مدرسۂ فراہی کی خدمات حدیث و سنت - ساجد حمید

مدرسۂ فراہی کی خدمات حدیث و سنت

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔] 

برصغیر پاک وہند میں انگریز کی آمد نے نہ صرف تہذیب وتمدن میں تغیر ات پیدا کیے، بلکہ اسلامی علوم پر بھی ایسے اثرات مرتب کیے کہ برصغیر ابھی تک ان بحثوں سے نہیں نکل سکا ،جو اس کے عہد میں کسی نہ کسی طرح سے چھڑ گئی تھیں۔ ان بحثوں میں ایک بحث احادیث کے ذخیرے پرعدم اعتماد کی ہے۔ یہ تحریک عہد فرنگی میں ان دفاعی کوششوں سے پیدا ہوئی جو دفاع اسلام کے لیے کی گئیں۔ان دفاعی کوششوں میں سب سے نمایاں کوشش علی گڑھ تحریک کی ہے، جس کے سرخیل سرسید احمد خان مرحوم تھے۔ ان کے مقالات نے عقل و نقل کی کش مکش کو ایک نیا رخ دیا۔ انھوں نے وقار اسلام اور وقار نبوت کے اصول پر بہت سی چیزوں کو نئے معنی دیے، بہت سی چیزوں کا رد کیا اور بہت سی چیزوں کی تاویل کی۔ان کے اس کام سے اتفاق ہو یا اختلاف بہرحال یہ کام اگلی نسلوں کے لیے ایک نئے عہد کی تعمیر کرگیا۔
بارہا ایسا ہوا کہ انھوں نے آیات واحادیث کی جونئی تاویلات کیں، اس نے پرانے بنے ہوئے تصورات کو تہہ و بالا کرڈالا۔وہ تاویلات چست اور برمحل تھیں یا نہیں، اس کا فیصلہ تو شاید قیامت ہی کے دن ہو، لیکن ان کے اس کام کے نتیجے میں ذہن جدید میں بڑے بڑے سوالات پیدا ہوگئے۔ مثلاً ہمارے موضوع کے لحاظ سے چند سوالات یہ تھے کہ
کیا احادیث واقعی قول رسول اللہ ہیں؟
کیا پرانی امت نے دین کو صحیح سمجھا تھا؟
کیا ان احادیث کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
کیا قرآن کے علاوہ بھی کوئی ماخذ دین ہے؟ وغیرہ
یہ سوالات اپنی نوعیت میں نہایت سنگین تھے اور صدیوں سے قائم نظریات کو بکھیر دینے کے لیے کافی تھے۔۱؂ چنانچہ سرسید کے اس کام سے امت اسلامیہ ہند کے ایک بڑے گروہ کا یہ احساس بن گیا کہ شاید متن قرآن کے سوا دین محفوظ ہی نہیں ہے۔ چنانچہ سرسیدکے خواہی نہ خواہی ان کے متاثرین کے ہاں وہ حدیث جسے محدثین نے صدیوں کی محنت سے منوایا تھا، وہ تو درکنار وہ سنت ثابتہ جس پر تمام امت کاہمیشہ سے اتفاق تھا وہ بھی رد ہو گئی۔ اہل قرآن کی طرز کے بہت سے لوگ پیدا ہوئے ،جنھوں نے سارے دین کی بنیاد اس بات پررکھنے کی کوشش کی کہ دین کاماخذ صرف قرآن مجید ہے۔ اس کے سوا باقی سب کچھ، یا ملا کا فہم ناقص ہے یا پھر عجمی سازش کے تحت دین میں تحریف ہے۔مختصر یہ کہ صرف متن قرآن ہی اس گروہ کے نزدیک قابل اعتماد ٹھہرا باقی سب کچھ مخدوش قرار پایا۔
یہ تحریک پورے جوش و جذبے سے آج بھی سرگرم عمل ہے، اس کے بطن سے بہت سے ماہرین پیدا ہوئے ہیں، جنھوں نے قرآن کی تفسیر بھی اس پیرائے میں کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس میں وہ یہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ حدیث ،تفسیری روایات اور روایتی تفسیر کے اثرات سے قرآن مجیدکو پاک کیا جائے ، تاکہ اسے اس طرح دھو کر صاف کردیا جائے کہ عجمی سازش کی آلایش تک باقی نہ رہے۔یوں غث و ثمین کا فیصلہ کیے بغیر متن قرآن کے سوا ہر چیز رد کردی گئی ۔یہ سارا کام جس مقصد کے لیے ہوا، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام ، قرآن اور پیغمبر اسلام کے وقار کا دفاع تھا۔لیکن اس کے مذکورہ بالا نتائج ایسے تھے کہ جو امت کے ایک بڑے حصے کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔
لہٰذاسرسید اور ان کے کام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گروہوں کے مقابلے کے لیے کچھ لوگ میدان میں اترے۔ یہ اگرچہ سرسید اور اہل قرآن وغیرہ کے خلاف تھے، لیکن حقیقت میں انھی کے زیر اثر یا ردعمل میں پیدا ہوئے تھے۔ان لوگوں کا ایجنڈا خواہ علانیہ ہو یا نہ ہو، یہی تھا کہ سرسید اور انگریز کے اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب دیا جائے۔ان جواب دینے والوں کو ہم تین گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

