مذہبی انتہا پسندی - جاوید احمد غامدی

مذہبی انتہا پسندی

 یہ بات اب محتاج دلیل نہیں رہی کہ ریاست پاکستان کے لیے اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ فکر و خیال اور زبان و قلم سے آگے اب یہ قتل و غارت اور دہشت گردی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیاست، معیشت، معاشرت، ہر چیز اِس کی زد میں ہے اور ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان اِس کی نذر ہو چکے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس طرح کی صورت حال میں بالآخر لڑنے ہی کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور ہماری ریاست کو بھی غالباً ایک دن یہی کرنا پڑے گا۔ پھر توبہ و استغفار بھی کرنی ہو گی کہ آیندہ ہم مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کبھی استعمال نہیں کریں گے۔ اِس کی نوبت اگر آ جائے تو انتہا پسندی کو اُس کی جڑ بنیاد سے اکھاڑنے کے لیے یہ چند باتیں مزید پیش نظر رہنی چاہییں:
ایک یہ کہ انتہا پسندی کا یہ عفریت براہ راست آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ یہ اُسی مذہبی فکر کا مولود فساد ہے جو نفاذ شریعت اور جہاد و قتال کے زیر عنوان اور کفر، شرک اور ارتداد کے استیصال کے لیے ہمارے مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ انتہا پسند افراد اور تنظیمیں اُسی سے الہام حاصل کرتی ہیں اور کچھ ترمیمات کے بعد اپنے پیش نظر مقاصد کے لیے اُس کو عمل کے سانچے میں ڈھال لیتی ہیں۔ یہ مذہبی فکر قرآن و حدیث کی جن تعبیرات پر مبنی ہے، اُن کی غلطی دور حاضر میں اسلام کے جلیل القدر مفکرین واضح کر چکے ہیں۔ علم و استدلال کے مقابلے میں ہنگامہ و احتجاج اور زور و قوت کے اظہار کا طریقہ ختم ہو جائے تو اِن مفکرین کے رشحات فکر ذہنوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ رائج مذہبی فکر کے مقابلے میں یہ گویا ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہوگا۔ لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اُس میں دین و شریعت کی حفاظت کا یہی طریقہ رائج ہے۔ تہذیب اور شایستگی کے ساتھ اختلاف راے کی روایت بدقسمتی سے یہاں قائم نہیں ہو سکی۔ یہ صورت حال تقاضاکرتی ہے کہ ہمارے اہل دانش اور ارباب حل و عقد مذہبی افکار کے آزادانہ اظہار کے لیے بھی اُسی طرح حساس ہوں، جس طرح وہ سیاسی افکار کے معاملے میں حساس ہیں اور اِس آزادانہ اظہار کو روکنے کے لیے جو لوگ دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں، اُنھیں صاف صاف بتا دیں کہ یہ دباؤ ناقابل قبول ہے۔ وہ اگر اپنے ساتھ اختلاف رکھنے والوں کی غلطی واضح کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے کہ اُسے علم و استدلال سے واضح کرنے کی کوشش کریں۔ علم کی دنیا میں ہنگامہ و احتجاج اور جبر و استبداد کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پھر یہ اہل دانش اور ارباب حل و عقد خود بھی اُس بیانیہ کو سمجھنے کی کوشش کریں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے میں سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے زیرعنوان اپنے خطبات میں اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ 
دوسری یہ کہ ہم کسی شخص کو یہ اجازت تو نہیں دیتے کہ بارہ سال کی عمومی تعلیم کے بغیر ہی وہ بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر یا کسی دوسرے شعبے کا ماہر بنانے کے ادارے قائم کرے۔ مگر دین کا عالم بننے کے لیے اِس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اِس مقصد کے لیے طلبہ ابتدا ہی سے ایسے مدرسوں میں داخل کر لیے جاتے ہیں، جہاں اُن کے مستقبل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ قدرت نے، ہو سکتا ہے کہ اُنھیں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان یا شاعر و ادیب اور مصور بننے کے لیے پیدا کیا ہو، مگر یہ مدارس اُن کی اہلیت اور ذوق و رجحان سے قطع نظر اُنھیں عالم بناتے اور شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد زندگی کے کسی دوسرے شعبے کا انتخاب کر لینے کے مواقع اُن کے لیے ختم کر دیتے ہیں۔ پھر جن کو عالم بناتے ہیں، بارہ سال کی عمومی تعلیم سے محرومی کے باعث اُن کی شخصیت کو بھی ایک ایسے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں جس سے وہ اپنے ہی معاشرے میں اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اِس غلطی کے نتائج اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔ چنانچہ ناگزیر ہے کہ دینی تعلیم کے اداروں کو بھی اختصاصی تعلیم کے دوسرے اداروں کی طرح پابند کیا جائے کہ بارہ سال کی عمومی تعلیم کے بغیر وہ کسی طالب علم کو اپنے اداروں میں داخل نہیں کریں گے۔
ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تنہا یہی اقدام اُس صورت حال کو تبدیل کر دے گا جو اِس وقت دینی تعلیم کے اداروں نے پیدا کر رکھی ہے۔ لیکن اِ س کے لیے ضروری ہے کہ عمومی تعلیم کا نظام جو مہارت ہر شعبۂ زندگی میں اختصاصی تعلیم کے لیے فراہم کرتا ہے، وہ دین کا عالم بننے کے لیے بھی فراہم کرے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اِس کے لیے عمومی تعلیم کے چند منتخب اداروں میں بالکل اُسی طرح ایک دینیات گروپ شروع کیا جائے، جس طرح سائنس اور آرٹس کے گروپ اِس وقت موجود ہیں تاکہ جو طلبہ دین کے عالم بننا چاہتے ہوں، وہ اپنی تعلیم کے نویں سال سے اِس گروپ کا انتخاب کریں اور اِس شعبے کی اختصاصی تعلیم کے اداروں میں داخلے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کر لیں۔
تیسری یہ کہ انتہا پسندی سے نجات کے لیے اُس ریاست کا خاتمہ ضروری ہے جو علما کو جمعہ کے منبر اور مساجد کے اہتمام سے ہمارے ملک میں حاصل ہو چکی ہے۔ اہل علم اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ نماز جمعہ کے بارے میں جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی، وہ یہ تھی کہ اُس کی امامت اور اُس کا خطاب سربراہ حکومت اور اُس کے عمال کریں گے۔ اُن کے سوا کوئی دوسرا شخص اگر اُن کی کسی معذوری کی صورت میں جمعہ کے منبر پر کھڑا ہو گا تو اُن کی اجازت سے اور اُن کے قائم مقام کی حیثیت سے کھڑا ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی یہ سنت پوری شان کے ساتھ قائم رہی، لیکن بعد کے زمانوں میں جب حکمران اپنے اعمال کی وجہ سے اِس کے اہل نہیں رہے تو جمعہ کا منبر خود اُنھوں نے علما کے سپرد کر دیا۔ مذہب کے نام پر فتنہ و فساد کو اصلی طاقت اِسی سے حاصل ہوئی۔ یہ صورت حال تبدیل ہونی چاہیے اور ہمارے حکمرانوں کو پورے عزم و جزم کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اِس نماز کا اہتمام اب حکومت کرے گی اور یہ صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائے گی جو ریاست کی طرف سے اِس کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِس کا منبر حکمرانوں کے لیے خاص ہو گا۔ وہ خود اِس نماز کا خطبہ دیں گے اور اِس کی امامت کریں گے یا اُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمایندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِس نماز کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔
اِسی طرح فیصلہ کرنا چاہیے کہ عام نمازوں کی مسجدیں بھی حکومت کی اجازت سے بنائی جائیں گی۔ وہ کسی خاص فرقے یا مکتب فکر کی مسجدیں نہیں ہوں گی، بلکہ خدا کی مسجدیں ہوں گی، جہاں تنہا اُسی کی عبادت کی جائے گی۔ مسجد مسلمانوں کا ایک اجتماعی ادارہ ہے، اُسے افراد اور تنظیموں کے کنٹرول میں نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی حکومت جہاں بھی قائم ہو، وہ مسجدوں پر اپنا اقتدار پوری قوت کے ساتھ قائم رکھے اور کسی شخص کو اجازت نہ دے کہ وہ اُنھیں کسی تنظیم، تحریک یا کسی خاص نقطۂ نظر کی اشاعت کے لیے استعمال کرے اور اِس طرح خدا کی عبادت گاہوں کے بجاے اُنھیں مسلمانوں کے درمیان تفریق کے مراکز میں تبدیل کر دے۔
یہ اقدام ناگزیر ہے۔ اِ س کی برکات اگر کوئی شخص دیکھنا چاہے تو اُن ملکوں میں جا کر دیکھ سکتا ہے، جہاں مسجدوں کے انتظام و انصرام کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
[۲۰۱۳ء]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2017
مصنف : جاوید احمد غامدی