جعلی پیر - خورشید احمد ندیم

جعلی پیر

 خبر تو آپ نے پڑھ لی ہو گی۔یہ جعلی پیر غارت گر ایمان تو تھے ہی، اب جان کے بھی درپے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب بروئے کار آئے لیکن حسبِ روایت حادثے کے بعد۔میں ہر بار سوچتا ہوں:اگر یہ گڈ گورننس واقعے سے پہلے اپنے جوہر دکھا سکے تو؟

جعلی ڈاکٹر، جعلی سیاست دان، جعلی دانش ور،جعلی مبلغ،جعلی مجاہد،جعلی صوفی،جعلی پیر... کیا اس قوم کے مقدر میں کوئی شے اصلی بھی ہے؟پھر اس قوم کے حو صلے کی داد دیجیے۔اسے ایک سوراخ سے بار بارڈسا جا تا ہے اور پھر اسی میں ہاتھ دیتی ہے۔کیا اس عذاب سے نجات کی کوئی صورت نہیں؟کیا یہ اسی طرح مسلط رہے گا؟ کیا یہ مقدر کا لکھا ہے جو ٹل نہیں سکتا؟آثار یہی ہیں کہ مستقبل قریب میں تو نجات کی کوئی صورت نہیں۔اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ رائے ساز خود ابھی اس عذاب کی گرفت میں ہیں۔میڈیا صبح سے شام تک، ان سے 'استفاضے‘ کی مجالس آباد رکھتا ہے۔ٹیلی فون پر سوال کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ساتھ ہی جعلی پیروں کی کہانیاں بھی چل رہی ہیں۔ابہام در ابہام۔

استخارہ کیا ہے؟سادہ الفاظ میں دعا۔آدمی کے لیے بعض اوقات انتخاب مشکل ہو جا تا ہے۔اسے دوتین راستوں میں سے کسی ایک پر قدم رکھنا ہے اور وہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔اس عالم میں وہ اپنے پروردگار کو مدد کے لیے پکارتا اور یک سوئی کا طالب ہو تا ہے۔یہی استخارہ ہے۔یہ بندے اور رب کا معاملہ ہے۔اس میں تیسرا کہاں سے آ گیا؟یہ'تیسرا‘مگر ہر روزٹیلی وژن کی سکرین پر نمودار ہو تا اور میرے لیے استخارہ کر تا ہے۔وہ بتا تا ہے کہ مجھے کس سمت میں جا نا ہے۔ہم نے اس معاملے میں شاید اہلِ مغرب کی کہانی نہیں سنی۔'کلیسا‘ جب بندے اور خدا کے درمیان حائل ہواتوانسانی فطرت چیخ اٹھی۔ایک ردِ عمل ہوا اور ہر ردِعمل کی طرح توازن سے محروم رہا۔کلیسا کو نکالتے نکالتے لوگ اپنے رب سے بے نیاز ہو گئے۔استخارے کی مجالس تو ایک مثال ہے۔میں اکثر واویلا کرتا ہوں کہ ریاست سے سماج تک،مذہب کا سوء استعمال ہمیں بھی اسی جانب لے جا رہا ہے۔ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب اہلِ مذہب کے خلاف ردِ عمل کے نام پر یہاں بھی معبدوں کے دروازے بند ہو جائیں۔

خانقاہ ہمارا تہذیبی ادارہ ہے۔پیر سے تعلقِ خاطرہماری روایت ہے۔لوگ آسودگی ٔ دل و دماغ کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اس کی بے نیازی اور ' مریض‘ سے محبت اس کے لیے دلوں کے دروازے کھول دیتی ہے۔ وہ محبت و عقیدت کا مرکز بن جا تا ہے۔اس کے ساتھ تعلق‘ خدا کے ساتھ تعلق کی بنیاد بن جا تا ہے۔استاد کا ادارہ بھی ہماری روایت میں یہی کام کرتا تھا۔ تعلیم اور تربیت ہمارے ہاں کبھی الگ نہیں ہوئے۔استاد کے مفہوم میں حسنِ کردار شامل ہو تا تھا۔وہ مربی تھا۔اس کے ساتھ بھی تعلقِ خاطر ہوتا تھا۔اس کی وجہ بھی طالب علم کے ساتھ استاد کا لگاؤ اور اس کی بے غرضی ہوتی تھی۔یہ پیر اور استاد خیر کی علامت تھے۔اس وقت میں تصوف کی بات نہیں کر رہا۔تصوف ایک فلسفہ ہے اور اس وقت زیرِ بحث نہیں۔میں پیر کی بات کر رہا ہوں جس کی تمام تر دلچسپی اپنے مرید کے تزکیے سے ہو تی تھی۔وہ اس کے تاریک من میں جھانکتا اور وہاں دیے جلا دیتا تھا۔روحانیت اسی کا نام تھا۔ تزکیۂ نفس۔

