اہل دعوت کا مسئلہ - سید منظور الحسن

اہل دعوت کا مسئلہ

 

ہمارے اہل دعوت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دین کو اس کی کامل صورت میں پیش کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اس کے برعکس، وہ اجزاے دین کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ عامۃ الناس کسی ایک جز کو مکمل دین تصور کر نے لگتے ہیں ۔ ان کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دعوت ، جہاد یا کسی دوسرے جز ودین کو مخصوص زاویۂ نظر کے تناظر میں مرکز و محور بنا یا جاتا ہے اور پھر فکر و عمل اور دعوت و تربیت کی تمام سرگرمیاں اس سے وابستہ کر دی جاتی ہیں۔ علم و تحقیق کا کام اسی خاص جز کی تفصیل جاننے کے لیے کیا جاتا ہے، تصانیف اسی کی وضاحت کے لیے تالیف ہوتی ہیں، رسائل اسی کے ابلاغ کے لیے جاری ہوتے ہیں ، درس گاہیں اسی کی تعلیم کے لیے قائم کی جاتی ہیں ، جماعتیں اور تحریکیں اسی کے بارے میں راے عامہ ہموار کرنے کے لیے منظم ہوتی ہیں ، غرض یہ کہ دعوت کے تمام مظاہر اسی جز کی تفصیل کر رہے ہوتے ہیں ۔ دین کے باقی اجزا کو اول تو بیان ہی نہیں کیا جا تا او ر اگر کبھی ضرورت پیش آجائے تو اس خاص جز کے لوازم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 
دعوت ، دین کا ایک جز ہے، مگر بعض اہل علم نے اسے اس طریقے سے پیش کیا ہے کہ یہ جز دین کے پورے وجود پر حاوی محسوس ہوتا ہے۔ ہر خاص و عام کو کار دعوت کا مکلف قرار دیا جاتا ہے، مگر ہر شخص ، ظاہر ہے کہ اس کی صلاحیت اور استطاعت نہیں رکھتا کہ قرآن ، سنت ، حدیث اور فقہ کے علوم پر دسترس حاصل کر سکے اور انھیں تدریس ، تقریر یا تحریر کے پیرائے میں لوگوں کے مختلف طبقات تک پہنچاسکے ۔ چنانچہ دین کے مشمولات میں سے چند نکات پر دعوت دین کا عنوان قائم کر کے انھیں ہر کس و ناکس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے نمایاں مثال تبلیغی جماعت کا کام ہے۔ ان کی دعوت چھ نکات پر مبنی ہے۔ ان میں سے ’تصحیح کلمہ ‘سے مراد الفاظ کو صحت کے ساتھ زبان سے ادا کرنا ہے؛ ’تصحیح نماز ‘سے مراد کلمات نماز کو یاد کرنا ہے؛ ’تصحیح علم و ذکر ‘سے مراد فضائل کا مذاکرہ اور کلمات ذکر یاد کرنا ہے؛ ’تصحیح نیت ‘سے مراد چھ نکاتی پروگرام کی تبلیغ کے لیے نیت کرنا ہے؛ ’اکرام مسلم ‘سے مراد مسلمانوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ہے اور ’تفریغ وقت ‘سے مراد متعین دنوں کے لیے چھ نکات کی دعوت لے کر لوگوں کے پاس جانا ہے ۔ یہ اجزا اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں ، مگر انھیں اس طرح پیش کرنا کہ یہ دین کی کلی دعوت قرار پائیں ، دین کے لیے فائدے کے بجاے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
بعض علما جہاد کو دین کے اصل پیغام کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ دین کے اس جز کو وہ اس طریقے سے سامنے لاتے ہیں کہ ہرشخص جہاد و قتال ہی کو مکمل دین تصور کر نے لگتا ہے۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ دین کی بقا اور تبلیغ و اشاعت اسی صورت میں ممکن ہے جب دشمنان اسلام کے خلاف برسر پیکار ہوا جائے ۔ اس راہ میں اگر دنیوی منزل نہ بھی حاصل ہو ، تب بھی یہ خسارے کا سودا نہیں ہے، کیونکہ اخروی منزل تو بہرحال حاصل ہو کر رہے گی ۔ اس تناظر میں عام آدمی کو دین پر عمل کرنے کی بہترین صورت یہی نظر آتی ہے کہ وہ تمام معاملات زندگی کو ترک کر کے میدان جہاد کا رخ کرے اور جام شہادت نوش کر کے جنت میں اپنا مقام محفوظ کر لے ۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ ان میں سے بعض اسالیب دین میں اپنی اصل ہی کے لحاظ سے بے بنیاد ہیں ، مگر اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم صرف اس پہلو کی طرف متوجہ کر نا چاہتے ہیں کہ دین کو اس کے اجزا کے لحاظ سے پیش کر نا اس کی دعوت کے لیے نہایت ضرر رساں ہے ۔ اس طرز عمل سے یہ نتائج لازمی طور پر نکلتے ہیں : 
اولاً، دین اپنی کامل صورت میں لوگو ں کے سامنے نہیں آتا۔ 
ثانیاً، مسلم اور غیر مسلم ، دونوں طبقات کسی خاص جز ہی کے پہلو سے دین سے متعارف ہوتے ہیں ۔ 
ثالثاً، عام لوگوں کی اکثریت مخصوص اجزا ے دین ہی کو دینی اہداف سمجھ کر اختیار کرتی ہے ۔ 
چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی دعوت پیش کرتے ہوئے دو امور کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ ایک یہ کہ دین کو اپنی کامل صورت میں بحیثیت مجموعی پیش کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دین کے ہر جز کو وہی وزن دیا جائے جو خود دین نے اسے دیا ہے۔ زمانی یا مقامی مصلحتوں کا خیا ل کر کے بعض اجزا کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ دین کا اپنا قائم کیا ہوا توازن بگڑ جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل علم ان امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کی دعوت پیش کریں ۔ وہ لوگو ں پر یہ واضح کریں کہ دین کی حقیقت اللہ کی بندگی ہے او ر دینی زندگی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود میں فکروعمل کی تمام جہتیں اصلاً بندگی رب کے لیے متعین کرے ۔ انھیں بتائیں کہ دین کا مقصود تزکیۂ نفس ہے اور جنت کے انعام کے مستحق وہی لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے نفوس کو شیطانی آلایشوں سے پاک رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہیں۔ انھیں یہ تعلیم دیں کہ دین محض اذکار اور رسوم کا نام نہیں ہے، بلکہ اس نے شریعت کی صورت میں عبادت ، معاشرت ، سیاست ، معیشت ، دعوت ، جہاد ، حدودو تعزیرات ، غرضیکہ ہر شعبۂ زندگی کے لیے بنیادی اصول و قوانین وضع کیے ہیں۔ ان کی پاس داری ضروری ہے اور ان کا انکار دین کے انکار کے مترادف ہے۔ اسی جامع اسلوب میں دین کی دعوت دین و دانش کا تقاضا ہے۔ اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دین کو پوری بصیرت کے ساتھ سمجھیں اور اسے مکمل طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2017
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Jul 20, 2017
2608 View