کے حامل بن جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ تنظیمی وسائل اور تکنیکی مہارت کی وجہ سے فوج کے افراد ملک میں تکنیکی اور انتظامی اصلاحات کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ وہ سڑکیں، پل اور ڈیم تعمیر کرتے، تربیتی اداروں، اسلحہ کے کارخانوں اور قومی ضرورت کی مختلف صنعتوں کو کامیابی سے چلا تے اورحادثات اور قدرتی آفات کے موقعوں پر جاں فشانی کے ساتھ لوگوں کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ سول حکومتیں اکثرروز افزوں مسائل کے حل کے لیے فوج کی مدد کی طلب گار ہوتی ہیں۔ وہ گاہے گاہے مشکل موقعوں پر ایسے امور میں فوج سے تعاون حاصل کرتی ہیں جو ا س کے اصل پیشے سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ سیاسی معاملات میں شریک ہوتے اور نظم و نسق کے پیچیدہ مسائل کو حل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک جانب سیاسی طرز عمل کا تجربہ کرتے اور دوسری جانب حکومتوں کی کمزوریوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔اس تناظر میں ان کے اپنے اندربھی اور باہر بھی یہ تاثر مستحکم ہو جاتا ہے کہ فوج اس وقت کام آنے کی صلاحیت رکھتی ہے جب سول حکومت ناکام ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹرصاحب کے نزدیک اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک منتشر اور غیر منظم معاشرے میں فوج ایک منضبط، متحد،منظم اور قوم کی نگہبان تصور کی جاتی اور اس کے افراد معاشرے میں ایمان دار، محب وطن، ثابت قدم اور قومی سلامتی کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔
اس تجزیے کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فوج کے اقتدار سے وابستہ رہنے کا اصل محرک یہ ہے کہ اسے اس امر کا کامل یقین ہے کہ اس خطۂ ارضی میں اس کے سوا کوئی دوسرا ادارہ حکمرانی کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور اس کی کارکردگی کی بنا پر عوام کا اعتماد بھی اسی کو حاصل ہے۔
فوج کے اس نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر اسے بے وزن قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس کے جواب میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ عوام کی ناخواندگی سے بڑھ کر سیاسی عمل میں بار بار آنے والا تعطل ہے۔ سیاسی عمل اگر کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو تین چار انتخابات کے مسلسل انعقاد سے شفاف نظام سیاست کی راہ ہموار ہو سکتی اور ملک کی باگ ڈور باصلاحیت اور باکردار افراد کو منتقل ہو سکتی ہے۔مگر اس کے جواب میں فوج اپنا یہ خدشہ پیش کر دیتی ہے کہ اگر اہل سیاست کو چھوٹ دے دی گئی تو ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بہرحال اس بحث سے قطع نظر درج بالا تناظر میں فوج کا اقتدار میں رہنے کا محرک سمجھ میں آ سکتا ہے۔
ارباب فوج کو اپنے اس تصور پر عمل درآمد کے لیے جو مسئلہ سب سے بڑھ کر درپیش ہے، وہ جمہوریت کا غلغلہ ہے۔ دنیا بھر میں اس کے ایک سیاسی قدر کے طور پر مستحکم ہو جانے کی وجہ سے وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکمرانی کو زک پہنچے بغیر عوام کی اقتدار میں شمولیت اورآئین کی پاس داری کا تاثر قائم ہو جائے۔ اس صورت حال نے فوج کو ایک لاینحل مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ جمہوری نظام کو اس ملک کے لیے قبل از وقت سمجھتے ، عوام کو انتخاب کے لیے اور سیاست دانوں کو حکومت کے لیے نااہل تصور کرتے اوراپنی مزعومہ اہلیت کی بنا پرہر حال میں مقتدر رہنا چاہتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ عوام کی سیاسی عمل میں شرکت کا تاثر بھی دینا چاہتے ہیں۔اسی مخمصے میں مبتلا ہو کر وہ معروف سیاست دانوں کو سیاست سے الگ کرتے، سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگاتے، ریفرنڈم کا سہارا لیتے، بلدیاتی اداروں کو پروان چڑھاتے ، غیرجماعتی انتخابات کراتے اور آئین میں اپنی ضرورت کے لحاظ سے ترمیم و تغیر کرتے رہتے ہیں۔
بہرحال ، اس تناظر میں کم سے کم یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ فوج کوجب تک اپنی اہلیت اور اہل سیاست کی عدم اہلیت کا یقین ہے ، اس وقت تک اسے اقتدار سے الگ رکھنا کم وبیش نا ممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار سے غیر متعلق رکھنے کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی تھی کہ کوئی مضبوط سیاسی قیادت عوام کے بھر پور اعتماد کے ساتھ سامنے آتی اور اپنی صلاحیت اور کردار سے فوج پر اپنی اہلیت واضح کر دیتی۔ ایسی قیادت کی راہ روکنا فوج کے لیے ناممکن ہوتا۔ اس حل کے لیے تمنا اور دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
اس مسئلے کا حقیقی حل صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب مل کر اس ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کریں۔اگر ہمارے عوام، سیاسی رہنما، مذہبی قائدین، سماجی کارکن، دانش ور، بیوروکریسی کے کارپرداز عناصر اور فوج کے ارباب حل وعقد قوم کی تعلیمی ترقی کو اپنا مسئلہ بنا لیں اور اپنی صلاحیتیں اور قوتیں اس مقصد کے لیے صرف کرنا شروع کر دیں تو پندرہ بیس سال کے اندر ہی ہر شعبۂ زندگی میں اس کے مثبت اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں گے۔ ہماری اس رائے کو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ کر بے معنی قرار دینا چاہیں کہ تعلیمی انقلاب کا سیاسی انقلاب سے کیا تعلق ہے! ہم ان کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ اگر وہ تھوڑا سا غور کریں تو یہ تعلق بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گا۔
