ہمارا دین - طالب محسن

ہمارا دین

عن طلحۃ بن عبید اﷲ یقول جاء رجل إلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من أہل نجد، ثائر الرأس، نسمع دوی صوتہ ولا نفقہ ما یقول حتی دنا من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فإذا ہو یسأل عن الإسلام. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: خمس صلوات فی الیوم واللیلۃ. فقال: ہل علی غیرہن؟ قال: لا إلا أن تطوع. وصیام شہر رمضان. فقال ہل علی غیرہ؟ فقال: لا إلا أن تطوع وذکر لہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الزکوٰۃ. فقال: ہل علی غیرہا؟ قال: لا إلا أن تطوع. قال: فأدبر الرجل وہو یقول: واللّٰہ، لا أزید علی ہذا ولا أنقص منہ. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أفلح إن صدق.

’’حضرت طلحہ بن عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ اہل نجد۱ میں سے ایک شخص۲ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس کے بال پراگندہ۳ تھے۔ ہم اس کی دھیمی دھیمی۴ آواز سن رہے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے۔اسی اثنا میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔چنانچہ (اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے) آپ نے فرمایا:دن اور رات میں پانچ نمازیں۔ ۵ اس پر اس نے پوچھا:ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، الاّ یہ کہ تو خدا کی رضا کے لیے خود سے پڑھے۔ ۶ (مزید) فرمایا: ماہ رمضان کے روزے۔ اس نے سوال کیا: ان کے علاوہ بھی کوئی روزے میرے اوپر فرض ہیں؟ آپ نے جواب دیا: نہیں، مگر یہ کہ تو اپنے رب کی خوشنودی کے لیے رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے۔ (اور اسی طرح) آپ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا۔(اس پر بھی) اس نے وضاحت چاہی: کیا اس کے علاوہ بھی کوئی انفاق مجھ پرلازم ہے؟ آپ نے کہا: نہیں، الاّ یہ کہ تو خدا کی رضا کے لیے مزید خرچ کرے۔ (طلحہ) کہتے ہیں: (یہ سن کر) وہ شخص یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا: بخدا، نہ میں اس پر اضافہ کروں گا نہ میں اس میں کمی کروں گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یہ فلاح پاگیا۷۔ ‘‘

معنی

اس روایت کو حل کرنے میں ایک مشکل تو یہ ہے کہ اس میں ایمانیات اور ارکان میں سے حج کا ذکر نہیں ہے۔اس روایت کے دوسرے متون سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے براہ راست نماز، روزے اور زکوٰۃ ہی کے بارے میں پوچھا تھا ۔ اس صورت میں راوی کا بیان کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا خود راوی کا اپنا قیاس محسوس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو پوچھا گیا تھا ، آپ نے اسی کا جواب دیا ہے۔
دوسری مشکل آخری جملے ’لا أزید علی ہذا ولا أنقص منہ‘ کے مفہوم کے تعین میں ہے۔ اس جملے کا ایک مطلب تو یہ لیا گیا ہے کہ میں کسی بدعت کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ دوسرے معنی یہ قرار دیے گئے ہیں کہ میں نفلی عبادت نہیں کروں گا۔ اس کی تائید میں بخاری کی ایک روایت کو پیش کیا جاتا ہے۔اس روایت میں یہی جملہ۸: ’لا أتطوع شیئا ولا أنقص مما فرض اﷲ علی شیئا‘ کے الفاظ میں روایت ہوا ہے۔ہمارے نزدیک یہ الفاظ راوی کا اپنا فہم ہیں۔ سائل کا منشا یہ نہیں ہے۔ تیسرے معنی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ میں اس بات کا ابلاغ کرتے ہوئے کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا۔یہ تینوں معنی لینے میں تکلف محسوس ہوتا ہے۔ بدعت کے ارتکاب کی نفی ان الفاظ کا ایک اطلاقی پہلو ضرور ہے ، لیکن متکلم کے الفاظ صرف اتنی بات کے لیے نہیں ہیں۔نفل نہ پڑھنے کی بات اپنے اندرایک منفی تاثر رکھتی ہے ۔ چنانچہ اگر سائل کا مدعا یہی تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنے شان دار الفاظ میں تعریف اس بات سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ہمارے نزدیک سائل نے ان الفاظ سے اپنے پوری طرح عمل کرنے کے ارادے کو تعبیر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف کی ہے۔
ہم یہ بات اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سوال پورے دین کے بارے میں نہیں تھا۔ روایت کے دروبست سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل دین کے احکام اور بنیادی تصورات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس کا سوال صرف یہ تھا کہ نماز، روزے اور زکوٰۃ کے معاملے میں دین کا اصل مطالبہ کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب سوال کے اسی رخ کو سامنے رکھ کر دیا ہے۔
اس روایت میں جن تین عبادات کا ذکر ہوا ہے، ان کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے۔ اس روایت کا خصوصی پہلو ’ تطوع‘ کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں حج اور روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے نفلی عبادت کو اسی لفظ سے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’فمن تطوع خیرا فإن اﷲ شاکر علیم‘ ۹ ۔ اس آیۂ کریمہ سے نفلی عبادات کے اجر اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔بطور خاص ’شاکر علیم‘ کے الفاظ اپنے اندر ایک دل آویز تسلی کا سامان رکھتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے جذبۂ عبادت سے کس طرح خوش ہوتے ہیں۔شاکر کا لفظ اللہ کی رضااور اجر کی فراوانی کے مفہوم پر متضمن ہے۔

