انسان کی فطرت اور اس کا طرز عمل - امین احسن اصلاحی

انسان کی فطرت اور اس کا طرز عمل

 سوال: تاریخ انسانی کو پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل حق کی تعداد ہر زمانہ میں کم رہی ہے، اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت سلیم نہیں ہے۔ جبکہ قرآن مجید کا دعویٰ اس کے برعکس ہے۔ آخر کسی چیز کی فطرت کا اندازہ اس کے طرز عمل کی تاریخ ہی سے مستنبط کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی فطرت تو سلیم ہے، مگر اکثر اس کے بھٹک جانے کے بھی امکانات ہیں، کیونکہ وہ ایک امتحان گاہ میں رہ رہا ہے۔ مگر محال معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سلیم کے ہوتے ہوئے وہ بھٹک جائے؟ آخر اس کی فطرت کے متعلق حکم لگانے کے لیے اس کے مسلسل طرز عمل کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہی حال شرک کا ہے۔ آدمی کتنی ہی کوشش کرے کسی نہ کسی پیمانے میں شرک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے؟ یہ حال ایک مسلمان کا ہوتا ہے، جسے احکام شریعت کا پتا ہوتا ہے۔

جواب: اس امر میں تو شبہ نہیں ہے کہ دنیا میں نیکی اور بھلائی کی زندگی بسر کرنے والے ہمیشہ تھوڑے ہی رہے ہیں، اکثریت ہمیشہ حق سے منحرف ہو کر زندگی بسر کرنے والوں ہی کی رہی ہے، لیکن اس صورت حال کو اس چیز کی دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا کہ انسان کی فطرت ہی بری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف یہ بات صحیح ہے کہ دنیا میں ہمیشہ برائی کی زندگی بسر کرنے والوں ہی کی اکثریت رہی ہے، وہیں یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ جہاں تک پسند کرنے کا تعلق ہے، دنیا میں ہمیشہ نیکی کی زندگی پسند کرنے والوں کی اکثریت رہی ہے۔ جو لوگ رات دن ظلم، ناانصافی، خیانت، بدعہدی، بدکاری اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں، اگر ان سے بھی آپ دریافت کیجیے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ بتائیں کہ ظلم اور انصاف، بخل اور فیاضی، جھوٹ اور سچ، خیانت اور امانت، غرور اور تواضع میں سے کس چیز کو وہ پسند کرتے ہیں تو انشاء اللہ ان کی عظیم اکثریت جو جواب دے گی، وہ ظلم کے مقابل میں انصاف، بخل کے مقابل میں فیاضی اور جھوٹ کے مقابل سچ کے حق میں ہو گا۔ اب سوچیے کہ اگر انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے شرپسند ہے اور اپنی عملی زندگی سے وہ اسی چیز کا ثبوت بھی مہیا کر رہا ہے تو آخر اس کی پسند اور ناپسند کا معاملہ اس کے طرز عمل سے بالکل مختلف کیوں واقع ہوا ہے؟
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ محض روایات اور عام خیالات کا رعب ہے کہ جہاں تک پسندیدگی کے اظہار کا تعلق ہے، انسان وہ نیکی کے حق میں کر دیتا ہے، ورنہ وہ پسند بھی درحقیقت برائی ہی کو کرتا ہے تو یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں برائی کی راہ چلنے والوں ہی کی اکثریت ہے تو نیکی کے حق میں یہ فضا کس چیز نے پیدا کر رکھی ہے کہ برائی کی زندگی بسر کرنے والوں کے سامنے بھی اگر برائی اور بھلائی، دونوں کو سامنے رکھ کر ان سے پوچھیے کہ ان میں سے کس کو ترجیح دیتے ہو تو وہ اپنا ووٹ بھلائی ہی کے حق میں ڈالیں گے۔ روایات تو عمل سے قائم ہوتی ہیں۔ جب اکثریت کا عمل برا ہے تو نیکی کے حق میں یہ روایت کس طرح قائم ہو گئی کہ عادی سے عادی چور بھی چوری کی تعریف سے گریز کرتا ہے اور ایمان داری کی زندگی کی تعریف کرتا ہے۔
