عراق، امریکہ اور ہم - طالب محسن

عراق، امریکہ اور ہم

  عراق امریکہ کا ہدف ہے۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے ہیں کہ عراق نے کوئی قصور کیا ہے یا نہیں۔ نہ ہمیں اس سے فی الحال غرض ہے کہ امریکہ انصاف اور امن کے قیام کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے یا اس کا ہدف اپنے کچھ سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔
ہمارا مسئلہ ہم ہیں۔اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔کن خطوط پر سوچنا چاہیے اور ہم اس صورت حال سے نکلنے کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
فرض کیجیے، عراق مجرم ہے اور صدام حسین قرار واقعی سزا کا مستحق ہے۔ اس صورت میں مسلم اجتماعیت کس کے ساتھ کھڑی ہو۔ حق تو یہ ہے کہ حق کے ساتھ کھڑی ہو۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو جائے اور عراق کی تباہی کے لیے امریکہ کی حلیف بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ہدف مسلم اجتماعیت اپنے انداز میں پر امن ذرائع سے حاصل کر سکتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر یہ اعلان کرے کہ مسلمان امریکہ کی جارحیت میں اس کے ساتھی نہیں ہیں اور مسئلہ کے حل کے لیے صرف سفارتی ذرائع اختیار کیے جائیں۔ خود مسلم اجتماعیت بھی اپنے سفارتی ذرائع کو صورت احوال کی اصلاح کے لیے پوری قوت کے ساتھ استعمال کرے اور صدام حسین کو عراق اور بحیثیت مجموعی امت کی تباہی کا باعث نہ بننے دے۔ جبکہ افغانستان کے معاملے میں اس طرح کی خاموشی اختیار کرکے ہم نقصان اٹھانے کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں۔مسلم عوام آگے بڑھیں اور جنگ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی طاقت میں اضافہ کریں اور اپنے ملک کے حکمرانوں پر یہ دباؤ بڑھائیں کہ وہ امن کے لیے جدوجہد میں زیادہ سرگرم ہوں۔
موجودہ خاموشی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم امت پر شدید بے بسی کی حالت طاری ہے۔یہ حالت واضح ہے کہ پے درپے ناکامیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ ناکامیوں کے اس اثر کو زائل کرنے کے لیے اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہم نے پچھلے دو سو سالوں میں حقیقی جواز اور حقیقی تیاری کے بغیر ٹکراؤ کی راہ اختیار کیے رکھی ہے۔ جب جوازاور تیاری حقیقی نہ ہواور آدمی اپنی سعی سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لے ، لیکن نتیجہ کامل ناکامی کی صورت میں نکلے تو یہ کیفیت پیدا ہونا لازمی ہے۔مایوس ہو کر بیٹھ جانا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ ناکامی کا ایک سبب تھا ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اس سبب کو دور کریں اور نئے فیصلے اور نئے عزم کے ساتھ جدوجہد میں جت جائیں۔
عراق امریکہ تناظر میں ہمارا پہلا کام امریکہ کے لیے حملے کا اخلاقی جواز ختم کرنا ہے اور اس کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ امت مسلمہ اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے اور ہر جائز شکایت کو دور کرنے کی راہ اختیار کرے۔
فرض کیجیے، امریکی عزم جارجیت محض ظلم ہے۔ امریکہ طاقت کے نشے میں ہر اخلاقی قدر کو پامال کرنے پر تلا ہوا ہے۔امریکہ کہانی کا ’بھیڑیا‘ اور عراق ’بھیڑ کا بچہ‘ ہے۔لیکن ایسا کیوں ہے کہ عراق خود مسلم برادری میں اکیلا رہ گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمی برادری میں خود مسلمان اگر مجرم نہیں ہیں تو اپنی بعض غلط پالیسیوں کے باعث بدنام ضرور ہیں۔ دوسرے بہت سے اسباب کے ساتھ یہ ایک سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم امت سفارتی محاذ پر عالمی برادری کا سامنا نہیں کر پاتی۔ یوں امریکہ جس مسلم ملک کو ہدف بنانا چاہتا ہے ، اسے اکیلا پاتا ہے ۔
یہاں بھی ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ظلم کو ظلم کہیں اور ایسے حالات پیدا کردیں کہ امریکی جارحیت ننگی جارحیت نظر آئے اور ہم عالمی ضمیر کو اخلاقی طاقت سے جھنجھوڑ سکیں۔
دونوں صورتوں میں جو لائحۂ عمل ہم نے تجویز کیا ہے۔ اس کا تعلق مسلم اجتماعیت سے ہے۔ انفرادی اعتبار سے ہر مسلمان صرف اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو صحیح لائحۂ عمل اختیار کرنے کی تلقین کرے اور اس کے لیے اگر ضرورت ہو تو پرامن جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہو۔منکر کے استیصال کے لیے جدوجہد لازم ہے، لیکن اس کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا جو اخلاقی، قانونی اور دینی ضوابط کو پامال کر دے۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2003
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 17, 2016
2323 View