شکار اور اہل کتاب کے برتن - ساجد حمید

شکار اور اہل کتاب کے برتن

 قَالَ۱؂ أَبُوْثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، [فَصَعَّدَ فِیَّ النَّظْرَ ثُمَّ صَوَّبَہُ فَقَالَ: نُوَیْبِتَۃٌ قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ نُوَیْبِتَۃٌ خَیْرٌ أَوْ نُوَیْبِتَۃٌ شَرٌّ قَالَ بَلْ نُوَیْبِتَۃٌ خَیْرٌ].۲؂ [فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُکْتُبْ لِیْ بِأَرْضِ کَذَا وَکَذَا بِأَرْضٍ بِالشَّامِ لَمْ یَظْہَرْ عَلَیْہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَءِذٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَا تَسْمَعُوْنَ إِلَیَّ مَا یَقُوْلُ ہٰذَا فَقَالَ أَبُوْ ثَعْلَبَۃَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَتَظْہَرُنَّ عَلَیْہَا قَالَ فَکَتَبَ لَہُ بِہَا].۳؂ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: إِنَّا بِأَرْضِ قَوْمِ أَہْلِ الْکِتَابِ نَأْکُلُ فِیْ آنِیَتِہِمْ، وَأَرْضِ صَیْدٍ أُصِیْدُ بِقَوْسِیْ، وَأُصِیْدُ بِکَلْبِیَ الْمُعَلَّمِ وَالَّذِیْ لَیْسَ مُعَلَّمًا، فَأَخْبِرْنِیْ مَا الَّذِیْ یَحِلُّ لَنَا مِنْ ذٰلِکَ؟
فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَکَرْتَ أَنَّکَ بِأَرْضِ قَوْمِ أَہْلِ الْکِتَابِ تَأْکُلُ فِیْ آنِیَتِہِمْ فَإِنْ وَجَدْتُّمْ غَیْرَ آنِیَتِہِمْ فَلَا تَأْکُلُوْا فِیْہَا، وَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا فَاغْسِلُوْہَا، ثُمَّ کُلُوْا فِیْہَا. وَأَمَّا مَا ذَکَرْتَ أَنَّکَ بِأَرْضِ صَیْدٍ فَمَا صِدْتَّ بِقَوْسِکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ ثُمَّ کُلْ [ذَکِیًّا وَغَیْرَ ذَکِیٍّ].۴؂ [قَالَ وَإِنْ تَغَیَّبَ عَنِّیْ قَالَ وَإِنْ تَغَیَّبَ عَنْکَ مَا لَمْ یَضِلَّ أَوْ تَجِدْ فِیْہِ أَثْرًا غَیْرَ سَہْمِکَ]۵؂ وَمَا صِدْتَّ بِکَلْبِکَ الْمُعَلَّمِ [فَأَمْسَکَ عَلَیْکَ]۶؂ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ ثُمَ کُلْ [قَالَ قُلْتُ وَاِنْ قَتَلَ قَالَ وَاِنْ قَتَلَ].۷؂ وَمَا صِدْتَّ بِکَلْبِکَ الَّذِیْ لَیْسَ مُعَلَّمًا فَأَدْرَکْتَ ذَکَاتَہُ فَکُلْ.
[قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا یَحِلُّ لَنَا مِمَّا یُحَرَّمُ عَلَیْنَا قَالَ لَا تَأْکُلُوْا لُحُوْمَ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ وَلَا کُلَّ ذِیْ نَابٍ مِّنَ السِّبَاعِ].۸؂
ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے نظر اٹھا کر میرے (قد بت) کو دیکھا، پھرنگاہیں نیچی کیں اور فرمایا: نو خیز نسل! ابو ثعلبہ نے پوچھا: یا رسول اللہ، نوخیز نسل، اچھی یا بری؟ آپ نے فرمایا: اچھی۔ پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ، میرے لیے ملک شام کے فلاں علاقے کی زمین لکھ دیں، یہ وہ زمانہ تھا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابھی شام پر غلبہ نہیں ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: سنو، یہ کیا کہتا ہے! تو ابو ثعلبہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ شام پر ضرور غلبہ پائیں گے تو آپ نے وہ زمین ابو ثعلبہ کے نام لکھ دی۔ پھر میں نے آپ سے دریافت کیا کہ جناب رسالت مآب، ہم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں، ہمیں ان کے برتن استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اور (دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ) ہم ایسے علاقے میں ہیں، جہاں روزگار کا مدار شکار پر ہے۔ میں تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور سدھائے ہوئے اور نہ سدھائے ہوئے کتے سے بھی۔ آپ سے میراسوال یہ ہے کہ مجھے بتائیے کہ ان میں سے کیا چیز میرے لیے حلال ہے اورکیا نہیں؟
آپ نے (سن کر) فرمایا: یہ بات جو تم نے کہی ہے کہ تم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہو اور تمھیں ان کے برتنوں میں کھانا پڑتا ہے تو (اس کا حل یہ ہے کہ) اگر تمھارے پاس ان کے برتنوں کے علاوہ برتن ہوں تو پھر ان کے برتنوں میں ہر گز نہ کھاؤ اور اگر کوئی اور برتن نہ ہو تو پھر ان کے برتنوں کو دھو کر ان میں کھانا کھاؤ۔۱؂
تم نے جو یہ بات کہی کہ تم شکار کے علاقے میں رہتے ہو تو جو تم تیر سے شکار کرو تو اس پر اللہ کا نام لے کر کھا لو،خواہ تذکیہ کرسکو یا نہ کرسکو۔ انھوں نے پوچھا کہ اگر وہ شکار تیر لگنے کے بعد غائب ہو جائے؟ تو آپ نے فرمایا کہ پھر یہ دیکھو کہ اس میں تمھارے تیر کا نشان ہے اور دوسرے یہ کہ تیر کے علاوہ تو کسی زخم وغیرہ کا نشان نہیں ہے۔رہا معاملہ سدھائے ہوئے کتے کے شکار کا تو اگر وہ شکار کوتمھارے لیے روکے ہوئے ہوتو اس پر اللہ کا نام لے کر کھا لو۔ کہتے ہیں: میں نے کہا: خواہ اس نے شکار کو مار ڈالا ہو، آپ نے فرمایا: ہاں، خواہ اسے اس نے مار ڈالا ہو۔ البتہ غیر سدھائے ہوئے کتے کے شکارکا جو معاملہ ہے تو اس میں یہ کرو کہ اگر تم شکار کو ذبح کر سکنے کا موقع پا لو تو اسے تم کھا سکتے ہو۔۲؂
ابو ثعلبہ کہتے ہیں: میں نے ایک اور بات پوچھی کہ ہمارے لیے جو چیزیں (پہلے )ممنوع کی گئیں، ان میں سے کچھ حلال ہیں؟ آپ نے فرمایا: بس گورخر نہ کھاؤ اور ہر کچلی والا درندہ نہ کھاؤ۔۳؂

