’’اس سیاست سے ہماری غرض یہ نہ تھی کہ صاحب ملک و جاہ بن جائیں، ہم تو محض اللہ کے بندوں کی تہذیب و تادیب چاہتے تھے۔ اب ہم انھیں منتقم حقیقی کے انصاف پر چھوڑتے ہیں اور بقیہ رفیقوں کے ساتھ دوسرے ملک کا راستہ لیتے ہیں۔ ہم اپنے وطن کو چھوڑ سکتے ہیں۔جہاں کہیں صادق القول لوگ مل جائیں گے، وہاں مقیم ہو جائیں گے۔ اس ملک پر انحصار نہیں۔‘‘ ( پاکستان کا نظام حکومت اور سیاست، ڈاکٹر ایم اے رزاق ۴۱)

ہجرت کا سفر ابھی جاری تھا کہ وادیِ کاغان کے ایک سردار نے سکھ فوجوں کے خلاف مدد کی درخواست کی ۔ سید صاحب نے اسے قبول کیا اوربالا کوٹ پر قبضہ کر لیا۔ سکھ حکومت کے بیس ہزار کے لشکر نے بارہ سو مجاہدین پر حملہ کر دیا ۔ مجاہدین کی اکثریت اس معرکے میں شہید ہو گئی ۔ سالارِ قافلہ سید احمد بھی بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔سکھوں نے بالا کوٹ پر قبضہ کر لیا۔ مکانوں کو آگ لگا دی ۔ شہریوں کا قتل عام کیا ،یہاں تک کہ بیماروں اور زخمیوں کو بھی مار ڈالا۔
سید احمد بریلوی اور ان کے رفقاجانتے تھے کہ ان کے پاس اقتدار کی قوت نہیں ہے؛وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ ایک منظم حکومت کے خلاف جنگ کے لیے نکل رہے ہیں؛انھیں معلوم تھا کہ ان کے سپاہی باقاعدہ فوجی تربیت کے حامل نہیں ہیں اور نہ پوری طرح اسلحہ سے لیس ہیں؛وہ اس بات کا علم رکھتے تھے کہ ان کے چند سو افراد کے مقابلے کے لیے ہزاروں کا لشکرِجرار موجود ہے؛ اور وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ دنیا کی سپر پاور برطانوی حکومت کی تائید ان کے مقابلے میں سکھوں کو حاصل ہے۔اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے مسلح جنگ کا اقدام کیا اور جامِ شہادت نوش کیا۔
اس اسلوبِ جدوجہد کو اگر ہم اصولی لحاظ سے بیان کرنا چاہیں تو ان نکات میں بیان کر سکتے ہیں :
۱۔مقتدر قوتوں کے ساتھ تصادم کا طرزِ عمل
۲۔ جہاد و قتال اور ہجرت کی ترغیب
۳۔مسلح گروہوں کا قیام
۴۔ سیاسی جدوجہد کے لیے مسلح اقدامات
جدوجہد کے اس انداز سے جو نتائج برآمد ہوئے ، وہ یہ ہیں :
ایک یہ کہ مسلمانانِ ہند انگریز حکمرانوں کے لیے ایک محارب قوت کے طور پر سامنے آئے ۔ چنانچہ ان کے دل میں ان کے لیے عناد پیدا ہو گیا اور انھوں نے مسلمانوں پر ترقی کے دروازے بند کرنے شروع کر دیے۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں نے رد عمل کے طور پر انگریزقوم اور اس کی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدہ کی بھی مخالفت کی اور اس طرح انھوں نے دورِ جدید میں ترقی کے بنیادی عنصر کو یکسر نظر انداز کر دیا ۔
تیسرے یہ کہ قوم کے باصلاحیت اور مخلص نوجوانوں نے مقتل کا رخ کیا اور قومی ترقی اور خدمت دین میں کوئی کردار ادا کیے بغیر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اپنے رسالے’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں سید احمد بریلوی کی اس تحریک کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔اس کے خصائص کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’انھوں نے عامۂ خلائق کے دین، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور جہاں جہاں ان کے اثرات پہنچ سکے، وہاں زندگیوں میں ایسا زبردست انقلاب رونما ہوا کہ صحابۂ کرام کے دور کی یاد تازہ ہو گئی ۔۔۔ انھوں نے دنیا کے سامنے پھرایک مرتبہ روحِ اسلامی کا مظاہرہ کر دیا۔ ان کی جنگ ملک و مال یا قومی عصبیت یا کسی دنیوی غرض کے لیے نہ تھی، بلکہ خالص فی سبیل اللہ تھی۔ ان کے سامنے کوئی مقصد اس کے سوا نہ تھا کہ خلق اللہ کو جاہلیت کی حکومت سے نکالیں اور وہ نظامِ حکومت قائم کریں جو خالق اور مالک الملک کے منشا کے مطابق ہے ۔۔۔ یہ خدا سے ڈرنے والے، آخرت کے حساب کو یاد رکھنے والے اور ہر حال میں راستی پر قائم رہنے والے تھے، خواہ اس پر قائم رہنے میں ان کو فائدہ پہنچے یا نقصان۔ انھوں نے کہیں شکست کھائی تو بزدل ثابت نہ ہوئے اور کہیں فتح پائی تو جبار اور متکبر نہ پائے گئے۔ اس شان کے ساتھ خالص اسلامی جہاد ہندوستان کی سرزمین میں نہ ان سے پہلے ہوا تھا اور نہ ان کے بعد ہوا۔ ان کو ایک چھوٹے سے علاقہ میں حکومت کرنے کا موقع ملا، انھوں نے ٹھیک اس طرز کی حکومت قائم کی جس کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا گیا ہے ۔۔۔ہر پہلو میں انھوں نے اس حکمرانی کا نمونہ ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیاجو صدیق و فاروق نے کی تھی۔‘‘ (تجدید و احیاے دین، سید ابو الاعلیٰ مودودی۱۱۵)

