رسول اللہ ﷺ کی شخصیت پر اعتراضات - خالد مسعود

رسول اللہ ﷺ کی شخصیت پر اعتراضات

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں مکہ کے عوام و خواص کی دلچسپی اور اس سے مرعوبیت کو دیکھتے ہوئے جب قریش کے لیڈروں کو اس دعوت کی کامیابی کے آثار نظر آنے لگے اور ہر گھر میں اس کا چرچا ہونے لگا تو انھوں نے جہاں قرآن کی حیثیت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کی، وہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی حیثیت کو بھی مشتبہ ثابت کرنے کی سعی کی اور ایسے ایسے نکات پیش کیے جن سے عوام کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا جا سکے، یہ حملہ کئی جہتوں سے ہوا۔

بشریت کا طعنہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے خانوادہ بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرۂ نسب معلوم و معروف تھا۔ آپ کی پرورش اہل مکہ کی نظروں کے سامنے ہوئی۔ آپ نے تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا ۔ مکہ کے تاجروں کے ساتھ آپ کی شراکتیں رہیں اور آپ نے ایک سچے اور امانت دار تاجر کے طور پر نام پیدا کیا۔ آپ نے قریش ہی کے ایک خانوادہ میں شادی کی اور آپ کے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کی تمام ضرورتیں وہی تھیں جو معاشرہ کے ہر فرد کی ہوتی ہیں۔ آپ کو دوسرے انسانوں کی طرح زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ جن مسائل سے آپ دوچار ہوئے، وہ وہی مسائل تھے جو عام انسانوں کو پریشان رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے آپ کی زندگی دوسرے لوگوں سے کسی طرح مختلف نہ تھی۔ لہٰذا قریش کے پاس یہ پروپیگنڈا کرنے کا پورا موقع موجود تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمام بشری خصوصیات رکھتے ہیں۔ یہ ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کو بازاروں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ یہ بیوی بچوں کے مسائل سے بالکل ہماری طرح دوچار رہتے ہیں۔ ان کو بیماری اور موت کے مراحل سے بھی دوسرے انسانوں کی طرح گزرنا ہے۔ پھر یہ کس برتے پر خدا کا نمائندہ ہونے کے دعوے دار ہیں۔ یہ ہماری مانند صرف ایک بشر ہیں اور نبی و رسول ہونے کا ان کا دعویٰ بالکل بے حقیقت ہے۔
ظاہر ہے کہ محض اس پروپیگنڈے سے قریش کی بات ذہین لوگوں کے دلوں میں جگہ نہ پا سکتی تھی۔ وہ دعواے رسالت کی صداقت کا اطمینان کرنے کے لیے مزید سوالات کرتے تو قریش کے اکابر کو اپنی بات منوانے کے لیے کئی کئی توجیہات کرنا پڑتیں۔ وہ کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بطور رکن خاندان اور تاجر اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی کہ ان کا شمار سادات قریش میں ہوتا، اس لیے انھوں نے دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی غرض سے ایک ایسا دعویٰ کر دیا ہے جس کی صداقت کو جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اگر ہم اس دعویٰ سے مرعوب ہو کر اپنے ہی جیسے ایک بشر کو خدا کا نمائندہ سمجھ کر سر پر بٹھا لیں گے تو بلاوجہ اس کے مطیع ہو کر نقصان اٹھائیں گے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے دعواے نبوت کو قریش کے خانوادوں کی باہمی چپقلش کے تناظر میں بھی دیکھا اور بنو امیہ کے ایک لیڈر نے یہ کہا کہ ہم نے بنو ہاشم کا مقابلہ ہر میدان میں کیا اور ان سے ہار نہ مانی۔ اب ان کے ایک فرد نے نبوت کا دعویٰ کر کے ہم پر اپنی فضیلت جمانے کا ارادہ کیا ہے تو کیا ہم ان کے غلام بن کر رہ جائیں!
