’’مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرہم شوریٰ بینھم‘ ہے، اس لیے ان کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔‘‘( میزان۱۱۳)

اس اصول کی روشنی میں اگر ہم موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنرل صاحب کے مختلف اقدامات اس سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ ۱۲ اکتوبر کے اقدام کوہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس تصور کی بنا پر جائز قرار دے دیں کہ اس کا سبب اولاً قیمتی انسانی جانوں کو زیاں سے بچانا اورثانیاً ملک کو معاشی تباہی سے محفوظ کرنا تھا۔ یہ خیال اگر حرف بہ حرف بھی صحیح ہو تب بھی حقیقت یہ ہے کہ یہ ’امرہم شوریٰ بینھم‘ کے اصول کے منافی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی رائے سے قائم ہونے والی حکومت کو ان سے رائے لیے بغیر ختم کیا گیا ہے ۔ حالیہ اقدامات بھی اس اصول کے مطابق درست نہیں ہیں، کیونکہ اسمبلیوں کی تحلیل بھی عوامی رائے کے بغیر ہوئی ہے اورمنتخب صدر کی معزولی اورنئے صدر کے تقرر جیسے معاملات بھی عوام الناس کی تائید و تصدیق کے بغیر کیے گئے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات آئین کی خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارا آئین درحقیقت وہ دستور العمل ہے جس کے بارے میں قوم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی امور کو اس کی روشنی میں انجام دے گی۔ اس میں ہم نے قومی سطح پر یہ طے کیا ہے کہ ہمارانظامِ حکومت کیا ہو گا؟ حکومت کس طریقے سے وجود میں آئے گی اور کس طریقے سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا؟ سربراہانِ ریاست و حکومت کس طریقے سے منتخب ہوں گے ،ان کے کیا ا ختیارات ہوں گے اور کس طرح ان کا مواخذہ کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار امور جزئیات کی حدتک اس دستور میں طے کیے جا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کا سیاسی استحکام اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ آئین کے لفظ لفظ پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں فوج جب بھی اقتدار میں آتی ہے ، اس کی خلاف ورزی کر کے ہی آتی ہے۔ چنانچہ جناب مشرف صاحب کے اقدامات کے بارے میں ان سمیت کسی کو یہ تردد نہیں ہو گا کہ وہ آئین کے علی الرغم عمل میں آئے ہیں۔
تیسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں جمہوری اقدار کی ترویج رک جاتی ہے۔سیاسی عمل میں رخنہ آجاتاہے اور قومی تعمیر و ترقی کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔موجودہ زمانے میںیہ بات ہر لحاظ سے ثابت شدہ ہے کہ جس معاشرے میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی ،وہ تعمیر و ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری اقدار معاشرے کے افراد کو باشعور بناتی ، ان کے اندر اعتماد پیدا کرتی اور انھیں مستقبل کی بہتری کے لیے سرگرمِ عمل کردیتی ہیں۔فوجی حکمرانوں کی آمد سے چونکہ قومی معاملات میں ان کی شرکت کا راستہ بند ہو جاتا ہے ، اس لیے وہ کوئی فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔مشرف صاحب کے آنے سے پہلے سیاسی عمل اپنی فطری رفتار سے رواں دواں تھا۔ لوگ باری باری مختلف چہروں کو آزما رہے تھے۔ توقع تھی کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آیندہ کچھ عرصے میں نااہل لوگ چھٹتے چلے جائیں گے اور باکردار اور باصلاحیت لوگ قوم کی نمائندگی کے منصب پر فائز ہو جائیں گے، مگر جنرل مشرف صاحب کے اقدامات سے یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا ہے۔
یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جملۂ معترضہ کے طور پر مختصراً ان اعتراضات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو ہمارے ہاں جمہوریت کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں۔
جمہوریت پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ نظام قرآنِ مجید کے شورائیت کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ جمہوریت سے مراد وہ نظامِ حکومت و سیاست ہے جس میں فیصلہ کن حیثیت عوام کی رائے کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ اصطلاح مغرب کی ایجاد کردہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے صدیوں پہلے ’امرہم شوریٰ بینھم‘ کے لافانی اسلوب میں یہ اصول پوری طرح واضح فرما دیا تھا۔اس کی روشنی میں ہم بحیثیتِ قوم اپنے حالات اور تمدنی تقاضوں کے پیشِ نظر کوئی بھی نظام اختیار کر سکتے یا وضع کر سکتے ہیں۔گویا ہم اپنی قومی حیثیت میں مثال کے طور پریہ طے کرسکتے ہیں کہ ہم اپنی منتخب کردہ پارلیمان کے ذریعے سے اپنی رائے کو رو بہ عمل کریں گے یااپنے اندر سے کسی فرد کو حکومت چلانے کے لیے براہِ راست منتخب کریں گے یا کسی فوجی جنرل کو اپنے سیاسی معاملات انجام دینے کی ذمہ داری سونپیں گے۔ ۱۹۷۳ ء میں ہم نے اپنی قومی حیثیت میں متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ ہم پارلیمانی نظامِ حکومت کے ذریعے سے اپنے ریاستی امور انجام دیں گے۔ ہمارا یہ اقدام ’امرہم شوریٰ بینہم‘ کے اصول کے عین مطابق ہے۔
دوسرا اعتراض عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ جمہوری نظامِ حکومت ان ممالک کے لیے ناموزوں ہے جہاں خواندگی کی شرح کم ہو۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے بھی منصبِ صدارت پر فائز ہونے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک بیان کے ذریعے سے اسی نقطۂ نظرکا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ:

