مذہب اور معاشرہ - خورشید احمد ندیم

مذہب اور معاشرہ

 اُس امکان کی دستک مجھے اب سنائی دے رہی ہے جو ایک خدشہ بن کر دیوارِ دل سے لگا بیٹھا تھا۔

مذہب پر گفتگو مشکل ہو تی جا رہی ہے۔کبھی کبھی تو فتنہ بن جا تی ہے۔ میڈیا کی غیر سنجیدگی کوذمہ دار ٹھہرائیں یاکم علم متکلمین کو،نتیجہ ایک ہی ہے۔مذہب کا رشتہ دلیل ہی سے نہیں، تزکیہ نفس سے بھی کٹتا جا رہا ہے جو مذہب کا جوہر ہے۔کسی کے نزدیک وہ محض ایک عصبیت ہے۔کسی کے خیال میں صرف جنسِ بازارجیسے میڈیا یا مذہبی سیاست دان۔ان سب کی مشترکہ کاوشوں کا حاصل وہی خدشہ ہے،جسے میں امکان بنتے دیکھ رہا ہوں۔یہ امکان اگر واقعہ بنتا ہے تو اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ میڈیا اور عوامی مقامات پر مذہبی گفتگو پر پابندی لگ جائے گی۔مذہب پر بات کرنا جرم بن جا ئے گا۔مذہب کو عباد ت گاہوں تک محدود کر دیا جا ئے گا۔ایک ٹی وی پروگرام اور کالم پر ردِ عمل اسی کی پیشگی خبر ہے۔

مذہب عصبیت نہیں، ہدایت ہے۔اس کی منزل دنیا کی کوئی کامیابی نہیں،چاہے اس کے ساتھ اسلام کا سابقہ یا لاحقہ لگا ہو۔اس کی منزل آخرت کی کامیابی ہے۔یہ دل اور دماغ دونوں کو بیک وقت مخاطب بنا تا ہے۔یہ اب مخاطب کی افتادِطبع ہے کہ اس کے دل کا دروازہ پہلے کھلتا ہے یا دماغ کا۔قرآن مجید نے رسالت مآب ﷺ کی زبان حق ترجمان سے کہلوایا:''میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا۔کیا تمہیں عقل نہیں ہے؟‘‘(16:10) اللہ کے آخری رسول کی دل آویز شخصیت دلوں کو مسخر کرنے کی بے کنار صلاحیت رکھتی تھی۔اس کے باو صف قرآن مجید نے اس باکمال حیاتِ مبارکہ کو عقل کے لیے چیلنج بنایا۔بالفاظِ دیگراگر تم عقل پر یقین رکھتے ہو تو اپنے معاشرے میں،ایسی کوئی دوسری ہستی دکھا دو۔یہ حسنِ خُلق اورجمالِ سیرت اگر ایسا ارزاں ہے تو اس کا مظہر کوئی اور بھی ہو نا چاہیے۔اگر نہیں ہے اوریقیناً نہیں تویہ آپ کے نبی اور رسول ہو نے کی سب سے بڑی عقلی دلیل ہے۔

مذہب جب عصبیت بنتا ہے توایک گروہ سے منسوب ہو جا تا ہے۔یوں اس کا عالمگیر ہدایت ہونا محلِ نظر ٹھہرتا ہے۔اپنے تعصب میں جینے والا گروہ اپنی دعوتی اپیل کھوتا چلا جاتا ہے۔یہی نہیں، گزرے وقت کے ساتھ گروہی وجود کی بقا ،اس کا مقصد بنتا چلا جا تا ہے۔یوں اس کاپیغام سمٹ جا تا ہے اور وہ نسلی مذہب بن جا تا ہے۔ایک حد تک گروہ کا بننا اور تعصب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فرد گروہی عصبیت میں جینے لگتا ہے۔اس طرح وہ دوسروں سے الگ ہوجا تا ہے۔ہر مذہب کے ماننے والے کم و بیش اسی نفسیات میں جیتے ہیں۔دنیا میں یہی رویہ مذہبی منافرت کا سبب بنتا ہے۔یوںدنیا میں مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم ، سیکولرزم کے حق میں دلیل بن جاتی ہے۔اسلام کی حد تک تو میں عرض کر سکتا ہوں کہ وہ اس اندازِ نظر سے بلند ہے۔اس کی دعوت عالم گیر ہے۔رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ والا صفات ایک ایسے خیر کا منبع ہے جس کی وسعتیں عالمین کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتی ہیں۔آپ کی معرفت سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو دین دیا،اس میں ان کے لیے بھی خیر ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں۔ایک طرف اللہ تعالیٰ نے دین کے انتخاب میں فرد کی مطلق آزادی کا اعلان کیا۔ دوسری طرف نہ ماننے والوں کو اہلِ ایمان کا مدعو بنادیا تاکہ ان کے لیے ہدایت کا امکان تادمِ مرگ باقی رہے۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ ہدایت کا تعلق داعی یا مدعو سے نہیں۔یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔داعی صرف ابلاغ کا مکلف ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ آزمائش ہے جس کے تحت انتخاب کا حق فرد کو دیا گیا ہے۔اگر ہم معاملے کو اس زاویے سے دیکھیں تو انسانی سماج میں 'اسلام‘ نام کو کوئی جزیرہ وجود میں نہیں آتا۔پھر یہ ایک بہتا دریا ہے جو بستیوں کے درمیان سے پورے وقار اور جمال کے ساتھ گزرتا اور انسانوں کو بقدرِظرف سیراب کر تا چلا جا تاہے۔