ترجمے کے حواشی

۱۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے اہل کتاب کا کھانا حلال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کھانے پینے میں ان کے کھانے اور برتن پاک سمجھے جائیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کو دھو کر استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان برتنوں کی بات ہے جن کو اہل کتاب شراب وغیرہ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کسی ناپاک یا شراب جیسی حرام چیز کے لیے ہم جب اپنا برتن بھی استعمال کریں گے تو بعد میں کھانے پینے کے لیے اسے دھونا ہی پڑے گا۔آگے متن کے حواشی میں وہ طرق آجائیں گے جن سے برتنوں کے بارے میں یہ تفصیل سامنے آجائے گی۔کچھ روایتوں، جیسے سنن البیہقی الکبریٰ، رقم۱۸۶۹۱ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید صرف مجوس کے برتنوں کی بات تھی ، چونکہ ان کا کھانا حلال نہیں کیا گیا، اس لیے ان کے برتن بھی دھوئے جائیں گے۔
۲۔ یہ شکار کے احکام ہیں۔قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور جو ہمارے کھانے کے لیے حلال اور پاکیزہ ہے، وہ بھی دو وجہوں سے ہم پر حرام ہو جاتا ہے (یہاں واضح رہے کہ کمائی کے ذرائع کی وجہ سے ہونے والی حرمت زیر بحث نہیں ہے ، بلاشبہ ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا جانور بھی حرام ہوتا ہے، لیکن یہاں ہم ذبح اور شکار کی وجہ سے حلال و حرام ہونے کے اسباب تک گفتگو کو محدود رکھے ہوئے ہیں)۔
پہلی وجہ موت ہے، موت خواہ طبعی ہو یا حادثاتی، دونوں ہی جانور کے گوشت کو حرام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سوائے اس کے کہ مرنے سے پہلے پہلے ہمیں جانور کو ذبح کرنے کا موقع مل جائے۔ حادثات کی کچھ شکلیں قرآن نے بیان فرمادی ہیں:

...وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ.... (المائدہ۵:۳)
’’...اور وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے، یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں، مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو...۔‘‘

شکار کو اللہ تعالیٰ نے حادثاتی موت سے الگ قرار دیا ہے اور شکار کرنے کے صحیح طریقے کو تذکیہ کا قائم مقام بھی مانا ہے ۔اوپر مذکورہ آیت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے شکار کو حلال قرار دیا ہے ۔جس میں مردار کی دونوں قسموں (طبعی اور حادثاتی)کو حرام قرار دیا تھا۔ چنانچہ مطلب یہ ہوا کہ شکار کردہ جانور مردار نہیں ہے۔البتہ کسی درندے نے اگر کسی جانور کو پھاڑ کر کھایا ہو تو اس کے بارے میں قیاساً یہ کہا جا سکتا تھا کہ اس کا تو خون بہ چکا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مردار ہی میں شامل کیا ہے ۔ سوائے اس کے کہ ہمیں وہ زندہ حالت میں مل جائے اور اسے ہم ذبح کرکے تذکیہ کرلیں:

یَسْءََلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ. (المائدہ ۵:۴)
’’تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے)کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہیں اور وہ (شکار)بھی حلال ہے جو تمھارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے اللہ نے تمھیں (شکار کرنا)سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمھارے لیے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں شکار کی حلت کے لیے تین چیزیں لازم کی گئی ہیں، ہر شکار میں یہ باتیں پوری ہونی چاہییں:
ا۔ اس جانور کا کیا ہو ا شکار ہوجس کو شکار کرنا سکھایا گیا ہو۔
ب۔اس نے وہ شکار خود نہ کھایا ہو، بلکہ ہمارے لیے روک رکھا ہو (اگر وہ خود شکار کو کھانے لگ جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے وہ شکار خود کھانے کے لیے مارا ہے ، ہمارے لیے نہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ اس نے سکھائے ہوئے طریقے کو اپنایا ہو)۔
ج۔ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
سکھانے کا مطلب، ظاہر ہے، یہ ہے کہ شکار میں وہ طریقے اختیار کیے جائیں جو تذکیہ کے قریب ہوں، یعنی وہ طریقے جس میں جانور کی موت جسم کے کٹنے کے بعد خون بہ کر واقع ہوئی ہو۔شکاری جانور شکارکا جسم پھاڑے اور تیر یا گولی اس کے جسم کو اس طرح چھید ڈالے کہ اس کا خون بہ جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتو وہ میتہ (مردار) ہے، اسی لیے قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درندے اور ایسے جانور کے شکار، جو سدھایا ہوا نہ ہو، کو حرام قرار دیا ہے ۔ البتہ اس صورت میں وہ حلال ہو گا، اگر ہمیں اس کے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کرنے کا موقع مل جائے۔
سورۂ مائدہ (۵)کی آیت ۹۴سے نیزے سے کیے ہوئے شکارکی اباحت بھی معلو م ہوتی ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.
’’مومنو،کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو اللہ تمھاری آزمایش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے، اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔‘‘