متون

یہ روایت متعدد محدثین نے روایت کی ہے۔متن میں اختلافات دو طرح کے ہیں۔کچھ اختلافات محض لفظی ہیں۔ مثلاً ’نسمع‘ کی جگہ ’ یسمع ‘کا آنا یا ’ افلح ‘ کے بجائے ’ دخل الجنۃ ‘کے الفاظ کا ہونا روایت کے معنی میں کوئی جوہری فرق پیدا نہیں کرتے۔ لیکن دوسرا فرق کافی اہم ہے۔ مندرجہ بالا متن سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کے خیال میں سائل نے اسلام کے بارے میں سوال کیا تھااور جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکوٰۃ اور روزے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ بخاری، نسائی اور دارمی نے اس متن کے ساتھ ایک اور متن بھی روایت کیا ہے جس کے مطابق سائل نے براہ راست نماز ، روزے اور زکوٰۃ ہی کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس سے نوعیت واقعہ میں نمایاں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سوال اسلام کے بارے میں تھاتو جواب میں ایمانیات اور حج کا ذکر کیوں نہیں ہے۔بہرحال دونوں متون سامنے رکھیں تو یہ بات حتمی انداز میں کہنا مشکل ہے کہ اصل صورت واقعہ کیا ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات سے یہ پہلو قوی معلوم ہوتا ہے کہ سوال براہ راست نماز، روزے اور زکوٰۃ ہی کے بارے میں کیا گیا تھا۔ زیر بحث روایت کے راوی نے صرف یہ کیا ہے کہ اس مکالمے کوایک جامع عنوان دے دیا ہے۔

کتابیات

بخاری، رقم ۴۶، ۱۷۹۲، ۲۵۳۲، ۶۵۵۶۔ مسلم، رقم۱۱۔ نسائی، رقم۴۵۸، ۲۰۹۰، ۵۰۲۸۔ ابوداؤد، رقم۳۹۱۔ احمد، رقم ۱۳۹۰، ۱۳۸۴۲۔ بیہقی ، رقم ۱۵۷۲، ۲۰۵۷، ۲۴۳۵، ۴۲۳۷، ۷۶۹۲۔ مسنداحمد، رقم۱۳۹۰، ۱۳۸۴۲ ۔ موطا، رقم۴۲۳۔ بیہقی، رقم ۱۵۷۲، ۲۰۵۷، ۴۲۳۵، ۴۲۳۷، ۷۶۹۲۔ السنن الکبری، رقم۳۱۹، ۲۴۰۰، ۱۱۷۵۹۔ ابن حبان، رقم۱۷۲۴، ۳۲۶۲۔ ابن خزیمہ، رقم ۳۰۶۔