سید صاحب اوران کے رفقا کے ان اعلیٰ خصائص کے باوجود مولانا مودودی صاحب نے جن کا اپنا فکر اسی اسلوبِ جدوجہد کا آئینہ دار ہے، نتائج کے اعتبار سے اسے ایک ناکام تحریک کہا ہے اور اس ناکامی کا ایک اہم سبب دور جدید سے عدم توجہی کو قرار دیا ہے :

’’سید صاحب اور شاہ اسماعیل شہیدجو عملاً اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اٹھے تھے ، انھوں نے سارے انتظامات کیے ،مگر اتنا نہ کیا کہ اہل نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ (انگریز) قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات ، نئے وسائل ، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے ، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے۔ اس کے گھر میں کس نوعیت کے ادارات قائم ہیں ، اس کے علوم کس قسم کے ہیں ۔ اس کے تمدن کی اساس کن چیزوں پر ہے ۔ اور ا س کے مقابلہ میں ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے ۔ جس وقت یہ حضرات جہاد کے لیے اٹھے ہیں ، اس وقت یہ بات کسی سے چھپی نہ تھی کہ ہندوستان میں اصلی طاقت سکھوں کی نہیں ، انگریزوں کی ہے، اور اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مخالفت اگر ہو سکتی ہے تو انگریز ہی کی ہو سکتی ہے ، پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ان بزرگوں کی نگاہِ دوررس سے معاملہ کا یہ پہلو بالکل ہی اوجھل رہ گیا کہ اسلام و جاہلیت کی کشمکش کا آخری فیصلہ کرنے کے لیے جس حریف سے نمٹنا تھا ، اس کے مقابلہ میں اپنی قوت کا اندازہ کرتے اور اپنی کمزوری کو سمجھ کر اسے دور کرنے کی فکر کرتے ۔ بہرحال جب ان سے یہ چوک ہوئی تو اس عالمِ اسباب میں ایسی چوک کے نتائج سے وہ نہ بچ سکتے تھے۔‘‘(تجدید و احیاے دین، سید ابو الاعلیٰ مودودی۱۲۸)

