سیاست کھیل یا کاروبار نہیں! - خورشید احمد ندیم

سیاست کھیل یا کاروبار نہیں!

 یہ سیاست ہے۔ افسوس یہ ہے کہ کوئی اسے کاروبار اور شعبدہ بازی سمجھتا ہے، کوئی کھیل اور احتجاج‘ اور کسی کا خیال ہے کہ مذہبی جذبات کے استحصال کا نام سیاست ہے۔ سب سے مظلوم اسلام ہے۔ من میں مچلتی خواہشیں ہیں، تعصبات ہیں اور زبان اور قلم کی نوک پر آیاتِ ربانی اور احادیثِ پیغمبر۔

پیغمبرﷺ کی سیرتِ پاک کو کاش کسی نے اس پہلو سے بھی پڑھا ہوتا۔ مدینہ تشریف لائے تو پہلی بار ایک باضابطہ نظم تشکیل دیا۔ مدینہ کی بڑی آبادی ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکی تھی اور چشم براہ تھی۔ مدینہ مگر ایک تکثیری (Pluralist) معاشرہ تھا۔ یہودی قبائل بہت تھے اور طاقت ور بھی۔ آپﷺ نے مدینہ آنے کے بعد پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اس بستی کو، جو سٹی سٹیٹ کی صورت میں منظم ہو چکی تھی، خارجی خطرات سے محفوظ بنایا جائے۔ اس کے لیے داخلی استحکام ناگزیر تھا۔ یہودیوں اور دوسرے قبائل سے امن کے معاہدے کیے۔ انہیں ایک سیاسی نظم میں پرویا۔ میثاقِ مدینہ کے الفاظ میں انہیں ایک اُمت بنا دیا۔

یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ حقوق و فرائض کا تعین ہوا۔ مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ آپﷺ اس ریاست کے سربراہ تھے۔ آپﷺ کی یہ حیثیت کسی جبر کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ عوام کا اپنا انتخاب تھا۔ یہود نے کسی جبر کے باعث نہیں، ایک معاہدے کے تحت آپﷺ کو سربراہِ مملکت مانا۔ مسلمانوں نے ساری عمر ان معاہدوں کی پاسداری کی۔ یہود نے بارہا انہیں توڑا لیکن کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں کہ مسلمانوں نے ان کی خلاف ورزی کی ہو۔ اگر کہیں دو شہریوں کے مابین معاملہ ہوا تو اللہ کے رسولﷺ نے بطور سربراہِ حکومت فیصلے دیے۔ یہ انصاف کے اعلیٰ ترین معیار پر پورا اترنے والے فیصلے تھے۔کوئی چاہے تو 'بخاری‘ میں وہ واقعہ پڑھ لے جب رسالت مآبﷺ اور سیدنا موسیٰؑ کی فضیلت پر ایک مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ افسوس کہ لوگوں نے دینی حمیت کے نام پر ایسے واقعات مشہور کر دیے جس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اُس معاشرے میں ہر مسلمان ہاتھ میں تلوار اٹھائے پھرتا تھا‘ اور جس کا چاہتا سر قلم کر دیتا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک بہتان ہے۔ رسالت مآبﷺ کی عدالت سے صادر ہونے والا ہر فیصلہ انصاف کے ہر پیمانے پر پورا اترتا تھا۔ یہ کعب بن اشرف جیسے فرد کا معاملہ ہو یا بنو قریظہ جیسے قبیلے کا۔

آج 'پکڑو، مارو، جانے نہ پائے‘ کی فضا میںکاش کوئی سیرت سے راہنمائی لیتا۔ عبداللہ بن ابیّ کو رئیس المنافقین کہا گیا۔ اس نے رسالت مآبﷺ اور مسلمانوں کی جماعت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس کی دست درازی کا یہ عالم تھا کہ اللہ کے رسول کے اہلِ بیت بھی محفوظ نہ رہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاک دامن کی طرف بھی یہ ہاتھ بڑھا۔ اللہ کے رسولﷺ اتنے پریشان ہوئے کہ فرمایا: کوئی ہے جو مجھے اس کی شرارتوں سے بچائے۔ سیدنا عمر ؓ جیسے جاں نثار نے اجازت چاہی کہ آپ فرمائیں تو اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ فساد فی الارض کا جرم تو اس پر ثابت ہی تھا۔ منع فرمایا اور کہا: لوگ کہیں گے، محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو مرواتا ہے۔

ساتھی تو وہ بظاہر تھا۔ اللہ کے رسولﷺ بھی اس کی حقیقت سے باخبر تھے‘ لیکن آپ جانتے تھے کہ اسے سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ اسے سزا ملی تو اس کا قبیلہ کھڑا ہو جائے گا۔ مدینہ کا داخلی امن خطرات میں گھر جا ئے گا۔ اس کو مارنے کے لیے اس کی عصبیت کا توڑ لازم ہے۔ آپﷺ نے ایسی سیاسی حکمتِ عملی اختیار کی کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہو گیا۔ ایک وقت آیا کہ اس کا بیٹا‘ جسے اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازا‘ باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی کہ وہ اسے مار ڈالے۔ آپﷺ نے پھر بھی اس کی اجازت نہ دی‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر مر چکا تھا۔ آپﷺ نے اس موقع پر سیدنا عمر ؓ سے فرمایا کہ جب تم اسے مارنے کی اجازت مانگ رہے تھے، اگر میں اجازت دے دیتا تو بہت سے ناک پھڑپھڑانے لگتے‘ گویا داخلی سطح پر اضطراب پیدا ہوتا‘ لیکن میں اگر آج اس کی اجازت دوں تو کوئی اس کے حق میں بولنے والا نہیں ہو گا۔

