نبی موعود کی آمد (1) - خالد مسعود

نبی موعود کی آمد (1)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ساڑھے پانچ سو برس گزر گئے تو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام کی دعا کی قبولیت کا وقت آ گیا کہ اس ہستی کی ولادت ہو :
جس کو اللہ تعالیٰ کی خلافت میں سب سے اعلیٰ و اشرف مقام عطا ہونے والا تھا۔
جس کے ہاتھوں اس قصر نبوت کی تکمیل ہونی تھی جس کے لیے تمام انبیا و رسل جدوجہد کرتے رہے۔
جس کو اللہ تعالیٰ کسی خاص قوم کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونہ کے طور پر پیش کرنے والا تھا۔
جس کے ہاتھوں آسمانی ہدایت اس طرح محفوظ ہونے والی تھی کہ اس کے کسی حصہ کو چھپانا ممکن ہو، نہ اس میں تحریف کرنا۔
جس کے انتظار میں یہود و نصاریٰ بھی چشم براہ تھے اور بنی اسماعیل بھی، اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ یہ ہستی ان کے اندر پیدا ہو۔
بالآخر یہ شرف بنو اسماعیل کے حصہ میں آیا، جو شرک میں ملوث ہونے کے باوجود ابھی بہت سی خوبیوں کے مالک اور ابراہیمی مرکز توحید کے محافظ و منتظم تھے کہ ان کے اندر اللہ کے عظیم رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہو اور ان کے ہاتھوں ایک عظیم امت مسلمہ برپا ہو جو رہتی دنیا تک خدا کے کلام کو اکناف عالم تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔

سلسلۂ نسب

 

بنی اسماعیل میں اپنا نسب محفوظ رکھنے اور سلسلۂ نسب کو یاد رکھنے کا خصوصی اہتمام تھا۔ وہ نہ صرف اپنا، بلکہ دوسرے قبائل کا نسب نامہ بھی یاد رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں مرد و زن سب کے کئی کئی درجوں تک نسب بالعموم نقل کیے جاتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلۂ نسب یوں ہے:
محمد بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ ہیں۔ اس طرح کلاب بن مرہ سے والد اور والدہ، دونوں کے نسب ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ کنانہ سے اوپر یہ سلسلہ عرب کی مشہور و معروف شخصیت عدنان تک اور مزید اوپر حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ یہ سلسلۂ نسب شرافت و نجابت کے لحاظ سے عرب کے اعلیٰ سلسلوں میں سے ہے۔ خاندانوں کی مثال معادن کی ہوتی ہے۔ جس طرح سونے کی کان میں سے سونا اور چاندی کی کان میں سے چاندی نکلتی ہے، اسی طرح اچھی روایات کے حامل خاندانوں میں سے اچھے لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب کیا۔ بنو کنانہ میں سے قریش کو چن لیا۔ قریش میں سے بنو ہاشم کو ممتاز کیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب کر لیا۔‘‘۱؂

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی عمر ۲۴ سال تھی جب ان کے والد عبدالمطلب نے بیٹے کے لیے بنوزہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف کی بیٹی آمنہ کارشتہ مانگا۔ سیرت نگاروں کے مطابق وہب کاچند سال قبل انتقال ہو چکا تھا، لہٰذا آمنہ کے ولی ان کے چچا وہیب بن عبد مناف تھے۔ انھوں نے عبدالمطلب کی تجویز مان لی اور عبداللہ اور آمنہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد قریش کا تجارتی قافلہ شام جا رہا تھا۔ عبداللہ اس میں شامل ہو کر غزہ روانہ ہو گئے۔ والد نے ان کو ہدایت کی کہ واپسی کے سفر کے دوران میں یثرب میں کھجوروں کا سودا طے کرتے ہوئے آئیں۔ وہ یثرب میں اپنے ننھیال بنو عدی بن النجار کے ہاں رکے تو بیمار ہو گئے۔ بیماری کی شدت میں سفر کے قابل نہ رہے۔ قافلہ مکہ پہنچا تو عبدالمطلب کو تشویش لاحق ہو گئی۔ انھوں نے بڑے بیٹے حارث کو یثرب روانہ کیا کہ بیٹے کی تیمارداری کریں اور ان کو مکہ لے آئیں۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبداللہ کا انتقال ہو چکا۔ حارث نے واپس مکہ آ کر والد کو یہ خبر سنائی۔ عبداللہ کے انتقال کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی شکم مادر ہی میں تھے۔