کبھی قریش عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اس حقیقت کا انکار کر دیتے کہ اللہ تعالیٰ کسی بشر پر کوئی وحی نازل کر سکتا ہے۔ وہ کہتے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر فرشتے اتر سکتے ہیں تو آخر ہم پر کیوں نہیں اتر سکتے؟ اگر یہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو ہم بھی توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں وہی کچھ ملے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اسی طرح کی وحی ہمارے پاس بھی آئے جس طرح کی وحی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے۔ اس صورت میں ہمیں کوئی شبہ لاحق نہ ہو گا، ہم وحی پر ایمان لے آئیں گے۔ اس کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دعواے نبوت کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔ قریش یہ بھی کہتے کہ ایک بشر اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا، لازم ہے کہ فرشتے یہ فریضہ سر انجام دیں جو ایک نورانی مخلوق اور اللہ کے مقرب ہیں۔ اگر اللہ کو ہماری تعلیم مطلوب ہوتی تو وہ فرشتوں کو ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے درمیان بھیجتا۔ لہٰذا جب تک یہ انتظام نہیں ہوتا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دعویٰ کو محض جھوٹ سمجھتے رہیں گے۔
مکہ کے عوام جب قرشی لیڈروں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے بارے میں سوال کرتے جو لوگوں کو متاثر کر رہی تھی، پھر وہ انبیا کی تاریخ کے ان واقعات کے بارے میں دریافت کرتے جو قرآن بیان کرتا اور رسول کے جھٹلانے والوں کو ان کے انجام کی خبر دینے کے لیے سناتا تھا تو قریش ان کو تسلی دیتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ پیش کر رہے ہیں، یہ ان کی من گھڑت باتیں ہیں۔ یہ محض گزشتہ اقوام کے بے اصل قصے اور ماضی کے افسانے ہیں جن کو خدا کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں کسی قدر دخل اہل کتاب کی سازش کو بھی ہے۔ ان میں سے کوئی شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی کتابوں کی معلومات صبح و شام فراہم کرتا ہے اور وہ ان معلومات کو وحی بتا کر پیش کرتے ہیں۔ قریش اسلاف کے ساتھ عوام کی محبت کے جذبہ کو بھی حق کی مخالفت میں بطور حربہ استعمال کرتے۔ وہ کہتے کہ محمد کی تعلیم کا ہمارے بزرگوں کی تعلیم سے کیا مقابلہ ہے۔ اصل علم تو وہی ہے جو ہمارے پاس اسلاف سے منتقل ہو کر آیا ہے۔ یہ شخص تمھیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے رسول کا روپ دھار لیا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ محمد سے دور رہیں، اس کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے اسلاف کے طور طریقہ اور معبودوں کی پوجا پاٹ پر یکسوئی سے جمے رہیں۔ یہ جو بات کہہ رہا ہے، ہم نے اس دور آخر میں تو سنی نہیں۔ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے، اس خیال کے پھیلانے میں حصہ اگرچہ قریش کے متعدد لیڈروں نے لیا لیکن اس میں پیش پیش ان کے دو سردار ابولہب اور ابوجہل تھے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے۔ آپ جب کسی فرد یا جماعت کو خدا کا پیغام سناتے اور توحید کی تعلیم دیتے تو یہ فوراً آپ کی تقریر کا اثر زائل کرنے کے لیے اسلاف کے حوالہ سے لوگوں کو بتاتے کہ یہ شخص ہمارے معزز و محترم اسلاف کی شان میں گستاخی کرتا اور ان کو حق سے منحرف سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کی بات کو اہمیت نہ دو۔ ابولہب کی یہ منادی تاریخ کے اوراق میں ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

