’’اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ فی سبیل اللہ کے تحت تبلیغی لٹریچر اور قرآنِ کریم کے تراجم کی طباعت کے لیے مالِ زکوٰۃ کا استعمال شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے۔اگر چہ فی سبیل اللہ کی مد کے تحت جہاد اور تبلیغی سرگرمیوں کے لیے مالِ زکوٰۃ صرف ہو سکتا ہے، لیکن ان میں بھی تملیک کی شرط لازم ہے۔ مثلاً جہاد کے ضمن میں صرف انھی مجاہدین کو زکوٰۃ دینے کی اجازت ہے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں۔ فی سبیل اللہ کے تحت کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کو لٹریچر چھاپنے کے لیے زکوٰۃ کا استعمال اس کے اصل مقاصد جو فقیروں، مسکینوں اور محتاجوں کی مد ہے کو ختم کر دے گا۔ زکوٰۃ مذکورہ بالامقاصد سے ہٹ کر خرچ کرنے کے جواز سے زکوٰۃ کے بے جا استعمال کے لیے ایک بہت بڑا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے ملک کی بہت سی سیاسی جماعتوں کا دین سے تعلق ہے۔ وہ دینی خدمت کے جذبے سے ہی الیکشن بھی لڑتی ہیں۔ خدشہ ہے کہ آیندہ وہ الیکشن پر بھی زکوٰۃ صرف کرنے لگیں گی، کیونکہ الیکشن بھی تو اعلائے کلمۃ اللہ کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس ذریعے کے طور پر اس طرح کے مقاصد کے لیے زکوٰۃ کے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ اس قسم کے مصارف کے لیے زکوٰۃ فنڈ مہیا کرنا اسلام کے مقاصد سے دور لے جائے گا۔‘‘(روزنامہ جنگ،۱۸ جولائی ۲۰۰۱)

اس رپورٹنگ میں بنیادی طور پر دو نکات بیان ہوئے ہیں:

۱۔زکوٰۃ کے لیے تملیک کی شرط لازم ہے۔
۲۔زکوٰۃ کا تبلیغی لٹریچر کی اشاعت پر صرف ناجائز اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے استعمال نامناسب ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی نکات قرآن و سنت میں بیان کیے گئے تصورِ زکوٰۃ سے مطابقت نہیں رکھتے۔اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت سے پہلے ہم قارئین کی سہولت کے لیے یہاں ’تملیک ‘ کا مفہوم بیان کیے دیتے ہیں۔
اس کا لغوی مفہوم کسی شخص کو کسی شے کا مالک بناناہے۔زکوٰۃ کے باب میں اس اصطلاح سے مراد کسی فرد کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنانا ہے۔ہمارے علما کے نزدیک زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی ضرورت مند کو اس کا مالک بنایا جائے۔ چنانچہ اس نقطۂ نظر کے مطابق زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی فلاح کے کاموں پر خرچ نہیں کیا جا سکتا۔یعنی مثال کے طورپر اس سے غربا کے مفت علاج کے لیے ہسپتال نہیں بنایا جا سکتا،ان کے بچوں کے لیے کوئی مدرسہ یا اسکول قائم نہیں کیا جا سکتا، ان کے علاقے میں صاف پانی کا بندوبست نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے کسی مرنے والے کی تجہیز و تکفین کا انتظام نہیں کیا جا سکتااور نہ اس کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی جا سکتی ہے، کیونکہ موت کی وجہ سے وہ اس رقم کا مالک نہیں بن سکتا۔
تملیک کوزکوٰۃ کی شرط قرار دینے کے لیے بالعموم یہ دلائل پیش کیے جاتے ہیں:

پہلی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ قرآنِ مجید کی آیت ’انما الصدقات للفقرا‘ کے لفظ ’للفقرا ‘ میں حرفِ ’ل‘ تملیک کے لیے آیا ہے جس کا مفہوم مالک بنانا ہے۔
دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ قرآنِ مجید کے الفاظ ’اتوا الزکوۃ‘ میں لفظِ ’ایتا‘ تملیک ہی کا مفہوم دیتا ہے۔
تیسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا نام ’صدقہ‘ رکھا ہے اور ’تصدق‘ کا مفہوم تملیک ہی ہے۔
صاحبِ ’’تدبرِ قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے رسالے ’’مسئلۂ تملیک‘‘ میں ان دلائل پر تنقید کرتے ہوئے، تملیکِ شخصی کے نقطۂ نظر کو قرآن و سنت کے منشا کے خلاف قرار دیا ہے۔ہمارے نزدیک ان کا نقطۂ نظر علم و عقل کے لحاظ سے قوی اور قرآن و سنت کے منشا کے مطابق ہے، اس لیے یہ مناسب ہے کہ یہاں اس کی تلخیص کر دی جائے۔
پہلی دلیل کی تردید میں ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔تملیک کے رکنِ زکوٰۃ ہونے کی کوئی نقلی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔
۲۔ جہاں تک ’للفقرا‘ کے ’ل‘ کا تملیک کے مفہوم میں ہونا ہے تو اس ضمن میں یہ بات واضح رہے کہ عربی زبان میں ’ل‘ صرف تملیک کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ متعدد دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان کے معروف عالم ابنِ ہشام نے اپنی کتاب ’’مغنی اللبیب‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ ’ل‘ ۲۲ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس کے چند استعمالات یہ ہیں:

o استحقاق یعنی مستحق ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ’الحمد للّٰہ‘ کے لفظ ’للّٰہ‘ میں استعمال ہوا ہے۔ اس جملے کا مفہوم ہو گا کہ: ’’شکر کا حق دار اللہ ہی ہے۔‘‘
o اختصاص یعنی خاص ہونے کے معنی کے لیے آتا ہے۔ جیسا کہ ’الجنۃ للمومنین‘ کے لفظ ’للمومنین‘ میں آیا ہے۔اس جملے کا مفہوم ہو گا کہ: ’’جنت مومنین کے لیے خاص ہے۔‘‘
o ملکیت یعنی مالک ہونے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ’لہ ما فی السموات وما فی الارض‘ کے لفظ ’لہ‘ میں آیا ہے۔ اس جملے کا مطلب ہو گا کہ: ’’اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘
o تملیک یعنی مالک بنانے کے معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ’وھبت لزید دینارا‘ کے لفظ ’لزید‘ میں آیا ہے۔اس جملے کے معنی ہوں گے: ’’میں نے زید کو ایک دینار ہبہ کر دیا۔
o عاقبت یعنی انجامِ کارکے مفہوم کے لیے بھی آتا ہے۔ جیسا کہ ’فالطقتہ آل فرعون لیکون لھم عدوا و حزنا‘ کے لفظ ’لیکون‘ میں آیا ہے۔ اس جملے کا مفہوم ہو گا: ’’اور اس (موسیٰ) کو فرعون کے گھر والوں نے دریا سے نکال لیا، تاکہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کے لیے دشمن اور غم کا کانٹا بنے۔‘‘
ابنِ ہشام نے تملیک کے سوا باقی تمام مفاہیم کے لیے مثالیں قرآنِ مجید سے نقل کی ہیں، لیکن تملیک کے لیے اس نے عربی زبان کا ایک عام جملہ نقل کیا ہے۔ اگر ’انما الصدقات للفقرا‘ میں ’ل‘ کا تملیک کے مفہوم میں ہونا اتنا ہی واضح ہوتا تو وہ لازماً قرآنِ مجید کا یہی جملہ بطورِ مثال نقل کرتے۔
۳۔ ’للفقرا‘ کے ’ل‘ کے بارے میں ہمارے آئمہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ احناف اسے ’عاقبت‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔ مالکیہ ’اجل‘ کے مفہوم میں لیتے ہیں۔ امام شافعی تملیک کے مفہوم میں لیتے ہیں۔
۴۔اس آیت کا سیاق وسباق تملیک کا مفہوم لینے سے ابا کرتا ہے۔
آیت اور اس کا سیاق و سباق یہ ہے:

’’اور ان منافقین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تمھیں صدقات کی تقسیم کے بارے میں متہم کرتے ہیں، اگر اس میں سے انھیں بھی ان کی خواہش کے بقدر دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس پر قناعت کرتے جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اللہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا اور اس کا رسول بھی ہمیں عطا فرمائے گا، ہم تو اللہ ہی سے لو لگائے ہوئے ہیں تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی۔ خیرات کا مال تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور ان کارکنوں کا جو مالِ خیرات کے وصول کرنے پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلوں کا پرچانا منظور ہے۔ نیز گردنیں چھڑانے میں اور زیرباروں کے قرضہ میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی ضروریات میں اس کو خرچ کیا جائے۔ یہ اللہ کا ٹھیرایا ہوا فریضہ ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبہ۹: ۵۸۔۶۰)

