قومی تعمیر میں مذہبی قیادت کا کردار - سید منظور الحسن

قومی تعمیر میں مذہبی قیادت کا کردار

عرفان الٰہی کی وہ میراث جو انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے چھوڑی ہے، وہ علما کا سرمایۂ حیات ہے۔ چنانچہ انبیا کی نیابت میں اب یہ انھی کا منصب ہے کہ اپنے ہم قوموں کو جہنم کے عذاب سے خبردار کریں اور جنت کے انعام کی خوش خبری سنائیں؛ یہ انھی کا کام ہے کہ علوم دینیہ پر غور کریں اور ان کی روشنی میں زمانے کے لیے لائحۂ عمل تشکیل دیں؛ یہ انھی کا فریضہ ہے کہ دینی تعلیم کو ہر آمیزش سے پاک کریں اور اسے دنیا کے قریے قریے تک پہنچائیں؛ اور یہ انھی کی ذمہ داری ہے کہ عامۂ امت کو انداز زندگی سکھائیں اور ان کی تعمیر و ترقی کے لیے صحیح راستوں کا تعین کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ علماے امت نے ان فرائض منصبی کو نہایت خوبی سے نبھایا ہے۔ یہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے انھوں نے جنگلوں اور صحراؤں کی خاک چھانی ہے ، گھربار چھوڑے ہیں، نعمتوں سے صرف نظر کیا ہے، تازیانے کھائے ہیں ، قید و بندکی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور بسااوقات اپنی جانیں بھی راہ حق میں پیش کر دی ہیں۔بخاری و مسلم ، مالک و احمد، بو حنیفہ و شافعی ، غزالی و ابن تیمیہ نے دین و ملت کی جو خدمت کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اس طائفۂ علما کے سرخیل تھے ۔ ان کے پیرووں نے عزم و استقامت اور حکمت و دانش کے ساتھ اقوام امت کی رہنمائی کی اور انھیں مدت تک جسد واحد میں پروئے رکھا۔ انھوں نے ارباب اقتدار کو ان کے فرائض سے منحرف نہیں ہونے دیا۔ عامۃ الناس کے اخلاق و کردار کو مجروح ہونے سے بچایا اور انھیں خوابوں میں جینے کے بجاے حقیقت پسندی کا درس دیا۔ اس رہنمائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان اخلاق و کردار، عدل وانصاف ،علم و ہنر اور نظم و ترتیب میں اوج کمال پر فائز ہوئے اور اسی بنا پر صدیوں تک عالم کی مسند اقتدار پر فائز رہے ۔

امت جب زوال پذیر ہوئی توجہاں وہ حکمران رخصت ہو ئے جن کے عدل اجتماعی کوامتیں تسلیم کرتی تھیں، وہ سالار رخصت ہوئے جن کی ہیبت سے ظالم قومیں کانپ جاتی تھیں، وہ صناع رخصت ہو ئے جنھوں نے اشہب تمدن کو مہمیز کر دیا تھا ، وہ مدبر رخصت ہوئے جن کی دانش نے عمرانی علوم کے نئے دریچے کھول دیے تھے، وہ حکما رخصت ہوئے جن کے افکارنے اسرار حیات کو آشکارا کر دیا تھا ، وہاں وہ داعیان دین حق، وہ معلمین کتاب وسنت اور وہ قائدین ملت اسلامیہ بھی رخصت ہو گئے جو ان سب کے لیے قوت محرکہ کا کردار ادا کر رہے تھے اور جن کے وجود سے ان سب کا وجود قائم تھا۔ یہ علما دنیا سے اٹھے اور اس طرح اٹھے کہ امت کا وجود روح اسلام سے خالی ہو گیا اورطاغوت کے تن مردہ میں پھر سے جان پڑ گئی:

جہاں سے اس طرح اٹھے یہ اہل مے خانہ
کہ بحر و بر میں عزازیل نے جلائے چراغ
فلک کا نوحہ زمیں کے حدود میں پہنچا
کہ کھو دیا ہے ستاروں نے منزلوں کا سراغ