آج کیا ہے ؟عامل ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔پھرمیڈیا کی برکت سے اس میں نئے نئے عنوان بھی آگئے ہیں۔پیروں کی ایک نئی قسم ہے جو لوگوں کو بتاتی ہے کہ کس سے نکاح کریںاور کون سا کاروبار کریں۔یہاں پھر وہی حیرت ہے کہ یہ فیصلہ مجھے اپنی عقل اور معلومات کی بنیاد پر کر نا ہے۔کوئی تیسرا آ دمی کیسے مشورہ دے سکتا ہے جو مجھے جا نتا ہے نہ اسے جس سے گریز کا مشورہ دے رہا ہے۔کیا میں اپنے مشاہدے اور تجربے کو جھٹلا کر،محض اس کی 'روحانیت ‘ پر اعتبار کر لوں؟مجھے اللہ نے اس کا حکم دیا ہے نہ اللہ کے رسولﷺنے اس کی ہدایت فرمائی ہے۔یہ وحی کا تقاضا ہے نہ عقل کا۔کسی تیسرے ماخذِ علم سے کم از کم میں تو واقف نہیں۔روحانیت کا مفہوم اپنی عقل کو گروی رکھنا نہیں ہے۔تاریخ میں کبھی ایسا نہیں رہا۔قرآن مجید کی نزدیک اندھی تقلیدکا مطلب، بالخصوص معلوم حقائق کے خلاف، علما اور پیروں کو رب ماننا ہے۔قرآن مجید نے دو ٹوک لہجے میں بتا دیا کہ قیامت کے دن ہرآ دمی اپنے اعمال کا خودذمہ دار ہو گا۔اس کا یہ موقف وہاں مسترد کر دیا جا ئے گا کہ میں نے فلاں کے کہنے پر یہ عقیدہ اختیار کیا۔وہاں تو وہ سب بھی دست بردار ہو جا ئیں گے، آج ہم جن کی تقلید کا دم بھرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جو رویہ دین کے باب میں قبول نہیں، وہ دنیا کے معاملے میں کیسے قبول ہو سکتا ہے۔اگر کوئی ازدواجی رشتہ خدا نخواستہ اس وجہ سے ناکام ہو جائے کہ فلاں پیر صاحب نے نام سن کر بتا یا تھا کہ یہ رشتہ سازگار ہو گا تو اس کا نتیجہ فرد کو خود بھگتنا ہے۔

جسم اور روح کے جعلی معالج آج اس سماج کا ایک بڑ ا مسئلہ ہے۔ شاید سب سے بڑے مسائل میں سے ایک۔ آج گلی بازار میں جعلی پیر براجمان ہیں۔اخبارات میں ان کی مدح میں کالم شائع ہوتے ہیں۔ٹی وی پر مسلسل پروگرام دکھائے جا تے ہیں۔ان کی خر مستیاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔عزت اور مال ،کچھ باقی نہیں رہتا۔ ا ب تو جان بھی نہیں۔تین معصوم بچوں کو ایک پیر کے کہنے پر مار ڈالا گیا۔ہر روز ایسے واقعات ہوتے ہیں اور سماج میں کوئی بیداری پیدا نہیں ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ جعلی پیر ہو یا مجاہد،معاشرے میں ان کے وکلا بڑی تعداد میں پیدا ہو گئے ہیں۔ کوئی کسی مفاد کے سبب ،کوئی اپنی سادگی کے باعث۔ سیاست سے روحانیت تک، انسانوں کے سودے ہورہے ہیں اور 

عوام بنام ِخداجنسِ بازار ہیں۔یہ دراصل جذبات اور نفسیات کا کاروبار ہے۔لوگ آسودگی تلاش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اخلاق وکردار کو تبدیل کیے بغیر سکونِ قلب کا کوئی نسخہ ہاتھ آ جائے۔اللہ کاذکرچند کلمات دُہرا دینے کا نام رہ گیا ہے۔میں اپنی اخلاقی ساخت کو تبدیل کیے بغیر یہ چاہتا ہوں کہ آسودہ ہو جاؤں۔ آج کا جعلی پیر میری اس کمزوری سے واقف ہے۔وہ اس کا استحصال کرتا ہے۔ جو جتنا اچھا ماہرِ نفسیات ہے، اس کا کاروبار اتنا کامیاب ہے۔جعلی پیر بھی اب کئی طرح کے ہیں۔انگریزی بولنے والوں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق اوراردو خواں طبقے کے لیے اردو میڈیم۔پڑھے لکھوں کے لیے ان کی زبان میں گفتگو کرنے والے اوران پڑھوں کے لیے ان کی عقل کے مطابق مخاطب ہونے والے۔ 

ان سے نجات قانون سے زیادہ شعوری تبدیلی کی متقاضی ہے۔قانون بلا شبہ اہم ہے ا ور غارت گرانِ ایمان و جاں کے خلاف قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔تاہم اس سے زیادہ ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو۔وہ اصلی اور جعلی میں فرق کر سکیں۔ان کو معلوم ہو کہ دین تو صرف قرآن و سنت سے ملے گا۔پیر کا کام استخارہ کر نا یا یہ طے کر نا نہیں کہ میرا رشتہ کس سے ہونا چاہیے۔اس کا کام میرے نفس کا تزکیہ ہے۔میرے نزدیک یہی اس کے کھرا یا کھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔اگر اس سے مل کر خدا یاد نہ آئے تو جان لیں کہ آپ کسی جعلی پیر کے روبرو کھڑے ہیں۔اور پھر سب سے بڑی دلیل تو یہ کہ دین کے باب میں کلام کرتے ہوئے حوالہ کیاہے؟ قرآن وسنت یا پھر کشف و کرامات کی داستانیں؟ 

 

بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 16 اپریل 2014
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : May 18, 2016
3396 View