قرآن اور اسیران جنگ - جاوید احمد غامدی

قرآن اور اسیران جنگ

 اسیران جنگ کے بارے میں قرآن کا جو حکم ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیا ہے، اُس کا ماخذ سورۂ محمد (۴۷) کی آیت ۴ ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی کا نقطۂ نظر اِس معاملے میں مختلف محسوس ہوتا ہے۔ اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں اِس کی تقریر اُنھوں نے جس طرح فرمائی ہے، اُس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ متکلم کا منشا یہاں جنگی قیدیوں سے متعلق کوئی قانون بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ اگر کافروں سے جنگ کی نوبت آجائے تو اُن سے مرعوب نہ ہوں، وہ بالکل بے بنیاد اور بے ثبات ہیں ، لہٰذا اچھی طرح خوں ریزی کر کے اُن کے کس بل نکال دیں، پھر بھی بچ جائیں تو اُنھیں بھاگنے نہ دیں، بلکہ قیدی بنائیں اور اِس طرح باندھ لیں کہ اِس کے بعد اگر وہ رہائی پائیں تو مسلمانوں کے احسان مند ہو کر یا اُنھیں فدیہ دے کر ہی رہائی پائیں۔
یہ تفسیر متاثر کرتی ہے۔ سورہ میں جن لوگو ں کا ذکر ہو رہا ہے، وہ رسول کے منکرین ہیں ا ور اتمام حجت کے بعد عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اُن کا اچھی طرح قلع قمع کرو، اُنھیں بھاگنے نہ دو، بلکہ مضبوط باندھو اور مرہون احسان بنائے بغیر یا فدیہ لیے بغیر رہا نہ کر و تو بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کلام ہر لحاظ سے سورہ کے مطالب کے ساتھ ہم آہنگ ہو گیا ہے۔ لیکن تدبر کا فیصلہ یہ نہیں ہے۔ اُس کی نگاہ سے دیکھا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ آیت کے الفاظ اِس تفسیر کو قبول نہیں کرتے۔ یہی بات کہنا مقصود ہوتی تو الفاظ غالباً یہ ہوتے کہ’فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب، ثم اذا اثخنتموہم فشد الوثاق‘،مگرالفاظ یہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ہیں کہ’حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ‘۔ ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں فعل مصدر منصوب کی صورت میں ہے اور ’شُدُّوا الْوَثَاقَ‘ میں سادہ امر کی صورت میں جو قرینہ موجود ہو تو ترغیب، تلقین، وجوب، دعوت، یہاں تک کہ محض جواز اور اباحت کے لیے بھی آ جاتا ہے۔ پھر ’ثُمَّ‘ کے بجاے ’حَتّٰی‘ ہے جو غایت امر پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تبدیلی اِسی لیے ہے کہ متکلم کے پیش نظر یہاں وہ مضمون نہیں ہے جو ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں ہے۔ لہٰذا گردنیں مارنے کے بعد یہ قید ی پکڑنے کی تلقین نہیں ہے، جس طرح کہ استاذ امام نے سمجھا ہے، بلکہ اُسی حکم کی تکمیل اور اُس سے متعلق ایک تنبیہ ہے جو ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں دیا گیا ہے۔ قیدی اُس زمانے میں من جملہ غنائم تھے۔ اُنھیں پکڑنے کے لیے اہل عرب کی فطری رغبت کے پیش نظر فرمایا ہے کہ یہ کام اُس وقت ہونا چاہیے، جب اِن منکرین حق کو بالکل کچل دیا جائے۔ چنانچہ مدعا یہ نہیں ہے کہ پہلا کام گردنیں مارنا اور دوسرا قیدی بنانا ہے جس میں رورعایت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ یہ ہے کہ جنگ کی نوبت آ جائے تو کرنے کا ایک ہی کام ہے اور وہ ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ ہے، اُس کا حق ادا ہونا چاہیے۔ وہ جب آخری درجے میں ادا ہو جائے، تب قیدی پکڑے جا سکتے ہیں۔ صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے اِسی بنا پر آیت کا ترجمہ اِس طرح کیا ہے:

’’پس جب اِن کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم اِن کو اچھی طرح کچل دو، تب قیدیوں کو مضبوط باندھو۔‘‘(۵/ ۱۱)

