روزہ: قرآنِ مجید کی روشنی میں - سید منظور الحسن

روزہ: قرآنِ مجید کی روشنی میں

[جناب جاوید احمد غامدی کی ایک تقریر سے ماخوذ]

اسلامی شریعت میں جو عبادات لازم کی گئی ہیں، ان میں نماز اور انفاق کے بعدروزے کی عبادت ہے ۔ قرآن مجیدکے مطابق یہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مشروع ہوئی ہے ۔یہ قدیم ترین عبادت ہے جو امت مسلمہ سے پہلی امتوں پر بھی فرض رہی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقرہ ۲ : ۱۸۳)
’’ ایمان والو ،تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اول البشر حضرت آدم علیہ السلام ہی کے زمانے سے انسانوں کو اپنی ہدایت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا ۔ اس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا :
فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ ۲:۳۸)
’’ تو اگر تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا

اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’...یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ جار ی کرنے کا پہلا وعدہ ہے۔ حضرت آدم کی لغزش سے انسانی فطرت اور انسانی عقل کا وہ ضعف ظاہر ہو گیا جو انسان کو وحی الٰہی کی رہنمائی اور انبیا علیہم السلام کی دست گیری کا محتاج ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کی اس کمزوری پر نگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بطورتسکین و تسلی یہ وعدہ فرمایا کہ وہ خود اپنی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لیے روشنی بھیجے گا تو جو لوگ اس روشنی کی قدر کریں گے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم۔‘‘ (تدبر قرآن۱/۱۷۰)
دین الٰہی کی صورت میں یہ ہدایت انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے بنی نوع انسان کومسلسل ملتی رہی ہے۔ اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔انھوں نے دین کے بنیادی احکام انبیا کی روایت کی حیثیت سے اپنی امت میں جاری فرمائے ۔ ان میں سے بعض قرآن مجید کے ذریعے سے اس امت پر لازم ہوئے ہیں اور بعض رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپنی تصویب سے جاری فرمائے ہیں۔ دین کے ان بنیادی احکام میں اللہ کی بندگی بجا لانے کا ایک طریقہ نماز کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے۔پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں اور انھیں انفاق سے تعبیر کر کے من جملہ عبادات قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سال میں ایک ماہ کے روزوں کو عبادت کی حیثیت سے جاری رکھا گیا ہے۔
روزے کا مقصد تقویٰ
روزہ کس لیے فرض کیا گیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ اس بات کو خود قرآن مجید نے ’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘ کے الفاظ میں بیان کر دیا ہے، یعنی بندوں پر روزہ اس لیے لازم کیا گیا ہے کہ ان کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کے مفہوم و مدعا کو ہم حسب ذیل عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:
تقویٰ کا مفہوم
تقویٰ ہمارے دین کی خاص اصطلاح ہے۔ اس کا مدعا بالکل وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں حدود آشنائی کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی انسان اس دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے نچنت اور بے خوف نہ رہے ، بے پروائی اور لاا بالی پن کا رویہ اختیار نہ کرے ،بلکہ متنبہ ہو کر ، بیدار ہو کر اور خبردار ہوکر زندگی گزارے۔ وہ اس بارے میں کبھی غفلت میں مبتلا نہ ہوکہ وہ اس دنیا میں کس لیے بھیجا گیا ہے ، اس کا منتہا کیا ہے، اس کو ایک دن کس صورت حال سے دو چار ہونا ہے، اس کے لیے حقیقی زندگی کون سی ہے؟ وہ ان حقائق کے بارے میں پوری طرح متنبہ رہے اور زندگی کے کسی مرحلے میں بھی ان سے غافل نہ ہو۔جب انسان اس تنبہ اور اس بیداری کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو پھر وہ اپنی خواہشات کی غلامی میں مبتلا نہیں ہوتا ۔
اللہ کی بندگی تقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کا فرماں بردار بندہ بن کر زندگی گزارے۔ انسان کے لیے اصل آزمایش ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتیں پا کر اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہتا ہے یا کفران نعمت کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ انسان جب نافرمانی ، سرکشی اور انتہا پسندی سے گریز کر کے اللہ تعالیٰ کے حدود کی پاس داری کرتا ہے تو گویا وہ تقویٰ اختیار کرتا ہے۔اس بندگی کے معنی یہ ہیں :