دیکھیے، جمہوری سیاست کے دو ہی بڑے اجزا ہیں: ایک عوام اور دوسرے سیاست دان۔ اگر یہ دونوں سیاسی شعور سے بہرہ مند نہیں ہیں تو جمہوری اقدار کے فروغ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تعلیم جس طرح انسانوں کے اندر مذہبی، اخلاقی اور عمرانی شعور بیدار کرتی ہے، اسی طرح وہ ان میں سیاسی شعور بھی اجاگر کرتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارے عوام اور سیاست دان، دونوں ہی اس سیاسی شعور کے حامل نہیں ہو سکے جو جمہوری طرز سیاست کے لیے ناگزیرہے۔ یہ دونوں گروہ تعلیم کے فقدان کی وجہ سے کس طرح سیاسی شعور سے بے بہرہ رہتے ہیں، اس کا اندازہ اس مختصر جائزے سے کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے عوام کی اکثریت دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔دیہی علاقوں میں سیاست کی اساس جاگیردارانہ طرز معاشرت ہے۔ کسان اور ہاری علاقے کے بڑے زمین داروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی محتاجی سے نجات کے راستے ہی تلاش نہیں کر پاتے۔ چنانچہ وہ اپنے چوہدری اور وڈیرے کی منشا کے مطابق سیاسی رائے کے اظہار پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے سیاسی سوجھ بوجھ کا عمل ان کے اندر وجود پزیر ہی نہیں ہوتا۔اسی طرح،ان پڑھ ہونے کی وجہ سے عوام سیاسی مسائل پر صحافیوں اور ماہرین سیاسیات کے تجزیوں کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ چنانچہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اہل دانش کی کاوشیں ان پرغیر موثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔پھر تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے حقوق کے حصول کے ذرائع اور ان کے لیے آواز بلند کرنے کے اسالیب سے بے خبر رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی حیثیت مظلوم اور خاموش تماشائی کی سی ہوتی ہے۔مزید برآں ان کے لیے علاقائی، نسلی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچنا کم بیش ناممکن ہوتاہے۔ وہ اپنے سیاسی تعلق کا اظہار بالعموم انھی عصبیتوں کے حوالے سے کرتے ہیں۔چنانچہ استعداد اور اخلاق و کردار کی بنا پر سیاسی قیادت کے تشکیل پانے کا عمل ہی صحیح معنوں میں شروع نہیں ہو پاتا۔ سیاسی جماعتوں کی نظریاتی اساسات اور منشورات اول توان کے لیے ناقابل فہم ہوتے ہیں، لیکن اگر تھوڑا بہت سمجھا بھی دیا جائے تو ان کے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سیاسی عمل میں شرکت سے محروم رہتے ہیں ۔
جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے تو ان کی اکثریت بھی غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہے۔ ان کا حقیقی منصب یہ ہے کہ یہ اگر اقتدار سے باہر ہوں تو عوام کو سیاسی لحاظ سے منظم کریں، انھیں سیاسی آرا قائم کرنے کی تربیت دیں،اظہار رائے کے طریقوں سے آگاہ کریں اور قومی امور سے باخبر اور متعلق رکھیں اور اگر اقتدار میں ہوں تو ان کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے قانون سازی کریں، ملکی تعمیر و ترقی کے لیے منصوبہ بندی کریں،اندرونی نظم و نسق کو چلائیں اور بیرونی ممالک کے ساتھ قومی امور کو طے کریں۔ یہ سبھی معاملات تعلیم پر منحصر ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارے سیاست دان چاہتے ہوئے بھی ان ذمہ داریوں کو انجام نہیں دے پاتے۔ نتیجۃً وہ نہ سیاسی معاملات کا ادراک کر پاتے، نہ عوام میں سیاسی شعور بیدار کر پاتے، نہ سیاسی جماعتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق مستحکم کر پاتے اور نہ ملکی نظم و نسق کو چلا پاتے ہیں۔ چنانچہ وہ عوام کے اعتماد سے محروم رہتے اور فوج اور بیوروکریسی جیسے منظم تعلیم یافتہ اداروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں۔
ہمارے عوام اور سیاست دانوں کی یہ تعلیمی پس ماندگی جب تک ختم نہیں ہو گی، اس وقت تک ملک کے سیاسی کلچر میں کسی حقیقی تبدیلی کی توقع کرنا کار عبث ہے۔موجودہ سیاسی صور ت حال میں ہمارے نزدیک تعلیم ہی وہ نکتہ ہے جس پر فوج، اہل سیاست اور عوام ، تینوں متفق ہو سکتے ہیں۔ ان تینوں کو جمہوری اقدار کے قیام کی ممکنہ جدوجہد معطل کیے بغیر تعلیمی پس ماندگی ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جانا چاہیے ۔ فوج اگر لوگوں کی سیاسی پس ماندگی کا سبب ناخواندگی کو قرار دیتی ہے تو اسے اپنی پوری قوت اس محاذ پر صرف کر دینی چاہیے۔ سیاست دان تعلیم و تعلم کے ذریعے سے اپنی قابلیت کو بڑھائیں اور ضرورت پڑنے پر اسے ثابت کر کے دکھائیں۔ عوام الناس یہ سمجھ لیں کہ تعلیم ہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے سے وہ سیاسی عمل میں شریک ہو سکتے اور حکمرانوں کو اپنی منشا کے مطابق چلا سکتے ہیں۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2002
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Jan 01, 2018
1848 View