’’اے بنو فلاں، یہ شخص تم لوگوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ تم لات و عزیٰ اور بنو مالک بن اُقیش کے جنوں میں اپنے حلیفوں کا جوا اپنی گردنوں سے اتار کر اس کی لائی ہوئی بدعت و ضلالت کو قبول کر لو۔ پس تم نہ اس کی بات سننا، نہ اس کو قبول کرنا۔ (السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۱/۴۲۳۔)

ان لوگوں نے اپنے غنڈہ عناصر کو بھی سکھارکھا تھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کو اپنی بات سنا رہے ہوں تو شور کر کے اور ہڑبونگ مچا کر اس بات کو ناممکن بنا دیا کرو کہ وہ اپنی بات پورے سکون کے ساتھ کسی کوسمجھا سکیں۔ وہ عوام کو اپنے موقف کے صحیح ہونے کی تسلی دیتے ہوئے کہتے کہ ہم جن معبودوں کو پوجتے اور ان کے نام پر جن چیزوں کو حلال و حرام ٹھہراتے ہیں، یہ سب خدا ہی کی مرضی سے کرتے ہیں۔ اگر یہ کام غلط ہوتے تو خدا ان کو کیسے گوارا کرتا۔ وہ لازماً اپنی قدرت سے ہمیں ان سے روک دیتا۔ قیامت کے تصور کو وہ محض ایک ڈراوا قرار دیتے اور کہتے کہ جب ہم مر کر مٹی اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو اس کے بعد دوبارہ زندگی پانے اور اٹھائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ محمد یہ تصور محض اپنے پیرووں کی تعداد بڑھانے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
قریش کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر معترض ہونا بالکل ناروا تھا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام عربوں کے جدامجد تھے۔ قریش ان کے شجرۂ نسب کو جانتے اور اپنا شجرۂ نسب ان تک پہنچانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ دونوں بزرگ شخصیتیں نبوت کے منصب پر فائز تھیں اور انھی کا بتایا ہوا دین تھا کہ جس کے بقایا قریش کو عزیز اور ان کی سیادت کا ایک سبب تھے۔ لہٰذا قریش سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ خدا کے پیغمبر بشر ہی ہوتے ہیں، وہ دوسرے لوگوں کی طرح کھاتے پیتے، شادی بیاہ کرتے، بیوی بچوں میں رہتے اور زندگی کے ان مشاغل میں حصہ لیتے ہیں جن میں دوسرے لوگ حصہ لیتے ہیں۔ قریش انبیاے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی معلومات رکھتے تھے کہ یہ سب بشر تھے، ان میں سے کوئی فرشتہ نہ تھا۔ لہٰذا بشریت پیغمبری میں کبھی مانع نہیں ہوئی۔
انبیا کا تعلق کسی دوسری مخلوق سے سمجھنا ایک ناقابل فہم بات تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی تعلیم و اصلاح کے لیے ایک انسان ہی موزوں ہو سکتا تھا، کیونکہ اس کے جذبات و احساسات، عواطف و ضروریات اور عمومی صلاحیتیں انھی جیسی ہوتی ہیں، ورنہ وہ انسانوں کو نہ ان کے اپنے انداز میں کوئی بات سمجھا سکتا نہ عمل میں ان کے لیے نمونہ پیش کر سکتا۔ ہاں اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے اور ان کی تعلیم مقصود ہوتی تب اللہ تعالیٰ یقیناًفرشتہ ہی کو نبی بناتا، کیونکہ وہی اس کام کے لیے موزوں ترین ہوتا۔ اسی بات کو قرآن نے واضح کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤمِنُوْٓا اِذْ جَآءَ ھُمُ الْھُدٰی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا. قُلْ لَّوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلآءِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۹۴۔۹۵)
’’لوگوں کے پاس جب ہدایت آ گئی تو اس پر ان کے ایمان لانے میں اس کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں بنی کہ انھوں نے یہ کہا کہ اللہ نے ایک بشر کو رسول مبعوث کیا ہے! تم انھیں بتاؤ کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور قیام پذیر ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر اتارتے۔‘‘

فرشتوں کو فرداً فرداً انسانوں کے پاس بھیجنے کا مطالبہ بھی اس لیے ناروا تھا کہ نبوت کا تاج پہننے کے لیے موزوں شخص وہی ہو سکتا ہے جو معاشرے کا صالح ترین انسان ، سلامتی طبع اور صفائی قلب کا اعلیٰ نمونہ اور بلند اخلاق و کردار کا عمدہ پیکر ہو۔ ایسا شخص اپنی فطرت کے لحاظ سے وحی کا نور اپنے اندر سمو لینے پر قادر ہوتا ہے جبکہ دنیا داری میں لتھڑے ہوئے لوگ اس لائق نہیں ہوتے کہ وہ فرشتۂ وحی سے کچھ اخذ کر سکیں۔ اسی لیے قرآن نے قریش کے مطالبہ کا یہ جواب دیا کہ ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ رسالت کی ذمہ داری کس کو سونپے‘‘۔
قریش کے اس مطالبہ کے جواب میں کہ آخر فرشتے ہم پر کیوں نہیں اترتے، قرآن نے جہاں یہ وضاحت کی کہ ہر شخص اس کا اہل نہیں کہ اللہ اس کو نبوت کے مقصد کے لیے منتخب کر لے، وہیں ایک مسکت جواب یہ بھی دیا کہ فرشتے کا نزول دوسرے لوگوں پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ بندوں کے لیے بے حد خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ فرشتے کسی مقصد حق کے ساتھ آتے ہیں اور رسولوں کے جھٹلانے والوں کے معاملہ میں مقصد حق ان کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوتا ہے جس کی مثال قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے لیے فرشتوں کی آمد کا واقعہ ہے۔ فرمایا:

وَقَالُوْٓا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ. لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلآءِکَۃِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّٰدِقِیْنَ مَا نُنَزِّلُ الْمَلآءِکَۃَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا کَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ. اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ.(الحجر ۱۵: ۶۔۹)
’’یہ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یاددہانی اتاری گئی ہے ، تم تو ایک خبطی ہو۔ اگر تم سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے؟ ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے، مگر فیصلہ کے ساتھ اور اس وقت ان کو مہلت نہیں ملے گی۔ یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ بشریت کے اعتراض کا سامنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ سے پہلے آنے والے تمام انبیا و رسل کو کرنا پڑا۔ قریش کا یہ موقف نیا نہیں تھا کہ اللہ نے ان کے پاس ایک بشر کو رسول بنا کر کیوں بھیجا۔ ہر دور کے لوگوں کو یہ اشکال پیش آیا اور انھوں نے نبوت و رسالت کے اعلان کو اپنے اوپر پیغمبر کی برتری حاصل کرنے کی کوشش ہی قرار دیا۔ یہ بات قرآن کے حسب ذیل بیان سے واضح ہے:

وَلَقَدْ اَرْسَلنَا نُوْحًا اِلٰی قَومِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ. اَفَلَا تَتَّقُوْنَ. فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَومِہٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ. وَلَو شَآءَ اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِی اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ.(المومنون ۲۳: ۲۳۔۲۴)
’’اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو اس نے دعوت دی کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم (اس کے غضب سے) ڈرتے نہیں؟ تو اس کی قوم کے سرداروں نے، جنھوں نے کفر کیا ، کہا کہ یہ تو بس تمھارے ہی جیسا ایک بشر ہے۔ یہ تم پر اپنی برتری جمانا چاہتا ہے۔ اور اگر اللہ رسول ہی بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ اس طرح کی بات ہم نے اپنے اگلے بزرگوں میں تو سنی نہیں۔‘‘

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرنًا اٰخَرِینَ. فَاَرْسَلْنَا فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ. اَفَلَا تَتَّقُوْنَ. وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَومِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ وَ اَتْرَفْنٰھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُم یَاْکُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ. وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ. اَیَعِدُکُمْ اَنَّکُمْ اِذَا مِتُّمْ وَکُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اِنَّکُمْ مُّخْرَجُوْنَ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَا تُوعَدُوْنَ.(المومنون ۲۳: ۳۱۔۳۶)
’’پھر ہم نے ان کے بعد دوسرے لوگ اٹھائے اور ان میں بھی ایک رسول انھی میں سے اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم اس سے ڈرتے نہیں؟ اس کی قوم کے سرداروں نے، جنھوں نے کفر کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، اور ان کو ہم نے دنیا کی زندگی میں خو ش حالی دے رکھی تھی، کہا کہ یہ تو بس تمھارے ہی مانند ایک بشر ہے۔ وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔ اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی بات مان لی تو تم بڑے ہی گھاٹے میں رہو گے۔ کیا وہ تمھیں اس بات کا ڈراوا دیتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور خاک اور ہڈیاں بن جاؤ گے تو تم پھر نکالے جاؤ گے؟ بہت ہی بعید اور نہایت ہی مستبعدہے یہ ڈراوا جو تمھیں سنایا جا رہا ہے۔‘‘

جہاں تک سابق انبیا کے واقعات کا تعلق ہے تو سچی بات یہ ہے ، اور یہ قریش سے بھی مخفی نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں از خود کوئی معلومات نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے سابق آسمانی صحیفوں میں سے کچھ پڑھا تھا اور نہ لکھنے پڑھنے کے فن سے واقف تھے۔ اس کے باوجود آپ جو کچھ سناتے، وہ پوری صحت کے ساتھ سناتے، بلکہ اس میں اگر اہل کتاب نے کوئی گھپلا کیا ہوتا تو اس کی اصلاح بھی شامل ہوتی، نیز ہر واقعہ میں پنہاں سبق بھی نمایاں ہوتا۔ گویا واقعات محض بطور قصہ نہ سنائے جاتے، بلکہ ان کا اطلاق قریش کے حالات پر کیا جاتا۔ بسااوقات ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر کے ماضی کے کسی واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو قرآن میں اس کی پوری وضاحت آ گئی۔ بالفرض حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی تعلیم دینے والا تھا تو اس طرح کے سوالات کا پورا جواب فی الفور آپ نے کیسے فراہم کر دیا۔ ظاہر ہے کہ غیب کی یہ خبریں آپ کو بذریعہ وحی دی جاتی تھیں کیونکہ آپ اللہ کے رسول تھے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی رہنمائی فرما رہا تھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے مدین کے قیام اور کوہ طور کے واقعات، زکریا علیہ السلام کے ہاں بیٹے کی ولادت، مریم علیہا السلام کی کفالت کے احوال، یوسف علیہ السلام کی زندگی کی سرگزشت، ذوالقرنین کی فتوحات اور متعدد پیغمبروں کے واقعات قرآن میں مفصل بیان ہوئے، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ آپ کے علم و اطلاع سے باہر کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایسے واقعات کو بیان کرنے کے بعد یہ وضاحت کر دی کہ:

تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبلِ ھٰذَا.(ہود ۱۱:۴۹)
’’یہ ماجرا غیب کی باتوں میں سے ہے جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے سنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ہی اس کو جانتے تھے اور نہ تمھاری قوم کے لوگ ہی۔‘‘

اسی طرح اسلاف کی تعلیم، جس پر قریش کو ناز تھا اور جس کے مقابلہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو نظرانداز کیے ہوئے تھے، معلوم تاریخی حقائق کی روشنی میں وہ نہیں تھی جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام سے ان کی نسل کو منتقل ہوئی تھی۔ اس میں سب سے بڑی نقب عمرو بن لحی خزرجی نے لگائی جب اس نے خانہ کعبہ میں بت داخل کیے۔ بعد میں بیت اللہ کے منتظمین نے اس شرک کی سرپرستی کی اور بدعات پر مبنی ایک پوری شریعت رائج کر دی۔ بدعات پر مبنی اسی مذہب کے خلاف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سچے پیرو حنفا ہمیشہ احتجاج کرتے رہے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک اپنا وجود باقی رکھا۔ قریش کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی اخلاقی تعلیم سے عناد نہ تھا، لیکن جب مشرکانہ نظام پر زد پڑتی تو ان کے مفادات آڑے آ جاتے اور وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے۔
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر اعتراض کرنے کی قریش کے پاس کوئی واقعی بنیاد نہ تھی۔ اس حوالہ سے انھوں نے جو باتیں بنائیں، وہ عقل اور حقائق کی روشنی میں بالکل غلط تھیں۔