’’...بندہ اِس تعلق میں اپنے پروردگار کی یاد سے اطمینان حاصل کرتا، اُس کی عنایتوں پر اُس کے لیے شکر کے جذبات کو اپنے اندر سیل بے پناہ کی طرح امڈتے ہوئے دیکھتا ، اُس کی ناراضی سے ڈرتا،اُسی کا ہو رہتا، اُس کے بھروسے پر جیتا ، اپنا ہر معاملہ اُس کے سپرد اور اپنے پورے وجود کو اُس کے حوالے کر دیتا اور اُس کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے۔‘‘ (میزان ۶۷)
اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس تقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر لحظہ اس بارے میں متنبہ رہے کہ اسے ایک روزاحکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ ایک وہ وقت آنا ہے جب اسے اس کی ذمہ داریوں کے لیے جواب دہ ٹھہرایا جانا ہے۔جواب دہی کا یہی احساس ہے جو انسان کو زندگی کی راہ پر خار پر بچ بچا کر اور دامن کو سمیٹ کر چلنے کا طرز عمل سکھلاتاہے ۔ یہی احساس اور یہی طرز عمل اصل میں تقویٰ ہے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ایک صحابی نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر کبھی آپ کسی کانٹوں بھرے راستے سے گزریں تو اس میں کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ صحابی نے کہا کہ میں اپنے دامن کو سمیٹ لیتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بس یہی تقویٰ ہے۔
تزکیۂ نفس کے لیے جدوجہد تقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے تزکیے کے لیے سرگرم عمل رہے۔ دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے آپ کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش ہی اصل میں تقویٰ ہے۔
اپنے نفس پر قابو پانا تقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے ان میلانات پر قابو رکھے جو اسے بدی پر ابھارتے ہیں۔وہ غصے پر قابو رکھے ، جذبات کے سیل رواں کو حدود میں رکھے، رد عمل کی کیفیت میں مبتلانہ ہو، نفرت اور کدورت کو اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے ، مادی لذات اور نفسانی خواہشات کو حدود میں رکھے، بطن و فرج کے تقاضوں کو اپنے دینی و اخلاقی وجود پر غلبہ نہ پانے دے۔ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ اسے اپنے نفس کے آگے نہیں جھکنا ،بلکہ اسے اپنے آگے جھکانا ہے۔ گویا تقویٰ سے مقصود نفس کو جھکانا ہے ،اسے مارنا نہیں ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں اس حقیقت کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوتا ہے ۔ پوچھا گیا کہ کیا آپ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہے، مگر میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے نفس کا گلا نہیں گھونٹ دینا چاہیے ،بلکہ اسے حدود کا پابند بنانا چاہیے۔
ذمہ داری سے زندگی بسر کرناتقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو دل جمعی اور خلوص نیت کے ساتھ نبھائے ۔ وہ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کی انفرادی حیثیت میں اس پر عائد ہوتے ہیں ۔ ان فرائض کو بجا لائے جو خاندان کے اندر اس پر لاگو ہوتے ہیں ۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جن کاتقاضا معاشرہ اور ریاست کرتے ہیں، یعنی آدمی اسی دنیا میں رہے ، اسی میں اپنا رزق کمائے ، اسی میں اپنا فعال کردار ادا کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ اسے اپنی اس فطرت سے انحراف کرنے کے بجاے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی کوشش اور جدوجہد تقویٰ ہے۔
اخلاقی وجود کی حفاظت تقویٰ ہے
تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اپنے اخلاقی وجود کی نگہبانی کرتا رہے ۔ یہ اخلاقی وجود ہی ہے جو انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کا پورا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔زندگی کے ہر موڑ پر وہ خیر و شر کے واضح ادراک کے ساتھ اچھا یا برا فیصلہ کرتا ہے ۔ ہر اچھا فیصلہ کرتے وقت وہ ان اخلاقی اقدار اور ضوابط کو ملحوظ رکھتا ہے جو انسانیت کا شرف ہیں اور اس کے پروردگار نے اس کی فطرت میں ودیعت کیے ہیں۔ انھیں ہر انسان اپنے اندر ضمیر کی آواز کے طور پر محسوس کرتا ہے ۔ اگر وہ ان کا لحاظ کرتا ہے تو انسان ہے اگر لحاظ نہیں کرتا تو پھر محض دو ٹانگوں کا ایک جانور ہے، اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
اخلاقی وجود کی حفاظت و نگہبانی سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ یہ کام اس کے شایان شان ہے بھی یا نہیں ۔ اس کا اخلاقی وجود اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے، دھوکا نہ دے، خیانت نہ کر ے، ظلم نہ کرے ، حق نہ مارے ، بے انصافی نہ کرے۔ اخلاقی وجود اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو پورا کرے ، حقوق ادا کرے، صداقت کا بول بالا کرے ، مخلوق خداوندی سے محبت کرے، نعمت پر شکر کرے ، مصیبت میں صبر کرے، بڑے کا ادب کرے ، چھوٹے پر شفقت کرے۔ غرض یہ کہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگائے رکھے۔ وہ اگر کسی کام سے روک دے تو رک جائے اور اگر کسی کام کی ترغیب دے تو اسے بخوبی انجام دے۔
