فہمِ دین اور مسئلۂ جہاد

فہمِ دین اور مسئلۂ جہاد

 ۱۹۸۴ ء کی بات ہے ۔ بھارت میں خالصتان کی تحریک عروج پر تھی۔ تحریک کا قائد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ تھا۔ سکھوں کا سب سے بڑا مذہبی مقام دربار صاحب (گولڈن ٹمپل) اس تحریک کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ بھارتی وزیر اعظم انداراگاندھی نے تحریک کو کچلنے کے لیے دربار صاحب پر فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کارروائی میں حصہ لینے والوں میں سکھ فوجی بھی شامل تھے۔ پہلے لاؤڈ اسپیکر پر بھنڈرانوالہ کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا گیا، مگر بھنڈرانوالہ اور اس کے ساتھیوں پر اس حکم کا کوئی اثر نہ ہوا۔ آپریشن کمانڈر نے کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔ چار ہزار فوجی دربار صاحب کے گرد پوزیشنیں سنبھال کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے، ادھر دربار صاحب سے اچانک سکھوں نے فائرنگ کر دی۔ بھارتی فوجی گولیاں کھا کھا کر پیچھے گرنے لگے، مگر سکھ فوجی بدستور اپنی جگہ کھڑے تھے۔ انھیں دیکھ کر باقی فوجیوں کی حرکت بھی رک گئی۔ کمانڈر نے انھیں حملہ کرنے کا حکم دیا، مگر انھوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اصل میں سکھ فوجی اپنے مقدس مقام پر گولی چلانے کے بجائے اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ان کی حکم عدولی سے فوجیوں میں بے چینی پھیل رہی تھی۔ فوج کا ڈسپلن خطرے میں تھا۔ کمانڈر یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر ان فوجیوں نے حملہ کرنے سے انکار کر دیا تو دوسرے فوجی بھی نہ لڑ سکیں گے۔ اس نے ان سکھوں کو گولی مارنے کا حکم دیا۔ دوسرے ہی لمحے کئی رائفلوں سے گولیاں نکلیں اور یہ سکھ فوجی اپنے مقدس مقام پر قربان ہو گئے۔
یہ ہے مذہب ۔ یہ ہے مذہب کی اہمیت ۔ یہ ہے مذہب کی قوت ۔ مذہب کے مقابلے میں انسان کسی حکومت ، کسی کمانڈر ، کسی ڈسپلن کو خاطر میں نہیں لاتا ، حتیٰ کہ وہ اس معاملے میں جان لینے اور جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔
پچھلی صدی میں مسلمانوں میں دو نقطہ ہاے نظر بہت مقبول ہوئے ۔ ایک نقطہئ نظر یہ کہ اسلام درحقیقت ریاست کا ایک نظام ہے اور اس نظام کو نافذ کرنا مسلمانوں کا سب سے بڑا فرض ہے ۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے مختلف گروہ مختلف طریقے اختیار کر کے پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں ۔
دوسرا نقطہء نظر یہ مقبول ہوا کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ،وہاں کی حکومتوں کے خلاف جہاد و قتال کیا جائے ۔ اس نقطہء نظر کے حامل اس معاملے میں کسی حکومت کی ماتحتی کو ضروری خیال نہیں کرتے ۔ یہ نقطہء نظر رکھنے والے مختلف گروہوں کی شکل میں ، دنیا کی مختلف حکومتوں کے خلاف ’’جہاد و قتال‘‘ میں مصروف ہیں ۔ وہ اپنے اس عمل کو دین کا تقاضا سمجھتے ، اس کے حق میں آیات و احادیث پیش کرتے اور اس راہ میں جان دینے والوں کو شہید قرار دیتے ہیں ۔