______

۱؂ ایک رائے یہ ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہیں جن کا تعلق بنی سعد بن بکر سے تھا۔
۲؂ یہ عرب کا ایک علاقہ ہے جو مکہ سے عراق کی جانب واقع ہے۔ لفظاً اس سے بلند جگہ مراد ہے۔
۳؂ اصل میں لفظ ’ ثائر ‘ہے۔ یہ ’ ثار یثور ‘ سے اسم فاعل ہے۔ اس سے مراد اڑنا اور بکھرناہے۔ یہاں یہ بالوں کے پراگندہ ہونے کے مفہوم کو ادا کر رہا ہے۔
۴؂ اصل میں لفظ ’ دوی ‘ ہے۔جس کے معنی بھنبھناہٹ ہیں۔ یہاں اس سے آواز کا انتہائی ناقابل فہم ہونا مراد ہے۔
۵؂ اصل میں ’ خمس صلوات ‘ہے۔ یہ مبتداے محذوف’ الاسلام ‘کی خبر ہے۔
۶؂ اصل میں لفظ’ تطوع‘ ہے۔یہ باب تفعل سے واحد حاضر کا صیغہ ہے۔ جس سے ضمیر کی ’ ت ‘حذف ہو گئی ہے۔ یعنی یہ اصل صورت میں ’تتطوع ‘ہے۔یہ لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’تطوع سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی فرض سے سبک دوش ہو جانے کے بعد خدا کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مزید اس کو ایک نفلی نیکی کی حیثیت سے انجام دے۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۳۸۷)

۷؂ اصل میں ’ لا أزید علی ہذا ولا أنقص منہ ‘ہے۔یہ متکلم کی طرف سے اس ارادے کا اظہار ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر بے کم و کاست عمل کرے گا۔
۸؂ بخاری ، رقم ۱۷۹۲ ۔ ’’میں نہ اپنی جانب سے بطور نفل کوئی عمل کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا جو اللہ نے مجھ پر فرض کیا ہے۔‘‘
۹؂ البقرہ۲: ۱۵۸۔ ’’جس نے اپنی جانب سے کوئی نیکی کا کام کیا تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

 

—- ۱۲—-

عن أنس بن مالک قال نہینا أن نسأل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عن شیء. فکان یعجبنا أن یجیء الرجل من أہل البادیۃ العاقل. فیسألہ ونحن نسمع. فجاء رجل من أہل البادیۃ. فقال: یا محمد، أتانا رسولک. فزعم لنا أنک تزعم أن اﷲ أرسلک. قال: صدق. قال: فمن خلق السماء؟ قال: اﷲ. قال: فمن خلق الأرض؟ قال: اﷲ. قال: فمن نصب ہذہ الجبال وجعل فیہا ما جعل؟ قال: اﷲ. قال: فبالذی خلق السماء وخلق الأرض ونصب ہذہ الجبال، آﷲ أرسلک؟ قال: نعم. وزعم رسولک أن علینا خمس صلوات فی یومنا و لیلتنا. قال: صدق. قال: وزعم رسولک أن علینا زکاۃ فی أموالنا. قال: صدق. قال: فبالذی أرسلک آﷲ أمرک بہذا؟ قال: نعم. قال: وزعم رسولک أن علینا صوم شہر رمضان فی سنتنا. قال: صدق. قال: فبالذی أرسلک آﷲ أمرک بہذا؟ قال: نعم. قال: وزعم رسولک أن علینا حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا. قال: صدق. قال: ثم ولی. قال: والذی بعثک بالحق، لا أزید علیہن ولا أنقص منہن. فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم : لئن صدق لیدخلن الجنۃ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی چیز کے بارے میں سوال سے روک دیا گیا تھا۔چنانچہ ہمیں یہ بہت اچھا لگتا تھاکہ اہل دیہہ میں سے کوئی سمجھ دار آدمی آئے اور آپ سے سوال کرے اور ہم سن رہے ہوں۔ (انھی دنوں میں)اہل دیہہ میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے محمد، ہمارے پاس آپ کانمائندہ ۱ آیا ہے اور اس نے ہمیں یہ بتایا ۲ ہے کہ آپ مدعی ہیں کہ اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ اس نے پوچھا: آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے پوچھا: زمین کس نے بنائی ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے پوچھا: یہ پہاڑ کس نے جمائے ہیں اور جو کچھ ان میں بنایا ہے ، وہ بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے ۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آسمان اور زمین بنائی اور یہ پہاڑ جمائے، کیا اللہ نے آپ کو رسول بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: اور آپ کے نمائندے نے بتایا ہے کہ ہم پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے، کیا یہ بات آپ کو اللہ نے کہی ہے؟ آپ نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: آپ کے نمائندے نے بتایا ہے کہ ہم پر ہمارے اموال میں زکوٰۃ بھی واجب ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے، کیا یہ بات آپ کو اللہ نے کہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: آپ کے نمائندے نے کہا ہے کہ ہمیں ہر سال ماہ رمضان کے روزے رکھنے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا ہے، کیا یہ بات آپ کو اللہ نے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔اس نے کہا: آپ کے نمائندے نے بتایا ہے کہ ہمیں، جس کے پاس وسائل ہوں، بیت اللہ کا حج بھی کرنا ہے۔ آپ نے کہا: اس نے سچ کہا ہے۔ پھر وہ واپس چل دیا اور اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں نہ ان پر اضافہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر یہ اپنی بات میں سچا نکلا تو لازماً جنت میں جائے گا۔‘‘

