موت کی جگہ - طالب محسن

موت کی جگہ

 (مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث :۱۱۰) 

عن مطر بن عسکام قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إذا قضی لعبد أن یموت بأرض جعل لہ ألیہ حاجۃ.
ٌٌ’’حضرت مطر بن عسکام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے طے کر دیتے ہیں کہ وہ کسی علاقے میں وفات پائے تو اس کے لیے وہاں ایک ضرورت پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘

لغوی مباحث

قضی : یہ فعل فیصلہ کرنے، طے کرنے اورپورا کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ یہاں یہ پہلے معنی میں آیا ہے۔
بأرض : ’أرض‘ کا لفظ پورے کرۂ ارض، کسی خطۂ ارض اور رقبے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں اس سے دوسرے معنی مراد ہیں۔
حاجۃ: اس کے لغوی معنی تو ضرورت کے ہیں، لیکن یہاں یہ اس سے وسیع مفہوم یعنی سبب کے معنی میں آیا ہے ۔

متون

یہ روایت متداول کتب حدیث میں سے صرف ترمذی اور مسند احمد میں روایت ہوئی ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت ترمذی سے لی ہے۔ مسند احمد کے متون کے الفاظ قدرے مختلف ہیں ، لیکن معنی و مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، مثلاً ایک متن میں ’ إذا قضی لعبد أن یموت بأرض‘ کے بجائے ’إذا قضی اﷲ میتۃ عبد بأرض‘ اور دوسرے متن میں ’لایقدر لأحد یموت بأرض إلا حببت إلیہ ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح ایک متن میں ’عبد ‘ کی جگہ ’رجل ‘کا لفظ نقل ہوا ہے۔

معنی

یہ روایت موت کے بارے میں تقدیر کے عمل دخل کو بیان کرتی ہے۔ ہم یہ بات اس باب کی روایات کی وضاحت میں بیان کر چکے ہیں کہ موت ان امور میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کر دیا گیا ہے۔ اس روایت میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ موت کی جگہ بھی تقدیر میں طے ہوتی ہے۔ اگر آدمی موت سے پہلے مقام مطلوب سے دور بھی ہو تو اسے مختلف اسباب پیدا کرکے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ’ وما تدری نفس بأی أرض تموت‘ کے الفاظ میں موت کے مقام کو اس غیب میں شمار کیا گیا ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موت اور موت کی جگہ اصلاً انسان کے دائرۂ تدبیر کے امور نہیں ہیں۔یہی بات اس روایت میں بھی بیان ہوئی ہے۔

کتابیات
ترمذی ،رقم۲۰۷۲۔مسند احمد، رقم ۲۰۹۸۰، ۲۹۸۱۔ المعجم الکبیر، رقم ۸۰۷۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2003
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Mar 16, 2017
2700 View