سید احمد شہید کے طرزِ جدوجہدکے بعد اب سر سید احمد خان کے اسلوبِ جدوجہد کا جائزہ لیتے ہیں۔
انگریز۱۸۴۶ء تک کم و بیش پورے ہندوستان پر عملاً قابض ہو چکے تھے۔۱۸۵۷ء میں اہلِ ہند بالخصوص مسلمانوں نے مغلیہ سلطنت کی بحالی کے لیے پہلے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا مغل اور پھر جنرل بخت خان کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ کچھ دنوں کے لیے دہلی پر قبضہ بھی کر لیا ، مگر بالآخرشکست کھائی۔اس بغاوت میں اگرچہ ہندو بھی شریک تھے ، مگر اس کا غلغلہ چونکہ دہلی اور اودھ کے مسلم علاقوں میں زیادہ تھا اور یہ مسلمان حکومت کی بحالی کی لیے لڑی گئی تھی ، اس لیے اس کا الزام بھی اصلاً مسلمانوں ہی کے سرآیا۔اس بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں مسلمان مارے گئے اور عام مسلمان شہریوں پر سیاسی، معاشی اور علمی ترقی کے دروازے بند ہو گئے۔
اس جنگ کے موقع پر سر سید احمد خان بجنور میں جج کے عہدے پر تعینات تھے۔ یہاں انھوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کئی انگریزوں کی جانیں بچائیں۔انگریز حکمران مسلمانوں کو جنگِ آزادی کا واحد ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ سر سید نے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی پوزیشن کو صاف کرنے کی کوشش کی۔’’طعام اہل کتاب ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس کا مقصد انگریزوں پر یہ واضح کرنا تھا کہ اسلام عیسائیوں کا کھانا کھانے کی اجازت دیتا ہے۔
اقتدار کے خاتمے نے مسلمانوں کو ردعمل کی ایک خاص نفسیات میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ انگریزی معاشرت کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم کا بھی بائیکاٹ کرنے پرمصر تھے۔ سرسید نے انھیں اس کے برعکس اس بات کی ترغیب دی کہ وہ میسر مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور صبر و حکمت کے ساتھ نئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کریں۔انھوں نے ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ قائم کی جس کا مقصد مغربی علوم کو متعارف کرانا تھا۔ اسی طرح انھوں نے’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے ایک علمی و تحقیقی جریدہ جاری کیا۔سرسید نے اس بات کو بہت اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کیا تووہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ اس سلسے میں انھوں نے علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا جو دو سال بعد ہی کالج بن گیا اور بالآخر اسے ایک یونیورسٹی کی حیثیت حاصل ہو گئی۔
سر سید نے مسائل کے حل کے لیے سیاسی طرزِ عمل اختیار کرنے کوترجیح دی۔ انھوں نے ۱۸۸۶ ء میں اہلِ ہند کی شکایات کو حکومت تک پہنچانے کے لیے ’’برٹش انڈین ایسوسی ایشن ،،کے نام سے ایک فورم قائم کیا۔ اسی طرح انھوں نے۱۸۹۳ ء میں ’’محمڈن اینگلو اوریئنٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ قائم کی ۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ تھا اور انھیں ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا تھاجہاں وہ اپنے مسائل کو زیرِ بحث لا سکیں۔
سر سید کے اس اندازِ کار کو ہم ان نکات میں بیان کر سکتے ہیں :
۱۔ مقتدر قوتوں سے موافقت کا طرزِ عمل
۲۔ علوم و فنون کے ذریعے سے موثر ہونے کی ترغیب
۳۔تعلیمی اداروں کا قیام
۴۔ سیاسی جدوجہد کے لیے پرامن اقدامات
سر سید احمد خان کے اسلوب جدوجہد کے یہ نتائج نکلے :
ایک یہ کہ حکمران طبقے کے معاندانہ رویے میں کمی آئی اور مسلمانوں کے لیے بھی معاشی ترقی کے دروازے کھلنے لگے۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ذہین اور مخلص نوجوان میدانِ جنگ کے بجائے میدانِ علم کی طرف بڑھے اور قومی تعمیر کے لیے سرگرم ہوگئے۔
تیسرے یہ کہ مسلمانوں نے قیمتی جانیں ضائع کیے بغیر ہند میں اپنا سیاسی تشخص بحال کیا اور بتدریج دو بڑی مسلمان ریاستوں کو وجود بخشا۔
مولانا امین احسن اصلاحی سر سید کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

’’ یہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے کہ وہ مسلمان قوم کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے ۔ انھوں نے تاریخ کے ایک نہایت ہی نازک دور میں مسلمانوں کی خدمت کی اور ایسے اخلاص کے ساتھ خدمت کی کہ اس اخلاص کی کم از کم از پچھلے دور میں تو مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ ان کے خلوص ہی کی برکت تھی کہ نہایت اعلیٰ قابلیتوں اور نہایت بلند سیرت و کردار کے اتنے رجال وقت انھوں نے اپنے گرد جمع کر لیے کہ ہمارے لیڈروں میں سے کوئی دوسرا شخص ان صفات اور صلاحیتوں کے اتنے اشخاص اپنے گرد جمع نہ کر سکا۔ شبلی ،حالی ، نذیر احمد، محسن الملک، وقار الملک، کس کس کو گنیے؟ ان میں سے ایک ایک شخص اپنے علم وفضل اور اپنی خدماتِ قومی کے لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لیے قابلِ فخر ہے ۔۔۔ میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی سر سید مرحوم کی تفسیرِ قرآن کو ایک فتنہ سمجھتے تھے، لیکن ان کے قومی خلوص اور ان کے کردار کی بلندی کے بڑے مداح تھے۔‘‘(تفہیم دین، مولانا امین احسن اصلاحی ۱۷۵)

ان دونوں شخصیات اور ان کے کام کا تعلق ہماری قریب کی تاریخ سے ہے۔ ہم اس کی تفصیلات کو پڑھ سکتے اور ان کے نتائج کا جزئیات کی حد تک مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کون سا لائحۂ عمل کامیاب رہا اور کون سا ناکام ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں کسی علمِ کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم اسے قرطاسِ ارض ہند پر رقم دیکھ سکتے ہیں۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2002