اب آگے دیکھیے، فرمایا ہے: ’فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُ، وَ اِمَّا فَدَآءً‘۔ یہ دوسرا حکم ہے۔ چنانچہ اسلوب پھر وہی ہو گیا ہے جو ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں ہے۔ اُس کے لیے شرط کا فقرہ ’فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ ہے اور اِس کے لیے’فاذا شددتم الوثاق‘، جسے اِس لیے حذف کر دیا ہے کہ ’شُدُّوا الْوَثَاقَ‘ کے الفاظ اُس پر دلالت کر رہے ہیں۔پہلا حکم اُس صورت سے متعلق ہے، جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو اور دوسرا اُس صورت سے، جب اِس طرح کے کسی موقع پر قیدی پکڑے جائیں۔اِس کی ضرورت اِس وجہ سے پیش آئی ہے کہ ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں جو ترغیب و تحریض ہے، اُس کی بنا پر لوگ قیدیوں کو قتل بھی کر سکتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اُس کے بعد دو ہی صورتیں ہیں: فدیہ لینا ہے یا احسان کرناہے۔
’مَنًّا‘ کے لفظ سے بھی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اِس جملے میں کسی زائد معنی کے لیے نہیں آیا، بلکہ محض بلامعاوضہ رہا کر دینے کے مفہوم پر دلالت کے لیے آیا ہے۔ معاوضہ لینے کا حق ہو اور نہ لیا جائے تو اِسے احسان ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ ’تحریر‘ ، ’تسریح‘ اور ’اطلاق‘ کے الفاظ اِس کی جگہ نہیں آسکتے تھے۔ یہ اگر لائے جاتے تو ’مجانا‘ یا ’دون عوض‘ یا ’من غیر شء‘ یا اِسی مفہوم کے کسی لفظ کا اضافہ ضروری تھا۔ قرآن کے ادا شناس جانتے ہیں کہ یہ اُس کا اسلوب نہیں ہے۔ فدیے کے مقابل میں یہ موزوں ترین لفظ ہے جو بلامعاوضہ چھوڑ دینے کے مفہوم پر دلالت کر سکتا تھا، اِس لیے کہ بلامعاوضہ رہائی جنگی قیدیوں کا حق نہیں ہے کہ اُسے احسان سے تعبیر کیا جائے تو اُس میں کوئی زائد معنی ماننا ضروری ہو جائے۔ وہ بجاے خود احسان ہے۔
پھر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ’مَنًّا‘ اور ’فِدَآءً‘، دونوں اپنے ہی فعل کے مصدر ہیں جو ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ کی طرح فعل کی جگہ پر آ گئے ہیں۔ یہ ’اطلق‘ یا اِس کے ہم معنی کسی فعل سے حال یا مفعول لہ واقع نہیں ہوئے اور نہ جملہ ’ثم لایکون اطلاقہم الّا‘ کے انداز کا ہے کہ اُس کی ترجمانی اِن الفاظ میں کی جا سکے کہ ’’اُس کے بعد اگر یہ تمھارے ہاتھ سے چھوٹیں تو صرف دو ہی شکلوں سے چھوٹیں: یا تو تمھارے احسان کا قلادہ اپنی گردن میں لے کر یا فدیہ دے کر‘‘۔ اِن کی تالیف یہ ہے:’فاما تمنون منًا، و اما تفدون فداء‘۔اہل علم جانتے ہیں کہ اِس جملے کے معنی یہ نہیں ہو سکتے کہ تم اُن پر احسان دھر کر اُنھیں رہا کرو گے، بلکہ یہی ہوں گے کہ اُن پر احسان کرو گے اور اُنھیں رہا کر دو گے۔ زمخشری نے اِسی مفہوم کو ’ان یمنوا علیہم فیطلقوہم‘ کے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ ’’الکشاف‘‘ میں ہے:

و المعنی: التخییر بعد الاسر بین ان یمنوا علیہم فیطلقوہم، و بین ان یفادوہم.(۴/ ۳۲۰) ’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ قیدی بنا لینے کے بعد دو ہی صورتیں ہیں: یا اُن پر احسان کیا جائے گا اور رہا کر دیا جائے گا یا رہائی کے عوض میں اُن سے فدیہ لیا جائے گا۔‘‘

آیت کا یہ تجزیہ پیش نظر رہے تو ترجمہ اِس طرح ہوگا:

’’پس جب اِن منکرین سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو گردنیں مارنی ہیں، یہاں تک کہ اِنھیں جب اچھی طرح تہ تیغ کر لو، تب قیدی بنا کر باندھو۔ پھر جب باندھ لو تو احسان کرناہے یا فدیہ لینا ہے۔ (تمھارا یہی معاملہ اِن کے ساتھ رہنا چاہیے) تا آنکہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘

یعنی مڈبھیڑ ہو تو اصل تقاضا گردنیں مارنے کا ہے۔ تمھارا پروردگار یہی چاہتا ہے کہ مقابلے پرآئیں تو زیادہ سے زیاد ہ تہ تیغ کیے جائیں۔ قیدی بنانے کا اقدام اُس وقت ہونا چاہیے، جب تہ تیغ کرنے کا حق ادا ہو چکا ہو، لیکن بنالو گے تو قتل نہیں کر سکتے۔اُس کے بعد قانون یہ ہے کہ فدیہ لیا جائے گا یا بلامعاوضہ رہا کیا جائے گا۔ اِن کے اندر جنگ کا حوصلہ جب تک ختم نہیں ہو جاتا، تمھارے لیے یہی حکم ہے۔ چنانچہ آگے فرمایا ہے: ’ذٰلِکَ‘، تمھیں یہی کرنا ہے۔
اِس روشنی میں دیکھیے تو سارا زور’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ پر ہے۔ اِس کے علاوہ جو کچھ کہا گیا ہے، اِس کی تاکید مزید اور قیدی بنانے کے لیے لوگوں کی مبادرت کو روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ ’اِمَّا مَنًّا بَعْدُ، وَ اِمَّا فَدَآءً‘ کا حکم بھی اِسی مضمون سے متعلق ایک بر سرموقع تنبیہ کے لیے آیا ہے۔ تاہم قرآن کی بلاغت یہ ہے کہ کلام کے اصل رخ کو متاثر کیے بغیر اُس نے اپنا وہ قانون بھی بیان کر دیا ہے جو اسیران جنگ کے معاملے میں ملحوظ رہنا چاہیے۔ اِس کی مثالیں قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی ہیں، جہاں اِسی طریقے سے موقع پیدا ہوا ہے تو شریعت کے احکام بھی بیان ہو گئے ہیں۔
قرآن کا یہ حکم عام ہے، اِس لیے کہ قیدی بنا لینے کے بعد جب رسول کے منکرین سے احسان یا فدیے کے سوا کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا تو دوسروں سے بدرجۂ اولیٰ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اِس کے معنی کیا یہ ہیں کہ اِس حکم میں کوئی استثنا نہیں ہو سکتا؟ علم و عقل کے مسلمات جن مستثنیات کا تقاضا کرتے ہیں، وہ ہر قانون، ہر قاعدے او رہر حکم میں اُس کی ابتدا ہی سے مضمر ہوتے ہیں۔ زبان و بیان کے اسالیب سے واقف کوئی شخص اُن کا انکار نہیں کر سکتا۔ زمانۂ رسالت میں اللہ و رسول کے ایسے معاندین بھی تھے جو دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔پھر جنگی قیدیوں میں سنگین جرائم کے مرتکبین بھی ہوتے تھے۔ یہ سب یقیناًمستثنیٰ ہوں گے۔ لہٰذا اِس طرح کے مجرموں کا جرم متعین ہو جائے اور اُس کی پاداش میں اُن کو قتل کیا جائے یا اُس زمانے کی روایت کے مطابق غلام بناکر فروخت کر دیا جائے، اِس سے قیدیوں کے بارے میں اِس عام قانون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
رہی یہ بات کہ روایات کیا کہتی ہیں، تو اُن کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تنہا سیدہ جویریہ کا واقعہ کافی ہے۔وہ کوئی عام خاتون نہیں ہیں۔اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔اُن کا واقعہ اِس لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کی رہائی کے طفیل کم و بیش سو خاندانوں کے قیدی رہا ہوئے۔ لیکن روایتوں کا حال کیا ہے؟ ملاحظہ فرمائیے:

ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اُنھیں لونڈی بنا کر ثابت بن قیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ثابت رضی اللہ عنہ سے اُنھوں نے درخواست کی کہ مکاتبت کر لیں۔ وہ راضی ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے اُن کی مدد کی جائے۔ حضور نے فرمایا: اگر اِس سے بہتر معاملہ کیا جائے تو قبول کروگی؟ اُنھوں نے پوچھا: وہ کیا ہو سکتا ہے؟ فرمایا: میں تمھاری طرف سے مکاتبت کی رقم ادا کر کے تم سے نکاح کر لیتا ہوں۔
دوسری یہ بتاتی ہے کہ اِس سے پہلے ہی اُن کے والد پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی۔ میری شان اِس سے بالاتر ہے۔ آپ اُسے رہا کر دیں۔آپ نے فرمایا: کیا یہ بہتر نہیں کہ خود بیٹی سے پوچھ لیا جائے؟ والد نے پوچھا تو اُنھوں نے کہا: میں حضور کی خدمت میں رہنا پسند کروں گی۔
تیسری یہ بتاتی ہے کہ اِن میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی۔ وہ قیدی تھیں، اُن کے والد آئے، زر فدیہ ادا کیااور اُنھیںآزاد کرا لیا۔ اِس کے بعد اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں دے دیا۔
یہی معاملہ اُن کے ساتھ دوسرے قیدیوں کی رہائی کا ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتے دار ہو جانے کی وجہ سے رہاکیا اور دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضور ہی کے پاس تھے۔ آپ نے اُنھیں سیدہ کا مہر قرار دے کر آزاد کر دیا*۔
یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ اِس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے سمجھنے میں اِن روایتوں پر کہاں تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے دقت نظر کے ساتھ اِن کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ راویوں کا فہم، اُن کاذہنی اور سماجی پس منظر اور اُن کے دانستہ یا نادانستہ تصرفات بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ دین کے طالب علموں کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ روایتوں سے قرآن کو سمجھنے کے بجاے اُنھیں خود روایتوں کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

* الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/۱۱۶۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2011
مصنف : جاوید احمد غامدی