تاریخ ولادت

سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دو شنبہ (پیر) کے روز پہلے عام الفیل کے ماہ ربیع الاول کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی۔ ربیع الاول کی تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔ مروج تصور کے مطابق یہ تاریخ ۱۲ تھی، لیکن اہل تحقیق کے نزدیک اگر یہ تاریخ درست مانی جائے تو پیر کے روز کے ساتھ اس کی مطابقت نہیں ہوتی۔ بالعموم سیرت نگاروں نے مصری ہیئت دان محمود پاشا کے حوالہ سے ۹ ربیع الاول کو درست تاریخ مانا ہے۔ یہی تاریخ قاضی سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ میں اختیار کی ہے، جو ۲۲ اپریل ۵۷۱ء اور یکم جیٹھ ۶۲۸ء بکرمی سے مطابقت رکھتی ہے۔۲؂

رضاعت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدا میں اپنی والدہ آمنہ نے اور ابولہب کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا۔ قریش کے ہاں دستور تھا کہ وہ اپنے نومولود بچوں کی ابتدائی پرورش ان کو صحرا کے بدو قبائل میں بھیج کر کرتے تھے تاکہ وہ شہر کی آلودہ فضا سے دور کھلی فضا میں پھلیں پھولیں۔ مکہ کی عام زبان مختلف علاقوں کے باشندوں کی آمد و رفت اور تجارتی لین دین کے باعث کافی متاثر ہو چکی تھی۔ اس لیے قریش کو اعلیٰ عربی پر قدرت حاصل کرنے اور زبان کو محفوظ کرنے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا۔ مکہ اور طائف کے درمیانی علاقہ میں بسنے والا قبیلہ بنو سعد اپنی فصیح و بلیغ زبان کی بدولت عرب بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ لہٰذا اس قبیلہ کی عورتیں نو مولود بچوں کو دودھ پلانے کی خدمت کے مقصد سے وقتاً فوقتاً مکہ آیا کرتیں اور قریش اپنے بچے ان کے حوالہ کر دیا کرتے تاکہ انھیں خالص بدویانہ عربی زبان بولنا آ جائے۔
قریش کے اسی رواج کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے کسی دایہ سے بچے کو دودھ پلوانے کے لیے بنو سعد کی عورتوں سے معاملہ کرنے کی کوشش کی تو انھیں ایک یتیم بچہ کو قبول کرنے میں تامل ہوا۔ انھیں یہ خیال ہوا ہو گا کہ جس بچے کا باپ موجود نہیں اس کی پرورش کا فراخ دلانہ حق الخدمت ہمیں کہاں سے ملے گا۔ بالآخر ایک دایہ حلیمہ سعدیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کر لیا۔ اس کا سبب یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ نہایت مفلوک الحال تھیں اور ان کی سواری بھی نہایت کمزور تھی۔ لہٰذا قریش کی امیرزادیاں اپنے بچے ان کے حوالہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ جب حلیمہ کسی امیر گھرانے کابچہ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئیں تو خالی ہاتھ صحرا کو لوٹنے کے بجائے اس یتیم بچے ہی کو قبول کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی بدولت حلیمہ کے گھر میں برکت ظاہر ہوئی اور بعد میں انھیں اپنے فیصلہ پر کبھی پچھتانا نہیں پڑا۔ بنو سعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاقیام شاید پانچ سال کی عمر تک رہا۔ بعد میں آپ صحابہ سے فرمایا کرتے:

’’میں تم سب میں فصیح تر ہوں، کیونکہ میں قریش سے ہوں اور میری زبان بنو سعد بن بکر کی زبان ہے۔‘‘۳؂

مکہ اگرچہ ایک بین الاقوامی شہر تھا جہاں ملک عرب اور یمن کے تمام قبائل کی زبان سمجھی جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود قریش کے ہاں زبان کی صحت و فصاحت کا خاص اہتمام پایا جاتا تھا۔