تقویٰ رہبانیت نہیں ہے
انسان کی آزمایش یہ ہے کہ اسے اپنی خواہشات ، اپنے جذبات اور اپنی رغبات کے اندر ہی زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ انسانی جبلت میں موجود یہ ساری چیزیں پورا زور لگاتی ہیں کہ وہ اعتدال اور توازن کے راستے پر نہ رہے۔ جب انسان ان کے خلاف جنگ کرتا ہے تو بعض اوقات دوسری انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ دوسری انتہا مذاہب میں رہبانیت کے نام سے موسوم رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی درد انگیز تاریخ ہے۔ گویا انسان جب مادی زندگی کی لذتوں کو اپنا اصل ہدف بناتا ہے تو اس سے بہت غیر معمولی مفاسد پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سے جب وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں ترک دنیا کو اپنا ہدف ٹھہراتا ہے تو اس سے بھی بے پناہ مفسدات پیدا ہوتے ہیں۔ رہبانیت اور ترک دنیا کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک بار یہ فیصلہ کر لے کہ اسے دنیا سے بالکل کنارہ کش ہو جانا ہے۔اس دنیا کے اندر جو چیزیں اس کے لیے آزمایش کے طور پر پیدا کی گئی ہیں، انھیں چھوڑ دینا ہے ۔ علم و عقل ، مال و دولت ،حسن و جمال ، حشمت و اقتدار غرض مادی زندگی کے جو داعیات بھی انسان کو حدود سے تجاوز پر آمادہ کر سکتے ہیں ، وہ انھیں بالکلیہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے ۔ وہ ایک ایسی زندگی اختیار کر لیتا ہے جس میں وہ نفس کے داعیات کا کم سے کم جواب دہ ہو۔ جب انسان رہبانیت کی یہ صورت اختیار کرتا ہے تو بظاہر وہ مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس نے دنیا کی آزمایش میں اپنے لیے ایک آسان راستہ اختیار کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ پہلی بار بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ایک بار جب کر لیا جاتا ہے تو پھر اس کے بعد اس میں وہ مشکلات نہیں رہتیں جن سے ایک متقی آدمی ہر روز گزر رہا ہوتا ہے۔ رہبانیت اور ترک دنیا کا یہ راستہ فطرت اور دین سے انحراف کا راستہ ہے ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی شریعت انسان کو اعتدال اور توازن کا راستہ بتاتی ہے۔ وہ انسان کو جس چیز کی تربیت دیتی ہے وہ رہبانیت نہیں ہے ،بلکہ تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کے حصول کا طریقہ
تقویٰ کی منزل کو پانے کا کیا طریقہ ہے ؟اس ضمن میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
ایک یہ کہ تقویٰ کے حصول کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ دین کی حکمت بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے ،وہ یہ ہے کہ انسان اگر کوئی صلاحیت یا کوئی رویہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہے تو وہ اسے فوراً پیدا نہیں کر سکتا ، بلکہ ارادہ اور عمل کے مسلسل تعامل سے اسے بتدریج اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص نیکیوں کی ایک فہرست بنا کر اپنے سامنے رکھے اور انھیں فوراً اپنی شخصیت کا حصہ بنا لے۔ یہ ممکن نہیں کہ پانچویں جماعت کے بچے کو ایم ۔ اے کا کورس پڑھانا شروع کر دیا جائے۔ علوم کے حصول کے لیے بہرحال تدریجی مراحل مقرر کرنے پڑتے ہیں ۔ فنون سیکھنے کے لیے بھی مشق اور مزاولت کے تدریجی مراحل طے کیے جاتے ہیں۔دینی و اخلاقی تربیت کااصول بھی یہی ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔اس موقع پراللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کہ بعثت کے ساتھ ہی پوری کتاب آپ کے سپرد کردی ہو ، بلکہ دعوت کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے تدریج کے ساتھ قرآن نازل فرمایا۔چنانچہ تقویٰ کی منزل پانے کے لیے بھی تدریجی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
دوسرے یہ کہ اپنے روز مرہ معمولات میںیہ تین چیزیں لازماًشامل کر لی جائیں :
۱۔ روزانہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھی جائے۔
۲۔ روزانہ چند آیات قرآنی کی سمجھ کر تلاوت کی جائے۔
۳۔ہفتے میں کم سے کم ایک بار کسی صالح بندۂ خدا کی مجلس میں کچھ وقت گزارا جائے۔
مسجد کا ماحول، قرآن مجید کی براہ راست تذکیر اور بندۂ مومن کی صحبت کی تاثیر نخل تقویٰ کی آب یاری میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔
روزہ تقویٰ کی تربیت گاہ ہے