اس لیے نیزے اور تیر وغیرہ سے مارا گیا شکار بھی جائز ہو گا۔ اوپر کی تینوں آیات کے یکجا سمجھنے اور حدیثوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے ہتھیار شکار کے لیے صحیح نہیں ہیں جو فوری موت کا سبب بن جائیں ، اس لیے کہ فوری موت کی وجہ سے خون بہنے کا وقت نہیں ملتا اور جانور میتہ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے مرنے کی جو حادثاتی صورتیں بتائی ہیں، وہ سب وہ ہیں جن میں خون بہ کر موت نہیں ہوئی، اس لیے شکار میں بھی ایسے طریقے اختیار نہیں کیے جا سکتے جن میں جانور محض چوٹ سے مرے اور اس کا خون نہ بہے۔اسی طرح اگر صحیح طریقے سے شکار ہوا ہے تو تذکیہ کا موقع ملے یا نہ ملے، وہ حلا ل ہو گا، اس لیے کہ خون بھی بہ چکا ہے اور جانور چھوڑتے وقت اللہ کا نام بھی لیا جا چکا ہے۔
حلال جانور کے گوشت کے حرام ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یا اللہ کے بجاے کسی اورکا نام لیا گیا ہو، شکار کے حرام ہونے میں یہ بات بھی وجۂ حرمت ہے۔قرآن مجیدسے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کا نام لینے سے یا سرے سے اللہ کا نام ہی نہ لیا جائے ، دونوں سے ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جانور ذبح کرتے وقت اسے اگر کسی مزار یا استھان پر یا اس کے لیے نذر اور چڑھاوے کے لیے ذبح کیا گیا ہے تو وہ بھی حرام ہو جائے گا۔ ان تمام باتوں کے لیے قرآن کی آیات بالترتیب ذیل میں ہیں :

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ...وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ....(البقرہ۲:۱۷۳)
’’تم پر حرام کردیا ہے ... وہ چیز یا جانورجس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے...۔‘‘

وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ....(الانعام۶:۱۲۱)
’’اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے، اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے ...۔‘‘

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ...وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ....(المائدہ ۵:۳)
’’حرام ہیتم پر ... وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے...۔‘‘

