شیاطین اور فرشتے - طالب محسن

شیاطین اور فرشتے

 

و عن ابن مسعود ، قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن للشیطان لمۃ بابن آدم و للملک لمۃ ۔ فأما لمۃ الشیطان فایعاد بالشر و تکذیب بالحق ۔ وأما لمۃ الملک فإیعاد بالخیر و تصدیق بالحق ۔ فمن وجد ذلک فلیعلم أنہ من اﷲ فلیحمد اﷲ ۔ و من وجد الأخری ، فلیتعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم ۔ ثم قرأ : (الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء)۔

’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابنِ آدم (کے نفس میں) دخل اندازی کا موقع شیطان کو بھی حاصل ہے اور فرشتے کو بھی ۔ شیطان کی در اندازی برے حالات کا ڈراوا (دے کر ) حق کے جھٹلانے پر آمادہ کرنا ہے اور فرشتے کی دخل اندازی خیر کی توقع (پیدا کر کے) حق کی تصدیق پر ابھارنا ہے ۔ جو اسے پائے ،وہ یہ جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔ جو دوسری چیز پائے وہ اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگے ۔ پھر آپ نے یہ آیہ ء کریمہ تلاوت کی : الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء۔ (شیطان تمھیں فقر سے ڈراتا اور بے حیائی کا کہتا ہے ۔ اور اللہ تم سے اپنی جناب میں مغفرت اور عنایت کا وعدہ کرتا ہے اور وہ سمائی والا اور جاننے والا ہے ۔‘‘

لغوی مباحث

إیعاد : یہ’ وعد‘ سے باب افعال میں مصدر ہے اس کا مطلب ہے دوسرے کو کسی بات کا یقین دلانا ۔
لمۃ : ’لم ‘کا مطلب ہے : اترنا ، اثر انداز ہونا اور قریب ہونا ۔ یہاں یہ شیطانی وساوس کے لیے آیا ہے۔

متون

مختلف کتابوں میں اس روایت کا ایک ہی متن روایت ہوا ہے ۔جو تھوڑے بہت فرق ہیں ، ان کی نوعیت بھی محض لفظی فرق کی ہے ۔ مثلاً ’بابن آدم ‘کی جگہ’ من ابن آدم‘ اور ’فمن وجد ذلک‘ کے بجائے ’فمن أحس من لمۃ الشیطان اور من لمۃ الملک‘ کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں ۔

معنی

بنیادی طور پر یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جہاں شیاطین انسانوں کے نفوس میں برائیوں کے لیے تحریک پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں وہیں فرشتے نیکیوں کے لیے آمادگی کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بات ہم اس سے پہلے حدیث : ۶۷میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ بات صرف حدیث ہی میں نہیں آئی ہے ، بلکہ قرآنِ مجید میں بھی بیان ہو ئی ہے ۔چنانچہ یہ نکتہ تو ایک طے شدہ نکتہ ہے ۔ اس روایت میں پیشِ نظر نکتہ شیطانی اور ملکوتی تاثیرات میں فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ ایمان شیطان کے اصل ہتھیار سے واقف ہو جائیں اور اس کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان ہو۔
شیطان کا اصل حربہ یاس اور ناامیدی پیدا کرکے مستقبل کی ناکامیوں اور پیش آنے والی تکلیفوں کے خوف میں مبتلا کر کے برائی کے راستے پر لگانا ہے ۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ ایعاد بالشر‘ کی ترکیب اختیار کی ہے ۔انسانی فطرت صالح ہے ۔ لہٰذا اس کا اصل میلان اعمالِ صالحہ ہی کی طرف ہے ۔ یہ ایک مشکل کام ہے کہ انسان کو صحیح کاموں سے ہٹا کر برے کاموں کی طرف لگایا جائے ۔ اس کے لیے ایک راستہ یہ ہے کہ آدمی کو مختلف اندیشوں میں مبتلا کر دیا جائے تاکہ وہ صحیح اصول پر فیصلہ کرنے کے بجائے مایوسی اور خوف کی حالت میں شیطان کا مطلوب فیصلہ کرے ۔
شیطان کا دوسرا حربہ انسان کے جنسی جذبے کو بے راہ رو کرنا ہے ۔ جنسی جذبے کو قابو کرنے میں حیا کے جذبے کو مؤثر ترین عامل کی حیثیت حاصل ہے ۔شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس جذبے کو غیر مؤثر کر دے تاکہ انسان بے حیائی کی راہ پر چلنے میں عار محسوس نہ کرے اور نتیجۃً معاشرے میں فحاشی پھیل جائے ۔
فرشتے اس کے برعکس انسان کو امید دلاتے ہیں ۔ اسے خدا کی رحمت اور مغفرت پانے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔امید آدمی کی مثبت سرگرمیوں کا منبع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے ناامید ی کی کیفیت پیدا کرنے کے بجائے آدمی کی توجہ خدا کی رحمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
مایوسی کے نتیجے میں آدمی کفر کی راہ اختیار کرتا اور خدا کی رحمت کے بھروسے پر آدمی حق کو اختیار کرتا اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو دیکھ کر اس کے قدم متزلزل نہیں ہوتے ۔

کتابیات

ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن ، باب ۳ ۔ تفسیر قرطبی ج ۳ ، ص ۳۲۹۔ ج ۷ ، ص ۱۸۶ ۔ تفسیر طبری ، ج ۳ ، ص ۸۸ ۔ صحیح ابنِ حبان ، ج ۳ ، ص ۲۷۸ ۔ موارد الظمآن ، ج ۱ ، ص ۴۰ ۔ السنن الکبری ، ج ۶ ، ص ۳۰۵ ۔ مسند ابی یعلیٰ ، ج ۸ ، ص ۴۱۷۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Nov 21, 2016
2676 View