پہلا گروہ

سرسید اور اہل قرآن کے اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب دینا محنت کا متقاضی تھا۔ ایک طرف اس بات کی ضرورت تھی کہ نئے اٹھنے والے سوالات و اعتراضا ت کو سمجھا جائے اور پھر ان کانہ صرف صحیح بلکہ برمحل جواب بھی دیا جائے۔دوسری طرف اپنے دین کی ایک ایک چیز کو محنت اور دیانت داری سے از سر نوسمجھا جائے، اور نہ صرف یہ کہ اسے سمجھا جائے بلکہ اس کے زیر اعتراض حصوں کی حقیقت جان کر نئے ذہن کو بھی سمجھایا جائے۔
اس مشکل راستے پر کم ہی لوگ چلے۔ چنانچہ ایک آسان راستہ اپنایا گیا۔ یہ راستہ بیان فضیلت کا راستہ تھا۔ اس کا مطلب مختصر طور پر یہ ہے کہ دین کی ہرہربات کا دفاع اس طرح سے کیا جائے کہ اس کی فضیلت کو بیان کیا جائے، اور اعتراض کرنے والوں کو فتنہ قرار دیا جائے۔یہ غیر علمی طرز عمل تھا ۔ اس طرز عمل کے تحت مثلاً اس طرح کے اسلوب میں بات کی گئی کہ :
یہ لوگ غلط کہتے ہیں۔ یہ جاہل ہیں، انگریز کے پالے ہوئے ہیں، ہمارا دین اللہ کا بہترین دین ہے، اس میں کوئی غلطی نہیں ۔یہ اعتراضات تمھیں تمھارے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے شیطان کی چال ہیں۔ یا مثلاً یہ کہ یہ صحیح بخاری میں ہے، جوأصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہے یا یہ کہ یہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات ہے، ان جیسا کوئی آدمی آج پیدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ جب انھوں نے کہہ دیا تو بس کہہ دیا ان کا کہا ہی درست ہے۔وغیرہ ۔۲؂
اس اسلوب میں نہ اعتراض کو سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔بلکہ یہ دونکاتی فارمولے پر چلتا ہے: معترض کی ہجو اور اپنا قصیدہ۔یہ اسلوب بلاشبہ کام کرتا ہے، لیکن ایک حد تک اورصرف اپنے لوگوں کے ایک طبقے کے لیے۔ ایسے جواب دیرپا نہیں ہوتے، لوگ جلد ہی ان کی کمزوری سے واقف ہو جاتے ہیں۔
اس طرز عمل میں اور اہل قرآن طرزکی تحریکوں میں اس اعتبار سے اصلاً کوئی فرق نہیں تھا کہ انھوں نے غث و ثمین، دونوں کو رد کیااور اس تحریک نے غث و ثمین دونوں کو اپنا لیا۔گویا دونوں حاطب اللیل تھے، لکڑیوں اور سنپولیوں میں فرق نہ کرسکے۔ چنانچہ یہ دونوں طرز عمل دین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ایک نے بلا امتیازحق وباطل دونوں کو جھٹلا دیا، جس سے دین کے ایک حصے پر قوم کا اعتماد جاتا رہا۔اور دین کا ایک بڑا حصہ دین سے کٹ کر رہ گیا۔ دوسرے گروہ کے کام کے نتیجے میں ہر روایتی بات کو حق قرار دینے کی روش اپنائی خواہ وہ دین تھی یا نہیں تھی۔ہجو و فضیلت کی تکرار نے یہ طرز عمل دیا کہ ہر بات جو روایتی مذہب سے ٹکراتی ہے، وہ باطل ہے، خواہ وہ بات حق ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بات کو سمجھنا سمجھانا ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ اب ہم یہاں پہنچ چکے ہیں کہ منبر و محراب کی آواز سے ہر مختلف آواز انگریز اور شیطان کی سازش ہے، اور شیطان گردن زدنی ہے، لہٰذا وہ لوگ بھی گردن زدنی ہیں، جو نئی بات کررہے ہیں۔