یہاں ہمارے پیشِ نظر اس ’’جہاد وقتال ‘‘کے مسئلے پر غور کرنا ہے ۔ پاکستان اس پہلو سے دنیا کا منفرد ملک ہے کہ یہاں مذہب و مسلک کا بڑا تنوع پایا جاتا ہے ۔ ہر شخص کو اپنا نقطہء نظر بیان کرنے حتیٰ کہ اس کی اشاعت کرنے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے ۔ ہماری حکومتیں بھی اس معاملے میں بالعموم کوئی مداخلت نہیں کرتیں ۔ لہٰذا یہاں ’’جہاد وقتال‘‘ کرنے والے بھی بہت سے گروہ موجود ہیں ۔ وہ اپنے رسائل شائع کرتے ہیں ، لوگوں سے مالی امداد حاصل کرتے ہیں ، اپنے اجتماع منعقد کرتے ہیں ، لوگوں کو اپنا ہم خیال بناتے ہیں ، لوگوں کو مسلح لڑائی کی ٹریننگ دیتے ہیں اور پھر جس ملک میں ضرورت محسوس کرتے ہیں ، وہاں اپنے لوگ بھیجتے ہیں ۔ ہماری حکومتیں ان تمام معاملات میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی تھیں ۔
مگر پچھلے دنوں موجودہ حکومت نے ان ’’جہادی‘‘ گروہوں کے معاملے میں سختی سے کام لیااور ’’جہادی‘‘ تنظیموں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے ، سرِعام چندہ مانگنے ، اسلحہ کی نمایش کرنے اور کمانڈو ٹریننگ دینے پر پابندیاں لگانے کے عزائم کا اظہار کیا ۔ ادھر ’’جہادی‘‘ گروہوں نے بھی ان باتوں کو اسی سختی کے ساتھ رد کر دیا ۔ پھر حکومت ہی کے دوسرے افراد نے ’’جہادی‘‘ تنظیموں کے حق میں بیانات دینے شروع کر دیے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ’’جہادی‘‘ تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے قبل ان کے ردِ عمل کا اندازہ کر رہی ہے ۔
’’جہادی‘‘ گروہ اور ان کے حامی اس معاملے میں کہتے ہیں کہ اگر حکومت اپنی جہاد و قتال کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو ظاہر ہے کہ لوگ خود یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے آگے بڑھیں گے اور خود ’’جہاد و قتال‘‘ کریں گے ۔ ’’جہاد‘‘ سب مسلمانوں پر فرض ہے ۔ ہم اپنے عقیدے سے منحرف نہیں ہوں گے ۔ ’’جہادی‘‘ گروہ پوری قوم کی طرف سے کفارہ ادا کر رہے ہیں ۔ وہ محض اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی کے لیے ’’جہاد ‘‘ کررہے ہیں ۔
بلاشبہ ’’جہادی‘‘ گروہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ مادہ پرستی کے اس دور میں اکثر مسلمان دین کی خاطر چند لمحے صرف کرنے اور چند روپے خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے جبکہ ’’جہادی‘‘ گروہ دین کی خاطر جان لٹانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس پہلو سے غور کریں تو ’’جہاد‘‘ کرنے والے لوگ غیر معمولی تحسین و آفرین اور عزت و احترام کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ دین ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم دین پر عمل دین ہی کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق کریں ۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جہاد وقتال کرنا مسلمانوں کی حکومت ہی کا حق ہے۔ اگر حکومت یہ کام فرض ہو جانے کے باوجود نہ کرے تو اسے ہی خدا کے احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔ اگر کسی موقع پر اہلِ علم یہ خیال کرتے ہیں کہ جہاد فرض ہو چکا ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ حکومت کو اس جانب توجہ دلائیں ۔ اسے دعوت دیں۔ اسے سمجھائیں ۔ اگرحکومت مائل ہو جائے تو جذبہء جہاد رکھنے والوں کو حکومت کے تحت اپنے جذبے کی تسکین کرنے کی راہ دکھائیں ۔
اسی طرح حکومت کے سامنے جب جہاد کرنے کا مسئلہ آئے تو یہ ضروری و لازمی ہے کہ وہ دو باتوں کو ہر حال میں پیشِ نظر رکھے :ایک یہ کہ جس ملک کے خلاف وہ جنگ و جہاد کا فیصلہ کرے ، اس کے ساتھ اس نے کوئی ایسا معاہدہ تو نہیں کر رکھا جس کی خلاف ورزی ہو جائے ۔ اس لیے کہ حکمِ الہٰی ہے :