ہمارے نزدیک آدمی کا اپنے عمل کے بالکل خلاف نیکی کے حق میں شہادت دینا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ برائیوں میں مبتلا رہنے کے باوجود بھی اس بات کو جانتا ہے کہ برائی کی یہ زندگی اس کی اپنی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ وہ اپنی ہر برائی پر خود اپنے ضمیر کو (جب تک وہ بالکل مردہ نہ ہو جائے) ملامت کرتے ہوئے پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے اسی ضمیر اور اپنی اسی فطرت پر دوسروں کے ضمیر اور دوسروں کی فطرت کو بھی قیاس کرتا ہے، اس وجہ سے قدرتی طور پر وہ یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے بھی، خواہ وہ عملاً کتنی ہی فاسقانہ زندگی بسر کریں، پسند وہ عفت اور پاک دامنی ہی کی زندگی کرتے ہیں، یہ چیز اس کو مجبور کرتی ہے کہ خواہ اس کی اپنی زندگی کتنی ہی برائیوں میں مبتلا ہو، لیکن وہ تعریف نیکی ہی کی کرے تاکہ دوسروں کی نظروں میں وہ ذلیل و حقیر بن کے نہ رہ جائے۔ انسان کی اسی فطرت کی بنا پر قرآن مجید نے کہا ہے کہ ’بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ* (انسان خود اپنے خلاف گواہ ہے اگرچہ وہ کتنی ہی سخن سازیاں کرے)۔
یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انسان کی فطرت کی نیکی پسندی کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ برائی کی راہ نہ اختیار کرے یا نہ اختیار کر سکے۔ آخر انسان کی فطرت حیوانات کی جبلت کی طرح تو نہیں ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی واقع ہی نہ ہو سکے۔ حیوانات تو قدرت کی طرف سے ایک مخصوص ڈگر پر ہانک دیے گئے ہیں، وہ اس ڈگر سے انحراف اختیار نہیں کر سکتے، لیکن انسان کی سرشت پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف تو قدرت نے اس کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، یعنی اس کو بھلائی اور برائی کا امتیاز بخشا ہے اور بھلائی کی قدر اس کے اندر ودیعت کی ہے۔ دوسری طرف اس کو اختیار اور آزادی کی نعمت بھی بخشی ہے، یعنی وہ بھلائی اور برائی کی ان دونوں راہوں میں سے کسی ایک راہ کو اختیار کرنے پر قدرت کی طرف سے مجبور نہیں کر دیا گیا ہے، بلکہ وہ ان میں سے ہر راہ کو اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ وہ اپنے انتخاب سے چاہے بھلائی کی راہ اختیار کرے، چاہے برائی کی۔
اب رہا یہ سوال کہ بھلائی اور برائی کے درمیان امتیاز رکھنے اور بھلائی کو پسند کرنے کے باوجود انسانوں کی اکثریت برائی میں کیوں مبتلا پائی جاتی ہے؟ تو اس کا بہترین جواب وہ سمجھ میں آتا ہے جو قرآن نے دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہر برائی چونکہ نفس کے لیے اپنے اندر ایک فوری لذت یا جلدی حاصل ہو جانے والا نفع رکھتی ہے، اس وجہ سے انسان برائی کو برائی سمجھنے کے باوجود اس میں آلودہ ہو جاتا ہے۔ برعکس اس کے بھلائی کے جو کام ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کی فوری لذتوں کی کوئی چاٹ نہیں ہوتی، اس وجہ سے عام لوگ ان کو ایک اعلیٰ نصب العین تسلیم کرنے کے باوجود ان کے لیے ہمت نہیں کرتے۔
اس بات کو آپ دوسرے لفظوں میں سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی فطرت قدرت نے کچھ ایسی بنائی ہے کہ ان کے انجام دینے کے لیے ہمارے نفس کو ایک چڑھائی سی چڑھنی پڑتی ہے جس کے لیے عزم و ہمت کی ضرورت ہے اور اس عزم و ہمت کو پیدا کرنے کے لیے آدمی کو اپنی تربیت کرنی پڑتی ہے۔ برعکس اس کے برائی کے کاموں کے لیے آدمی کو اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے بہاؤ پر چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے، اس کے لیے کسی ریاضت یا کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کوچہ میں ہر شخص آسانی سے تیس مارخاں بن سکتا ہے۔
آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ دنیا میں جتنے کام بھی کچھ قدر و قیمت رکھنے والے ہیں، سب ہی کسی نہ کسی حد تک مشقت طلب ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کاموں کے لیے حوصلہ کرنے والے کم نکلتے ہیں اگرچہ ان کے ساتھ کسی عاجل کی چاٹ بھی ہو۔ آپ جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس طبقہ کے کتنے افراد وہ لائن اختیار کرتے ہیں جو آپ نے اختیار کی ہے۔ ۱؂ اس کی وجہ یہی تو ہے کہ دوسری لائنوں کے مقابل میں اس لائن میں ذرا مشقتیں زیادہ ہیں۔ حالاں کہ دنیوی نقطۂ نظر سے اس کے فوائد واضح ہیں۔
اسی پر قیاس نیکی اور بدی کے کاموں کو کر لیجیے۔ ایک میں محنت فوری اور نفع ادھار ہے، دوسرے میں محنت تھوڑی اور لذت عاجل ہے، اس وجہ سے پہلے کی طرف (اس کے پسندیدہ ہونے کے باوجود) کم لوگ توجہ کرتے ہیں اور دوسرے پر (اس کے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود) ایک خلقت ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ عشقیہ ناولوں کے پڑھنے کے مقابل میں فلسفہ کا مطالعہ ایک عمدہ کام ہے، عقلاً بھی اور نقلاً بھی۔ لیکن فلسفہ کے مقابل میں آپ کو ناول پڑھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ملے گی اور لطف یہ کہ وہ اعتراف بھی کریں گے کہ یہ محض وقت کی بربادی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ وقت کی بربادی ہے تو اس مشغلہ شریف میں کیوں وقت برباد کرتے ہیں؟ محض اس وجہ سے کہ تھوڑی دیر کے لیے نفس کو اس سے تھوڑا سا سرور حاصل ہو جاتا ہے۔
جو حقیقت میں بیان کر رہا ہوں، اس کو سب سے زیادہ دل نشیں انداز میں تو قرآن، حدیث، امثال سلیمان اور انجیل میں بیان کیا گیا ہے، لیکن میں آپ لوگوں کے ماحول اور ذوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ارسطو کی وہ تقریر اپنے لفظوں میں پیش کرتا ہوں جو اس نے اسی سوال پر بحث کرتے ہوئے کی ہے۔
ارسطو کے نزدیک انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے اگرچہ نیکی پسند واقع ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ عملاً برائی میں جو زیادہ مبتلا پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی کی فطرت وحدت اور بدی کی فطرت انتشار کی متقاضی ہے۔ اگر آپ نیکی کی زندگی بسر کرنا چاہیں تو آپ کو کوشش کر کے اپنی تربیت اس طرح کرنی پڑے گی کہ آپ کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں ایک متعین ہدف پر استعمال ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز تربیت و ریاضت کی محتاج ہے۔ برعکس اس کے بدی کی زندگی گزارنے کے لیے اس قسم کی کوئی زحمت آپ کو اٹھانی نہیں پڑے گی، بلکہ اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو مطلق العنان چھوڑ دینا کافی ہے۔
وہ اس حقیقت کو مثالوں سے یوں واضح کرتا ہے کہ اگر ایک آدمی ماہر نشانچی بننا چاہے تو لازماً اسے ایک مدت تک ایک متعین ہدف پر نشانہ بازی کی مشق کرنی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک مشکل کام ہے۔ برعکس اس کے اگر ایک شخص اپنا نصب العین یہ قرار دے لے کہ جہاں بھی تیر لگ جائے، وہی نشانہ ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس معنی میں ہم اور آپ سب ہی نشانچی ہیں۔ اب دیکھیے کہ اپنی فطرت کے لحاظ سے تو ہم میں سے ہر شخص پہلے مفہوم میں نشانچی بننے کا شوق اور ولولہ رکھتا ہے، لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے، ہماری اکثریت ویسے ہی نشانچیوں پر مشتمل ہے جن کا نظریہ یہی ہے کہ جہاں تیر لگ جائے وہی نشانہ ہے۔