دوسرا گروہ

یہ گروہ اپنی نوعیت میں علمی گروہ ہے۔اس نے دفاع حدیث وسنت کی پوری لگن سے کوشش کی۔اس مقصد کے لیے قول رسول اللہ کے مقام وحیثیت اور اطاعت و حجیت پر بے شمار تحریریں اور تقریریں عوام و مشائخ کے لیے وجود پذیر کرڈالیں۔ان دفاعی بحثوں کوچار دائروں میں کیا گیا۔
ایک،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے، لہٰذا جو قول رسول سے انکار کرتا ہے، وہ دراصل اللہ اور رسول کی اطاعت سے نکل جاتا ہے۔
دوسرے،ہر قول رسول وحی ہے۔احادیث وحی غیر متلو ہیں، وحی اللہ کا حکم ہے لہٰذا وحی متلو اور غیر متلو دونوں کو مانا جائے گا۔ وحی الٰہی کے کسی جزو یا کل کا منکر کافر ہے۔
تیسرے ،حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ہی ناممکن ہے۔ حدیث قرآن کا بیان ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بیان ہوئی تھی، لہٰذا قرآن کا مجمل دراصل اپنے بیان کے لیے حدیث پر منحصر ہے۔ اس لیے حدیث کا انکار بیان قرآن کا انکار ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کے ایک جزو کا انکار کررہے ہیں۔
چوتھے،صحیح خبر واحد سے اثبات علم، یعنی خبر واحد کے طریقے سے آنے والے اخبار سے یقینی علم حاصل ہو سکتا ہے۔ سلف و خلف کا تعامل اسی پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث و سنت ویسے ہی فرمان الٰہی ہیں جیسا قرآن، لہٰذا ان کے آگے سرتسلیم خم کرنا ہوگا۔ عقل ا ور سائنس جو کچھ کہتی اس کی بنا پر ان کی تاویل اور ردو قدح نہیں کی جائے گی۔بلکہ جیسے وہ ہے اسے ویسے ہی ماننا ہوگا، خواہ وہ علم وعقل کے خلاف لگ رہے ہوں۔اس لیے کہ وہ اللہ کا فرمان ہے۔
یہ استدلال اہل حدیث اور احناف دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں اختیار کیا۔ اس کے بعض اجزا پر امت کے کسی دور میں بھی اختلاف نہیں رہا، جیسے یہ بات کہ قول اللہ اور قول رسول حق ہیں اور یہ کہ اطاعت رسول واجب ہے اور بعض اجزا ہمیشہ مختلف فیہ رہے ہیں، جیسے خبر واحد سے اثبات علم وغیرہ۔
یہ جواب بلاشبہ سنجیدہ جواب تھا، اور بلاشبہ اہم باتوں کونمایاں اور واضح کررہا تھا۔لیکن یہ اس تحریک کے سوالات کا جواب نہیں تھا۔جو سرسید کے کام سے پیدا ہوئے یا ان کے بعد کے لوگوں نے پیدا کیے ۔ منکرین حدیث وسنت سب کے ہاں ایک بھی نہیں تھا، جو اصولی طور پر قول رسول کا انکار کررہا ہو۔ سب قول رسول اور اطاعت رسول کو ماننے والے تھے، اور ہیں۔ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ احادیث اقوال رسول ہی نہیں ہیں۔یہ بعد کے لوگوں کا اضافہ ہیں۔ لہٰذا یہ جواب سنجیدہ اور علمی ہونے کے باوجود بے محل اور ناقص ثابت ہوا۔ مثلاً منکرین سنت یہ کہہ رہے تھے ، فلاں حدیث اس اس وجہ سے صحیح نہیں لگتی، حدیث بنا کر دین میں داخل کر دی گئی ہے، وگرنہ نبی اکرم اس طرح کی بات نہیں کہہ سکتے ۔ اس کے مقابل میں یہ تقریر صحیح جواب نہیں ہے کہ قول رسول کی حجیت کو مانو۔
اس گروہ نے ایک اور چیز کا خیال نہیں رکھا وہ یہ کہ ان کا استدلال آفاقی نہیں مسلکی تھا۔ مثلاً ایک چیز آپ کو مسلسل ان کی تحریروں میں ملے گی کہ ان چیزوں سے استدلال کیا گیا ، جن کو منکرین حدیث مان ہی نہیں رہے تھے۔ مثلاً حدیث کو منوانے کے لیے استدلال حدیث ہی سے کیا گیا۔یہ ایسی بات ہے کہ کسی غیر مسلم کو یہ کہا جائے کہ قرآن میں آیا ہے۔جب قرآن اس کے لیے اللہ کی کتاب ہی نہیں ہے تواس میں آئی ہوئی بات اس کے لیے وہ وقعت نہیں رکھتی جو ہم مسلمانوں کے لیے رکھتی ہے ۔
ہمارے ہاں پچھلے ڈیڑھ سو سال میں فرقہ دارانہ مسائل پر جو کچھ لکھا گیاہے،ا س کا ایک بڑا حصہ ایساہے کہ جس میں استدلال آفاقی نہیں۔ یعنی ان چیزوں سے استدلال نہیں ہے کہ جو متکلم و مخاطب کے دونوں کے درمیان مانی ہوئی ہوں۔اس کے بغیر کوئی بات کیسے منوائی جاسکتی ہے۔ ٹھیک یہی بات اس لٹریچر پر صادق آتی ہے، جو دفاع حدیث میں لکھا گیا ہے۔اس میں استدلال مسلکی ہے، یعنی ان چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے، جو ان کے مسلک میں مانی ہوئی ہیں لیکن مخاطب اس سے متفق نہیں ہے۔

تیسرا گروہ

یہ گروہ قلیل ا لتعداد ہے، مگر اس نے پہلے دونوں گروہوں سے الگ راستہ اختیار کیا۔اس نے ان سوالات کو اہمیت دی جو اٹھائے گئے تھے اور ان کا ایسا جواب دینے کی کوشش کی جوآفاقی دلائل پر مبنی ہو۔اس گروہ میں سب سے نمایاں گروہ دبستان شبلی ہے۔ اوپر جیسا ہم نے عرض کیا ہے کہ منکرین سنت یہ کہہ رہے تھے ، فلاں حدیث اس اس وجہ سے صحیح نہیں لگتی، حدیث بنا کر دین میں داخل کر دی گئی ہے، وگرنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی بات نہیں کہہ سکتے ۔ اس کے مقابل میں یہ تقریر صحیح جواب نہیں ہے کہ قول رسول کی حجیت کو مانو۔
صحیح ترجواب یہ تھا کہ ایک طرف اس کے قول رسول ہونے کو یقینی سطح پر ثابت کیا جاتا کہ انکار کی گنجایش نہ رہتی، اور دوسری طرف اس کو سمجھا دیا جائے کہ تم لوگ جو اس پراعتراض کررہے ہو وہ غلط ہے ، ۳؂ اس حدیث کا صحیح مدعا وہ ہے ہی نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ مولانا شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی، اختر احسن اصلاحی، امین احسن اصلاحی، ابوالاعلیٰ مودودی، جاوید احمد غامدی ، مدرسۃ الاصلاح، ندوہ اور المورد کے دیگر ارباب علم اسی طرزپر کام کرتے رہے ہیں ۔انھوں نے قرآن و سنت اور سیرت کے موضوعات پر انھی دونوں پہلوؤں سے کام کیا ہے۔ یہ اصول اگرچہ اس مدرسہ کے ارباب علم نے کہیں بیان نہیں کیا ،مگر ان کے کام کا استقرا یہی بتاتا ہے۔ یہ اصول دونکاتی ہے ، جو ذیل میں دوبارہ بیان کیے جا رہے ہیں:
۱۔ یہ بات قطعی طریقے پر ثابت کردی جائے کہ حدیث و سنت واقعی قول رسول ہے۔
۲۔ جن باتوں پر اعتراض ہورہا ہے، ان سے متعلقہ نصوص کو براہ راست ان کی اپنی دلالت کی بنا پر سمجھا جائے کہ ان کی حقیقت کیا ہے، پھر جو علم وہاں سے حاصل ہو ، اس کو معترض سمجھانے کی کوشش کی جائے ۔