معنی

مفہوم و مدعا کے اعتبار سے یہ روایت اور سابقہ روایت ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔دین اختیار کرتے ہی ایک آدمی پر جو عبادتیں فرض ہو جاتی ہیں ، وہ یہی چار ہیں۔ان صاحب نے بھی سارے مکالمے کے بعد وہی جملہ بولا ہے جو پچھلی روایت کے سائل نے بولا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی تصویب یہاں بھی نقل ہوئی ہے جو پچھلی روایت میں مذکور ہے۔ غرض یہ کہ یہ روایت مضمون کے اعتبار سے پچھلی روایت ہی کی تکرار ہے۔ البتہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی کا ایک ورق ہمارے سامنے آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے مختلف قبائل میں اپنے نمائندے بھیجے تھے جو انھیں دین سے آگاہ کرنے کا کام کرتے تھے۔ یہ صاحب اپنے علاقے میں رسول اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندے سے سنی ہوئی باتوں کی تصویب ہی کے لیے مدینہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو کی۔ان صاحب کا انداز ذرا تیکھا ہے اور اس سے عرب کی بے تکلف طرز زندگی کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ مزید برآں اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک عام عرب دین کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے حقائق کو کس سادہ منطق پر قبول کرتا ہے۔سائل کے طرز گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار مدعا کی مناسب لیاقت رکھتا ہے۔ بطور خاص اس نے قسم دینے میں جو طریقہ اختیار کیا ہے اس میں حسن ترتیب اس کے حسن بیان کا پتا دیتی ہے۔
نووی رحمہ اللہ نے یا محمد سے خطاب کو اس سائل کے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب کے آداب سے بے خبری پر محمول کیا ہے۔استاذمکرم جناب غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد تھا اور محمد دادا کا دیا ہوا لقب تھا۔ عربوں میں بڑوں کو نام سے پکارنے میں بے ادبی سمجھی جاتی تھی اور ادب سے پکارنے کے طریقہ یہ تھا کہ لقب، مرتبے یا کنیت سے پکارا جائے ۔ اس اعتبار سے اس تخاطب میں کوئی حرج نہیں ہے۔

متون

پچھلی روایت کے سائل کے بارے میں ہم نے یہ لکھا تھا: ایک رائے یہ ہے کہ ضمام بن ثعلبہ ہیں اور ان کا تعلق بنو سعد بن بکر سے تھا۔ہماری یہ بات شارح مشکوٰۃ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے بیان سے ماخوذ تھی۔ ۳ زیر بحث روایت کی شرح میں یہی بات اس روایت کے سائل کے بارے میں شارح مسلم نووی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ساتھ ہی یہ تصریح بھی کی ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت سائل کے نام کے ساتھ نقل کی ہے۔ بخاری کی اس روایت کا متن مسلم کی اس روایت سے بالکل مختلف ہے۔ بخاری کی اس روایت کی تمہید ملاحظہ ہو:

أنس بن مالک یقول بینما نحن جلوس مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المسجد. دخل رجل علی جمل. فأناخہ فی المسجد. ثم عقلہ. ثم قال لھم : أیکم محمد، والنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم متکئ بین ظہرانیہم. فقلنا: ہذا الرجل الأبیض المتکئ. فقال لہ: الرجل بن عبد المطلب. فقال لہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:قد أجبتک. فقال الرجل للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنی سائلک فمشدد علیک فی المسألۃ. فلا تجد علی فی نفسک. فقال: سل عما بدا لک. فقال: أسألک بربک ورب من قبلک، آللّٰہ أرسلک إلی الناس کلہم. فقال: اللّٰہم نعم. قال: أنشدک باللّٰہ. آللّٰہ أمرک أن نصلی الصلوات الخمس فی الیوم واللیلۃ... (بخاری ، رقم۶۳)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدمی اونٹ پر آیا۔ اس نے اس کو مسجد میں بٹھا دیا۔ پھر اسے باندھ دیا۔پھر کہا: تم میں سے محمد کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ میں ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ہم نے کہا: یہ ٹیک لگائے ہوئے ، گورا آدمی۔ اس نے آپ سے پوچھا: عبدالمطلب کا بیٹا؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا: تمھیں جواب مل چکا ہے ۔ اس آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں آپ سے سوال کرنے والا ہوں اور سوال کرنے میں کچھ سختی بھی کروں گا۔میرے بارے میں دل میں سختی نہ لایے گا۔ آپ نے کہا:جو تمھارے خیال میںآیا ہے، پوچھو۔ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے۔آپ نے کہا: بالکل ۔ اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم رات اور دن میں پانچ نمازیں پڑھیں...‘‘

