غوری صاحب: انسانوں میں عظیم انسان - کوکب شہزاد

غوری صاحب: انسانوں میں عظیم انسان

 

مجھے شہزاد نے کئی مرتبہ کہا کہ میں غوری صاحب کے لیے کچھ لکھوں، مگر مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ میں ان کے لیے کیا نئی بات لکھوں ۔ان کا ظاہر اور باطن ہر اس شخص پر واضح ہے جو ان سے مل چکا ہے ۔غوری صاحب کے نورانی چمکتے چہرے اور دھیمی آواز اور لہجے میں محبت و شفقت، مجھے ہر مرتبہ اس چیز کا احساس دلاتی کہ اگر دنیا میں فرشتے چلتے پھرتے ہوتے تو شاید وہ غوری صاحب جیسے ہوتے۔ان کی علمی حیثیت کیا تھی؟ اس کا علم تو اسی وقت ہوجاتا جب ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف الماریوں میں پڑی کتابوں پر نظر پڑتی ۔مجھے زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کے پاس شاید بہت علم ہوگا، لیکن ایک علمی آدمی میں اس قدر تحمل اور محبت شاید میں نے غوری صاحب ہی میں دیکھی ۔اپنے سے چھوٹے سے اس قدر محبت سے ملتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ ان کا پیکر محبت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے مسائل کو اپنے مسائل بنا لیتے ہوں ۔میں نے ایک مرتبہ ان سے درخواست کی کہ میرے بیٹے ابراہیم کے لیے دعا کیا کریں ۔کچھ عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے تہجد میں ابراہیم کے لیے دعا کرنے کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔
سن رکھا ہے کہ مہمان نوازی پیغمبروں کا شیوہ ہے اور یہ عادت غوری صاحب میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اکثر ہمیں یہ پیغام موصول ہوتا کہ آج دوپہر کا کھانا غوری صاحب کی طرف سے ہے اور پھر قورمے کی دیگ کا سالن اور نان اور سلاد اور ساتھ ہی کسی نہ کسی میٹھے سے نہ صرف ’’المورد‘‘، بلکہ باہر کے لوگوں کواس دعوت پر بلا کر ان کی تواضع کی جاتی ۔
ان کا علم خاص طور پر عیسائیت پر ان کی تحقیق ہم طالب علموں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے ۔کاش، ہم ان کی تحریروں اور تحقیق سے استفادے کا حق ادا کرسکیں۔ کبھی کبھی طبیعت کی خرابی کا ان سے ذکر کیا جاتا تو وہ ہومیو پیتھک دوا بھی تجویز کردیتے ۔ مجھے ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی باتیں سن کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا کہ جیسے کہیں ایک گھنے سایہ دار درخت کے سایے میں بیٹھی ہوں ۔وہ سبھی کے لیے ایسے تھے۔
عبدالستار غوری صاحب کے اس دنیا سے جانے کا دکھ تو بہت ہے، لیکن اطمینان بھی ہے کہ وہ اس خاص مقام پر پہنچ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انھی کے لیے بنایا ہوگا۔پرسکون اور دنیا کی ظلمتوں سے دور نعمت بھرے مقام پر ۔
اے اللہ، تو ان کی خطاؤں کو پانی سے ،اولوں سے اور برف سے دھو دے اور انھیں گناہوں سے ایسے صاف کردے، جیسے سفید اجلا کپڑا۔ آمین

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2014
مصنف : کوکب شہزاد
Uploaded on : Sep 10, 2016
2440 View