پہلا اصول اور حدیث و سنت کا دفاع

ثبوت کا مسئلہ

اس مدرسے نے سنت کے دفاع کے لیے دور اول کی اس بحث کو تازہ کیا کہ مآخذ دین کا ثبوت کس طرح سے ہوتا ہے۔قرآن وسنت تواتر یا آحاد کے طریقے پرہم تک پہنچے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ہم تک براہ راست بذریعہ وحی نہیں پہنچا۔ منکرین سنت، قرآن کو مان رہے تھے، اور سنت کا انکار کررہے تھے۔ مدرسۂ فراہی کے نزدیک یہ تضاد فکر ہے۔ مدرسۂ فراہی نے یہ بات واضح کی کہ قرآن مجید۴؂ ہم تک تواتر سے پہنچا ہے اس لیے وہ یقینی ہے۔اسی طرح سنت متواترہ بھی تواتر سے ہم تک پہنچی ہے، لہٰذا وہ بھی یقینی ہے۔جس امت نے تواتر سے قرآن کو منتقل کیا ہے اسی نے سنت کو اسی تواتر سے منتقل کیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں فرق کرنا غایت درجہ کا تضادہے،کیونکہ دونوں کے ذرائع منتقلی ایک جیسے اور دونوں کا ثبوت بھی ایک پاے کا ہے، تو پھر فرق چہ معنی دارد؟
مدرسۂ فراہی کے ہاں اس استدلال کو ہردور میں استعمال کیا گیا ہے۔مثلاً تین لوگوں کے کام سے حوالہ دینے پر اکتفا کروں گا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’اسی طرح تمام اصطلاحات شرعیہ مثلاً نماز ، زکوٰۃ ، جہاد، روزہ، حج، مسجد حرام، صفا مروہ، اور مناسک حج وغیرہ، اور ان کے ساتھ جو اعمال متعلق ہیں ، تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے خلف تک سب محفوظ رہے۔... جو نماز دین میں مطلوب ہے، وہ وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ تفاسیر فراہی ص۳۹)

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ میں حدیث و سنت کے درمیان فرق اسی اصول پر کیا ہے۔استاد گرامی جنا ب جاوید احمدصاحب غامدی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘۵؂ میں اس بات کویوں بیان کیا ہے:

’’سنت یہی ہے ، اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے، اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرارپائی ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کی کوئی گنجایش نہیں۔‘‘ (۱۴)

مدرسۂ فراہی کے اس استدلال نے سنت کو ایسا مضبوط سہارا دیا ہے کہ شاید آج نہیں لیکن کل اس کی اہمیت کو ضرور جان لیاجائے گا۔ یہ وہی سہارا تھا جو منکرین سنت کے مقابلہ میں صدیوں پہلے اہل السنۃ والجماعۃ نے اختیار کیا تھا۶؂ ۔ مدرسۂ فراہی کے اس استدلال کے معنی یہ تھے کہ مدرسۂ فراہی تواتر کے اصول پر سنت کے بنیادی اور بڑے حصے کو بچا لے جانا چاہتاہے۔جب ثبوت قطعی ہوتو انکار کی گنجایش نہیں رہتی ۔اس نے تواتر کا سہارا دے کر سنت کو درجۂ ثبوت میں وہی مقام دلایاجو قرآن کو حاصل ہے۔ ۷؂ لہٰذا اب یہ ایک خوش آئند تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں اہل قرآن کے بعض حلقوں میں سنت متواترہ کو اپنایا گیا ہے۔جس سے احیاے سنت کی امیدپیدا ہوئی ہے۔

