اولاد کی تربیت - سید منظور الحسن

اولاد کی تربیت

[ایک عمومی نشست میں جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے ماخوذ]

 

ہمارے معاشرے میں اکثر والدین اپنی اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ جب بچے بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو والدین کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے دین کی باتوں پر عمل کریں،باقاعدگی سے نماز پڑھیں، روزے رکھیں ، قرآن کی تلاوت کریں۔ اسی طرح ان کی تمناہوتی ہے کہ ان کی اولاد پاکیزہ عادتیں اپنائے، برے طور طریقوں سے گریز کرے اور اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرے۔ ان چیزوں کو اپنے بچوں میں پیدا کرنے کے لیے وہ بالعموم سختی اور زبردستی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ تربیت و اصلاح کا واحد راستہ جبرہے۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ اصلاح کے اس طریقے کو اختیار کرنے کے بعد، بچوں کی مختلف طبیعتوں اور مختلف حالات کے لحاظ سے تین ہی طرح کے نتائج نکلتے ہیں۔
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دھیمے مزاج والے بچے اپنی شخصیت کو ختم کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے عمل میں ان چیزوں کو اختیار کر لیتے ہیں جو نہ ان کے شعور کا حصہ بنی ہوتی ہیں اور نہ ان کے ذوق و شوق سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ والدین کے حکم پر نماز، روزہ اور دوسرے دینی احکام پر باقاعدگی سے عمل کر رہے ہوتے ہیں، مگر ان اعمال کے پیچھے شعور اور ارادے کی کوئی قوت نہیں ہوتی۔وہ چہرے پر ڈاڑھی بھی سجا لیتے ہیں اور خاص طرح کا لباس بھی پہن لیتے ہیں ،مگران چیزوں کے لیے ان پربے دلی اور بے رغبتی ہی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔اس صورت حال میں،ان کے اندر زندگی کا جوش و جذبہ اور کچھ کر گزرنے کی امنگ، کم و بیش ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض تیز مزاج والے بچے باغیانہ طرز عمل اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ باتیں جنھیں ان کے دل و دماغ نے قبول نہیں کیا ہوتا، وہ ان پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ دین و اخلاق کی باتیں محض دقیا نوسی تقریریں ہیں، ہم اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہیں ڈھال سکتے۔ والدین کی طرف سے سختی کے جواب میں وہ ردعمل کی ایسی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ضد اور سرکشی کے رویے ان کی طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہ بعض اوقات ان باتوں کو بھی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جنھیں ان کی عقل بالکل ٹھیک قرار دے رہی ہوتی ہے۔
اس کا تیسرا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بعض معتدل مزاج والے بچے منافقت کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ والدین کے سامنے ان کی مرضی کا اور ان کی عدم موجودگی میں اپنی مرضی کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔والدین یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ایک خاص دینی اور اخلاقی زندگی گزار رہے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
ان تینوں میں سے کوئی نتیجہ بھی مثبت اثرات کا حامل نہیں ہے۔ ان میں سے ہرنتیجہ بچوں کی تہذیب نفس میں رکاوٹ بننے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس میں اولاد کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اصل غلطی والدین کے تربیت کے طریقے میں پائی جاتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس ساخت پر پیدا کیا ہے کہ پہلے وہ کسی بات کو اپنے ذہن و فکر اور شعور و ارادے کا حصہ بناتا ہے اور اس کے بعد اپنے عمل کو اس کے مطابق کرتا ہے۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے صرف جانور کے لیے رکھا ہے کہ اس کو جس طرف ہانکا جائے، وہ اسی طرف مڑ جائے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دو ہی راستوں سے کوئی بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔ ایک عقل کے راستے سے اور دوسرے جذبات کے راستے سے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں نے ہمیشہ انسان کے ذہن کو مخاطب بنایاہے اور اس کے در دل پر دستک دی ہے۔
والدین اگر اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پرانے طریق کار کو یکسربدل دیں۔ اس مقصد کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ دینی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے جو بات بھی اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ، پہلے اسے ان کے شعور کا حصہ بنائیں۔ سختی، دھونس، دباؤ، زبردستی اور جبر کے تمام طریقے ترک کر دیں۔ ان کے علم کو اور ان کے فہم کو بہتر کریں۔ اور سقراط کی اس بات کو پلے باندھ لیں کہ صحیح علم ہی سے صحیح عمل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کابھی اہتمام کریں کہ بچے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اچھی صحبت میں گزاریں۔ وہ انھیں ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کریں کہ بچے غیر محسوس طریقے سے پاکیزگی کو اپناتے چلے جائیں۔ اولاد کی تربیت و اصلاح کا واحد راستہ یہی ہے ۔ اس کے علاوہ جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا، وہ گھر کی فضا میں گھٹن یا سرکشی یا منافقت کے سوا کوئی اور چیز پیدا نہیں کر سکے گا۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت ستمبر 2005 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
2664 View