دعوتی کام: تین پہلو

دعوتی کام: تین پہلو

 ہمارے معاشرے میں اصلاح ودعوت کا کام کرنے والے لوگ بالعموم مردوں ہی کو اور مردوں کے بھی صرف ذہنوں کو پیش نظر رکھ کر اپنا لائحۂ عمل ترتیب دیتے ہیں۔ وہ پورے انسان اور پورے معاشرے پر کام نہیں کر رہے۔ اس میں ہو سکتا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے انھوں نے اپنا کام محدود رکھا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی اس مسئلے کی طرف توجہ نہ ہوئی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے مصلحین اپنے کاموں میں حسب ذیل تین پہلووں کو بھی پیش نظر رکھیں تو امید ہے کہ ان کے اثرات و ثمرات پورے انسان اور پورے معاشرے میں پھیلنا شروع ہو جائیں گے۔
۱۔ ایک اچھا مصلح حال میں مستقبل دیکھتا ہے، اسی لیے وہ بچوں کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ہی کل ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ کہیں بچوں کے ساتھ آمنا سامنا ہو جاتا تو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ بچوں سے اس قدر محبت فرماتے کہ اگر کوئی بچہ نماز میں سجدے کی حالت میں آپ کی کمر پر سوار ہو جاتا تو آپ اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک وہ بچہ خود نہ ہٹ جاتا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو عمدہ اور بہترین ادب سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دیا۔
بچوں پر تعلیم وتربیت کا کام کرنا اس پہلو سے بڑا آسان ہوتا ہے کہ انھیں تعلیم حاصل کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کے اندر تعصبات، مفادات اور انا کے مسائل نہیں ہوتے۔ ان کی فطرت ابھی مسخ نہیں ہوئی ہوتی۔ ان کے ذہن پر کسی فرقے یا مسلک کی چھاپ نہیں ہوتی۔ ان کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر جو کچھ لکھنے کی کوشش کی جائے، وہ جلد اور آسانی کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور اس ’’تحریر‘‘ کا عرصۂ حیات بھی بہت طویل ہوتا ہے۔ ان کے اوپر بڑی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں، اس لیے ان کے پاس وقت بھی بہت ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ان پر کم وقت صرف کر کے نسبۃً زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
۲۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ خواتین کو نظر انداز کر کے معاشرے میں اصلاح وتغیر کا کام نتیجہ خیز نہیں بنایا جا سکتا۔ عورتوں کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ذہین اور دانا خاتون سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم پا کر عورتوں کی تعلیم وتربیت کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ انھیں ایام میں بھی مسجد میں آنے کی ہدایت فرماتے تھے۔ مسجد میں ان کے پاس جا کر خصوصی وعظ فرمایا کرتے تھے۔
مگر ہمارے ہاں اس حقیقت کا احساس نہ مردوں کو ہے اور نہ خود عورتوں کو۔ اس بات کو پورے شعور کے ساتھ مان لینا چاہیے کہ قوم عورتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ نسلوں کی ذہنی اور اخلاقی افزایش انھوں نے کرنی ہے۔ بچے ان کی نگرانی میں رہتے ہیں۔ بچوں کو ہمیشہ ماؤں سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ وہ ان کی شخصیت پر زیادہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت اور مواقع رکھتی ہیں۔ چنانچہ ماں بے شعور ہوگی تو بچے بھی بے شعور ہوں گے۔ ماں دیدۂ بینا کی حامل ہوگی تو بچے کے اندر بھی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی۔ یہ عورتیں ہی ہیں جنھوں نے آیندہ نسلوں کو راہ دکھانی ہے، یہ عورتیں ہی ہیں جن کے پاس امراض معاشرت کی دوا ہے۔