ہماری زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اور سدھائے ہوئے کتے کے شکار کو اللہ کا نام لے کر کھانے کی اجازت دی ہے تو یہ اسی وجہ سے کہ یہ شکار کیا گیا جانور ہے، مردار نہیں ہے اور اس وجہ سے کہ اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہے۔ البتہ غیر سدھائے ہو ئے جانور کو آپ نے اصلاً حلال نہیں کیا، بلکہ صرف اسی صورت میں حلال کیا ہے کہ جب ہم اسے ذبح کرنے کا موقع پا لیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورۂ مائدہ کی تیسری آیت کے اس جملے ’وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کے تحت رکھا ہے، یعنی آپ نے غیر سدھائے ہوئے جانور کے شکار کو محض ایک جنگلی درندے کا شکار قرار دیا ہے جو صرف اسی صورت میں حلال ہے، اگر ہم اس کا تذکیہ (ذبح) کرنے کاموقع پا لیں۔
خلاصہ کے طور پر دو اہم نکات یہ ہیں کہ شکار میں جانور کے مارنے کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو ذبح کے قائم مقام ہو سکے ۔ اور دوسرے یہ کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
شکار سے متعلق ہماری اس شرح میں زیر بحث آنے والی یہ پہلی حدیث تھی ، اس لیے ہم نے اس میں شکار سے متعلق بنیادی احکام واضح کردیے ہیں، آیندہ شکار سے روایتوں میں مختصر توضیح کفایت کرتی رہے گی۔
۳۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ دور جاہلیت میں ہم جن چیزوں کو حرام سمجھتے رہے ہیں، کیا ان میں سے بھی کچھ ہم لوگوں کے لیے مزید آسانی ہوئی ہے یا نہیں ؟ جن کی معاش کا انحصار شکار پر ہوتا ہے، ان کے لیے یہ زیادہ سہولت ہے کہ جانوروں کی وہ تمام قسمیں معلوم ہوں جن کو وہ شکار کرکے کھا سکیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رہنمائی کردی۔یہ جواب غالباً مکمل نہیں ہے۔ خورونوش سے متعلق دیگر احادیث میں ان موضوعات پر بحث ہو چکی ہے، اس لیے یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
متن کے حواشی
۱۔ یہ روایت بخاری، رقم ۵۱۷۰ ہے۔ یہی روایت الفاظ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ ان مقامات پر بھی آئی ہے: صحیح بخاری، رقم ۵۱۶۱، ۵۱۷۷؛ صحیح مسلم، رقم ۱۹۳۰؛سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۳۰، ۱۹۴۹۶، ۱۸۶۹۷، ۱۸۷۱۸، السنن الکبریٰ، رقم ۴۷۷۷؛ سنن ابی داؤد، رقم ۲۸۵۵؛ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۲۰۷؛ مسند احمد، رقم ۱۷۷۸۷۔ اس کے علاوہ یہی روایت ان کتابوں میں بھی آئی ہے:
سنن البیہقی الکبریٰ، رقم۱۸۶۶۲، ۱۸۶۶۳، ۱۸۶۹۱، ۱۸۷۰۱، ۱۹۴۹۷؛ صحیح مسلم، رقم۱۹۳۰؛ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۷۹؛ السنن الکبریٰ،رقم ۴۷۷۷ ؛ مسند الامام احمد بن حنبل، رقم ۱۷۷۶۸، ۱۷۷۷۲، ۱۷۷۸۳، ۱۷۷۸۵؛ سنن ابی داؤد، رقم ۲۸۵۶، ۲۸۵۷، ۲۸۵۲؛ سنن الترمذی، رقم ۱۴۶۴، ۱۷۹۷؛ سنن النسائی (المجتبیٰ)، رقم ۴۲۶۶؛ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۲۱۱۔ اس روایت کے بعض طرق میں درج ذیل مختلف باتیں ملتی ہیں:
ا۔سنن البیہقی الکبریٰ، رقم۱۹۴۹۷ میں یہ روایت کچھ اضافوں کے ساتھ آئی ہے ۔ ایک اضافہ تو صحابی کے اس سوال میں ہے کہ تیر سے شکار میں کبھی میں تذکیہ کا موقع پا لیتا ہوں اور کبھی نہیں پاتا ۔ دوسرا اضافہ اہل کتاب کے برتنوں کے حوالے سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے برتنوں میں سؤر کا گوشت پکاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں ۔ تیسرا اضافہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے برتنوں کو دھونے میں بہت اچھی طرح دھونے پر زور دیا ہے:

قَالَ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ أَنِّیْ أَرْمِیْ بِقَوْسِیْ فَمِنْہُ مَا أُدْرِکُ ذَکَاتَہُ وَمِنْہُ مَا لَا أُدْرِکُ فَمَاذَا یَحِلُّ لِیْ وَمَا یُحَرَّمُ عَلَیَّ؟ إِنَّا فِیْ أَرْضِ أَہْلِ الْکِتَابِ وَہُمْ یَأْکُلُوْنَ فِیْ آنِیَتِہِمُ الْخِنْزِیْرَ وَیَشْرَبُوْنَ فِیْہَا الْخَمْرَ فَنَأْکُلُ فِیْہَا وَنَشْرَبُ؟ قَالَ کُلَّ مَا رَدَّ عَلَیْکَ قَوْسُکَ وَذَکَرْتَ اِسْمَ اللّٰہِ فَکُلْ وَإِنْ وَجَدْتَّ عَنْ آنِیَۃِ أَہْلِ الْکِتَابِ غِنًی فَلَا تَأْکُلْ وَإِنْ لَّمْ تَجِدْ عَنْہَا غِنًی فَارْحَضُوْہَا بِالْمَاءِ رَحْضًا شَدِیْدًا ثُمَّ کُلُوْا فِیْہَا‘ (ابو ثعلبہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول، میں اپنی کمان سے تیر چھوڑتا ہوں تو کبھی تو جانور کو ذبح کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور کبھی نہیں ملتا تو بتائیے کہ میرے لیے ان میں سے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے؟ (دوسری بات یہ کہ ) ہم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں، وہ اپنے برتنوں میں سؤر کا گوشت کھاتے اور ان میں شراب پیتے ہیں تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں؟آپ نے فرمایا: جو تمھارا تیر تمھارے لیے لائے ، اور تم نے اس پر اللہ کا نام پڑھا ہوا ہے تو اسے کھاؤ اور اگر تم اہل کتاب کے برتنوں سے بچ سکو تو ان میں ہر گز نہ کھاؤ۔اور اگرتم اہل کتاب کے برتنوں سے بچنے کی کوئی صورت نہ پاؤ تو انھیں پانی سے اچھی طرح دھو لیا کرو، پھر ان میں کھا پی سکتے ہو)۔