خبر واحد

خبر واحد جیسا کہ قدیم امت میں اہل ظاہر کے سوا سب کا اتفاق تھا کہ ظنی الثبوت ہے۔ قدیم دور میں اس کا دفاع امام شافعی نے کیا تھا، اور وہ ثبوت کے دائرے سے متعلق تھا۔ان کے استدلال۸؂ کے بعد کئی صدیوں تک خبر واحد کی عملی طور پر حجیت مانی جاتی رہی ہے۔امام صاحب کے بعد آہستہ آہستہ عملی میدان سے نکل کر خبر واحد علمی معاملات میں بھی حجت پکڑگئی ، اور بلاشرائط ہر میدان میں مانی جانے لگی تھی۔ لہٰذا متاخرین کے ہاں عقیدہ وعمل دونوں کو خبر واحد سے مانا جانے لگا تھا۔ ٹھیک اس عہد کے آخر میں انگریز کی آمد ہوئی۔ اس عہد میں ایسے بہت سے مسائل زیر اعتراض آئے جن کی اصل حدیث پر تھی، اور یہ مسائل علم وعمل دونوں سے متعلق تھے۔امام شافعی کے دور کے کئی صدیوں بعد یہ منظر ایک دفعہ پھر ملت اسلامیہ نے دیکھا کہ حدیث پھر معرض اعتراض میں تھی۔ اب کے اس کے اندر آئے ہوئے احکام کے ساتھ ساتھ عقیدہ اور تصورات بھی زیر بحث تھے ،اور اس کو پرکھنے کے لیے قرآن اور عقل عام کے ساتھ ساتھ سائنس کی کسوٹی بھی موجود تھی۔
ایک طرف ایک گروہ جس کا ذکر ہم نے اوپر دوسرے گروہ کے نام سے کیا ہے، وہ اسے اس طرح منوانے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ بھی وحی ہے لہٰذا اس کے آگے گھٹنے ٹیک دو، تو دوسری طرف وہ گروہ تھا کہ جو اسے سرے سے ماننے ہی کو تیار نہیں تھا۔یہ افراط و تفریط کی دو انتہائیں تھیں۔مدرسۂ فراہی ان دونوں انتہاؤوں کے درمیان میں کہیں کھڑا ہے۔پہلی راے کو ماننے کا مطلب یہ تھا کہ ظن کو دین قرار دے دیا جائے ، اور دوسرے کا مطلب تھا کہ اس علم سے یکسر محرومی اختیارکرلی جائے جس کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
اس افراط و تفریط کے دور میں مدرسۂ فراہی نے ایک اور استدلال اختیار کیا، یہ اگرچہ اپنی ابتدائی صورت میں پہلے بھی پایا جاتا ہے۔ ۹؂ وہ استدلال یہ ہے کہ ان ظنی مآخذ کو قطعی ماخذوں کا سہارا دے دیا جائے۔ مدرسۂ فراہی کے نزدیک قطعی ماخذ ایک نہیں بلکہ دو ہیں:
۱۔ قرآن
۲۔ سنت متواترہ
چنانچہ ان کے نزدیک ہر وہ حدیث مانی جائے گی جو قرآن و سنت کا سہارا پالے ،جس کا مضمون قرآن سے ثابت ہوجائے۔ ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے اس سے مستقل بالذات کوئی چیز دین میں نہیں لائی جاسکتی۔یعنی ایسی کوئی چیز دین کا حصہ نہیں بنائی جاسکتی ، جو صرف خبر واحد میں ہو، قرآن و سنت میں اس کا کوئی وجود نہ ہو، اس لیے کہ ظنی ہونے کی بنا پر اس بات کا امکان ہے کہ ہم خبر واحد کے نام پر کسی راوی کی راے کو دین میں داخل کردیں۔مولانا فراہی لکھتے ہیں:

’’اگر احادیث، تاریخ اور قدیم صحیفوں میں ظن اور شبہ کا دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجے میں نہ رکھتے، بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی، اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔‘‘ (مجموعہ تفاسیر فراہی ۳۷)

لہٰذا ضروری ہے کہ وہ درایۃً بالکل درست ہو۔یعنی قطعی ماخذ کی اسے تائید حاصل ہو۔
ایجابی اسلوب میں اسے یوں بیان کیا جائے گا کہ ہروہ صحیح حدیث مانی جائے گی جو قرآن ا ور سنت کے قطعی ماخذوں کا سہارا پالے ۔
سلبی انداز میں اسے یوں بیان کیا جائے گا کہ صرف وہ حدیث رد کی جائے گی جو قرآن ا ور سنت کا سہارا نہ پاسکے۔
یہ سہارا دوقسم کا ہے:
۱۔ تفہیم و تبیین
۲۔ نبی اکرم کا قرآن وسنت پر عمل کا اسوہ
استاذ گرامی اسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دین سے متعلق جو چیزیں ان (اخبار آحاد) میں آتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصوراسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ ‘‘(میزان ۱۵)
اس کے معنی یہ ہیں کہ اخبار آحاد کو قطعی ماخذ کا سہارا دے کر قطعی کی طرح کردیا جائے۔یہ گویا صحیح لغیرہٖ کی طرح کا تصور ہے یعنی قطعی لغیرہٖ۔
اس طرح گویا مدرسۂ فراہی نے ایک طرف سنت متواترہ کی قطعیت کو نمایاں کیا اور اس کی حقانیت منکرین کے گوش گزارکی ۔ دوسری طرف اخبار آحاد کو قطعی ماخذوں کے ساتھ جوڑ کر ان کو تقویت پہنچائی۔ لہٰذا ان احادیث کا انکار ناممکن ہو گا، جن کے مضمون جیسا مضمون قرآن و سنت میں موجود ہو۔ مدرسۂ فراہی میں یہ بات مختلف زاویوں سے ہوتے ہوئے استاذ گرامی غامدی صاحب کے ہاں آکر اس رنگ میں واضح ہوئی ہے۔ان کے ہاں اس باب میں دو انفرادیتیں نظر آتی ہیں۔
۱۔یہ کہ ان سے پہلے تمام سنت کو خواہ وہ متواتر ہو یا آحاد قرآن کی شرح و تبیین کہا جاتا تھا، اورسنت کے ایک حصے کو ابتداءً مانا جاتا تھا۔ استاذ گرامی تمام سنت متواترہ کو ابتداءً ۱۰؂ مانتے ہیں اور حدیث کو قرآن کے ساتھ ساتھ سنت کی شرح و تبیین قراردیتے ہیں۔ اس سے فہم سنت اور فہم حدیث کے کئی اور باب وا ہوتے ہیں، جن کے تذکرے کا یہ محل نہیں ہے۔مختصر یہ کہ حدیث کو پہلے ایک سہارا حاصل تھا، اب اسے دو سہارے مل گئے: قرآن اور سنت متواترہ۔
۲۔یہ کہ ان سے پہلے حدیث کو یا حدیث و سنت دونوں کو بس ایک تعلق ہی سے جوڑا جاتا تھا، یعنی شرح و تبیین، استاذ گرامی نے اسے دو پہلوؤں سے جوڑا ہے۔ ایک یہی شرح و تبیین اور دوسرے قرآن و سنت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کرنے کا نمونہ جسے انھوں نے قرآن و سنت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ۱۱؂ قراردیا ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ حدیثوں میں صرف قرآن و سنت کی شرح و وضاحت ہی نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم کا اسوہ بھی ہے۔
اب حدیث ظنی ہونے کے باوجود ایک ایسے طریقے سے دین سے متعلق کی گئی ہے کہ راویوں کی راے کو قول رسول قرار نہ دیا جاسکے، کیونکہ کوئی مستقل بالذات عمل، تصور یا عقیدہ محض حدیث کی بنیاد پر نہیں مانا جا سکتا،اور جو حدیث صحیح ہے اور قرآن و سنت میں اس کی بنیاد موجود ہے، اسے ماننے میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔اسی طرح قرآن و سنت سے حدیث کا تعلق محض شرح کا نہیں رہا، بلکہ اسوہ کے بیان کا بھی ہے جس سے حدیث کو قطعی ماخذوں سے متعلق کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
یوں مدرسۂ فراہی نے حدیث کو دور جدید کے حملے سے بچانے میں ایک راستہ دکھایا ہے، جو پہلے تمام راستوں سے زیادہ متوازن اور عقل و نقل کے زیادہ اوفق ہے۔

