معرکۂ بدر: ایک خاص معرکہ

معرکۂ بدر: ایک خاص معرکہ

 ہمارے ہاں بسا اوقات معرکۂ بدر کو بالکل ایک عام جنگ کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے صرف مادی پہلووں ہی پر گفتگو کی جاتی ہے ۔ یہ تاریخ کو قرآن کی روشنی میں نہ دیکھنے کے باعث ہوتا ہے ۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ معرکۂ بدر کی قرآنِ مجید کی روشنی میں وضاحت کی جائے اور اس کی اصل حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جائے ۔
اصل میں جب اس دنیا پر عدل و انصاف کے پہلو سے غور کیا جائے تو دیدۂ بینا اور دلِ دردمند رکھنے والا ہر شخص افسردہ ہو جاتا ہے۔ وہ اس دنیا میں کامل عدل نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ قوت اور اقتدار رکھنے والا کسی آئین، کسی قاعدے، کسی ضابطے کی پروا نہیں کرتا۔ اور اس کی اس قوت کے باعث کوئی شخص اس کے خلاف کسی اقدام کی بھی جرأت نہیں کرتا۔ رشوت خور اور چاپلوس پر آسایش، بلکہ پرتعیش زندگی گزارتا ہے، مگر ایمان دار اور خوددار کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جھوٹا اور دغاباز محل میں رہتا ہے، مگر سچا اور دیانت دار جھونپڑی میں رہتا ہے۔ غرض یہ کہ جس جس پہلو سے بھی غور کیا جائے ظلم و زیادتی کی مختلف شکلیں نمودار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک حساس شخص کو خودکشی کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں یہ قیامت کا تصور ہے جو اس راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ تصور بتاتا ہے کہ ایک دن یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور پھر ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی، جہاں کامل عدل ہوگا۔ جہاں سارا زور و اختیار صرف خدا کاہوگا۔ اس وقت وہ کسی رعایت کے بغیر ٹھیک ٹھیک عدل کردے گا۔ جہاں رشوت خور، جھوٹے اور دغاباز سزا پائیں گے اور ایمان دار، سچے اور دیانت دار جزا پائیں گے۔
قیامت کا یہ تصور انسان کو دنیا میں راہِ راست پر رکھنے میں ا ہم کردار کرتا ہے، لہٰذا یہ تصور خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچایا۔ پھر انسان کے اندر بھی یہ شعور رکھا جس کے باعث عقل دنیا پر غور کرنے کے بعد تقاضا کرتی ہے کہ قیامت ہونی چاہیے۔ ایمان دار کو جزا اور بے ایمان کوسزا ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ خدا نے انسانوں پر قیامت کے تصور کی حقانیت کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک اور غیرمعمولی حسی اہتمام کیا ہے۔ اس نے رسولوں کے ذریعے سے اس زمین پر چھوٹے پیمانے پر قیامت برپا کر کے دکھا دی تاکہ اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں جگہ جگہ اس ’’قیامت صغریٰ‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔
قرآنِ مجید ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیامتِ صغریٰ دو صورتوں میں برپا ہوتی رہی۔
ایک صورت میں یہ ہوتا ہے کہ رسول ۱؂ ایک قوم تک خدا کا دین پہنچاتا ہے۔ دین اچھی طرح سمجھاتا ہے۔ مخالفوں کے ہر اعتراض کو رفع کرتا ہے۔ ان کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ غرض یہ کہ دین کو ہر پہلو سے واضح کرتا ہے، مخالفوں کے ہرظلم کو سہتا ہے اور خود کو اخلاق و کردار کے اعلیٰ معیار پر قائم رکھتا ہے۔ اس کے بعد بھی جب قوم سرکشی پر تلی رہتی ہے اور خدا کے دین کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تو وہ رسول خدا کے اِذن سے دوسرے علاقے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتا ہے۔ پھر قدرتی آفات کے ذریعے سے ایک عذابِ الٰہی آتا ہے اور سرکشوں کو اِسی دنیا میں موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ دوسری طرف رسول اور اس کے ساتھیوں کو جزا کے طور پر غلبہ عطا کیا جاتا ہے۔ قومِ نوح، قومِ لوط، قومِ صالح، قومِ شعیب کو اس پہلو سے موت کی سزا دی گئی۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ فرعون کی سزا اور حضرت موسیٰ کی جزا کا ذکر سورۂ اعراف میں کچھ اس طرح ہوا ہے:

’’تو ہم نے ان کو کیفرِ کردار کو پہنچا دیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا بوجہ اس کے کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروا بنے رہے۔ اور جو لوگ دبا کے رکھے گئے تھے ہم نے ان کو اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث ٹھہرایا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل پر پورا ہوا بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی ساری تعمیرات اور ان کے سارے باغ و چمن ملیامیٹ کر دیے۔‘‘ (۱۳۴۔۱۳۷)

دوسری صورت یہ کہ اگر رسول کو ہجرت کے بعد کسی خطۂ ارض میں سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے تو پھر سرکش قوم کو سزا اس کے لشکر کی تلواروں کے ذریعے سے ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے سرکشوں کے ساتھ یہی معاملہ ہونا تھا۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب میں سیاسی اقتدار حاصل ہو گیا، لہٰذا اب کفار پر عذابِ الٰہی لشکرِ نبوی کے ذریعے سے آنا تھا۔ اس ضمن میں بعد میں سورۂ توبہ میں کفار کو قتل کرنے کا حکم بھی دیاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کے نفاذ کے لیے مکہ میں لشکر کشی بھی کی، مگر کفار نے اسلام قبول کر لیا۔
بہرحال اس وقت معرکۂ بدر زیر بحث ہے، اس لیے ہم دوبارہ اس کی طرف آتے ہیں۔
جب مدینہ میں مسلمانوں کی ریاست قائم ہوئی تو کفار نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ مدینہ میں مسلمانوں کے قوت بننے سے بہت خائف تھے۔ مذہبی عناد کے علاوہ انھیں یہ بھی اندیشہ تھا کہ اب مکہ اورشام کی تجارتی شاہراہ ان کے لیے محفوظ نہیں رہی۔ وہ اس فکر میں تھے کہ کوئی عذر ملے اور مسلمانوں کو قوت بننے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ کفارِ مکہ کے ایک تجارتی قافلے نے مدینہ کے قریب سے گزرنا تھا۔ ابوسفیان قافلۂ تجارت کے سالار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی طرف سے وہمی خطرے کی وجہ سے قریش کو مسلمانوں پر حملے کے لیے کہا یا قریش کے لیڈروں نے کوئی سازش تیار کی، بہرحال تجارتی قافلے کی حفاظت کے بہانے ایک بھاری بھرکم لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رویا کے ذریعے سے اس لشکر کی آمد کا مشاہدہ کرا دیا۔ اور ساتھ ہی یہ حقیقت پہلے ہی سے واضح کر دی کہ یہ لشکر مسلمانوں سے مغلوب ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ کفار کے خاص خاص لیڈر قتل ہو کر جہاں جہاں گریں گے، وہ جگہیں بھی رویا میں دکھا دیں۔ مسلمانوں کو کفار کے خلاف نکلنے کا جو اللہ نے حکم دیا، اس کی وجہ اس طرح بیان کی کہ:

’’اللہ تعالیٰ اپنے حکموں سے یہ چاہتا ہے کہ حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔‘‘ (الانفال۸: ۷۔۸)

