حمیت دینی میں مصلحت نا آشنا - نعیم بلوچ

حمیت دینی میں مصلحت نا آشنا

 محمد اسحاق ناگی مرحوم سے میرا پہلا تعارف اس حوالے سے تھا کہ وہ استاذ محترم جاوید احمد غامدی اورمولانا امین احسن اصلاحی کے دروس میں باقاعدگی سے آنے والوں میں سے ایک تھے۔ وہ ہمیشہ ان نشستوں میں وقت سے بہت پہلے آجایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ تمام دروس کو باقاعدہ ریکارڈ کرتے تھے۔ ان سے واقفیت کی راہ اس طرح کھلی کہ وہ درس قرآن ختم ہونے کے بعد شرکا سے علیک سلیک میں ہمیشہ پہل کرتے۔ ان کا دوسروں سے سلام کرنے کا طریقہ خاص طور پر ’قابل دید‘ اور یاد رہ جانے والا تھا۔ وہ سلام کے بجاے دلچسپ اور مزاحیہ جملوں کے ساتھ مخاطب پر ’حملہ آور‘ ہوتے۔ میرے لیے اس میں حیرانی اور دلچسپی کی کئی باتیں ہوتیں ۔ مثلاًیہ کہ وہ کم و بیش ہر ملنے والے کو ’سید‘ کے خطاب سے مخاطب کرتے اور اس سنجیدگی سے کرتے کہ ایک عرصہ میں یہی سمجھتا رہا کہ واقعی ان کے یہ ملنے والے ’سید ‘فیملی سے ہوں گے، لیکن جلد ہی یہ عقدہ مجھ پر کھل گیا کہ وہ ’سید‘ اصطلاحی معنوں میں نہیں، بلکہ لغوی معنوں میں کہتے ہیں۔ دراصل انھوں نے مجھ سے دوچار ملاقاتوں ہی کے بعد ’’زبردستی‘ بے تکلفی شروع کر دی تھی اور اس کے نتیجے میں جب انھوں نے مجھے بھی ’سید‘ کہا تو میں نے بڑی سنجیدگی سے ان کی غلط فہمی دور کی۔ تب انھوں نے یہ ’راز‘ فاش کیا کہ ’سید‘ تو مسٹر یا جناب کا عربی ترجمہ ہے اور یہ قصہ بھی سنایا کہ جب مشہور بھارتی رہنما اور پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا تو تمام عربی اخبارات نے اپنی سرخیوں میں انھیں ’سید‘ کہا تھا ۔
اسحاق ناگی صاحب کی بے تکلفی کے باوجود اپنی افتادطبع کے باعث میں ان سے ایک فاصلے ہی پر رہا، لیکن ان کی شخصیت کے خصائص وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو اس وقت سامنے آیا جب ایک درس قرآن میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک کتاب ’’مذہبی داستانوں کی حقیقت‘‘ کے حوالے سے گفتگو کی۔ مولانا نے کتاب کی بہت تحسین کی اور ساتھ ہی ناگی صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ہی یہ کتاب انھیں مہیا کی تھی۔ اس واقعے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ فرقہ دارانہ اختلاف پر مبنی ہر قسم کا لٹریچر ناگی صاحب کے پاس نہ صرف موجود ہے، بلکہ وہ عندالطلب اس قسم کی ہر کتاب مہیا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ دلچسپی رکھنے والوں کو خود ایسی کتب کے متعلق باخبر رکھتے تھے اور جس کتاب کو وہ خاصے کی چیز سمجھتے اس کے محاسن کو پرزور طریقے سے بیان کرتے اور زور دیتے کہ اس کا مطالعہ ہر حال میں ضروری ہے۔ نہ صرف کتب، بلکہ وہ بعض کتابوں کے خلاصہ جات، مختلف مضامین کی فوٹوکاپیاں بھی ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور قدردانوں کو مفت تقسیم کرتے رہتے۔ چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اشراق‘‘ کو نئے نئے قارئین تک پہنچانے میں ان کے انتھک دعوتی جذبے کو بہت دخل حاصل ہے۔ وہ ’’اشراق‘‘ کی کاپی نئے ملنے والوں کو تحفے میں دیتے اور اپنے پسندیدہ مضامین کی فوٹو کاپیاں بھی دعوتی مقاصد کے لیے تقسیم کرتے۔ ناگی صاحب ہی کی بدولت مجھے بھی تاریخی اعتبار سے بڑے معرکۃ الآرا موضوعات کی حقیقت جاننے کا موقع ملا۔ خاص طور پر انھوں نے سیرت النبی پر ایک ہندوستانی صاحب علم محمد عثمان قریشی کی کتاب ’’ سیرت دانائے سبل ‘‘ مجھے دی جو بلاشبہ بہت پاے کی کتاب تھی۔
ناگی صاحب کی شخصیت کا ایک زوردار پہلو لوگوں کے گمراہ خیالات کو پوری قوت سے سدھارنا تھا۔ اس حوالے سے وہ کسی مصلحت پسندی کے قائل نہ تھے۔ وہ آخری بات سے اپنی دعوت کا آغاز کرتے۔ خاص طور پر مشرکانہ عقائد رکھنے والے پر حجت تمام کرنا ان کی دعوتی دلچسپیوں کا محور ہوتا۔
وہ اپنے کاٹ دار دلائل سے بحث میں الجھنے والے مخالفین کو اکثر خاموش کرا دیتے اور پھر ایسے لوگوں کے پاس کئی دفعہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا کہ وہ ان کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچائیں۔ وہ جہاں گمراہ عقائد کے خلاف انتہائی سخت رویہ اپناتے، وہیں مخالفین کی مدد کرنے، ان کے مسائل حل کرنے میں کمربستہ رہتے۔ ان کے اس انسان دوست رویے نے کئی مخالفین کے دل جیتے اور وہ ان کی علمی ہدایت کا باعث بنے۔
دوسروں کی بے لوث خدمت، غمی خوشی میں شریک ہونے کی عادت اور بے پناہ محبت کی وجہ سے ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ میری والدہ کی وفات پر وہ تعزیت کے لیے خود آئے تو میں بہت حیران ہوا، کیونکہ ایک ہفتہ پہلے جب میں ان کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر گیا تو وہ ہوش میں بھی نہیں تھے۔ مجھے بعد میں ان کے بیٹے ابراہیم نے بتا یا کہ وہ گھر والوں کو مطلع کیے بغیر ایک دوست کی گاڑی کے ذریعے سے آپ کے ہاں پہنچ گئے تھے۔
وہ نظریاتی اور تحریکی ہم آہنگی کو رشتے ناتے میں بدلنے کے بہت موید تھے۔ ان کا یہی جذبہ میرے چھوٹے بھائی عدنان احمد کے سسر بننے کا باعث بنا۔ برادرم محمد بلال کے ساتھ اسیعزیز د اری کی وجہ بھی ان کا یہی جذبہ تھا۔ ۲۸ اگست کو ان کے جنازے میں سبھی احباب موجود تھے۔ ہر کسی کے دل میں ان کے لیے یہی جذبات تھے کہ انھوں نے ایک غیرت مند مسلمان کی زندگی بسر کی۔ وہ اپنے احباب کے لیے خیر خواہی کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ سچ کو سچ کہنے اور غلط کو غلط کہنے پر انھیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ وہ عفوودرگزر کرنے میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے ولی تھے، ان کی تکلیف دہ علالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو اللہ نے اس بیماری کے ذریعے سے پاک صاف کر دیا تھا:

سبزہ نورستہ اس گھر کی پاسبانی کرے
آسمان تیری لحد پر شبنم افشا نی کرے

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2012
مصنف : نعیم بلوچ
Uploaded on : Aug 23, 2016
2070 View