ذبح کا طریقہ - ساجد حمید

ذبح کا طریقہ

 قال۱ عدی بن حاتم، قلت: یا رسول اللّٰہ، ارایت ان احدنا اصاب صیدا، ولیس معہ سکین، أیذبح بالمروۃ وشقۃ العصا۲؟
فقال: امرر الدم بما شئت واذکر اسم اللّٰہ عز وجل. (سنن ابی داؤد، رقم ۲۸۲۴)

عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے، اگر ہم میں سے کسی کو کوئی شکار اس حال میں ہاتھ لگے کہ اس کے پاس چھری نہ ہو تو آیا وہ پتھر یا لکڑی کے ٹکڑے سے ذبح کرلے۱؂؟
آپ نے فرمایا: جس چیز سے چاہوخون بہادو، اور اللہ کا نام اس پر ضرور لو۲؂۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ یہ سوال اس لیے کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جو تربیت کی تھی، اس میں انھیں یہ سکھایا تھا کہ کسی کو تکلیف دینا اور ستانا اللہ کو پسند نہیں ہے ۔بندۂ مومن وہ ہے جس سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ ایک حدیث میں دیکھیے یہی اصول جانوروں کے ذبح کے بارے میں بھی واضح کیا گیا ہے:

قال رسول اللّٰہ إن اللّٰہ کتب الإحسان علی کل شیء ... ولیحد احدکم شفرتہ فلیرح ذبیحتہ.(صحیح مسلم، رقم ۱۹۵۵)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو فرض کیا ہے۔ ... اس لیے چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو خوب تیز کرے ، تاکہ اس کا ذبیحہ بلا تکلیف ذبح ہو سکے۔‘‘

چنانچہ یہی وہ تربیت ہے جس کی وجہ سے سوال پیدا ہوا کہ جب چھری نہ ہو اور جانور شکار ہو چکا ہے تو کیا کیا جائے؟آپ نے فرمایا کہ پھر جو چیز میسر ہو، اسی سے ذبح کرلو۔ان دونوں احادیث میں بظاہر تضاد لگتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسلم کی محولہ بالاروایت عام حالات سے متعلق ہے، اور زیر بحث ابوداؤد کی روایت خاص صورت حال میں ایک حل پیش کرتی ہے۔ اصل میں شکار سے زخمی جانور کو چھری نہ ہونے کے سبب سے چھوڑ دینا، اس کے لیے زیادہ اذیت ناک ہے ۔اسے جلد سے جلد ذبح کرنا ہی اسے تکلیف سے جلد نجات دے گا۔
۲۔ یہاں چھری کے علاوہ ہر کاٹنے والی چیز کے ذریعے سے ذبح کرنے کی اجازت دی ہے،لیکن اس کے ساتھ دوباتوں کا ذکر کیا ہے: ایک خون بہادینے کا اور دوسرے اللہ کا نام لینے کا۔ تذکیہ یا ذبح کرنے کے شرعی طریقے کی یہی دو بنیادی چیزیں ہیں جس سے ذبیحہ حلال ہو گا۔جانور کو ایسے طریقے سے ذبح کیا جائے کہ جس سے مرنے سے پہلے اس کا سارا خون بہ کر نکل جائے اور دوسرے یہ کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔اسے اسلامی اصطلاح میں ’تذکیہ‘ کہتے ہیں۔ سور�ۂمائدہ میں اسی طریقے کے ذبیحہ کو کھانے کے لیے حلال قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلاَّ مَا ذَکَّیْْتُمْ.(المائدہ ۵: ۳)
’’تم پر مردار، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے، اور (مردار میں یہ بھی کہ )جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ لگنے سے مرا ہو، جو گر کرمراہو، جو سینگ لگنے سے مرا ہو، یا جسے کسی شکار نے چیر ڈالا ہو، سب حرام ہیں، سوائے ان کے جن کا تم نے ’تذکیہ‘ کرلیا ہو۔‘‘

ہماری زیر بحث روایت اسی تذکیہ کی شرح کرتے ہوئے، اس کی اجازت دے رہی ہے کہ جہاں تیز دھار چھری سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو، وہاں جو چیز بھی چاہو ذبح کے لیے استعمال کرلو، لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ جانور کا خون بہ جانا چاہیے اور اس پر اللہ کا نام بھی لینا چاہیے۔

متن کے حواشی

۱۔سنن البیہقی، رقم ۱۸۹۲۷ میں یہی روایت ان الفاظ میں آئی ہے:’یا رسول اللّٰہ ان احدنا اذا اصاب صیدا ولیس معہ شفرۃ ایذکی بمروۃ او شقۃ العصا قال امرر الدم بما شئت واذکر اسم اللّٰہ عز وجل‘(اے رسول اللہ، اگر ہم میں سے کوئی کسی شکار کو پائے، اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ کسی دھار دار پتھر سے یا لکڑی کے ٹکڑے سے ذبح کرلے؟ آپ نے فرمایا: جس چیز سے چاہوخون بہا دو، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لو۔)
۲۔ابن ماجہ، رقم ۳۱۷۷، مسند احمد، رقم ۱۸۲۷۶اور المستدرک للحاکم، رقم ۷۶۰۰ میں عدی کا سوال یوں نقل ہوا ہے: ’یا رسول اللّٰہ انا نصید الصید فلا نجد سکینا الا الظرار وشقۃ العصا‘ اس روایت کے الفاظ سب میں ایک سے ہیں۔(اے اللہ کے رسول، ہم شکار کر لیتے ہیں، لیکن یہ ہو تا ہے کہ ہمارے پاس ذبح کے لیے چھری نہیں ہوتی ، بس کو ئی دھار والا پتھر یا نوک والی لکڑی ہوتی ہے۔)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2007
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Dec 24, 2016
2064 View