تعظیم خداوندی کے تقاضے

تعظیم خداوندی کے تقاضے

 ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللّٰہِ إِکْرَامَ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَیْرِ الْغَالِیْ فِیْہِ وَالْجَافِیْ عَنْہُ وَإِکْرَامَ ذِی السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک، بوڑھے مسلمان، حافظ قرآن جو نہ اس میں غلو کرنے والا ہو اور نہ اس کی نافرمانی کرنے والا ہو اور منصف حکمران کی تعظیم کرنا، سب اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں سے ہیں۔

وضاحت

یہ روایت ابوداؤد، رقم ۴۸۴۳ میں روایت کی گئی ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ بیہقی، رقم۱۶۴۳۵؛ ابن ابی شیبہ، رقم ۲۱۹۲۲، ۳۲۵۶۱ میں بھی روایت کی گئی ہے۔ تاہم دور حاضر کے مشہور اور قابل احترام عالم حدیث علامہ ناصر الدین البانی نے ثقاہت کے اعتبار سے اس روایت کو صحیح سے کم درجے کی روایت قرار دیا ہے۔ اپنی متعدد کتابوں میں انھوں نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۱؂۔

خلاصۂ بحث

اس روایت کی سند کے بارے میں علامہ ناصر الدین البانی کی راے کے مطابق، ہم احتیاطاً اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل قول قرار نہیں دے سکتے۲؂۔

_____

۱؂ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے: صحیح الجامع الصغیر۱/۴۳۸، رقم ۲۱۸۹؛ صحیح ابوداؤد ۳/۱۸۹، رقم ۴۸۴۳؛ مشکوٰۃ المصابیح ۳/۳۸۸، رقم ۴۹۷۲؛ صحیح الترغیب والترہیب ۱/۱۵۱، رقم۹۸ اور صحیح الادب المفرد ۱۰۴، رقم ۲۷۴۔
۲؂ یہ صاحب تحریر کی اپنی ذاتی را ے ہے جو کہ درست نہیں ہے، کیونکہ علامہ البانی کے حسن کہنے سے بھی محدثین کے نزدیک یہ، بہرحال، قابل حجت رہتی ہے۔ حدیث حسن کے بارے میں محدثین کا نقطۂ نظر یہ ہے:

’’ہو کالصحیح فی الإحتجاج بہ، وإن کان دونہ فی القوۃ، لذالک إحتج بہ جمیع الفقہاء و عملوا بہ، وعلی الإحتجاج بہ معظم المحدثین والأصولیین، إلا من شذ من المتشددین.‘‘ (تیسیر مصطلح الحدیث، محمود الطحان ۴۵)

’’حدیث حسن قابل حجت ہونے میں حدیث صحیح ہی کی طرح ہے، اگرچہ وہ اس سے قوت میں کم ہے، کیونکہ تمام فقہا نے اسے قابل حجت مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے، اور سوائے بعض شاذ متشددین کے کبار محدثین اور اصولیین نے بھی اسے قابل حجت مانا ہے۔‘‘ (مدون)

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2014
Uploaded on : Jan 11, 2016
2627 View