اعضا کی پیوند کاری - جاوید احمد غامدی

اعضا کی پیوند کاری

  پچھلی دو صدیوں میں سائنس نے جو کرشمے دکھائے اور انسانیت کے لیے جو سہولتیں پیدا کی ہیں، اُن میں سے ایک غیرمعمولی چیز یہ ہے کہ سرجری کے ذریعے سے انسان کے ناقص اعضا کسی دوسرے شخص کے تندرست اعضا سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ معاملہ زندگی میں بھی ہو سکتا ہے اور موت کے بعد بھی۔ اِس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ دین و شریعت کی رو سے کیا یہ جائز ہے کہ کوئی شخص زندگی میں اپنا کوئی عضو کسی کو ہبہ کر دے یا وصیت کرے کہ مرنے کے بعد یہ عضو دوسرے شخص کو دیا جا سکتا ہے؟
اِس سوال کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، اِس لیے کہ قرآن و حدیث میں بظاہر کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اِس میں مانع ہو، مگر برصغیر کے علما بالعموم اِسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اِس معاملے میں دو باتیں کہی جاتی ہیں:
ایک یہ کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے، لہٰذا اُس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مرنے سے پہلے اپنے اعضا کسی کو دینے کی وصیت کرے۔ آدمی کا جسم اُسی وقت تک اُس کے تصرف میں ہے، جب تک وہ خود اُس جسم میں رہتا ہے، اُس سے نکل جانے کے بعد اُس کا اِس جسم پر کوئی حق باقی نہیں رہتا کہ وہ اُس کے بارے میں وصیت کرے اور اُس کی یہ وصیت نافذ العمل قرار دی جائے۔
دوسری یہ کہ انسانی لاش کی حرمت قائم رہنی چاہیے۔ زندہ انسان اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اُن کا فرض ہے کہ مرنے والے کا جسم پورے احترام کے ساتھ دفن کر دیں۔ لاش کو چیرنا پھاڑنا یا اُس کا کوئی عضو کاٹ لینا اُس کی بے حرمتی ہے اور دنیا کا کوئی اخلاقی نظام اِس کی اجازت نہیں دے سکتا۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں محل نظر ہیں۔
اِس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے، مگر اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں انسان کو دی ہیں، حدود الٰہی کے اندر وہ اُن میں ہر طرح کے تصرف کا حق رکھتا ہے۔ چنانچہ عزت، آبرو، اہل و عیال اور اپنے وطن اور دین کے لیے وہ اپنی جان قربان کر دیتا ہے، اپنا مال لٹا دیتا ہے، اور یہ جانتے ہوئے کہ مارا جاؤں گا یا اپنا کوئی عضو کھو دوں گا، اِنھی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو جنگ میں جھونک دیتا ہے، آگ میں کود پڑتا ہے، بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید نے اِن تصرفات کو نفس اور مال کے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو جگہ جگہ ترغیب دی ہے کہ اپنی یہ چیزیں وہ اِن مقاصد کے لیے خرچ کریں۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن اِس حق تصرف کو تسلیم کرتا ہے۔
انسان کا حق وصیت اِسی حق تصرف کا لازمہ ہے۔ چنانچہ ہم جس طرح یہ حق رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اپنے مال کے بارے میں وصیت کریں، اِسی طرح یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ اپنے جسم کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے بارے میں وصیت کر دیں۔ اپنا کوئی عضو کسی شخص کو دینے کی وصیت بھی اِسی قبیل سے ہے۔ پہلی سب چیزیں اگر جائز ہیں اور آدمی کے اپنے جسم سے نکل جانے کے باوجود ہو سکتی ہیں تو اعضا کے بارے میں وصیت کو ناجائز کس طرح قرار دیا جا سکتاہے؟
لاش کی بے حرمتی کو بھی اِسی طرح دیکھنا چاہیے۔ اِس کا تعلق نیت اور محرکات سے ہے۔ کسی شخص کے عضو کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے قصاص اور دیت کے احکام دیے گئے ہیں، لیکن مریض کی اجازت سے ایک ڈاکٹر اُس کا ہاتھ یا پاؤں کاٹ دیتا ہے تو کوئی شخص بھی اُسے مجرم قرار نہیں دیتا۔ پھر مقتول کی لاش پر گھوڑے دوڑانے یا اُس کا مثلہ کرنے اور تحقیق و تفتیش کے لیے اُس کا پوسٹمارٹم کرنے میں فرق کیوں نہ کیا جائے؟ آدمی اپنا مال کسی ضرورت مند کو دینے کی وصیت کرے تو یہ ایک نیکی کا کام ہے، اِسی طرح اپنا کوئی عضو کسی ضرورت مند کو دینے کی وصیت کرے تو اِسے بھی نیکی ہی کہنا چاہیے۔ اِس کی تعمیل کو لاش کی بے حرمتی کیوں سمجھا جائے؟

 -----------------------------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2010

مصنف : جاوید احمد غامدی