قرآن وسنت اور حدیث کا باہمی تعلق

یہ ایک نہایت نازک عمل ہے۔فقہ اسلامی کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ پہلے روز سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ بعض احادیث قرآن کے ظاہر سے متصادم ہیں۔اس تصادم سے قرآن کی تخصیص اور نسخ جیسے اصول بنائے گئے۔ السنۃ قاضیۃ علی الکتاب کی بحث پیداہوئی۔امام شافعی کے ’’الرسالہ‘‘ کے تصور البیان سے لے کر اسماعیل میرٹھی کی ’’تنقید بخاری‘‘ تک سب اسی بحث کے مختلف سوالات سے نبرد آزما ہونے کی سعی ہے۔ یہ بحث اس لیے نازک ہے کہ قرآن مجید کا عالم ترین شخص جو نبوت کے منصب پر فائز ، مہبط وحی تھا، جب اس نے ایک جملہ ارشاد فرمایا، اور یہ نہیں بتایا کہ یہ کتاب الٰہی کے کس مقام سے ماخوذ ہے۔ تو پھر بعدمیں کیا ہوا کہ ہم امتیوں نے اس کے اقوال واعمال کو قرآن سے جوڑنا شروع کیا۔ تو قدم قدم پر سوالات پیدا ہوگئے۔ تضادات، تخصیصات اور نہ جانے کیا کیا پہلو سامنے آئے۔
ان بحثوں کی ہمارے خیال میں بہت سی وجوہات تھیں، جن پر ان شاء اللہ اگر اللہ نے توفیق دی تو اپنا نقطۂ نظر عرض کریں گے۔یہاں صرف بطور مثال ایک بڑی وجہ کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ان بحثوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آیات اور احادیث کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بتا رہے تھے ، وہ ہم بتا رہے تھے۔ یعنی فلاں حدیث فلاں آیت کی تبیین ہے یہ کام رسول پاک نے نہیں کیا ، بلکہ ہم امتیوں نے کیا۔جو ایک اجتہادی عمل تھا، جس میں یہ غلطی بھی ہوئی کہ ہم نے ایک حدیث کو جس آیت کے تحت رکھا ، وہ اصلاًاس کے تحت نہیں تھی، وہ کسی اور آیت یا آیات سے مستفاد بصیرت تھی۔اس وجہ سے قرآن و حدیث میں تضادیا اختلاف دکھائی دے رہا تھا۔
لہٰذا ایک دفعہ پھر نئے تناظر میں مدرسۂ فراہی نے حدیث اور کتاب وسنت کی تطبیق کا کام کیا ہے۔مولانا فراہی کی کتب میں جابجا حدیث کو قرآن وسنت سے متعلق کرنے کی سعی نظر آتی ہے۔ایسا ہی عمل مولانا امین احسن اصلاحی کی شرح حدیث کے مجموعوں میں اور دیگر اصلاحیوں کے ہاں نظر آتا ہے۔استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں شریعت اور عقائد سے متعلق تقریباً تمام بنیادی حدیثوں کو قرآن وسنت سے متعلق کرنے کی ایک سعی کی ہے۔ یہ سعی اس لحاظ سے ممتا ز ہے کہ اس میں تخصیص اور نسخ کے بجاے رفع تضاد کو اولیت دی گئی ہے۔ لہٰذا اصلاحی صاحب کی شروح اور استاد گرامی کی ’’میزان‘‘ میں کتاب وسنت اور حدیث میں ایسی مطابقت دکھائی گئی ہے، جو پہلے کسی جگہ دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ سعی اس پہلو سے بھی مختلف ہے کہ اس میں بہ تکلف چیزوں میں مطابقت پیدا نہیں کی گئی، بلکہ لسانی، عقلی اور دینی اصولوں کی روشنی میں واضح طریقے پر کی گئی ہے۔
کسی کو بعض تطبیقات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن بہرحال یہ ایک نئی طرز کی خدمت ہے۔ مثلاً ’ماءۃ جلدۃ‘ والی آیت اور رجم والی احادیث کی تطبیق، یا کھانے کی چار قرآنی محرمات اور احادیث کی ان چار سے زائد محرمات کی تطبیق،اور ربا الفضل وغیرہ نہایت عمدہ مثالیں ہیں۔چنانچہ جو ان کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کرے گا، اس کے لیے ان شا ء اللہ ان احادیث اورقرآن میں تضاد باقی نہیں رہے گا۔
حاصل یہ ہے کہ مدرسۂ فراہی نے حدیث کی ایک بڑی تعدادکو قرآن وسنت سے یوں جوڑ دیا ہے کہ اس سے وہ اختلافات رفع ہو گئے ہیں، جو اس کے قرآن کے ساتھ تھے۔