مقام سے ہو اگر اپنے بہرہ ور عورت
معاشرے کو بھی لے آئے راہ پر عورت

اس معاملے میں مردوں کا بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ عورتوں کو غیر معقول رواجوں اور قاعدوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد کریں، جوان کی ذہنی، علمی اور اخلاقی ترقی کی راہ میں سنگ گراں بن چکی ہیں۔
۳۔ ہر انسان کی شخصیت کے بناؤ اور بگاڑ میں اس کا ماحول غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی ہمیں اپنی اصلاح کے لیے صادق الایمان افراد کی صحبت اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ ایک مسلمہ ہے کہ کتاب، لٹریچر، لیکچر، ورکشاپ اور معلم سے انسان کو تعلیم ملتی ہے، اللہ کی کتابیں بھی اسی لیے نازل ہوئیں کہ انسان حق وباطل میں امتیاز کر سکے، مگر انسان کی تربیت ماحول کرتا ہے۔
آج بگڑے ہوئے ماحول میں دین کی کوئی بات کسی کے ذہن میں پہنچتی بھی ہے تو ماحول کی کشش اسے اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ اس کے ایک کان میں اللہ اکبر کی آواز پڑتی ہے تو دوسرے کان میں کیبل کے کسی چینل کی پکار پہنچ جاتی ہے اوراکثر وبیشتر یہ پکار زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔ دین کے کسی موضوع پر کوئی کتاب پڑھنے اور دینی ماحول میں وقت گزارنے میں وہی فرق ہے جو ریڈیو پر ہاکی میچ کی کمنٹری سننے اور اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے میں ہے۔ اس قسم کی تربیت میں مخاطب کو براہ راست دعوت دی جاتی ہے۔ اس سے دعوت بہت موثر ہو جاتی ہے۔ اس میں داعی مخاطب کی ذہنی سطح، الجھن اور موڈ دیکھ کر اپنی بات بدل سکتا ہے۔ ایک اسلوب یا مثال سے بات واضح نہ ہو تو دوسرا اسلوب اختیار کر سکتا ہے یا کوئی اور مثال دے سکتا ہے۔ پھر اس سے مخاطب سے ایک ذاتی نوعیت کاتعلق بھی قائم ہو جاتا ہے جس کے اپنے اثرات وثمرات ہیں۔ لٹریچر کو پڑھ کر لوگ اپنی سمجھ کے مطابق مطلب نکال لیتے ہیں جو غلط بھی ہو سکتا ہے، مگر ذاتی ملاقات میں اس کی غلط فہمی اسی وقت سامنے آجاتی ہے اور اسے اسی وقت رفع کیا جا سکتا ہے۔ اپنے ماحول میں انسان اپنے مسائل میں اس طرح جکڑا ہوا ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی دوسری بات سننے کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے، جب وہ اپنے ماحول کے خول سے باہر آتا ہے تو پھر دوسرے مسائل کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ تربیت گاہ کا مقصد یہ ہوتاہے کہ انسان پوری دینی فضا میں کچھ وقت گزارے گا تودین اس کے اندر استحکام حاصل کرلے گا۔ اورجب وہ اپنے ماحول میں واپس آئے گا تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اب غیر دینی ماحول میں صحیح زندگی گزارے گا۔
جن مصلحین نے بھی انسانوں کی اصلاح کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا، وہ بتاتے ہیں کہ جب لوگوں کوان کے ماحول سے نکال کردینی فضا میں رکھا گیا اور وہاں ان کے اوپر تعلیم وتربیت کا کام کیا گیا تو وہ بہت موثر ثابت ہوا۔ بے نمازی، زکوٰۃ نہ دینے والے، لڑائی جھگڑا کرنے والے، اور بدکاریوں میں لت پت نکلے اور واپسی پروہ اس قدر تبدیل ہوچکے تھے کہ لوگ حیران ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بعض لوگ شراب کی بوتلیں ساتھ لے کر نکلے کیونکہ انھیں اصرار تھا کہ ہم شراب کو چھوڑ نہیں سکتے، مگر دینی ماحول میں شب وروز گزارنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھ سے انھوں نے شراب کی بوتلیں توڑ ڈالیں اور تائب ہو کر مسلمان کی سی زندگی گزارنے لگے۔
المورد نے اپنے دعوتی کاموں میں ان تینوں باتوں کو بھی اختیار کر لیا ہے۔ ابھی اس ضمن میں کام کا آغاز ہے۔ فی الحال وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ کام بھرپور طریقے سے نہیں کیے جا سکتے۔ مگر ان کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے کام کی ابتدا کردی ہے۔ جو لوگ ان کاموں میں کسی بھی حوالے سے شریک ہونا چاہیں، وہ راقم کے ساتھ رابطہ کرلیں۔ بچوں کے لیے نعیم احمد بلوچ صاحب اور خواتین کے لیے کوکب شہزاد صاحبہ کام کریں گی۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2003
Uploaded on : Jan 26, 2017
2745 View