ماں کی جدائی

صحرا میں چند برس گزارنے کے بعد حلیمہ سعدیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس لائیں تو ایک مختصر مدت کے لیے آپ کو والدہ کی شفقت میسر آئی۔ جب آپ کی عمر چھ سال تھی والدہ آپ کو یثرب لے گئیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کے پیش نظر اپنے شوہر کی قبر کی زیارت تھی جس کے لیے وہ وقتاً فوقتاً یثرب جایا کرتی تھیں۔ ان کا قیام طویل ہو گیا اور وہ عبدالمطلب کے ننھیال بنو عدی بن النجار کے ہاں تقریباً ایک ماہ رہیں۔ اس عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب کی گلیاں دیکھنے اور مضافاتی علاقہ جاننے کا موقع ملا۔ واپسی کے سفر کے دوران میں والدہ بیمار پڑ گئیں اور مکہ کی راہ کی ایک منزل ابواء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ام ایمن جو عبداللہ کی لونڈی اور اس سفر میں آمنہ کے ساتھ تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس لے آئیں اور انھی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پرورش میں لیا۔
اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنوہاشم خاندان کا ایک فرد ہونے کے باعث قبیلہ کے سربراہ عبدالمطلب کی تولیت میں آ گئے۔ عبدالمطلب آپ پر بڑی شفقت فرماتے، حرم میں اپنے ساتھ لے جاتے اور اپنی مسند پر ساتھ بٹھاتے۔ یہ صورت دو برس ہی قائم رہ سکی اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال تھی تو دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کا جنازہ اٹھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تابوت کے پیچھے چلنے والوں میں تھے اور دادا کی شفقتوں کو یاد کر کے روتے جا رہے تھے۔
عبدالمطلب نے اپنے بعد اپنے بڑے بیٹے زبیر کو اپنا وصی بنایا تھا، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنے ان تایا کے سایۂ شفقت میں آ گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کم سنی ہی میں تایا زبیر سے زیادہ انس تھا اور وہ بھی آپ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ کتب سیرت میں ان کی لوریاں نقل ہوئی ہیں جو وہ بھتیجے کو سناتے تھے۔ ان کی زندگی میں آپ انھی کی کفالت میں رہے:
کان الطف عمیہ بہ ویقال اوصاہ عبدالمطلب بان یکفلہ بعدہ۔ ۴؂

’’وہ آپ کے چچاؤں میں آپ پر سب سے زیادہ شفیق تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبدالمطلب نے انھی کو وصیت کی تھی کہ ان کے بعد بھتیجے کی کفالت کریں۔‘‘

زبیر کی سربراہی کے دوران میں بنو کنانہ اور ہوازن کے درمیان ایک جنگ ہوئی جسے حرب فجار کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں زبیر بنی ہاشم کے رئیس کی حیثیت ہی سے شامل ہوئے۔ انھی کے دور میں معاہدہ حلف الفضول ہوا تھا اور وہ اس کے روح رواں تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معاہدہ میں شرکت کی اور اس وقت آپ کی عمر ۲۰ برس تھی۔ جب ۲۵ برس کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی تو خطبۂ نکاح ابوطالب نے بطور سربراہ خاندان دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبیر کا انتقال اس وقت ہوا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۲۲، ۲۳ برس کے ہو چکے تھے اور اب آپ کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ گویا کفالت کا پورا دور زبیر کے ساتھ آپ نے گزارا۔

لڑکپن کی دل چسپیاں

لڑکپن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کی بکریاں چرائیں۔ بعض اہل تحقیق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریاں چرانے کے معاملہ کی مطابقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے ساتھ نہیں پاتے۔ ان کے نزدیک قریش کے نوجوان بکریاں چرانے کا پیشہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ یہ کام غلاموں سے لیا جاتا تھا۔ ہمارے نزدیک مجمل طور پر یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں کہ جس طرح نوعمر لڑکے ہر کام کو انہماک سے دیکھتے اور اس سے شناسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوعمری میں گلہ بانی میں دل چسپی لی ہو گی، اگرچہ اس کو بطور پیشہ اختیار نہ کیا۔ آخر بنوسعد کے ہاں تو لڑکوں بالوں کا مشغلہ ہی نہیں، بلکہ پیشہ گلہ بانی تھا۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر اس سے دل چسپی پیدا ہونا کچھ بعید نہیں۔ قریش کے دوسرے لڑکے بھی اس میں دل چسپی رکھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ تھے تو ایک مہاجر خاتون خولہ بنت حکیم کو آپ سے کچھ شکایت ہوئی۔ انھوں نے برملا کہا کہ اے عمر، میں نے تمھارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب تم عکاظ میں دن بھر بکریاں چراتے تھے اور لوگ تمھیں اے عمیر، اے عمیر کہہ کر پکارتے تھے۔ آج مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے ہو تو رعایا کے معاملہ میں خدا سے ڈرو۔۵؂ یہ عمر وہ تھے جن کے پاس مکہ میں سفارت کا محکمہ تھا اور قریش کے با اثر لوگوں میں تھے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے بکریاں چرانے کا پیشہ تو اختیار نہیں کیا تھا، بس دل چسپی کے لیے بچپن میں کسی گڈریے کے ساتھ چلے جاتے ہوں گے۔
قریش کے نوجوان فنون حرب بھی سیکھتے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت اچھے نشانہ باز، تیر انداز، شمشیر زن اور پہلوانی کے کرتب جاننے والے تھے۔ آپ کی یہ تربیت بعد کے ادوار میں کفار کے خلاف کام آئی۔ آپ کے جنگی منصوبوں کی آج بھی اہل فن داد دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ تربیت آپ نے عنفوان شباب ہی میں حاصل کی تھی۔

