قرآن اور انفاق - محمد رفیع مفتی

قرآن اور انفاق

 عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا حسد الا اثنین، رجل آتاہ اللّٰہ القرآن، وھو یقوم بہ اناء اللیل واناء النہار، ورجل آتاہ اللّٰہ المال، وھو ینفق منہ اناء اللیل واناء النہار.(مشکوٰۃ، کتاب فضائل القرآن)
’’ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حسد صرف دو ہی آدمیوں سے روا ہے: ایک وہ جسے قرآن ملا ہو اور وہ صبح و شام اس (کی تلاوت و تدبر) کا التزام رکھتا ہو، دوسراوہ جسے اللہ نے صاحب ثروت کیا ہو، اور وہ اپنے مال کو صبح وشام راہ خدا میں لٹاتا رہتا ہو۔‘‘

یہ سیدنا عبداللہ بن عمر کی روایت ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حسد صرف دو ہی آدمیوں سے اگر کیا جائے تو روا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ حسد بڑی ہی قبیح چیز ہے، اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ آدمی دوسروں کے لیے مشکل کا باعث بنتا، بلکہ خود اپنی صلاحیتوں اور خوشیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اس کے اخلاق بالکل برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اگر آدمی اس سے بلند ہو جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ اس کے اخلاق بھی بلند ہو تے اور اس کے مراتب بھی اعلیٰ ہو جاتے ہیں۔ گناہوں میں اللہ تعالیٰ مہلت تو دیتے ہیں، مگر کچھ آزمانے اور کچھ جھنجھوڑنے کے بعد، اس کی مہلت ہدایت چھین لیتے ہیں۔
بنی اسرائیل کے ساتھ بحیثیت قوم یہی معاملہ کیا گیا۔ انھوں نے امیوں میں اٹھنے والے نئے نبی کی نبوت کا صرف اسی حسد کی وجہ سے انکار کر دیا کہ یہ نبی ان کے خاندان سے کیوں نہیں آیا۔ یہی وہ بیماری ہے جس کو قرآن ، ’فِیْ قُلُوْبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضاً‘ (البقرہ۲: ۱۰) کے الفاظ سے تعبیر کرتاہے، چنانچہ اس حسد کی وجہ سے یہود نے اپنے کان اور آنکھیں اس ہدایت سے بند کر لیں، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ اور ، بالآخر توفیق ہدایت سے محروم کر دیے گئے۔ شیطان بھی اسی حسد کا شکار ہوا، جس کی بنا پر راندۂ درگاہ خداوندی ٹھیرا۔
غرض حسد انسانی شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن اثرات رکھتا ہے، اس سے اپنے آپ کو لازماً بلند رکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل تصوف ، ان کے نظریات سے ہزار اختلاف، مگر اس معاملے میں وہ ہمیشہ بہت محتاط رہے ہیں۔ مثلاً، امام غزالی کا قول ہے کہ اگر علما میں سے حسد اور ریا کو نکال دیا جائے تو ان کی ولایت میں کوئی شبہ نہیں ہے، کیونکہ وہ نماز روزے کے پابند تو ہوتے ہی ہیں ، اگر ان چیزوں سے بھی اپنے آپ کو مبرا کر لیں تو بلا شبہ یہ درجۂ ولایت ہی ہے۔
علما کے اندر ان امراض کے پیدا ہونے کے مواقع بہت ہوتے ہیں، چنانچہ ہم عصر علما ایک دوسرے کی برتری کے اعتراف کے بجائے، اسی مرض کی وجہ سے باہم چشمک زنی کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں، یا دوسروں پر اپنی مشیخت ثابت کرنے کے لیے ریا کاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ امراض عامۃ الناس میں بھی ہوتے ہیں اور خواص میں بھی، اس لیے ان سے ہر حالت میں بچنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے، جیسے آگ لکڑیوں کو۔
ان نقائص سے اپنے آپ کو بلند کرنے سے سیرت وکردار کی تعمیر بھی ہوتی ہے، کیونکہ جب ایک برائی رخصت ہوتی ہے، تو اس سے خالی نہیں ہوتی کہ ایک بھلائی اس کی جگہ لے لیتی ہے، قرآن کا فرمان ہے: ’إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّءَاتِ‘(ہود۱۱: ۱۱۴) کہ جب بھلائی آتی ہے تو وہ نہ صرف بندۂ مومن کے اعمال نامہ میں کسی ایک برائی کو دھو دیتی ہے، بلکہ اس کے نفس سے کسی نہ کسی برائی کا خاتمہ کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ چنانچہ باقی برائیوں کی طرح حسد سے اجتناب اور اس سے مبرا ہونے کی سعی بھی نیک خصائص کے پیدا ہونے کا ذریعہ بنتی ہے۔
بہرحال، یہ حسد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں سے ہو سکتا ہے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے قرآن سے شغف بخشا ہو، وہ صبح شام اس میں غور وتدبر کرتا ہو، زندگی کے ہر موڑ پر اس سے رہنمائی لیتا اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں رہتا ہو۔ عامی بھی ہوتو اس کی تعلیمات سے آگاہی میں کوشاں رہتا ہو۔ صبح شام اس کی تلاوت کرتا اور علما سے اس کو سیکھنے میں لگا رہتا ہو۔ آپ نے اسی بات کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’ھو یقوم بہ اناء اللیل واناء النہار‘۔
اور دوسرا وہ شخص ہے، جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہو۔ اور وہ اس مال کو سینت سینت کر رکھنے کے بجائے، اس کو راہ خدا میں بے دریغ خرچ کرتا ہو۔ اہل ثروت کی آزمایش یہی ہے کہ ان کا مال کے معاملے میں کیا رویہ ہے، کیا وہ اس کی پائی پائی سینت کر رکھتے ہیں یاقرآن کی اس آیت کے مصداق کہ ’وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً‘ ۱؂ ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں، اپنے اوپر اسراف اور بخل سے بچ کر ہی خرچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہتا ہے، اسے مستحق اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو شخص ہیں جو اس مرتبہ میں اتنے بلند ہیں کہ ان کے بارے میں حسد جیسی برائی پر بھی نیکی کا گمان ہونے لگتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ اس انداز بیان سے، جواز حسد مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ تعلق بالقرآن اور انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی توفیق کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہ زبان کا ایک اسلوب ہے، جسے منفی چیز کے تعلق سے ایک چیز کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ ’’علم کی تو چوری بھی جائز ہے۔‘‘ اس میں علم کے حصول کی ترغیب مقصود ہے نہ کہ چوری کا جواز پیش نظر ہے۔ 

____________

۱؂ ’’وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے اور اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ (الفرقان ۲۵: ۶۷)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2005
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 07, 2018
2519 View