اسلام ایسا غیر متعصب اورعظیم الشان مذہب ہے جو انسانی خوبیوں کا بلا امتیازِ مذہب اعتراف کرتا اورانہیں بیان کر تا ہے۔وہ ان اہل ِکتاب کی تحسین کر تا ہے جو امانت دار ہیں۔یہی نہیں عالم کا پروردگاران کوامید دلاتا ہے کہ ان کی نیکیوں کی اللہ کے ہاں قدر ہے ا ور وہ ضائع نہیں جائیں گی(113-116:3)۔اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کادانستہ انکار کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔حق کا ایک مظہراللہ کا پیغمبر بھی ہے۔پیغمبر کا دانستہ انکار بھی حق کا انکار ہے۔تاہم کون اس کا مرتکب ہوااور کون نہیں، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں کرے گا جب جزا وسزا کا فیصلہ ہو گا۔جہاں تک دنیا میں قائم سماج کا تعلق ہے، دینِ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ مذہب کے نام پر انسانوں کے مابین کوئی امتیاز روا رکھا جا ئے۔

ہم نے مذہب کو کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے کہ اس کا رشتہ عقل اور دعوت سے باقی نہیں رہا۔ہمارے لیے یہ گروہی عصبیت ہے۔عصبیت کا تعلق خارج سے ہوتا ہے جب کوئی بطور گروہ خود کو دوسروں سے ممتاز کر تا ہے۔ایک دائرے میں جیسے میں نے عرض کیا،یہ فطری ہے۔جب یہ اس دائرے سے باہر آتا ہے تویہ عصبیت ایک ایسے تشخص کی بنیاد بن جا تی ہے جس میں گروہی مفادات کواولیت حاصل ہو جا تی ہے۔نیشنلزم کے تحت یہی حیثیت وطن کو بھی حاصل ہو جا تی ہے۔اسے ایک دنیاوی عمل کے طور پر گوارا کیا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا مسابقت کے اصول پر قائم ہے لیکن یہ رویہ مذہب میں کسی طرح قابلِ قبول نہیں جو ایک غیر مادی جذبہ اور آخرت سے متعلق ہے۔یہ اسی وقت عصبیت بنتا ہے جب ہم مذہب کو ہدایت کے بجائے عصبیت اور عقلی کے بجائے ایک جذباتی وگروہی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروہی عصبیت کو ہم جذبہ ایمانی اور دینی حمیت کا مترادف سمجھتے ہیں۔بطور جملہ معترضہ مجھے یہاں یہ عرض کر نا ہے کہ میں وطن کی عصبیت کو اس طرح قبول کر نے پر تیار نہیں جس سے حق و باطل کے مسلمہ اصول پامال ہو جا ئیں۔

مذہب کو گروہی عصبیت سمجھنے کے نتیجے میں،ہم نے اپنے گرد ایک خود ساختہ حصار قائم کیا ہے جسے ہم دینی حمیت کہتے ہیں۔ہمارے خیال میں جو ہمارے زاویے سے نہیں دیکھ رہا ہے، وہ دراصل دینی حمیت سے محروم ہے۔دینی حمیت کو پھر ہم ایک جذباتی آہنگ دیتے ہیں۔اس سے وہ فضاوجود میں آتی ہے ،ہم آج جس سے گزر رہے ہیں۔ہم اپنے ہی ہم مذہبیوں کو دینی حمیت سے عاری قرار دیتے ہیں۔اس سے ایک طرف تقسیم کا عمل گہرا ہو تا اور دوسری طرف ایک خاص جذباتی فضا وجود میں آتی ہے۔اس کا تعلق دین کے ساتھ یا فکرِ آخرت سے نہیں گروہی عصبیت سے ہوتا ہے۔

بطور سماج ہم دانستہ یا نا دانستہ اس دائرے میں داخل ہو چکے۔ہمیں اس کا احساس نہیں۔اس دائرے میں،ہمارے قدم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے، لازم ہے کہ مذہب زیادہ سے زیادہ ایک تنازعے کا عنوان بنے۔غیر ضروری ردعمل سے اسے مہمیز مل رہی ہے۔ مذہب جب اس طرح متنازع ہوتا ہے تواس کا لازمی نتیجہ سیکولرزم ہے۔ یہی خدشہ ہے جو امکان سے کسی وقت واقعہ بن سکتا ہے۔

-----------------------------------------------------

 

بشکریہ روزنامہ دنیا
تاریخ اشاعت 20 جون 2016

مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Jun 20, 2016
4655 View