تقویٰ کی تربیت دینے کے لیے شریعت نے روزے کی عبادت کو خاص کیا ہے ۔ سال میں ایک مرتبہ ۷۲۰ گھنٹے کی تربیت گاہ قائم کر دی جاتی ہے اور نہایت غیر معمولی طریقے سے کروڑوں لوگ اس سے گزرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’روزوں کی عبادت... اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے درحقیقت قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے... گویا... قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا ۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینا موسم بہار ہے اور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے، وہ تقویٰ کی فصل ہے۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/ ۴۵۱)
روزہ اللہ ہی کے لیے ہے
ایک بندۂ مومن روزہ رکھ کر درحقیقت اپنے پروردگار کی عظمت و کبریائی کا اعتراف کرتا ہے اور فقط اس کی رضا جوئی کے لیے اپنی جسمانی ضرورتوں اور جائز خواہشوں سے بھی دست بردار ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کو خاص اپنے لیے قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ابن آدم کا ہر نیک عمل بڑھایا جائے گا ، دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صرف روزے کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، یہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا، کیونکہ بندہ صرف میری ہی خاطر اپنی خواہشوں اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔‘‘ (مسلم،رقم ۱۹۴۵)
روزے کی شریعت
اہل عرب کے ہاں دیگر عبادات کی طرح روزہ بھی ایک معلوم و معروف عبادت تھی ، یعنی ایسا نہیں تھا کہ قرآن مجید نے آکر اس عبادت کو شروع کیا ۔ ’کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘ ( جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا) کے الفاظ بھی اسی حقیقت کو بیان کر رہے ہیں۔ چنانچہ روزے کی شریعت کے حوالے سے قرآن مجید نے صرف انھی معاملات کو واضح کیا جن کے بارے میں لوگوں کے ہاں کچھ ابہام موجود تھا یا جن میں کچھ تجدید و اصلاح کی ضرورت تھی۔ یہ معاملات حسب ذیل ہیں:
۱۔ماہ رمضان کا تعین
روزوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کا انتخاب کیا ہے۔اس مہینے کو اس لیے خاص کیا گیا کہ اس میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا۔ ارشاد فرمایا ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ.(البقرہ ۲:۱۸۵)
’’رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس پہلو کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’...یہی مبارک مہینہ ہے جس میں دنیا کی ہدایت کے لیے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ ... اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا تقاضا یہ ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا تاکہ بندے اس میں اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکیں اور اپنے قول و فعل ، اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز و شب ہر چیزسے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اوراس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/۴۵۰۔۴۵۱)
۲۔گنتی کے چند دن
قرآن مجید نے روزوں کی مدت کو ’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ‘ (گنتی کے چند دن) سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے مراد ماہ رمضان کے ۳۰ یا ۲۹ دن ہیں، یعنی روزے کی یہ مشقت زیادہ عرصے کے لیے نہیں ڈالی گئی، بلکہ سال بھر میں یہ گنے چنے چند روز ہیں جن میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ گویایہ تزکیۂ نفس اور تقویٰ کی تربیت کا محض چند روزہ کورس ہے ، اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
۳۔روزے کے اوقات
روزے کے اوقات کے حوالے سے قرآن مجید کا ارشاد ہے :
وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ.(البقرہ۲ :۱۸۷)
’’اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری شب کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، پھر رات تک روزہ پورا کرو۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’...کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، یہ چیز ہمارے روزوں کو اہل کتاب کے روزوں سے بالکل الگ کر دیتی ہے۔ ان کے ہاں رات کو اٹھ کر کھانے پینے یا ازدواجی تعلقات کی اجازت نہیں تھی۔ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دی، بلکہ اس کی تاکید کی ہے ۔ قرآن کے الفاظ سے بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کی یہ اجازت صبح صادق کے اچھی طرح نمایاں ہوجانے تک ہے ، اسی بات کی تائید احادیث اور صحابہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے محض احتیاط میں غلو کے سبب سے اپنے یا دوسروں کے روزے محض معمولی تقدیم و تاخیر پر مشتبہ قرار دے بیٹھنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/ ۴۵۹)