دنیاوی خوش حالی نہ ملنے کا طعنہ

قریش یہ بات بھی کہتے کہ اگر خدا نے ایک انسان ہی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا تو یہ کیوں نہ ہوا کہ اس کی دنیاوی حالت میں ایسی تبدیلیاں کر دی جاتیں جو اس کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کر دیتیں اور وہ عرب کے سرداروں کے سامنے بہتر اسباب حیات کے ساتھ گردن تان کر کھڑا ہو سکتا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تو خوش حالی تک بھی حاصل نہیں جبکہ مکہ اور طائف دونوں بستیوں کے اشراف میں متعدد لیڈر ایسے ہیں جو معاشی آسودگی اور اپنی بھاری شخصیت کی بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہ لیڈر اس لائق تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں میں بھی کوئی بڑی شخصیت نہیں۔ کچھ بے سمجھ نوجوان اور لونڈی غلام ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں۔ کوئی عاقل و فرزانہ لیڈر ان کے دام میں نہیں پھنسا۔ گویا ان کی تعلیم صرف ان لوگوں کو متاثر کر سکی ہے، جن کی ذہنی سطح اونچی نہیں اور جو سچ اور جھوٹ میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں۔
قریش کے کچھ مطالبات ایسے تھے جو اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے جاتے۔ مثلاً یہ کہ آپ اگر فی الواقع خدا کے نمائندہ ہیں تو ہمارے لیے اس سنگلاخ زمین میں پانی کا ایک چشمہ ہی جاری کر دیں۔ یا اپنے لیے ہی ایک نخلستان اور تاکستان حاصل کر لیں جس کے بیچوں بیچ پانی کی نالیاں ہوں جو اس باغ کو سیراب کریں ۔ یہ باغ آپ کی خوشحالی کا ذریعہ بنے اور خدا کی نگاہ میں آپ کے معزز و مکرم ہونے کاثبوت ہو۔ یا قیام کے لیے خدا سونے کاایک محل بنا دے جو آپ کی امارت کا منہ بولتا ثبوت ہو۔ قریش اس بات کی توقع بھی رکھتے کہ اللہ کے رسول کی حیثیت سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ غیر معمولی کام ان کے اطمینان کے لیے کر کے دکھانے چاہئیں۔ مثلاً اس بات کے ثبوت کے لیے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں، وہ اللہ ہی کی جانب سے ہوتا ہے، ایسا کیوں نہیں ہو جاتا کہ آسمان کے کچھ ٹکڑے ہم پر گر پڑیں۔ یا خدا اور اس کے فرشتے ہمارے بالمقابل نمودار ہو جائیں۔یا آپ ہماری نظروں کے سامنے آسمان کی طرف چڑھ جائیں اور وہاں سے وحی لکھوا کر لائیں جس کو ہم خود پڑھ سکیں۔ ان میں سے کوئی ثبوت مہیا ہو جائے تو ہم آپ کو خدا کا سچا پیغمبر مان لیں گے۔ قریش کا خیال یہ تھا کہ جب ہم دنیاوی اسباب و وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں سے بہتر ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی نگاہوں میں بھی ہم ان سے بہتر ہیں۔ اگر ہم خدا کے مبغوض ہوتے تو وہ ہمیں عیش کرنے کے لیے نہ چھوڑ دیتا۔
اسی طرح قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو حقیر جانتے ۔ اسی لیے ان کے اکابر ان کے برابر بیٹھنے میں اپنی سبکی سمجھتے اور صاف کہہ دیتے کہ ہم آپ کی بات اس وقت سنیں گے جب آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیں۔ روایات میں آتا ہے کہ قریش ان غریب مسلمانوں کا بہت مذاق اڑاتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ان کی تذلیل کی جاتی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی رفاقت پر طعنے دیے جاتے۔ اس طرح کی صورت حال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی لاحق ہوتی کہ وہ ایسے خود سر سرداروں کے معاملہ میں کیا رویہ اختیار کریں اور حق تبلیغ کس طرح ادا کریں۔
جب آخرت کے انجام کا بیان ہوتا اور اس میں پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے والوں کو ملنے والی سزاؤں کا ذکر ہوتا تو سادات قریش کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ وہ کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ ہوتے کہ پیغمبر کے نادار اور مفلوک الحال ساتھی تو جنت کی نعمتوں اور آسایشوں سے نوازے جائیں گے اور قریش کے کئی پشتوں سے سردار جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ ایسے بیانات پر وہ مشتعل ہو جاتے تو ٹولیاں بنا بنا کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو آنکھیں دکھاتے تاکہ آپ ان کے طیش و غضب سے مرعوب ہو کر اپنا مشن چھوڑ جائیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مادی لحاظ سے کوئی غیر معمولی امتیازی سلوک نہ ہونے پر اور آپ کے صحابہ کی بے سروسامانی پر قریش کے اعتراضات معقول نہیں کہے جا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مادی لحاظ سے آسودگی یا بے سروسامانی اور اخلاقی و روحانی اعتبار سے ہدایت پانے یا نہ پانے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یہ دو مختلف احوال ہیں۔ ایک آدمی معاشی طور پر آسودہ ہے تو یہ بات اس کے اخلاق و کردار کے افضل ہونے کی ضمانت نہیں ہو سکتی، بلکہ دیکھا گیا ہے کہ ایسا آدمی کردار کی ایسی خامیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جن میں کم وسائل رکھنے والے لوگ مبتلا نہیں ہوتے۔ ہدایت تو رب کا فضل ہے۔ جو اس کا طالب بنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے نوازتا ہے۔ اسباب معیشت کی فراوانی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اللہ کے ہاں یہ کسی کے منظور نظر ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ قرآن میں اس کا ذکر نہایت حقارت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ فرمایا:

وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ. اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ. نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا. وَ رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ. وَلَوْ لَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ. وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِءُوْنَ. وَ زُخْرُفًا. وَ اِنْ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا. وَالْاٰخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ.(الزخرف ۴۳: ۳۱۔۳۵)
’’اور انھوں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ کیا تیرے رب کے فضل کو یہی تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کا سامان تو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ایک کے درجے دوسرے پر بلند کیے ہیں تاکہ وہ باہم دگر ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو جو لوگ خدائے رحمان کے منکر ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کر دیتے اور زینے بھی چاندی کے، جن پر وہ چڑھتے۔ اور ان کے گھروں کے کواڑ اور ان کے تخت بھی چاندی کے، جن پر وہ ٹیک لگا کر بیٹھتے۔ اور یہ چیزیں سونے کی بھی کر دیتے۔ اور یہ چیزیں تو بس دنیا کی زندگی کی متاع ہیں اور آخرت تیرے رب کے پاس متقیوں کے لیے ہے۔‘‘