جامع متن

استاذ گرامی نے اپنے کام کے دوران میں ایک بات یہ بھی سمجھی ہے کہ بہت سی احادیث کو دور جدید میں سمجھنے میں خطا کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات نہیں آتی ، بسا اوقات عام انسانی عادت کی وجہ سے راوی جتنی ضرورت ہو، اتنی ہی بات سناتا ہے، اور باقی حصے کو اس وقت ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے بیان کیے بغیرچھوڑ دیتا ہے۔جبکہ کسی دوسرے راوی نے وہ چھوڑا ہوا حصہ بھی سنایا ہوتا ہے۔ اسی طرح مصنف محدثین نے اپنی کتب کو تکرار سے بچانے کے لیے اجزاے حدیث کو ابواب کی رعایت سے بیان کیا اور سب جگہوں پر مکمل حدیث درج نہیں کی۔ اس کی وجہ سے متن حدیث پورا سامنے نہیں آتا۔ المورد کے پروگراموں میں یہ ایک پروگرام بھی شامل کیا گیا تھا کہ ہر روایت کے یہ بکھرے ہوئے گمشدہ اجزا یک جا کردیے جائیں اور ہر حدیث کا متن جامع صورت میں سامنے آئے ، تاکہ ہر جملے کو اس کا کھویا ہوا سیاق و سباق مل جائے اور ہم نبی اکرم کے مدعا کے قریب سے قریب ہو سکیں۔یہ ایک اہم منصوبہ تھا ، مگر المور د کے خلاف بعض گروہوں کی طرف سے حالیہ ترہیبی و تہدیدی اقدامات کی بنا پر ادارے کی عدم فعالیت کی وجہ سے یہ کام بھی تعطل کے دور سے گزررہا ہے۔
مدرسۂ فراہی کی یہ وہ خدمات ہیں ، جو اس نے حدیث کے باب میں کی ہیں۔اس کام کی وسعت اس سے کہیں زیادہ ہے ، میں اتنا ہی اس تحریر میں بیان کرسکا ہوں جس قدر میرے فہم و بصیرت کی بساط ہے ۔اس کے لیے نہایت باریک بین آدمی کی ضرورت ہے ، جو تمام حل شدہ روایات کو ان کی کتب سے نکال کر یکجا کرکے ایک دفتر مرتب کرے۔