’’ روزے کو رات ہونے تک پورا کرو‘‘ کے حکم کے اطلاق کے حوالے سے اس امت کے فقہا میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ بعض فقہا کا خیال ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ رات کا آغاز ہوتے ہی روزہ کھول لینا چاہیے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک جب کچھ رات گزر جائے تو پھر روزہ افطار کرنا چاہیے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں عملاً تقریباً دس پندرہ منٹ کا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات کو سمجھنے کا اختلاف ہے ۔ اسے بڑا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ۔ جس بات پر اطمینان محسوس ہو، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
۴۔مریضوں اور مسافروں کے لیے رخصت
ابتدائی طور پر قرآن مجید نے یہ رخصت دی تھی کہ اگر کوئی شخص حالت مرض میں یا حالت سفر میں ہونے کی وجہ سے روزے چھوڑنا چاہے تو وہ بعد میں چھوڑے ہوئے روزوں کو پورا کر لے یا پھر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ ارشاد ہے:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ.(البقرہ ۲: ۱۸۴)
’’اس پر بھی جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر دے۔ اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکیں، ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔‘‘
بعدازاں قرآن مجید نے مسکین کو کھانا کھلا کر روزے سے بری ہونے کی اجازت ختم کر دی:
وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ. (البقرہ ۲: ۱۸۵)
’’اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔‘‘
۵۔رمضان کی راتوں میں ازدواجی تعلق کی اجازت
اہل عرب میں سے یہود کے ہاں روزے کی عبادت سب سے نمایاں تھی ۔ ان کے ہاں افطار کے ساتھ ہی اگلا روزہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس وجہ سے انھیں رات کے اوقات میں کھانے پینے اور زن و شو کے تعلق کی ممانعت تھی ۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے باعث تردد تھی ۔ چنانچہ بعض مسلمانوں نے اسی تردد میں اپنے تئیں یہ تصور کر لیا کہ رات کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہے۔ پھر بعض لوگوں نے اپنے اس تصور کی خلاف ورزی بھی کر ڈالی۔ اسی کو قرآن مجید نے اپنے نفس کے ساتھ خیانت سے تعبیر فرمایا ہے، مسلمانوں کی یہ ہدایت چونکہ شریعت کے منشا کے مطابق نہیں تھی اور بعض محتاط مسلمانوں نے اسے از خود اپنے اوپر عائد کر لیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس خیانت سے در گذر فرمایا اور رات میں بیویوں سے تعلق کی اجازت دے دی:
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْءٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ. (البقرہ ۲ : ۱۸۷)
’’ تمھارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا جائز کیا گیا۔ وہ تمھارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگذر فرمایا تو اب تم ان سے ملو اور اللہ نے جو تمھارے لیے مقدر کر رکھا ہے، اس کے طالب بنو۔‘‘
اعتکاف
اعتکاف رمضان کے آخری عشرے کی عبادت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندۂ خدا ہر چیز سے کٹ کر اور دنیا کے ہر معاملے سے الگ ہو کر پوری یک سوئی کے ساتھ یاد الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:
وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ. (البقرہ ۲: ۱۸۷)
’’اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو تواس حالت میں بیویوں سے نہ ملو۔‘‘
اس آیت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ یہ انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔ اعتکاف کا ذکر جس طریقے سے کیا گیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبادت پہلے سے موجود تھی۔
دوسرے یہ کہ اس عبادت کی مناسبت روزے اور رمضان کے ساتھ ہے ۔
تیسرے یہ کہ اعتکاف مسجد ہی میں ہونا چاہیے۔
چوتھے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں ازدواجی تعلق پر پابندی ہو گی۔
ماہ رمضان تقویٰ کی تربیت پانے کا مہینا ہے ۔ اس مہینے کو انسان اگر پوری قوت ارادی کے ساتھ اپنے نفس کی اصلاح و تربیت کے لیے خاص کر دے تو وہ خواہشات اور جذبات کی غلامی سے نکل کر اپنے پروردگار کی غلامی میں آ جاتا ہے ۔ یہی غلامی جنت کی ابدی بادشاہی کا پیش خیمہ ہے ۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت دسمبر 2000 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 12, 2016
4972 View