اسی انداز میں اس نے روزے، حج اور زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا اور اپنی گفتگو کا خاتمہ ان الفاظ پرکیا:

آمنت بما جئت بہ. وأنا رسول من ورائی من قومی وأنا ضمام بن ثعلبۃ أخو بنی سعد بن بکر. (ایضاً)
’’میں اس پر ایمان لایاجو آپ لے کر آئے ہیں۔ میں اپنی قوم کے لوگوں کا نمائندہ ہوں۔ میں بنی سعد بن بکر کا بھائی ضمام بن ثعلبہ ہوں۔‘‘

بخاری کی یہ روایت اور مسلم کی روایت میں مضمون کی یکسانی کے باوجود بہت فرق ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ دو الگ الگ سائل ہیں۔ لیکن بالعموم شارحین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں روایتیں ایک ہی ہیں۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو یہ دونوں روایتیں روایت بالمعنیٰ کے اس پہلو کو واضح کرتی ہیں کہ بسا اوقات راوی اصل الفاظ بالکل فراموش کر چکے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں پوری بات اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔
بہرحال اس روایت کے وہ متن جن میں الفاظ کا اتنا فرق نہیں ہے ، ان میں بھی کچھ فرق موجود ہیں۔ مثلاً،’ نہینا‘ کے ساتھ بعض روایات میں ’ قد کنا ‘ اور بعض میں ’ فی القرآن ‘روایت ہوا ہے ۔ ’ یجئ ‘کے بجائے ’ یاتیہ‘آیا ہے۔ بعض روایات میں ’ نسمعہ ‘ والا جملہ نہیں ہے۔بعض روایات میں سائل کی قسم نقل نہیں ہوئی۔ مسلم کی روایت میں پہاڑوں کے ضمن ’جعل فیہا ما جعل ‘ کے الفاظ سے ان میں موجود نعمتوں کا ذکر ہوا ہے ۔ بعض روایات میں منافع کا لفظ آیا ہے۔ غرض یہ کہ اس طرح کے متعدد چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جن سے کوئی معنوی فرق واقع نہیں ہوتا۔

کتابیات

نسائی، رقم۲۰۹۱۔ احمد، رقم ۱۲۴۷۹، ۱۳۰۳۴۔ ابن حبان، رقم۱۵۵۔السنن الکبریٰ، رقم۲۴۰۱، ۵۸۶۳ ۔ بیہقی ، رقم ۸۳۹۴۔ مسند عبد بن حمید، رقم۱۲۸۵۔ ابویعلیٰ، رقم۳۳۳۳ ۔ ترمذی، رقم ۶۱۹۔ دارمی، رقم۶۵۰۔

۱؂ راوی نے لفظ ’رسول ‘ بو لا ہے۔ عربی میں یہ لفظ نمائندے، ایلچی اور پیغام بر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا غالب استعمال اللہ کے پیغمبروں کے لیے ہے ۔ اس وجہ سے ترجمے میں ہم نے حضور کے ایلچی (مقرر کردہ داعی)کے لیے نمائندے اور حضور کے لیے رسول کا لفظ لکھا ہے۔ جبکہ روایت میں دونوں جگہ ایک ہی لفظ آیا ہے۔
۲؂ اصل میں فعل ’زعم‘ آیا ہے۔اس فعل کا عمومی استعمال متکلم کے اس خیال کے لیے ہوتا ہے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔لیکن اس کے برعکس استعمال کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ یعنی اس کی نسبت متکلم کے اس بیان کی طرف بھی کی جاتی ہے جس میں متکلم پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔اردو میں فعل’ دعویٰ کرنا‘ اسی طرح متضاد مواقع پر استعمال ہوتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ فعل حضرت جبریل کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح نحو کی کتابوں میں نحویوں کے اقوال کے لیے بھی یہ لفظ بے تکلف استعمال ہوتا ہے۔
۳؂ مرقاۃ ۸۶۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2004
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 14, 2017
1915 View