حلف الفضول

ماضی بعید میں جب بنو جرہم کا مکہ پر تسلط تھا، حمایت مظلوم کے مقصد سے کچھ لوگوں نے ایک معاہدہ کیا تاکہ ظالموں کا ہاتھ روکیں اور مکہ میں آنے جانے والوں کو ان ظالموں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھیں۔ معاہدہ کرنے والے تین اشخاص کے ناموں میں ’فضل‘ کا لفظ آتا تھا، اس لیے اس معاہدہ کا نام ’حلف الفضول‘ پڑ گیا۔ یہ معاہدہ تو صدیوں سے ختم تھا، لیکن اس کا نام اچھے لوگوں کے حافظہ میں تھا۔ اس کی بازگشت مکہ میں دوبارہ اس وقت سنائی دی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۰ سال تھی۔
قبیلۂ زبید کاایک تاجر سامان تجارت لے کر مکہ میں وارد ہوا۔ قرشی سردار عاص بن وائل نے سودا کر کے سامان اپنے قبضہ میں لے لیا، لیکن جب قیمت ادا کرنے کا سوال آیا تو لیت و لعل سے کام لینے لگا۔ تاجر نے اپنی جان پہچان کے لوگوں سے مدد چاہی تو عاص کی حیثیت کے پیش نظر کوئی شخص اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ مایوس ہو کر وہ علی الصبح کوہ ابی قبیس پر چڑھ کر دہائی دینے لگا کہ اے اولاد فہر، وادی مکہ میں ایک غریب الدیار اور بے سہارا شخص کا سامان ہتھیا لیا گیا۔ وہ پراگندہ بال ابھی حالت احرام میں ہے اور اس نے عمرہ ادا نہیں کیا۔ حجر اسود اور حطیم کے درمیان جلوہ افروز ہونے والو، اس کی مدد کو پہنچو، کیونکہ اس مقام کی حرمت کا مستحق شریف و کریم شخص ہے نہ کہ حق تلفی اور بد عہدی کرنے والا۔
یہ پکار سن کر زبیر بن عبدالمطلب اور بعض دوسرے لوگ بھاگ کر تاجر کے پاس گئے۔ اس نے صورت حال بیان کی تو زبیر کی تحریک پر لوگ قرشی سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے۔ سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ حلف الفضول کی طرز پر ایک نیا معاہدہ کیاجائے جس کے مقاصد یہ ہوں کہ ہم مسافروں کی حفاظت کریں گے، بے آسرا لوگوں کی معاونت کریں گے، زبردست کو کمزور پر ظلم کرنے سے روکیں گے اور مکہ میں مقامی و غیر مقامی کے درمیان امتیاز کیے بغیر ہر مظلوم کی نصرت و حمایت کریں گے۔ اس معاہدہ میں بنوہاشم، بنو مطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم شریک ہوئے۔
اس معاہدہ کے بعد سب نے مل کر عاص بن وائل سے زبیدی تاجر کو اس کا حق دلوایا اور بعد میں بھی بڑے لوگوں سے معاملہ کرنے میں یہ معاہدہ کام آتا رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم عین شباب میں اس معاہدہ میں شریک ہوئے، لیکن بعثت کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ عبداللہ بن جدعان کے گھر جو معاہدہ ہوا وہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اگر آج بھی مجھے کسی ایسے معاہدہ میں شرکت کی دعوت دی جائے تو میں اس کو فوراً قبول کر لوں گا۔۶؂