بشریت کے اعتراض کی طرح نبی کے ساتھیوں پر طعنہ زنی بھی ہمیشہ سے کفار کا وطیرہ رہی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات کے ضمن میں قرآن کا بیان ہے:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَومِہٖٓ اِنِّی لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ. اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ. اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَومٍ اَلِیمٍ. فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَومِہٖ مَا نرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ وَمَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ. (ہود ۱۱: ۲۵۔۲۷)
’’اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ (اس نے ان کو آگاہ کیا کہ) میں تمھارے لیے ایک کھلا ڈرانے والا ہو کر آیا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کااندیشہ رکھتا ہوں۔ تو اس کی قوم کے ان سربراہوں نے، جنھوں نے کفر کیا، جواب دیا کہ ہم تو تم کو بس اپنے ہی جیسا ایک آدمی دیکھتے ہیں اور ہم تمھاری پیروی کرنے والوں میں انھی کو پاتے ہیں جو ہمارے اندر کے ذلیل لوگ بے سمجھے بوجھے تمھارے پیچھے لگ گئے ہیں۔ اور ہم تم لوگوں کے لیے اپنے مقابل میں کوئی خاص امتیاز بھی نہیں دیکھ رہے ہیں، بلکہ ہم تم کو بالکل جھوٹا خیال کر رہے ہیں۔‘‘

اس اعتبار سے گویا قریش کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رویہ وہی تھا جو ماضی کے کفار نے ہر زمانہ میں اپنے انبیا کے ساتھ روا رکھا تھا۔ چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض ہوتا کہ آپ کوئی فوق الفطری خصوصیات کامظاہرہ کریں تاکہ ہمارا اشکال رفع ہو تو آپ فرماتے کہ کامل اختیار میرا رب رکھتا ہے ۔ میں تو تمھاری مانند ایک بشر ہوں، البتہ مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مجھے اگر جانچنا ہے تو میری اس حیثیت کے لحاظ سے جانچو۔ تم مجھے زچ کرنے کے لیے جو نت نئے مطالبات کر رہے ہو، مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔ چنانچہ فرمایا:

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ.(الانعام ۶:۵۰)
’’(اے پیغمبر)، تم کہہ دو کہ میں تمھارے سامنے یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا، اور نہ تمھارے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر آتی ہے۔‘‘