یعنی فتح کی نوید حکم کے ساتھ ہی سنا دی۔ چنانچہ مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے، معرکہ ہوا اور کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ ان کے بڑے بڑے سردار انھی جگہوں پر قتل ہوئے جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے دے دی گئی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت قرآنِ مجید میں واضح کر دی ہے کہ معرکۂ بدر مسلمانوں کی کسی تدبیر یا تدبر کا کرشمہ نہیں تھا۔ یعنی خدا نے حضور کو رویا کے ذریعے سے کفار کے لشکر کی خبر پہلے سے دے دی۔ رویا میں کفار کا لشکر کم کر کے دکھایا تاکہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا نہ ہو اور ان کا مورال نہ گرے۔ جنگ سے قبل میدان میں مسلمانوں کو پانی میسر نہ آیا تو آسمان سے پانی برسا دیا۔ سخت تناؤ کے حالات میں بھی مسلمانوں پر نیند طاری کر دی، جس سے وہ تازہ دم ہو گئے۔ جب مسلمانوں کا کفار کے لشکر سے آمنا سامنا ہوا تو کفار کو مسلمانوں کا لشکر بڑادکھائی دیا اور مسلمانوں کوکفار کا لشکر چھوٹا نظر آیا۔ حضور نے مٹھی بھر خاک زمین سے اٹھائی اور کفار کی طرف پھینکی، جو ایسا طوفان بن گئی جس سے کفار کو اپنی اپنی آنکھوں کی پڑ گئی۔ فرشتے بطور کمک میدانِ بدر میں اترے، جس سے کفار کے سر گاجرمولی کی طرح کٹے۔
دیکھ لیجیے، سورۂ انفال میں معرکۂ بدر ہی کے حوالے سے بیان ہوا ہے:

’’یاد کرو جب اللہ تیری رویا میں ان کو کم دکھاتا ہے۔ اور اگر زیادہ دکھا دیتا تو تم پست ہمت ہو جاتے اور معاملے میں اختلاف کرتے، لیکن اللہ نے بچا لیا۔ بے شک وہ دلوں کے حال سے باخبر ہے۔ اور خیال کرو جب کہ تمھاری مڈبھیڑ کے وقت ان کو تمھاری نظروں میں کم دکھاتا ہے اور تم کو ان کی نظروں میں کم دکھاتا ہے تاکہ اس امر کا فیصلہ فرما دے جس کا ہونا طے شدہ تھااور سارے معاملات اللہ ہی طرف لوٹتے ہیں۔‘‘ (۸: ۴۲۔۴۴)

’’اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمھاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمھاری کمک پر بھیجنے والا ہوں جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے۔ اور یہ صرف اس لیے کیا کہ تمھارے لیے خوش خبری ہو اور اس سے تمھارے دل مطمئن ہوں۔ اور مدد تو خدا ہی کے پاس سے آتی ہے۔ بے شک اللہ عزیز و حکیم ہے۔ یادکرو جب کہ وہ تم کو چین دینے کے لیے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کر دیتا ہے اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیتا ہے تاکہ اس سے تم کوپاکیزگی بخشے اور تم سے شیطان کے وسوسے کو دفع کرے اور تاکہ اس سے تمھارے دلوں کومضبوط کرے اور قدموں کوجمائے۔ یاد کرو جب تمھارا رب فرشتوں کووحی کرتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں تو تم ایمان والوں کو جمائے رکھو۔ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا تو مارو ان کی گردنوں پر اور مارو ان کے پور پور پر۔ یہ اس سبب سے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ کو اٹھے ہیں اور جو اللہ و رسول کے مقابلہ کواٹھتے ہیں تو اللہ ان کے لیے سخت پاداش والا ہے۔ سو یہ تو نقد چکھو اور کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔‘‘ (۸: ۹۔۱۴)

’’پس تم لوگوں نے ان کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور جب تو نے ان پر خاک پھینکی تو تم نے نہیں پھینکی، بلکہ اللہ نے پھینکی کہ اللہ اپنی شانیں دکھائے اور اپنی طرف سے اہل ایمان کے جوہر نمایاں کرے۔ بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ یہ جو کچھ ہوا سامنے ہے اور اللہ کافروں کے سارے داؤں بے کار کر کے رہے گا۔‘‘ (۸: ۱۷۔۱۸)

اس کے علاوہ مزید دیکھیے، فتح کے بعد جو مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اس کے بارے میں بعض کمزور قسم کے مسلمانوں میں نزاع پیدا ہو گئی کہ اس کی تقسیم کس طرح ہونی چاہیے تو اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ یہ مال اللہ اور رسول کا ہے، (یعنی مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہے)، اس کے ساتھ وہ جو چاہیں گے، معاملہ کریں گے۔ سورۂ انفال ہی میں ہے:

’’وہ تم سے غنائم کے بارے میں پوچھتے ہیں، انھیں بتا دو کہ غنائم سب اللہ اور رسول کے لیے ہیں۔ (۸: ۱)

اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ جنگ تو دراصل اللہ تعالیٰ نے لڑی تھی۔ اس میں مسلمانوں کی حیثیت محض ایک ذریعے کی سی تھی۔ لہٰذا معرکۂ بدر خدا کے دنیا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ’’قیامتِ صغریٰ‘‘ برپا کرنے کے سلسلے کی ابتدا تھی۔ چنانچہ اس میں عام سرکش کفار کے ساتھ ساتھ ان کے سرداروں کو عبرت ناک موت کی سزا دی گئی۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی مشہور کتاب ’’سیرت النبی‘‘ میں جنگِ بدر کو صرف مادی پہلو سے دیکھنے والوں پر تنقید کی، مگر حیرت ہے کہ پھر ان کی تائیدمیں لکھناشروع کر دیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ضمن میں انھوں نے جو اسباب بیان کیے، وہ بھی درحقیقت اور زیادہ تر ’’غیرمادی‘‘ ہی تھے۔ شبلی نے لکھا:

’’مغربی مورخین کو جن کے نزدیک عالم اسباب میں جو کچھ ہے صرف اسبابِ ظاہر کے نتائج ہیں، حیرت ہے کہ تین سو پیدل آدمیوں نے ایک ہزار جن میں سو سواروں کا رسالہ تھا، پر کیونکر فتح پائی، لیکن تائیدِ آسمانی نے بارہا ایسے حیرت انگیز مناظر دکھائے ہیں۔ تاہم اس واقعہ میں ظاہر بینوں کے اطمینان کے سامان بھی موجود ہیں۔ اوّل تو قریش میں باہم اتفاق نہ تھا۔ عتبہ سردارِ لشکر لڑنے پر راضی نہ تھا۔ قبیلہ زہرہ کے لوگ بدر تک آ کر واپس چلے گئے۔ پانی برسنے سے موقعِ جنگ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ قریش جہاں صف آرا تھے وہاں کیچڑ اور دلدل کی وجہ سے چلنا پھرنا مشکل تھا۔ قریش مرعوب ہو کر اسلامی فوج کا تخمینہ غلط کر رہے تھے یعنی اپنی تعداد سے دوگنا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے:

یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ۔(آل عمران۳: ۱۳)
’’وہ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے آپ سے دوگنا دیکھ رہے تھے۔‘‘

کفار کی فوج میں کوئی ترتیب اور صف بندی نہ تھی، بخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستِ مبارک میں تیر لے کر نہایت ترتیب سے صفیں درست کی تھیں۔ مسلمان رات کو اطمینان سے سوئے تھے، صبح اٹھے تو تازہ دم تھے۔ بخلاف اس کے کفار بے اطمینانی کی وجہ سے رات کو سو نہ سکے تھے۔‘‘ (ا/ ۲۰۱۔۲۰۲)

قیامتِ کبریٰ کی یاددہانی اور دنیا میں اس کا ایک حسی نمونہ دکھانے کے بیان کا یہ جو سلسلہ قرآن میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ اسی طرح احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بھی بیان کیے گئے بہت سے واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں، مگر ہمارے ہاں ان واقعات کو اس مخصوص پس منظر کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے غلط فہمیوں اور کج فکریوں کی ایک دنیا وجود میں آ جاتی ہے جو مسلمانوں کو بالخصوص اور غیر مسلمانوں کو بالعموم مشکلات میں ڈال دیتی ہے۔
کاش! اہل اسلام قرآن، حدیث اور تاریخ میں موجود اس مخفی حقیقت کو دیکھ سکیں، اسے سمجھ سکیں اور اس کو پیش نظر رکھ کر اپنے نقطۂ نظر اور لائحۂ عمل تشکیل دے سکیں۔

 

________

 

 

۱ ؂ یہاں یہ واضح رہے کہ قیامت صغریٰ برپا کرنے کا معاملہ نبیوں کے ذریعے سے نہیں، بلکہ رسولوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اگست 2001
Uploaded on : Aug 24, 2016
2222 View