۱؂ اس وقت ہمارا موضوع صرف حدیث و سنت ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام علوم اسلامیہ ناقابل اعتماد ٹھہرے مثلاً تفسیر، فقہ اور اس کے اصول، حدیث اور اس کے علوم، اسلامی تاریخ اور اس کے ماخذ، وغیرہ اور دیگر بے شماردینی تصورات جو ان علوم سے پیدا ہوئے تھے۔
۲؂ یہ کلمات برسبیل تمثیل ہیں، کہیں سے اقتباس نہیں کیے گئے۔ انھیں اقتباس کی شکل بہتر ابلاغ کے لیے دی گئی ہے۔
۳؂ اس دوسرے اصول کے بارے میں کہنے کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو وہی اصول ہے جو سرسید احمد خان نے اختیار کیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سر سید اور دبستان شبلی کے درمیان واضح خلیج نظرآتی ہے۔ سرسید احمد خاں اکثرمقامات پر اور اہل قرآن کے لوگ تقریباً تمام مقامات پر خارج سے دین کو دیکھتے ہیں، اور دین کے نصوص کو خارجی امور کے ساتھ مطابقت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ ایک لحاظ سے یوں لگتا ہے کہ مستشرق ہوں: مسلمان مستشرق، یہ بات میں ان کے کام کی تنقیص نہیں، بلکہ نوعیت واضح کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں۔جبکہ دبستان شبلی داخل سے دین کو دیکھ اور سمجھ کر خارج والوں کو سمجھاتا ہے۔ مثلاً سرسید اور اہل قرآن نے جن اور ملائکہ کو قرآن کے داخل سے نہیں سمجھا کہ خود قرآن کے الفاظ کیا بتا رہے ہیں، بلکہ خارج سے ہونے والی باتوں کی روشنی میں نئی تاویل کر ڈالی ہے۔ لہٰذا سرسید احمد خاں نے نصوص کو خارجی حملے کے تناظر میں دیکھا ہے، شبلی گروپ نے اسے پہلے داخلی اعتبار سے سمجھااور پھر خارجی حملے کا لحاظ کرتے ہوئے اسے سمجھایا ہے۔یہ فرق تقابل کرنے والے قاری کو جابجا نظر آئے گا۔
اس لحا ظ سے دبستان شبلی،بالخصوص مدرسۂ فراہی کی شاخ ،تمام جدید تحریکوں سے جدا گانہ رنگ رکھتی ہے۔ خطا و نسیان کا معاملہ الگ ہے، لیکن اس کا اصل اصول یہ ہے کہ نصوص ہمیں جہاں لے جائیں ہم وہاں چلے جائیں گے، اور پھر خارج کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اللہ اور رسول کی بات کس طرح علماً اورعقلاً صحیح ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں نہ شریعت کا انکار نظر آئے گا، اور نہ معجزات کا، نہ غیر مرئیات میں ڈگمگائیں گے اور نہ مرئیات میں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے سائنس، علما اور فقہا کی حجیت کے بجاے نصوص کی حاکمیت مانی۔اس لیے یہ جابجا کہتے نظر آتے ہیں کہ دین میں قرآن کو مرکز و محور بنایا جائے۔پھر اس کی روشنی میں غور و فکرکیا جائے۔ بالعموم لوگ اس میں فرق نہیں کرسکے اس لیے انھوں نے اس گروپ کو بھی سرسید گروپ کے ساتھ ملحق کردیا۔
۴؂ اہل قرآن میں سے بعض لوگ اس بات پر کھڑے ہیں کہ یہ بات قرآن کے اندر سے ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ انھوں نے قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کو اجتہادی معاملہ بنا دیا ہے۔یہ نہایت مخدوش راستہ ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ قرآن پڑھیں اور آپ پر یہ بات واضح نہ ہوسکے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے تو بس پھر قرآن اللہ کی کتاب نہ ہوئی۔امت نے قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کو ضروری علم کا درجہ دیا تھا، جو ہر حال میں اجتہادی نہیں، بلکہ ایسے ذرائع سے ثابت ہو کہ جس کاانکار کرنا ممکن نہ ہو۔
۵؂ مطبوعہ ۲۰۱۰ء۔
۶؂ امام شافعی سے ماقبل کسی وقت امت نے اس ذریعہ منتقلی کو سمجھ لیا تھا۔ شاید روافض وغیرہ کی بحثوں کے نتیجے میں یہ طرز فکر سامنے آیا تھا۔ صحابہ کے سوا کسی کے لیے کوئی قول فعل یا تقریر براہ راست پیغمبر اسلام کے دہن مبارک سے سنی ہوئی نہیں تھی، حتیٰ کہ قرآن مجید بھی نہیں۔ تابعین کے لیے قرآن و سنت براہ راست ثابت شدہ نہیں تھے۔بلکہ صحابہ کی گواہی سے ثابت ہوتے تھے۔ٹھیک یہی معاملہ تبع تابعین کا تھا، ان کے لیے دین تابعین کی گواہی سے ثابت ہوتا تھا۔ ٹھیک یہی وہ زمانہ ہے جب خبر واحد کے رد کی بعض بحثیں اٹھیں ، اور امت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک تاریخی عمل کا فہم عطا کرگئیں۔ یہ گواہی صحابہ کی ہو یا تابعین کی دوقسم کی تھی،ایک اجماعی اور دوسرے انفرادی، امام شافعی کے الفاظ میں خبر عامہ اور خبر خاصہ۔جو بات سب صحابہ کہہ رہے تھا یا سب تابعین کہہ رہے تھے اسے یقینی کہا گیا، اور جسے انفرادی طور پر بیان کیا گیا ، اسے بشرائط قابل اطمینان قراردیا گیا۔ پھر ٹھیک یہی اصول ان کے بعد کی امت کے لیے بھی مان لیا گیا۔
۷؂ قدیم امت کا یہی نقطۂ نظر ہے، جو امام شافعی کی الرسالۃ سے لے کر اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی کتاب حجیت حدیث تک میں کسی نہ کسی شکل میں مانا ہوا ہے۔لیکن اب یہ احناف سمیت جن کا یہ طرۂ امتیاز تھا، اسے فراموش کر چکے ہیں۔ اب خبر متواتر اور سنت متواتر ہ میں ایسی غتربود ہوئی ہے کہ قدیم عبارتیں اپنے معنی کھوچکی ہیں۔ حالانکہ سنت متواترہ،خبر عامۃ ، اور خبر متواترہ بالکل اور ہیں اور متاخرمحدثین کی خبر متواتر اور۔
۸؂ ان کا کہنا یہ تھا کہ عدالت میں جب دو گواہ کسی قاتل کے خلاف گواہی دیتے ہیں، تو ان کی گواہی غیر یقینی ہونے کے باوجود یہ حجیت رکھتی ہے کہ قاضی اس قاتل کو سزاے موت دے دیتا ہے، اور ایسا نہ کرنے پر وہ گناہ گار ہوگا۔اسی اصول پر چند راویوں کی گواہی پر خبر واحد پر بھی عمل کرناضروری ہوگا۔بعد میں اسی کے لیے واجب العمل کی اصطلاح بنی۔
۹؂ امام شاطبی(وفات ۷۹۰ھ) رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ’والسنۃ...فإنہا مبینۃ لہ ودائرۃ حولہ فہی منہ وإلیہ ترجع فی معانیہا فکل واحد من الکتاب والسنۃ یعضد بعضہ بعضا ویشد بعضہ بعضا‘ (الموافقات ۵۸:۲) یہاں ’مبینۃ لہ ودائرۃ حولہ فہی منہ وإلیہ‘ میں تمام مذکر ضمائر کا مرجع قرآن مجید ہے۔
۱۰؂ ابتداءً ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن میں غیر مذکور ہونے کے باوجود دین کے طور پر امت کو سکھایا ہے ۔استاد گرامی کے ہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ عہد ابراہیمی کی قدیم وحی پر مبنی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جو دین چلا آرہاتھا اسے نبی اکرم نے بدعات سے پاک کرکے ، اس میں کچھ اضافے اور تغیرات کرکے سنت کی حیثیت سے جاری کیا۔
۱۱؂ حوالہ اوپر گزر چکا ہے ۔نوٹ:یہ لفظ اسوہ کا اردو زبان کے لحاظ سے استعمال ہے۔قرآنی عربی میں اسوہ اس عمل یا واقعے کو کہتے ہیں جسے دیکھ کر یا سن کر اس سے عزم و حوصلہ حاصل کیا جائے۔جیسے میدان جنگ میں کسی کی ثابت قدمی سے ثابت قدمی کا حوصلہ پانا۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2012
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Feb 07, 2017
4073 View