شرک کا انجام - طالب محسن

شرک کا انجام

  قَالَ وَکِیْعٌ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ بْنُ نُمَیْرٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا: وَمَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّ

حضرت وکیع بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور حضرت ابن نمیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہوئے مرا، وہ جہنم میں گیا۔ میں نے کہا:اور جواللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے مرا ،وہ جنت میں گیا۔

عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ: مَا الْمُوْجِبَتَانِ؟ فَقَالَ: مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ.

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا:یارسول اللہ، دو لازمی امور کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے مرا ، وہ جنت میں گیا اورجو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہوئے مرا ،وہ جہنم میں گیا۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَہُ یُشْرِکُ بِہِ دَخَلَ النَّارَ.

حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ سے اس طرح ملا کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں گیا اور جو اس سے اس طرح ملا کہ وہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہراتا تھا، وہ جہنم میں گیا۔

لغوی مباحث

’دخل الجنۃ‘،’دخل النار‘:بظاہر یہ لازم و ملزوم کا اسلوب ہے۔ پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ شرک کا مجرم یقینی طور پرجہنمی ہے۔ یہ بات قرآن مجید سے ثابت ہے، لیکن اس کے برعکس نتیجہ ،یعنی مؤحد لازماً جنت میں جائے گا، یہ بات قرآن مجید کے بیان کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن مجیدصحت عقیدہ کے ساتھ عمل صالح کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا جملہ مجانست کے اسلوب پر ہے، اسے پہلے جملے کے معنی میں لینا درست نہیں ہے۔

معنی

کچھ شارحین نے اس روایت کے محولہ بالا مسئلے کو شفاعت کے حوالے سے حل کیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک چونکہ توحید کا ماننے والا شفاعت کا مستحق ہے اور شفاعت کے نتیجے میں بخشا جائے گا، اس لیے دونوں جملے درست ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے، لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ وہ جرائم جن پر قرآن مجید نے ابدی جہنم کی وعید سنائی ہے، ان کے مرتکبین بھی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ یہ بات شفاعت سے متعلق روایتوں میں بیان بھی ہوئی ہے: ’مَا بَقِیَ فِی النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَیْہِ الْخُلُوْدُ‘، ’’آگ میں وہی باقی رہ گیا ہے جسے قرآن نے روک لیا ہے، یعنی اس پر قرآن کی رو سے خلود واجب ہے۔‘‘ (بخاری، رقم۴۲۰۶)
قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ مشرک کو مغفرت نہیں ملے گی۔ قرآن مجید میں یہ بات اس بات کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ اس کے سوا سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔قرآن کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ استغفار اور دوسری نیکیوں سے تلافی مافات ہوتی رہتی ہے۔ غالباً انھی پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان روایات میں دونوں باتیں بیان ہوئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ توحید اور شرک کو ہمارے دین میں یہ اہمیت کیوں حاصل ہے؟ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ذات باری تعالیٰ کا شعور ہے۔ خدا کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق خدا سے صحیح تعلق ،سارا دین اسی نکتے کی تفصیل ہے۔اگریہ بات ہی درست نہ ہوئی تو ایمانیات اور شریعت کی حقیقت ہی تبدیل ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ درست ہو تو امکان ہے کہ کوتاہیوں کے باوجود ایک مسلمان جادۂ مستقیم سے محروم نہیں ہوگا۔ روایت میں قول توحید کی بات نہیں ہوئی، بلکہ حالت توحید کی بات ہوئی ہے۔ جس کا حال باطن سچی توحید ہو، اس کی زندگی شرک و بدعت اور نفاق و بغی سے عبارت نہیں ہو سکتی اور یہی چیز بخشش کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔

متون

کتب حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی تھی۔ چنانچہ کہیں سوال کے جواب میں، کہیں گفتگو کے مابین اور کہیں بطور اصول یہ بات بیان ہوئی ہے۔ کسی روایت میں صرف توحیدیا عدم شرک والا جملہ ہے اور کسی میں دونوں ہیں۔ کسی روایت میں یہ خبر بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات حضرت جبریل علیہ السلام نے بتائی تھی۔ کسی روایت میں یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والی شفاعت کے اعزاز کی شرط کے طور پر بیان ہوئی ہے۔
’موجبتان‘ والی روایت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی میں مجرد یہی جملہ نقل ہوا ہے اور کسی میں یہ ایک مفصل بات کے جز کے طور پر منقول ہے۔
جہاں تک لفظی فرق کا تعلق ہے تو اس میں امام مسلم نے نمائندہ روایات نقل کر دی ہیں ۔

کتابیات

بخاری، رقم ۱۱۸۰، ۱۱۸۱، ۶۰۷۸، ۷۰۴۹؛ مسلم، رقم ۹۲، ۹۳؛ ترمذی، رقم ۲۶۴۴؛احمد، رقم ۴۰۳۸، ۴۲۳۱، ۵۶۲۵،۶۵۸۶، ۹۵۰۰، ۱۱۷۶۸، ۱۳۵۸۵، ۱۵۲۴۷، ۱۸۳۱۰، ۱۹۰۶۱، ۲۱۴۵۲، ۲۱۴۷۱، ۲۱۴۷۲، ۲۱۵۰۲، ۲۲۱۳۶، ۲۲۱۴۴، ۲۲۵۱۷، ۲۳۵۷۰، ۲۳۶۰۶، ۲۳۶۴۲، ۲۷۵۷۸؛ مسند عبد بن حمید، رقم ۴۱۳؛ السنن الکبریٰ، رقم ۱۰۹۶۳، ۱۰۹۶۸؛مسند ابو یعلیٰ، رقم ۱۰۲۶؛ ابن حبان، رقم ۲۱۳، ۳۳۲۶؛ مستدرک، رقم ۵۰۷۹؛ سنن بیہقی، رقم ۱۳۰۷۵، ۲۰۵۶۰۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2011
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 16, 2016
2999 View