جو لوگ ان کے جانشین ہوئے، انھوں نے علم وتحقیق اور اخلاق وتقویٰ کا بہرہ تو وافر جمع کر لیا،مگر قومی و اجتماعی امور میں امت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہے۔ اس ضمن میں انھوں نے امت کو جودرس دیا، واقعہ یہ ہے کہ وہ امت کی تعمیر وترقی کے بجاے شکست و ریخت ہی کا باعث ہوا۔ اس موقع پر زمانہ ان سے یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھیں گے ، حکمت و دانش کو بروے کار لائیں گے ، اسباب زوال کو متعین کرکے ا ن کے تدارک کی حکمت عملی ترتیب دیں گے اور پھر امت کو پوری ثابت قدمی کے ساتھ صحیح خطوط پر آگے بڑھائیں گے، مگر نہ زمانے کی نبض کو ٹٹولا گیا، نہ حکمت و دانش کو آزمایا گیا، نہ اسباب زوال کی تحقیق کی گئی اور نہ قومی ترقی کے لیے لائحۂ عمل مرتب کیا گیا ۔ اس کے برعکس اس جماعت علما کی کار گزاری کی تفصیل یہ ہے کہ ان میں سے کچھ زوال کی نوحہ خوانی سے قوم پر مایوسی طاری کر کے خاموش ہو گئے،کچھ کنارہ کش ہو کر خانقاہوں میں کھو گئے، مگر بیش تر نے امت میں آتش جذبات کوانگیخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہی جذبات پرورعلما اس دور زوال میں امت کی قیادت کے منصب پر فائز ہوئے اور آج تک یہ منصب انھی کے پاس ہے۔
گذشتہ دو تین صدیوں میں انھوں نے مسلمانوں کو جو رہنمائی فراہم کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
انھوں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ انھیں معاملات دنیا کو چشم خرد سے نہیں، بلکہ نگاہ جذبات سے دیکھنا چاہیے۔ ان پر اگر زوال آیا ہے تو اس کے اسباب ان کے اپنے ہاں جو ہیں سو ہیں، مگر اس کابڑا سبب ان کے دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ دشمن اقوام کا قلع قمع کرنے کے لیے سر پر کفن باندھ کر اٹھ کھڑے ہوں اوراس وقت تک برسر پیکار رہیں ، جب تک وہ ان کی سیادت تسلیم نہیں کر لیتیں یا صفحۂ ہستی سے محو نہیں ہو جاتیں۔ اس جدوجہد میں اگر وہ خود دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو انھیں جان رکھنا چاہیے کہ محکومی کی زندگی سے شہادت کی موت بدرجہا بہتر ہے۔
یہ طرز عمل سکھایا ہے کہ کمزور کو طاقت ور کے جواب میں حکمت سے نہیں، بلکہ شدید رد عمل سے کام لینا چاہیے۔ حکمت سراسر بزدلی کی علامت ہے۔ اگر وہ ظلم سہتے جائیں گے تو اس کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔
یہ تعلیم دی ہے کہ انھیں اسباب و وسائل کی فکرنہیں کرنی چاہیے، بلکہ اللہ کی نصرت پر بھروسا کر کے اپنے حقوق کے لیے برسر جنگ ہو جانا چاہیے۔ اگر ان کا ایمان سلامت ہے تو پروردگار عالم لازماً اپنے فرشتوں سے ان کی مدد فرمائیں گے ۔یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ پہلے بھی مختلف میدان ہاے کارزار میں ہزاروں اور لاکھوں کے مقابلے میں سیکڑوں مسلمانوں کوفتح عظیم سے ہم کنار کیا ہے۔
یہ سمجھایا ہے کہ ان کی بقا کایہ ناگزیر تقاضا ہے کہ جہاں وہ مقیم ہوں ، وہاں ان کے پاس لازماً سیاسی اقتدار ہونا چاہیے۔ وہ اقلیت میں ہوں تب بھی انھیں اس کے حصول کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر پرامن طریقے سے یہ جدوجہد بارآور نہ ہو سکے توپرتشدد ہو کر اسے جاری رکھنا چاہیے۔
یہ باور کرایا ہے کہ دنیا پر حکمرانی نہ صرف ان کا استحقاق ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائدکردہ فریضہ ہے۔ ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی استعداد کے لحاظ سے اس فرض کو بجا لائے۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک مسلمان کا مقصد حیات ہی دنیا پر اسلام کی حکومت کا قیام ہونا چاہیے۔
یہ بتایا ہے کہ وہ خداکے نزدیک دنیا کی سب سے مکرم قوم ہیں، اس لیے کہ وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور ان کی زبان پر کلمۂ طیبہ جاری ہے۔ اس بنا پر آخرت میں تو انھیں سرخ رو ہوناہی ہے، لیکن دنیا میں بھی وہ لائق فضیلت ہیں۔ چنانچہ اگر کسی وقت وہ اخلاقی اعتبار سے نہایت پست بھی ہو جائیں، تب بھی تعظیم و تکریم کے مستحق ہیں۔
یہ واضح کیا ہے کہ ان کی سیادت کی کلید جہاد و قتال ہے۔ جب تک وہ اس میدان میں سرگرم تھے تو دنیا پر غالب تھے اور جب سے انھوں نے اس میدان کو چھوڑا ہے، محکومی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانا چاہتے ہیں تو انھیں جہادوقتال کے لیے مستعد ہونا ہو گا۔
اس تعلیم و تربیت کا خلاصہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک ہی درس ہے جو مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے علما کی زبانوں پر جاری ہے کہ مسلمانو ، تلوار اٹھاؤ اور دنیا سے برسر پیکار ہو جاؤ ، یہاں تک کہ دنیاکی مسند اقتدارپر قابض ہو جاؤیا آخرت کے مرتبۂ شہادت پر فائز ہو جاؤ۔
علما کی اس رہنمائی کواگر تاریخ کے اوراق میں دیکھا جائے تو چند مثالیں بہت نمایاں ہیں:

سید احمد شہید (۱۷۸۶ء۔ ۱۸۳۱ء) ہیں جنھوں نے ہند میں سکھوں کی حکومت کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تحریک شروع کی۔جہاد کے نام پر چند سو سرفروشوں کوجمع کر کے سکھوں کی طاقت ور حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ ابتدا میں کچھ علاقے پرقبضہ بھی کر لیا، مگر بالآخر بالاکوٹ کے مقام پرسکھوں کی بیس ہزار فوج سے مقابلے میں اپنے تمام سرفروش ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
امام شامل (۱۷۹۷ء۔ ۱۸۷۱ء) ہیں جن کی قیادت میں داغستان کے مسلمانوں نے روسی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ یہ جنگ کم و بیش پچیس سال تک جاری رہی۔ جہاد اور آزادی کے نام پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، مگر آخر کارناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
مہدی سوڈانی (۱۸۴۴ء ۔ ۱۸۸۵ء) ہیں جو سوڈان کو مصر سے آزاد کرا کے انگریزوں کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ اسی دوران میں ۱۸۸۵ء میں ان کی وفات ہو گئی۔ ان کے جانشین زیادہ عرصہ انگریزوں کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ ۱۸۹۹ء میں انگریز سوڈان پر قابض ہو گئے۔انگریز سالار نے جذبۂ انتقام کے تحت سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہدی سوڈانی کی قبر اکھاڑ دی اور ان کی ہڈیاں تک جلا ڈالیں۔
مفتی اعظم امین الحسینی(۱۸۹۳ء۔ ۱۹۷۴ء) ہیں جنھوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے انگریزوں اور یہودیوں کے خلاف بھر پور جدوجہد کی۔انگریزوں نے انھیں فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ انھوں نے آخری دم تک فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی جو بار آور نہ ہو سکی۔
حسن البنا (۱۹۰۶ء۔ ۱۹۴۹ء) ہیں جنھوں نے مصر میں اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کے لیے ’’الاخوان المسلمون ‘‘ کے نام سے تنظیم قائم کی اوررضا کار بھرتی کیے۔ اخوان کے رضا کاروں نے فلسطین کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔برطانیہ کے دباؤ پر مصری حکومت نے ’’الاخوان المسلمون‘‘ پر پابندی عائد کر دی، ہزاروں کارکنوں کو قید کر لیا ۔ اسی ہنگامے میں حسن البنا کوشہید کر دیا گیا۔
سید قطب شہید (۱۹۰۶ء۔۱۹۶۶ء) ہیں جو مصر میں’’ الاخوان المسلمون‘‘ ہی کے بڑے رہنماؤں میں سے تھے ۔ حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ۱۵ سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ اس دوران میں صدر جمال عبدالناصر نے انھیں وزارت تعلیم کی پیش کش کی ، مگر سید قطب نے انکار کر دیا۔ ۱۹۶۶ء میں انھیں حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔
محمد بن عبدالکریم ریفی (۱۸۸۲ء۔ ۱۹۶۳ء) ہیں جنھوں نے شمالی مراکش پر مسلط اسپین کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اسپین کی حکومت نے بغاوت فرو کرنے کے لیے انیس ہزار فوج بھیجی۔ محمد بن عبدالکریم نے اسے زبردست شکست دے کر شمالی مراکش کو آزاد کرا لیا اور وہاں جمہوریہ ریف کے نام سے نئی حکومت قائم کی۔ اس سے فرانس کو خطرہ ہواجو مراکش کے باقی حصے پر قابض تھا۔ اس نے اسپین سے مل کر تقریباً تین لاکھ افواج پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بہت مختصر مدت میں ریاست ریف پر قبضہ کر کے محمد بن عبدالکریم کو ۲۱ سال کے لیے قید کر دیا۔
یہ سب لوگ دین کے علم بردار تھے ،اسلام سے بے پناہ محبت رکھتے تھے، نیک نیت اور پاکیزہ صفت تھے اور دین و ملت کے بعض دوسرے پہلوؤں میں لافانی خدمات کے کارگزار تھے، مگراس سب کچھ کے باوجود قومی معاملات میں حقیقت پسندانہ لائحۂ عمل اختیار نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہ حاصل کر سکے۔ کاش ! وہ مسلمانوں کو قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس غیر متبدل قانون سے روشناس کراتے کہ:

’’اللہ اس انعام کو جو کسی قوم پر کرتا ہے، اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ اس چیز کو نہ بدل ڈالے جس کا تعلق خود اس سے ہے۔ بے شک اللہ، سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (الانفال۸: ۵۳)

’’ اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا ، جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کر لے۔ ا ور جب اللہ کسی قوم پر آفت لانے کا ارادہ کر لے تو وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور ان کا اس کے مقابلے میں کوئی بھی مددگار نہیں بن سکتا۔ ‘‘ (الرعد۱۳: ۱۱ )

گویا قوموں کے عروج و زوال اور انعام و عقوبت کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس کا انعام قوم کے کردار اور صفات پر مبنی ہوتا ہے، جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردار کی حامل اورمطلوبہ صفات سے متصف رہتی ہے تو وہ انعامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، بصورت دیگر وہ اس کے لیے محرومی مقدر کر دیتے ہیں۔

____________

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2017
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Mar 31, 2017
1841 View