کسب معاش

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب معاشی جدوجہد میں باقاعدہ حصہ لینے کی ہوئی تو دوسرے قرشی نوجوانوں کی طرح آپ بھی تجارتی سفروں پر جانے لگے۔ آپ کے تجارتی سفروں کے بارے میں جتنا کچھ روایات میں آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ابتدائی سفر ابوطالب کی معیت میں شام کی طرف ہوئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابوطالب کوئی امیر آدمی نہ تھے، بمشکل اپنا کنبہ پالتے تھے۔ وہ ٹانگ سے معذور بھی تھے، اس لیے تجارتی سفروں پر جانا ان کے لیے مشکل تھا۔ ان کا ذریعۂ معاش عطر فروشی تھا یاکبھی کبھی وہ مقامی طور پر غلے کی تجارت کر لیا کرتے تھے۔۷؂ لہٰذا ان کی ہم راہی میں بارہ تیرہ سال کے بھتیجے کا اتنے طویل سفروں پر جانا ناقابل فہم ہے۔ البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زبیر کی کفالت میں تھے اور وہ ایک معروف تاجر تھے جو مختلف اطراف میں تجارتی سفر کیاکرتے، لہٰذا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر سفر کے قابل ہوئی ہو گی تو آپ ان کے ہم راہ شام، یمن، بحرین وغیرہ کو گئے ہوں گے۔ ابن کثیر کی روایت کے مطابق آپ چودہ برس کی عمر میں یمن گئے۔ ابتدا میں آپ کا سفر محض تعاون و تناصر کے لیے رہا ہو گا۔ بعد میں جیسے جیسے آپ کو کوئی تجارتی قافلہ مل جاتا ہو گا آپ سامان تجارت لے کر اس کے ہم رکاب ہو جاتے ہوں گے۔ سیرت کی کتابوں میں اگرچہ شام اور یمن کے سفروں ہی کا ذکر ملتا ہے، لیکن احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ملک عرب کے بہت سے علاقوں کو دیکھ رکھاتھا اور ان کے بارے میں آپ کی معلومات سنی سنائی نہیں تھیں، بلکہ چشم دید تھیں۔ حتیٰ کہ صحابۂ کرام کو تعجب ہوتا تھا کہ آپ ملک کے بعید گوشوں کے بارے میں ایسی معلومات رکھتے ہیں جو صرف ان علاقوں کے اصل باشندوں ہی کو حاصل ہیں۔ اس لیے امکان اس بات کا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تجارتی سفر اس سے کہیں زیادہ رہے ہوں گے جتنے کہ کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں۔
تجارت کی ابتدائی تربیت کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طور پر تجارت شروع کی تو مضاربت کے اصول پر دوسرے کے سرمایہ کے ساتھ اپنی محنت شامل کر کے کی۔ آپ قافلوں کے ساتھ شہر کے تاجروں کا مال لے کر دوسری منڈیوں میں جاتے اور مال بیچ کر منافع میں سے اپنا حصہ وصول کر لیتے۔ اس کام میں آپ کو معاملہ فہمی، صداقت، امانت اور دیانت کے باعث اتنی شہرت ملی کہ مکہ میں آپ کو صادق اور امین کہا جانے لگا۔ آپ پر اعتماد کر کے کسی کو پشیمانی نہ ہوتی۔ آپ پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ ہر معاملہ طے کرتے۔ اس کی شہادت طویل عرصہ بعد ایک صحابی سائب بن صیفی بن عائذ مخزومی نے دی۔ وہ مسلمان ہوئے تو لوگوں نے ان کی تعریف و تعارف میں کچھ باتیں کہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کو آپ لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، کیونکہ یہ ایک زمانہ میں میرے شریک تجارت رہے ہیں۔ سائب نے کہا کہ بلاشبہ آپ نے معاملہ ہمیشہ صاف رکھا۔ یہی شہادت قیس بن سائب مخزومی نے بھی دی۔ سائب رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر عتیق بن عائذ مخزومی کے حقیقی بھتیجے تھے۔
[باقی]


۱؂ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی۔ عیسیٰ البابی الحلبی مصر ۲/ ۳۱۰۔
۲؂ رحمۃ للعالمین ۔ قاضی سلیمان منصور پوری ۲/ ۱۶۔
۳؂ الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ۱/۷۶۔
۴؂ انساب الاشراف، بلاذری۔
۵؂ الاستیعاب، ابن عبدالبر ۲/۷۲۳۔
۶؂ الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ۱/ ۸۶۔
۷؂ المعارف، باب صناعات الاشراف ابن قتیبہ/ ۲۴۹۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت دسمبر 2006
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
3114 View