’’پاکستان کا ماحول پارلیمانی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی چودہ کروڑ آبادی میں سے ستر فی صد لوگ ناخواندہ ہیں، اس سے دنیا کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا حامل ہو۔‘‘(روزنامہ جنگ، ۳ جون ۲۰۰۱)

پارلیمانی جمہوریت سے مراد وہ طرزِ حکومت ہے جس میں پارلیمان کو ریاست کے سب سے برتر ادارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ادارہ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔عوام کے یہ نمائندے اپنے اندر سے ایک وزیرِ اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔ وزیرِ اعظم اپنی کابینہ کے ذریعے سے حکومت کا نظم چلاتا ہے۔ وہ اپنے تمام اقدامات کے حوالے سے پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ارکانِ پارلیمان اگر اس کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہوں تو وہ اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس نظام میں صدر کی حیثیت آئینی سربراہ کی ہوتی ہے، نظمِ حکومت اور قانون سازی کے معاملات میں اس کی مداخلت نہایت محدود ہوتی ہے۔
اس نظامِ جمہوریت پرمذکورہ اعتراض کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ دو باتیں ہی اس کی تردید کے لیے کافی ہیں:
ایک یہ کہ اس بات کا فیصلہ کہ اہلِ پاکستان کے لیے کون سا نظام درست ہے اور کون سا درست نہیں ہے، دین ،اخلاق اور اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اہلِ پاکستان ہی کو کرنا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء تک اہلِ پاکستان دانستہ یا نادانستہ طور پر مختلف نظام ہاے حکومت کا تجربہ کر چکے تھے۔ اس موقع پر ان کے منتخب نمائندوں نے بہت سوچ بچار کے بعد پارلیمانی نظامِ حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی قوم اپنے اس فیصلے پر ابھی تک قائم ہے ۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے تو انھیں رائے عامہ کو اپنے نقطۂ نظر کے حق میں ہموار کرنا چاہیے، یہاں تک کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے کو اپنی رائے کے طور پر اختیار کر لے۔ رائے عامہ کی تائید کے بغیر کیا جانے والا اجتماعی اقدام کسی لحاظ سے بھی درست قرار نہیں پا سکتا۔
دوسری یہ کہ سیاسی شعور کے ہونے یا نہ ہونے کا تعلیم و تعلم سے کوئی ایسا گہرا تعلق بھی نہیں ہے کہ محض تعلیم کی کمی کو سیاسی شعور کی کمی پر محمول کر لیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم اجتماعی شعور کی بیداری میں معاون ثابت ہوتی ہے،مگر حقیقی معنوں میں سیاسی شعور سیاسی عمل کے تسلسل اور استحکام سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ اس قوم میں سیاسی شعور کی ایسی کمی نہیں ہے کہ اسے حقِ رائے دہی سے محروم کر دیا جائے ۔۱۹۴۷ ء میں اس قوم نے اپنے ووٹوں ہی کے ذریعے سے علیحدہ مملکت اوراس کے لیے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت کا فیصلہ کیا۔۱۹۶۹ ء میں اس قوم نے اپنی پرزور تحریک سے جنرل ایوب خان جیسے باجبروت حکمران کو اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔کیا یہ سیاسی شعور کا اظہار نہیں ہے کہ اس قوم نے بتدریج مذہبی سیاست کو بالکلیہ ختم کر دیا اور ملک کو دو جماعتی نظام کی طرف گام زن کر دیا ہے؟یہ بات صحیح ہے کہ ہماری عوامی سیاست ابھی تک جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے حصار سے نہیں نکلی، لیکن اس کی اصل وجہ عوام کی ناخواندگی نہیں ، بلکہ سیاسی عمل میں بار بار آنے والا تعطل ہے۔ اگر یہ سیاسی عمل کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آیندہ تین چار انتخابات کے بعدشفاف نظامِ سیاست کے قیام اور باصلاحیت اور با کردار حکمرانوں کا انتخاب بہت آسان ہو جائے گا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے معروف محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ’’پاکستان—- تاریخ و سیاست‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ پاکستان کے عوام کی سیاسی پسماندگی کا رونا ان حکمرانوں نے رویا ہے جن کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں تھی۔ اس بدعت کا آغاز میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوا ۔ پھر یہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہوتی ہوئی صدر ضیا الحق تک پہنچی ،کیونکہ یہ حکمران غیر سیاسی پس منظر کے مالک اورعوام سے الرجک تھے ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے جو حقیقی معنوں میں قوم کے قائد تھے کبھی بھی عوام کی ناخواندگی یا سیاسی پسماندگی کی شکایت نہیں کی، حالانکہ اس وقت ناخواندگی کی شرح کہیں زیادہ تھی۔
دنیا میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں ملتی جس کے عوام نے اپنے ووٹ کے تقدس کے تحفظ کی خاطر اتنی قیمتی جانوں اور املاک کا نذرانہ پیش کیا ہوجتنا پاکستانی عوام نے ۱۹۷۷ ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیش کیا۔ یہ حقیقت میں پاکستان کے اس عام شہری کی فتح تھی جو ہر قیمت پر جمہوریت کی بالا دستی کا خواہاں ہے۔ کیا ایک ایسی قوم کو جو اپنے ووٹ کے تقدس کا اس قدر شعور رکھتی ہے جمہوریت کے لیے نااہل قرار دینا ناانصافی نہیں ہے؟‘‘ (۲۹۴ )

تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل کے نتیجے میں جو سیاسی رہنما منظرِ عام پر آئے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اخلاقی پستی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔حکومت کی زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیناملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے ، مگراس کا علاج قومی اداروں کا انہدام نہیں، بلکہ ان کا استحکام ہے۔ادارے جس قدر مستحکم ہوں گے احتساب کا نظام بھی اسی قدر بہتر ہو گا۔اگر ہم اداروں کو ان کے بننے کے عمل سے پوری طرح گزرنے ہی نہیں دیں گے تو طالع آزما لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرتے رہیں گے۔اداروں کا استحکام بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔
چوتھا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے لازمی نتیجے کے طور پر عوام اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں ان کی دلچسپی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال معاشرے کی صحت کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں ہے۔معاشرہ اسی وقت صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوتا ہے جب اس کا ایک ایک فرد قومی تعمیر کے عمل میں پوری طرح شریک ہو۔ مگر جب وہ اپنے اور اپنی قوم کے مستقبل کے حوالے سے شبہات کا شکار ہو گا تو پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کردارادا نہیں کر پائے گا۔ جنرل مشرف صاحب کے منصبِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد اہلِ پاکستان اس وقت ایسے ہی ترددات میں مبتلا ہیں۔وہ سوچتے ہیں کہ کیاواقعی مقررہ مدت تک انتخابات ہو جائیں گے؟انتخابات اگر ہوئے تو کیا وہ رائج نظام ہی کے تحت ہوں گے یا کوئی نیا نظام وضع کیا جائے گا؟جنرل صاحب سابقہ جرنیلوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کریں گے یا وہ منتخب حکومت کو اقتدار سپرد کر دیں گے؟قوم کے یہ ترددات جنرل صاحب کی نیت پر کسی شبہے کا اظہار نہیں ہیں، بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اس مشہود حقیقت پر مبنی ہیں کہ فوج اگر ایک مرتبہ اقتدار میں آجائے تو اپنی مرضی سے واپس نہیں جاتی۔
پانچواں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں فردِ واحدبلا شرکتِ غیرے اقتدار کا مالک بن جاتا ہے۔ کوئی فردِ واحد اپنی ذات میں بہت ایمان دار ہو سکتا ہے، اخلاق و کردار کے حوالے سے بہت بہتر ہو سکتا ہے،قیادت و سیادت کی بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہو سکتا ہے، سیاسی بصیرت سے بہرہ مند ہو سکتا اور قومی تعمیر کے لیے بہت متفکر ہو سکتا ہے۔ یہ تمام خصائص، بلا شبہ کسی فرد کی شخصی عظمت پر دلالت کرتے ہیں ،لیکن ان سب کا کسی ایک شخص میں اجماع بھی اسے یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ عوام کی رائے کے بغیر مسندِ اقتدار پر قابض ہو جائے۔ دین و اخلاق اور فطرتِ انسانی کے مسلمات کے اعتبار سے اقتدار کے لیے صرف اور صرف ایک شرط ہے اور وہ رائے عامہ کی اکثریت کا اعتماد ہے۔ یہ اعتماد اگر حاصل ہے توبے نظیر اور نواز شریف جیسے قائدانہ صلاحیتوں سے محروم اور سیاسی بصیرت سے بے بہرہ افراد کا اقتدار بالکل جائز ہے اور اگر یہ اعتماد حاصل نہیں ہے تو ضیاء الحق جیسے عظیم سیاسی مدبر اور جنرل پرویز مشرف جیسے ملک و قوم کے خیر خواہ کے اقتدار کابھی کوئی جواز نہیں ہے۔

-----------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن

تحریر/اشاعت اگست 2001