’’جو لوگ ایمان لائے ہیں ، مگر جنھوں نے ہجرت نہیں کی ، تم پر ان کی اس وقت تک کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کر کے تمھارے پاس نہ آ جائیں ۔ البتہ ، وہ اگر تمھیں دین کے نام پر مدد کے لیے پکاریں ، تو تم پر ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری ہے ، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف تمھیں مدد کے لیے پکاریں ، اس کے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ موجود ہو ۔ اور یاد رکھو ، جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘ (الانفال ۸ : ۷۲)

اب اگر بھارت کے خلاف جنگ و جہاد پر غور کیا جائے تو تاشقند ، شملہ اور لاہور کو اس پہلو سے ضرور یاد رکھا جائے ، جہاں بیٹھ کر پاکستان اور بھارت نے باہمی تنازعے پرامن ذرائع سے حل کرنے کے معاہدے کیے ۔ لہٰذا جو شخص اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ ’’اللہ اسے دیکھ رہا ہے ‘‘ اور دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر ہے ، وہ کسی سیاسی اور دنیوی فائدے کی خاطر زمین و آسمان کے خالق ، مالک اور پروردگار جیسی عظیم ترین ہستی کے غضب کو دعوت دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
دوسری بات یہ کہ ا س معاملے میں حکومت کو حقیقت کی زمین پر کھڑے ہو کر جہاد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ اسے یہ دیکھنا ہو گا کہ جس قوم سے اسے لڑنا ہے ، اس کے مقابلے میں اس کی عسکری قوت کیا ہے ۔ مزید یہ کہ اس کی اپنی قوم کی ایمانی اور اخلاقی حالت کیا ہے ۔ ہمارے ہاں جہاد کے معاملے میں صرف جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے ، جبکہ عالم کا پروردگار اس ضمن میں دوسرے طریقے سے معاملہ کرتا ہے ۔ ذیل میں ہم دو آیات پیش کرتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جہاد الل ٹپ طریقے سے صرف جذبات ہی کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا ۔
غور کیجیے ، جب مسلمان ایمان و اخلاق کے اعتبار سے بہتر مقام پر تھے تو اس وقت ان کے اس مقام کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اے نبی ، ان اہلِ ایمان کو جہاد پر ابھارو ، تم میں سے اگر بیس ثابت قدم ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر سو ایسے ہوں گے تو ان کافروں کے ہزار پر بھاری رہیں گے ، اس لیے کہ یہ بصیرت سے محروم لوگ ہیں ۔‘‘(الانفال ۸ : ۶۵ )

اور جب مسلمانوں میں نو مسلم داخل ہوئے ، جن کی ایمانی حالت ظاہر ہے کہ مہاجرین و انصار کے ایمان جیسی نہ تھی تو مجموعی طور پر تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی ایمانی حالت بھی کمزور ہو گئی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس تبدیل شدہ صورتِ حال کے حوالے سے فرمایا :

’’اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور جان لیا ہے کہ تم میں کمزوری آ گئی ہے ۔ لہٰذا تم میں سے اگر سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے اور (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو (اس کی راہ میں) ثابت قدم رہیں۔‘‘ (الانفال ۸ : ۶۶)

یعنی اللہ تعالیٰ جہاد کی ذمہ داری اس وقت مسلمانوں پر عائدکرتا ہے ، جب ظالم قوم کے مقابلے میں مسلمانوں کی عسکری قوت کم سے کم نصف ہو ۔
اگر حکومت جہاد فرض ہو جانے ، حتیٰ کہ توجہ دلانے ، دعوت دینے او ر سمجھانے کے باوجود جہاد نہ کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہلِ علم خود جہاد کرنا شروع کر دیں ۔ اگر کسی بیوی کا شوہر حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے ۔ بیوی کسی عالمِ دین کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرے تو عالمِ دین شوہر کو یہ حق ادا کرنے کی ترغیب ہی دے سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ شوہر کے انکار کے باوجود عالمِ دین شوہر کو ترغیب ہی دے سکتا ہے ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ عالمِ دین یہ حق خود ہی ادا کرنا شروع کر دے ۔ اگر کوئی عالمِ دین ایسا کرتا ہے تو وہ یقیناًبڑی سنگین حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں ایسی حرکت جہاد وقتال جیسے مسئلے میں ہو رہی ہے ۔ ’’جہادی‘‘ گروہ ایک ایسا کام کرنے پر مصر ہیں جس کا انھیں کسی طرح کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ حالانکہ اس میں ان کی جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اور بے شمار لوگ اس معاملے میں اپنی جان دے بھی چکے ہیں ۔
اس کی وجہ دین کو سمجھنے میں غلطی ہے ۔ جب تک یہ غلطی واضح نہیں ہو گی ، اس وقت تک حکومتوں کی سختی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ ہماری حکومتیں بالعموم مسائل کو بہت سطحی انداز سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ وہ اس معاملے میں ظاہری اور قانونی راستہ ہی اختیار کرتی ہیں ، جس سے مسئلہ جڑ بنیاد سے حل نہیں ہوتا ، بلکہ کچھ مزید شدت اور سنگینی اختیار کر لیتا ہے ۔
اب صورتِ حال کی نزاکت کا اندازہ کیجیے ، حکومت کی ’’جہادی‘‘ گروہوں کے خلاف مذکورہ کارروائی کے بارے میں ’’پرائیویٹ جہاد‘‘ کے حامی ایک دانشور نے لکھا:

’’جس طرح سندھ ، پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کی خاطر لڑنا ہر پاکستانی کا فرض ہے ، اسی طرح کشمیر کی آزادی اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا بھی اہلِ پاکستان کا قانونی حق اور شرعی فریضہ ہے۔ اگر ہماری سیکولر سیاسی جماعتوں اور ہمارے انگریزی نژاد پبلک اسکولوں کے پڑھے ہوئے لوگوں کو توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے عقیدے اور نظریے کی خاطر اپنی جانیں اللہ کی راہ میں پیش کریں تو کیا ضروری ہے ہمارے مجاہدین بھی مظلوموں کی حمایت ترک کر دیں ، جبکہ قرآنِ پاک کا واضح حکم ہے : ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی حامی و مددگار پیدا کر ۔‘‘ (النساء) ۔۔۔ ’’جہاد کرو اللہ کے راستے میں مال سے اور جان سے جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ۔‘‘‘‘(جنگ ۲۳ فروری ۲۰۰۱)

جہاد و قتال کے حامی علما بھی ایسی ہی آیات پیش کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایک مذہبی مسلمان ان آیات کو پڑھ کر کسی حکومت وغیرہ کو خاطر میں نہیں لائے گا ۔ وہ تو اپنی مقدس کتاب کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ، اپنے خدا کا حکم بجا لاتے ہوئے ، اپنے ایمان کا تقاضا پورا کرتے ہوئے لڑنے کے لیے نکل کھڑا ہو گا یا لڑنے والوں کے لیے سراپا تعاون بن جائے گا ۔
پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ اس مسئلے کا صحیح حل دین کے صحیح فہم کو دلائل کے ساتھ ، حکمت کے ساتھ ، تہذیب کے ساتھ ، مختلف سطحوں پر ، مختلف شکلوں میں ، پوری سرگرمی اور پوری دل سوزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عام کرنا ہے ۔
دین کا صحیح فہم کیا ہے ؟ دین کا صحیح فہم یہ ہے کہ قرآنِ مجید متفرق ہدایات پر مبنی کوئی مجموعہء اقوال نہیں ہے ، اس کی سورتیں اور آیتیں باہم مربوط ہیں ،وہ ایک نظم کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں ، اس لیے ان کا مفہوم متعین کرتے ہوئے ان کے سیاق و سباق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، پھر ان آیات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے ، ان کا کوئی خاص موقع و محل ہوتا ہے،ان کا کوئی خاص مخاطب ہوتا ہے اور ہر مسلمان ہر آیت کا مخاطب نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر دیکھیے : سورۂ توبہ میں حکمِ الہٰی ہے :

’’ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو ، ان کو پکڑو ، ان کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔‘‘(۹: ۵)

کیا یہاں مشرکین سے مراد دنیا کے تمام شرک کرنے والے ہیں ؟ کیا انھیں قتل کرنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں ۔ یہاں مشرکین سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب مشرکینِ عرب ہیں اور انھیں قتل کرنے کا حکم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رسول اور ایک حکمران کی حیثیت سے دیا گیا ہے۔ یہ بات ان آیات کے سیاق و سباق ، مخصوص پس منظر اور قرآنِ مجید کے دیگر مقامات سے بالکل واضحہو جاتی ہے اور اس طرح واضح ہوتی ہے کہ اس کے سوا کوئی رائے قائم کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔
مزید دیکھیے ، سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:

’’وہ لوگ جو اللہ اوررسول سے لڑتے اور ملک میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ، ان کی سزا بس یہ ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیںیا سولی چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔‘‘ (۵: ۳۳۔ ۳۴)

سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

’’اے ایمان والو،تم میں سے جو قتل کر دیے جائیں ، ان کا قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے۔‘‘ (۲: ۱۷۸۔ ۱۷۹)

سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے:

’’زانی عورت ہو یا مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ (۲۴: ۲)

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے:

’’اور چور ، خواہ مرد ہو یا عورت ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘ (۵: ۳۸۔ ۳۹)

ان احکامِ الہٰی کو پڑھ کر اگر کوئی شخص خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ، پوری قوم کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ، اسلام کی سربلندی کے لیے کسی فساد کے مرتکب کے خود ہاتھ پاؤں کاٹ دیتا ہے ، کسی قتل کے مرتکب کو خود قتل کر دتیا ہے ،کسی چور کے خود ہاتھ کاٹ دیتا ہے ، کسی زانی کو خود کوڑے مارنے لگتا ہے تو وہ بظاہر حکمِ الہٰی کی تعمیل کرتا ہوا نظر آئے گا ، مگر وہ درحقیقت حکمِ الہٰی کی غلط تعمیل کر رہا ہو گا ۔ باالفاظِ دیگر خود فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہا ہو گا ۔ خود قانون کو ہاتھ میں لینے کا جرم کر رہا ہو گا ۔ جید اہلِ علم جانتے اور مانتے ہیں کہ چونکہ یہ احکام قرآنِ مجید میں مدنی سورتوں میں آئے ہیں ، یعنی یہ احکام اس وقت نازل ہوئے ہیں جب مدینہ میں مسلمانوں کی ریاست قائم ہو گئی تھی ، اس لیے ان احکام کے مخاطب درحقیقت مسلمانوں کے حکمران ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ ان احکام پر عمل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی حیثیت سے نہیں کیا ، بلکہ حکمران کی حیثیت سے کیا ۔ بالکل اسی طرح ظلم و عدوان کے خلاف جہاد و قتال کے احکام کے اصل مخاطب بھی مسلمانوں کے حکمران ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے اپنے حکمران ہونے کی حیثیت سے یہ جہاد و قتال کیا اور اپنے تحت عام مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں بالکل واضح الفاظ میں فرما بھی دیا کہ جہاد و قتال مسلمانوں کے حکمران پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے ۔
آج حکومت کی ماتحتی کے بغیر ’’جہاد‘‘ کرنے والے گروہ جتنے بھی دلائل دیتے ہیں ،جتنے بھی دینی احکام بیان کرتے ہیں اور سیرت النبی کے جتنے بھی واقعات پیش کرتے ہیں ، سب کے پیچھے ، جی ہاں سب کے پیچھے فہمِ دین ہی کی کوئی نہ کوئی غلطی کارفرما ہوتی ہے ، جسے مضبوط تر دلائل کے ساتھ بڑی آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے ۔ اس سے امید ہے کہ مسئلہ جڑ بنیاد سے حل ہو گا اور کسی ہنگامہ آرائی اور تصادم کے بغیر حل ہو گا۔ بصورتِ دیگر حکومت سخت سے سخت قوانین بناتی رہے گی ، سخت سے سخت کارروائیاں کرتی رہے گی ، مگر ’’پرائیویٹ جہاد‘‘ کرنے والے ’’جہاد‘‘ کرتے رہیں گے ،لوگ ان کی مالی امداد بھی کرتے رہیں گے اور اخلاقی حمایت بھی کرتے رہیں گے ، اس لیے کہ وہ یہ کام ایک مقدس کام سمجھ کر ، اپنے مذہب کا تقاضا سمجھ کر ، خدا کا حکم سمجھ کر انجام دیں گے ۔ اور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مذہب کے اندر بڑی قوت ہے۔ مذہب کے مقابلے میں انسان کسی حکومت ، کسی کمانڈر ، کسی ڈسپلن کو خاطر میں نہیں لاتا ، حتیٰ کہ وہ اس معاملے میں جان لینے اور جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

 ------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2001

 

Uploaded on : Aug 24, 2016
2886 View