ارسطو ہی نے یا کسی اور فلسفی نے اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ایک اور مثال دی ہے، وہ بھی اچھی خاصی بصیرت افروز ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایک چشمہ کے پانی کو نشیب و فراز کی نالیوں سے گزارتے ہوئے کسی چمن تک پہنچانا ہو تو یہ کام ایک اعلیٰ کام ہے اور انسان کو بالطبع یہ پسند ہے، لیکن ساتھ ہی یہ مشقت طلب بھی ہے۔ لیکن اگر مقصود یہ ہو کہ چشمہ کا پانی جدھر چاہے پھیل جائے تو اس کے لیے نہ کسی محنت کی ضرورت ہے، نہ کسی انجینئرنگ کی۔ اگرچہ اس صورت حال کو پسند کوئی بھی نہیں کرتا، سب ہی اس کو ضیاع اور بربادی سمجھتے ہیں، لیکن عملاً اکثریت کے طرزعمل کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے۔
نیکی اور بدی کی یہی فطرت ہمارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح واضح فرمائی کہ ’حفّت الجنۃ بالمکارہ وحفت النار بالشہوات‘ (جنت مشکلات سے گھیر دی گئی ہے اور دوزخ مرغوبات سے گھیر دی گئی ہے)۔ اسی بات کو سیدنا مسیح علیہ السلام نے یوں واضح فرمایا ہے کہ بدی کی راہ فراخ اور کشادہ اور اس پر چلنے والے بہت ہیں اور نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے تھوڑے ہیں۔
یہاں پہنچ کر مجھے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ آخر خدا نے نیکی کی راہ کو مشکل کیوں بنا دیا، اس کو بھی بدی کی طرح لذیذ اور نفع عاجل بخشنے والی کیوں نہیں بنا دیا؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تو آپ اس کے ساتھ ہی اس سوال پر بھی غور کیجیے کہ انجینئرنگ کا فن اتنا مشکل کیوں بنا دیا گیا ہے، اسے بھی ناول کی طرح لذیذ اور مرغوب کیوں نہیں بنا دیا گیا؟ جو جواب آپ کا ذہن اس سوال کا دے، وہی جواب بعینہٖ پہلے سوال کا بھی صحیح ہو گا۔
جس طرح بدی میں انسانوں کی اکثریت کا مبتلا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بدی ہی انسان کی فطرت ہے اسی طرح شرک میں انسانوں کی اکثریت کا مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شرک ہی انسان کی فطرت کا مقتضیٰ ہے۔ اس معاملہ میں بھی عقل اور فطرت کے مطابق بات وہی ہے جو قرآن کہتا ہے، یعنی انسانی فطرت کا اصل تقاضا تو توحید ہی ہے، لیکن اپنی بعض کمزوریوں اور کج فہمیوں کے سبب سے آدمی شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
میں آپ کے سوال کے اس حصہ کا بھی جواب دینے کی کوشش کرتا، لیکن بعینہٖ اسی سوال پر میں نہایت تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’حقیقت شرک‘‘ کی دو آخری فصلوں میں بحث کر چکا ہوں۔ ان فصلوں کے عنوان ہیں: ’’کیا شرک تقاضائے فطرت ہے؟‘‘، ’’شرک کے پیدا ہونے کے حقیقی اسباب‘‘۔ ان دونوں فصلوں میں میں نے اس مسئلہ سے متعلق فلسفۂ جدید کی غلطیاں بھی واضح کی ہیں اور اکثریت کے طرز عمل سے جو شبہ ایک عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، اس کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترم مستفسر سے گزارش ہے کہ میری مذکورہ کتاب حاصل کر کے وہ یہ فصلیں ضرور پڑھ ڈالیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے ذہن کی تمام الجھنیں دور ہو جائیں گی۔

_______

* القیامہ ۷۵: ۱۴۔۱۵۔
۱؂ سائل انجینئرنگ کالج کے ایک طالب علم تھے۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Jan 01, 2016
4086 View