مولانا امین احسن اصلاحی آیت کے سیاق و سباق کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’دیکھیے، یہاں اوپر والی آیت میں ذکر ان منافقین کا تھا جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسنِ ظن اور سوءِ ظن تمام تر اغراض پر مبنی تھا۔ اگر خیرات کے مال میں سے ان کی خواہش کے بقدر انھیں مل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب خوب تعریفیں کرتے اور خواہش کے بقدر نہ ملتا تو آپ کو متہم کرنے سے بھی باز نہ رہتے۔ آپ پر بے جا جانب داری اور ناروا پاس داری کا الزام لگاتے اور لوگوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کرتے پھرتے۔ غور کیجیے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات کیا ہو سکتی ہے۔ یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی فقیر کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے یا یہ کہ زکوٰۃ و خیرات کی رقوم کے اصل حق دار اور مستحق فلاں فلاں قسم کے لوگ ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات یہ دوسری ہی ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی۔ چنانچہ مفسرین میں سے جن لوگوں کی نظر سیاق و سباق پر رہتی ہے، انھوں نے آیت کی یہی تاویل کی بھی ہے۔ ‘‘ (مسئلۂ تملیک ۱۶)

۵۔آیت کی اندرونی تالیف تملیک کا مفہوم لینے میں مانع ہے۔اس کی وضاحت مولانا اصلاحی نے ان الفاظ میں کی ہے:

’’ آیت کے اندر، جیسا کہ بالکل واضح ہے، آٹھ اصناف کا بحیثیتِ مصارفِ خیر کے ذکر ہے، جن میں سے ابتدائی چار کا ذکر ’لام‘ کے تحت ہے اور چار کا ذکر ’فی‘ کے تحت۔ ظاہر ہے کہ کلام میں یہاں کوئی ایسی ہی تقدیر ماننا مناسب ہو گا جو ’لام‘ کے ساتھ بھی مربوط ہو سکے اور ’فی‘ کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو سکے۔ اگر ’لام‘ کو تملیک کے معنی میں لیجیے تو آیت کا ابتدائی حصہ اس کے آخری حصہ سے بالکل ہی بے ربط ہو کے رہ جائے گا۔ کیونکہ ’فی‘ میں بہرحال تملیکیت کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا۔ اگر اس کے اندر پایا جاتا ہے تو افادیت اور خدمت و مصلحت کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ’ما کان العبد فی عون اخیہ‘ (جب تک کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے کام میں یا اس کے مصالح کی خدمت میں رہتا ہے)۔ پس آیت کے دونوں حصوں کی ہم آہنگی کا اقتضا یہ ہے کہ یہاں لام کو استحقاق یا انتفاع کے مفہوم میں لیا جائے تاکہ ایک ہی تقدیر کے تحت پوری آیت کی تاویل ہو سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ ’لام‘ میں تملیک کا مفہوم لیا گیا تو آخری چار اصناف کے ساتھ تملیکیت کا مفہوم جوڑنے کے لیے کلام کی وسعت اور اس کی بلاغت کو بالکل ذبح کر دینا پڑے گا۔‘‘ (مسئلۂ تملیک ۱۷۔۱۸)

دوسری اور تیسری دلیل، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، یہ ہے کہ ’ایتا‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ کی حقیقت تملیک ہی ہے۔ان دلائل کے ضمن میں مولانا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بعض مقامات پران الفاظ میں تملیک کا مفہوم شامل ہو جاتاہے، مگر ان کے نزدیک اس میں فیصلہ کن حیثیت سیاق و سباق کو حاصل ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تملیک کا مفہوم ان الفاظ کے اندر ہر حال میں پایا جاتا ہو۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو ہمیں ’و اتینا ھم الکتاب‘ (اور ہم نے ان کو کتاب دی)، اور ’اتینا داود زبورا‘ (اور ہم نے داود کو زبور عطا کی) میں تملیک کا مفہوم لینا پڑتا جو کہ درست نہ ہوتا۔ اسی طرح سورۂ منافقون کی اس آیت ’فاصدق و اکن من الصٰلحین‘ (پس میں صدقہ کرتا اور نیکو کاروں میں سے بنتا) سے مراد ہے کہ: ’’میں مختلف طریقوں سے اللہ کی راہ میں اور غربا کی بہبود کے کاموں میں فیاضی کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتا۔‘‘ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ: ’’میں تملیکِ فقیر کیا کرتا۔‘‘ چنانچہ مولانا لکھتے ہیں:

’’’ایتاء‘ یا ’تصدق‘ کے الفاظ تملیک کے معنی یا مفہوم کے لیے ایسے قطعی نہیں ہیں کہ آپ ان کو تملیک کے ثبوت میں نص کی حیثیت سے پیش کریں۔ ان سے اصلی چیز جو ظاہر ہوتی ہے وہ دینا یا خرچ کرنا ہے۔ یہ دینا اور خرچ کرنا تملیک کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بغیربھی ہو سکتا ہے۔ تملیک پر اس قدر اصرار اور وہ بھی تملیک کی ایک خاص نوعیت پر ،کہ اس کے بغیر زکوٰۃ ادا ہی نہ ہو سکے، یہاں تک کہ کوئی شخص زکوٰۃ کے پیسوں سے کسی غریب میت کے لیے کفن بھی نہ خرید سکے، کسی غریب مردہ کا قرض بھی ادا نہ کر سکے، میرے نزدیک ایک بالکل بے حقیقت بات ہے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک۲۲)

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کے لیے تملیک شرطِ لازم نہیں ہے۔ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی شخص ہی کو اس کا مالک بنایا جائے۔یہ جس طرح اس کی تحویل میں دی جا سکتی ہے، اسی طرح اس کی بہبود کے کاموں میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس مد سے ہسپتال اور اسکول بنائے جا سکتے، سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر ہو سکتی اورمسافر خانے اور سرائیں قائم ہو سکتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری بات یہ کہی ہے کہ زکوٰۃ تبلیغی لٹریچر کی اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے خرچ نہیں کی جا سکتی۔یہ بات بھی محلِ نظر ہے۔ اوپر تملیک کی بحث میں سورۂ توبہ کی جو آیت نقل کی گئی ہے ، اس میں زکوٰۃ کے مصارف پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اس پر نظر ڈال لیتے ہیں:

’’یہ صدقات تو بس فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں، اور ان کے لیے جو ان پر عامل بنائے جائیں، اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو ، اور اس لیے کہ یہ گردنوں کے چھڑانے اور تاوان زدوں کی مدد کرنے میں، راہِ خدا میں اور مسافروں کی بہبودکے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (۹:۶۰)

استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اس آیت میں درج ۷مصارفِ زکوٰۃ کی اس طرح وضاحت کی ہے:

’’۱۔ فقرا اور مساکین کے لیے۔
۲۔ ’العاملین علیھا‘ یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں۔
۳۔ ’المؤلفۃ قلوبھم‘ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات۔
۴۔ ’فی الرقاب‘ یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے۔
۵۔ ’الغارمین‘ یعنی کسی نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔
۶۔ ’فی سبیل اللّٰہ‘ یعنی دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبود کے کاموں میں۔
۷۔ ’ابن السبیل‘ یعنی مسافروں کی مدد کے لیے سڑکوں، پلوں، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔‘‘ (میزان ۱۴۰)

ان مصارف میں سے ایک مصرف جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، فی سبیل اللہ ہے۔فی سبیل اللہ کے الفاظ اپنے مفہوم میں بہت وسعت رکھتے ہیں۔ ان سے مراد نیکی کے وہ تمام کام ہیں جو اللہ کی راہ میں کیے جائیں۔قرآنِ مجید میں ان الفاظ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ فقرا و مساکین پر خرچ کے لیے بھی آئے ہیں،جہاد بالسیف کے ضمن میں خرچ کے لیے بھی آئے ہیں اوران لوگوں پر خرچ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں جو علمِ دین کے حصول کی جدوجہد کرتے ہیں ۔مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:

’’فی سبیل اللہ کی مد ایک وسیع مد ہے۔ اس میں نیکی اور بھلائی کے سارے ہی کام داخل ہیں۔ اسلام کی دینی و دنیوی مصلحت کی کوئی بات بھی ایسی نہیں رہ گئی ہے جو اس کے اندر سمٹ نہ آئی ہو۔ اس میں کسی پہلو سے تملیک کا بھی کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ کیونکہ اول تو یہاں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے تملیک کا مفہوم اخذ کیا جا سکے۔ لے دے کر ایک ’لام‘ تھا لیکن اس کی جگہ پر بھی جیسا کہ عرض کیا گیا، یہاں ’فی‘ ہے جس کے اندر تملیک کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔‘‘ (مسئلۂ تملیک ۴۸)

-----------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن

تحریر/اشاعت ستمبر 2001