ب۔ امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم ،رقم ۱۹۳۰ میں یہی روایت لائے ہیں، مگر لکھتے ہیں کہ اس روایت میں تیر سے شکار کا ذکر نہیں ہے۔
ج۔السنن الکبریٰ، رقم۴۷۷۷ میں جو روایت آئی ہے، اس میں اہل کتا ب کے برتنوں کا ذکر نہیں ہے۔مسند الامام احمد بن حنبل، رقم ۱۷۷۸۵ میں برتنوں سے متعلق سوال ان الفاظ میں آیا ہے: ’أَفَنَطْبَخُ فِیْ قُدُوْرِہِمْ وَنَشْرَبُ فِیْ آنِیَتِہِمْ‘ (کیا ہم ان کی ہنڈیا میں پکا لیا کریں اور ان کے برتنوں میں پی لیا کریں)۔
د۔مسند الامام احمدبن حنبل، رقم ۱۷۷۶۸ میں اہل کتاب کے علاقے میں رہنے کے بجاے وہاں سے گزرنے کا ذکر ہے: ’قَالَ قُلْتُ اِنَّا أَہْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی وَالْمَجُوْسِ وَلَا نَجِدُ غَیْرَ آنِیَتِہِمْ...‘ (انھوں نے عرض کی کہ ہم مسافر لوگ ہیں اور ہمارا گزر یہود و نصاریٰ اور مجوس کے علاقے سے ہوتا ہے تو ہمیں بس انھی کے برتن میسر ہوتے ہیں...)۔
۲۔ یہ اضافہ مسند الامام احمد بن حنبل، رقم ۱۷۷۸۳ سے کیا گیا ہے۔
۳۔یہ اضافہ مسند الامام احمدبن حنبل، رقم ۱۷۷۷۲ سے کیا گیا ہے۔
۴۔یہ اضافہ سنن ابی داؤد، رقم۲۸۵۶ اور ۲۸۵۷ سے کیا گیا ہے۔ مسند الامام احمد بن حنبل، رقم ۱۷۷۸۵ میں جملہ یوں ہے: ’وَکُلَّ مَا رَدَّ عَلَیْکَ سَہْمُکَ وَاِنْ قَتَلَ‘ (ہر وہ شکار جو تیر تیرے لیے مارے، وہ کھا لو، خواہ وہ تیر اسے مار ڈالے)۔
۵ ۔ یہ اضافہ سنن ابی داؤد، رقم ۲۸۵۷ سے کیا گیا ہے۔
۶۔ یہ اضافہ مسند الامام احمدبن حنبل، رقم ۱۷۷۶۸ اور صحیح ابن حبان، رقم۵۸۷۹ سے کیا گیا ہے۔ اس حدیث کے تفسیری حواشی میں اوپر ہم یہ بتا آئے ہیں کہ قرآن مجید نے شکار کو میتہ سے جن جن چیزوں کی بنا پر الگ کیا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شکاری جانور اپنے شکار کو کھائے نہیں ، بلکہ ہمارے لیے اسے روکے رکھے ۔ غالباً جواب کا یہ حصہ بخاری و مسلم اور دیگر کتب کے راویوں نے بھولنے کی وجہ سے ضائع کردیا تھا۔
۷ ۔یہ اضافہ مسند الامام احمد بن حنبل، رقم۱۷۷۶۸، ۱۷۷۷۲ سے کیا گیا ہے ۔
۸۔ یہ اضافہ مسند احمد، رقم ۱۷۷۷۲سے کیا گیا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2008
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Jan 03, 2017
2115 View