شاعر، کاہن، ساحر، مسحور اور مجنون ہونے کا الزام

کسی آدمی کے اصل منصب سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک کارگر طریقہ یہ ہوتاہے کہ اس کے مشن کو کوئی ایسا رنگ دے دیا جائے جو لوگوں کی نگاہوں میں اس کو بے وقعت بنا دے۔ یہ حربہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں استعمال کیا۔ چونکہ آپ کے پاس پیش کرنے کی اصل چیز قرآن تھا جسے آپ لوگوں کو سناتے اور اپنی رسول ہونے کی حیثیت کو نمایاں کرتے، اس لیے سادات قریش نے آپ کو کبھی شاعر و کاہن ہونے کا الزام دیا، کبھی یہ کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے جو اپنے جادو کے زور سے معاشرہ میں تفریق پیدا کر رہا ہے، کبھی کہتے کہ یہ پہلے تو چنگا بھلا تھا، اب معلوم ہوتا ہے کسی نے اس پر جادو کاعمل کر دیا ہے، جس کے باعث مخبوط الحواس ہو کر یہ عجیب عجیب باتیں کرتاہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہہ کر وہ یہ توقع رکھتے کہ زمانہ خود ہی اس شخص اور اس کے کلام کو ختم کر دے گا۔ اس کی شہرت چند روزہ ہے۔ اگر جنون کے اثر کے تحت وہ ہمیں کچھ ڈراوے دے رہا ہے تو ان کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی بہکی بہکی باتیں ہیں جن کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ کلام پر اعتراضات کا تعلق ہے، ان پر سیر حاصل بحث پچھلے باب میں ہو چکی ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت عرفی کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی تو خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخالفین کے تمام الزامات سے بری کیا۔ فرمایا کہ ہمارے یہ رسول تمھارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں، یہ تمھارے اندر پیدا ہوئے۔ تمھارے ساتھ رہے سہے۔ ان کی زندگی کا ہر دور بچپن سے جوانی تک تمھارے اندر گزرا۔ تم میں سے ہر شخص ان کے خلق عظیم کامعترف اور ان کی شرافت، صداقت، امانت، دیانت اور عفت و پاکیزگی کا گواہ ہے۔ چالیس برس کی عمر تک تم نے ان پر ہمیشہ اعتماد کیا، لیکن جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر اپنی تعلیم نازل فرمائی ہے تم پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہو اور ان کے سابق کردار کو بالکل بھلا بیٹھے ہو جبکہ نہ ان کے مشاہدات میں کسی جھوٹ اور فریب نفس کو دخل ہے اور نہ وحی کا القا کوئی واہمہ ہے۔ یہ جو کچھ پیش کر رہے ہیں، اس میں غیب دانی کی کوئی نمائش نہیں اور نہ یہ پیسا بٹورنے کا ذریعہ ہے۔ کیا تم اس کلام کے اثر کو نہیں دیکھتے کہ اللہ اپنے ان کلمات کے ذریعہ سے باطل کو مٹا کر حق کا اثبات کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام شیطان کے کرنے کا نہیں ہے۔ دنیا میں آج تک کسی جھوٹے اور جعل ساز نے اس طرح کا فیض بخش اور روح و قلب کو منور کرنے والا کلام پیش نہیں کیا جس طرح کا کلام یہ قرآن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قریش کے پاس حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر حرف رکھنے کی کوئی گنجائش نہ تھی اور نہ وہ دلیلوں سے کسی کو آپ کے خلاف قائل کر سکتے تھے۔ اسی لیے وہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے قسمیں کھا کھا کر ان کو مطمئن کرتے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر وسوسے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتے تاکہ ان میں پھوٹ پڑ جائے اور ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدگمانیاں پیدا کی جا سکیں۔
کفار کے اس الزام کے جواب میں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا کلام خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں پر دھونس جماتے ہیں، قرآن نے ایک اہم حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اللہ کے رسول خدا کی نہایت کڑی نگرانی میں اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ جس طرح فرشتۂ وحی سے کوئی جن یا کوئی شیطانی قوت وحی کا خزانہ چھین نہیں سکتی اور وہ بالکل خالص اور بے آمیز شکل میں اللہ کے رسول کے حوالہ ہوتا ہے، اسی طرح رسول کے پاس وہ خالص اور بے آمیز شکل میں اس طرح رکھا جاتا ہے کہ خود رسول کی بھی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جی سے اس میں کوئی ردوبدل کر دے۔ اگر خدانخواستہ کوئی رسول ایسا کرنے کی جسارت کرے تو اللہ کی سنت یہ ہے کہ ’ہم اس کو اپنے قوی بازو سے پکڑیں گے اور اس کی شاہ رگ ہی کاٹ ڈالیں گے۔ پھر کوئی بھی اس کو ہم سے بچانے والا نہیں بن سکتا۔‘
قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان بھی فرمایا کہ تم قریش پر یہ بات واضح کردو کہ اگر میں گمراہ ہوں اور تم اس بنا پر میراساتھ نہیں دے رہے ہو تو میں اپنی گمراہی کا خمیازہ خود بھگتوں گا اور تم اس کے وبال سے محفوظ رہو گے۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں اور یہ ہدایت میرے پاس اپنے رب کی طرف سے نازل ہو رہی ہے تو اس صورت میں تم وحی الٰہی کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے اور اس جرم کاانجام کوئی سہل چیز نہیں ہو گا۔ اس لیے میرے معاملہ میں اچھی طرح غور کر کے کوئی فیصلہ کرو۔
قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی بھی دی کہ وحی تم نے اپنی خواہش سے نہیں پائی اور نہ اسے اپنی خواہش سے پا سکتے ہو۔ جس ذات نے یہ چشمۂ فیض جاری کیا ہے، وہی اس کو رواں بھی رکھ سکتا ہے اور اس کو روکنے پر بھی قادر ہے۔ اگر اس نے یہ امانت تمھارے سپرد کی ہے تو وہ اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق بھی عطا کرے گا اور دشمنوں کی سازشوں سے بھی محفوظ رکھے گا۔ بس تم صبر و استقامت سے اپنا کام کیے جاؤ اور دشمنوں کی چالوں کو خاطر میں نہ لاؤ، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ کافی ہے۔ بہت جلد یہ اپنا انجام دیکھ لیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیش کردہ کلام کو عوام الناس کی نظروں سے گرانے کے لیے قرشی سرداروں نے جتنے جتن بھی کیے، وہ سب رائیگاں گئے۔ نہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شخصیت کو داغ دار کیا جا سکا اور نہ آپ کے کلام ہی سے متعلق بدگمانیاں پھیلا کر اس سے لوگوں کو متنفر کیا جا سکا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کی تعداد میں روز افزوں ترقی ہوتی گئی اور قریش کے ہر خانوادے میں مسلم و کافر کی تقسیم واضح نظر آنے لگی۔ اس صورت حال میں قریش اکابر کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ مسلمان ہونے والوں پر مزید ظلم کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بھی نشانہ بنائیں، قرآن سننے سنانے کو ایک مشکل کام بنا دیں اور دہشت پھیلا کر نئے دین کی دعوت کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2008
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
3902 View