کوئی سیرت سے راہنمائی چاہتا تو اسے معلوم ہوتا کہ جب جرم اور سیاسی عصبیت مل جائیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے۔ یہ کوئی مذہبی نہیں، ایک سیاسی معاملہ ہے۔ مدینہ میں کوئی اور نہیں اللہ کے رسولﷺ حکمران تھے۔ ان کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق حکمران اور رعایا کا نہیں، پیغمبر اور صحابی کا تھا۔ پیغمبر کا معاملہ کیا ہوتا ہے، کوئی سمجھنا چاہے تو سورہ حُجرات پڑھ لے۔ آپﷺ کی موجودگی میں اونچی آواز سے بولنا بھی عمر بھر کا خسارہ بن سکتا ہے۔ اس کے باوجود ابن ابی کو گوارا کیا گیا۔ امور جہاں بانی کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہ جذبات اور ہیجان کا کھیل نہیں، فہم و فراست کا میدان ہے۔

اب خارجی معاملات کو دیکھیے۔ صلح حدیبیہ کیا ہے؟ عالم کا پروردگار بدر کی طرح یہاں بھی فرشتے اتار سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ بدر کا معرکہ دراصل رسولوں کے باب میں آسمان سے نافذ ہونے والے فیصلے کا ظہور تھا۔ اللہ نے اسے یوم الفرقان بنا دیا۔ فیصلے کا دن۔ حدیبیہ میں یہ سمجھانا مقصود تھا کہ جب معاملہ اسباب کی دنیا میں طے ہوتا ہے تو زمینی حقائق ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ جذبات کے تقاضے بعض اوقات کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اجتماعی مفاد کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر اجتماعی نفع نقصان ہی کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ حکمت عملی کے مسائل بصیرت کا تقاضا کرتے ہیں۔ دور تک دیکھنے کی صلاحیت نہ ہو تو پھر ہیجان اورجنون ہی کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔

ملک میں آج مسلسل اضطراب ہے۔ میرا خیال ہے‘ حقیقت میں اتنا نہیں، جتنا پیدا کیا جا رہا ہے۔ سادہ سا سوال ہے: 2016ء کا پاکستان سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے 2013ء کے پاکستان سے بہتر ہے یا خراب؟ اگر بہتر ہے تو خدارا اسے چلنے دیں۔ اگر کسی کے پاس قومی مسائل کا بہتر حل موجود ہے تو قوم کے سامنے رکھے۔ اگلے انتخاب میں قوم اگر اسے قبول کرتی ہے تو بسم اللہ۔ دو سال پہلے ہی قوم کو اضطراب میں مبتلا کرنا کون سی سیاست ہے؟ میرا کہنا ہے کہ آج کا پاکستان تین سال پہلے کے پاکستان سے بہتر ہے۔ اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا اگر مرکزی اور صوبائی حکومتیں چاہتیں۔ اس کو بہتر بنانے کا کوئی اور طریقہ، اس کے سوا نہیں ہے کہ حالات کو مزید خراب کیے بغیر بہتری کا راستہ تلاش کیا جا ئے۔ اس کے لیے اگلے انتخابات کے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

افسوس مگر یہ ہے کہ لوگ نہیں جانتے سیاست کیا ہے؟ تقریروں کا معیار اتنا پست ہو چکا کہ حیرت ہوتی ہے۔ وزیر اعظم بننے کے امیدواروں کی ذہنی اور جذباتی سطح کبھی اتنی پست نہیں رہی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ کی روح ہماری سیاست میں حلول کر گئی ہے۔ جس ملک کی سیاست میں شیخ رشید جیسوں کے ہاتھ میں سیاست کی باگ ہو، قومی لیڈر جن کی انگلیوں پر ناچتے ہوں، وہاں لازم ہے کہ اہلِ دانش قوم کو انذار کریں۔ اسے خبردار کریں کہ ملک کو فساد کا گھر بنایا جا رہا ہے۔ اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ جمہوری روایت اور ارتقا کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں بہتری کی کوشش کی جائے۔ بھارت سے لڑائی، ایران سے لڑائی، افغانستان سے لڑائی، ملک میں آئے دن ہنگامے اور ہیجان، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کاش کوئی اللہ کے آخری رسولﷺ کی سیرت کو اس پہلو سے دیکھ لے۔ حدیث متفرق اقوالِ زریں کا مجموعہ نہیں، ایک صاحب بصیرت ہستی کی زندگی کا ریکارڈ ہے‘ جس سے بڑھ کر حسنِ ترتیب کا کبھی ظہور نہیں ہوا اور جسے پورے عالم کے لیے اسوہ حسنہ بنا دیا گیا ہے۔ 

------------------------------------

 

بشکریہ روزنامہ دنیا

تاریخ اشاعت 31 اگست 2016

 

مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Sep 01, 2016
2970 View