حضرت عیاش بن ابو ربیعہ رضی اللہ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عیاش بن ابو ربیعہ رضی اللہ عنہ

 حضرت عیاش بن ابوربیعہ کے والد کا اصل نام عمرو تھا،ان کے پاؤں لمبے تھے، اس لیے ذو الرمحین (دو نیزوں والے )کے لقب سے مشہور تھے۔مغیرہ بن عبدﷲ ان کے دادا تھے۔وہ اپنے پانچویں جد مخزوم بن یقظہ کی نسبت سے مخزومی کہلاتے ہیں۔ابوعبد الرحمن یا ابو عبدﷲ ان کی کنیت تھی۔ حضرت عیاش ابوجہل اور حارث بن ہشام کے ماں شریک سوتیلے بھائی تھے۔ان کی والدہ ام الجلاس اسماء(کبریٰ) بنت مخرمہ (محربہ: مزی، مخربہ: ابن عبدالبر) تمیمی کی شادی پہلے ابوجہل کے والدہشام بن مغیرہ سے ہوئی ۔ہشام نے انھیں طلاق دے دی توان کے بھائی ابو ربیعہ عمرو بن مغیرہ سے ان کا بیاہ ہوا ۔اس طرح ابوجہل ماں جایا ہونے کے ساتھ ان کا تایا زاد بھی بن گیا۔حضرت عبدﷲ بن ابوربیعہ حضرت عیاش کے سگے بھائی تھے۔حضرت خالد بن ولید ان کے چچا زاد تھے۔

حضرت عیاش بن ابو ربیعہ ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* میں شامل تھے۔ابن اسحق کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق دین اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں حضرت عیاش کا نمبر ستائیسواں اور ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت سلمہ کااٹھائیسواں تھا۔۵؍ نبوی میں دور اسلامی کی پہلی درس گاہ دار ارقم میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے سے پہلے وہ ایمان لا چکے تھے۔

حضرت عیاش بن ابو ربیعہ نے حبشہ اور مدینہ، دونوں شہروں کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعثت نبوی کے تیسرے سال حکم ربانی نازل ہوا: ’فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘، ’’(اے نبی)، آپ کو جو حکم نبوت ملا ہے، اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے‘‘ (الحجر۱۵: ۹۴)۔ جب آپ کی عمومی دعوت اہل مکہ کے دلوں پر اثر کرنے لگی اور دین اسلام کا چرچا ہونے لگا تو مشرک سرداروں کو اپنے بتوں کی خدائی خطرے میں نظر آنے لگی۔ انھوں نے نو مسلم کمزوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ اشراف قریش میں سے کوئی شخص ایمان لاتا تو ابوجہل مخزومی اس کی بے عزتی کرتااور کہتا تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا ہے جو تم سے بہتر تھے۔ اگر کوئی تاجر مشرف بہ اسلام ہوتا تو اس کی تجارت درہم برہم کرنے کی دھمکی دیتااور اگر کوئی مفلس دولت ایمان پا لیتا تو اسے مارتا پیٹتا ، جسمانی اذیتیں پہنچاتا اور بھوکا پیاسا رکھتا ۔جب وہ بالکل بے سدھ ہوجاتا توکفریہ کلمات کہنے پر مجبور کرتا۔حضرت عیاش بن ابوربیعہ مسلمان ہوئے تو ان کے قبیلہ بنومخزوم کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں اور بنومحزوم کے دوسرے نو مسلم نوجوانوں حضرت ولید بن ولید اورحضرت سلمہ بن ہشام کو گرفتار کر کے سزا دیں۔ یہ حضرت ولید کے بھائی ہشام بن ولید کے پاس گئے تو اس نے کہا:انھیں سرزنش کر لو، لیکن خبردار جو میرے بھائی کی جان لی، ورنہ میں تمھارے سب سے زیادہ معزز سمجھے جانے والے شحص کو ٹھکانے لگا دوں گا ۔ ہشام بن ولید اوران کے تیسرے بھائی خالد بن ولید بعد میں مسلمان ہوئے۔

نبوت کے پانچویں سال قریش کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تونبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ’’تم ﷲکی سرزمین میں بکھر جاؤ۔‘‘ پوچھا: یا رسول ﷲ، ہم کہاں جائیں؟ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ’’وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک ﷲ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔‘‘ چنانچہ رجب ۵؍ نبوی (۶۱۵ء) میں سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون کی قیادت میں سولہ اہل ایمان نصف دینار کرایہ پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے، پھر حضرت جعفر بن ابوطالب کی سربراہی میں دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا۔ حضرت عیاش بن ابوربیعہ، ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت سلمہ دارمی ،بنومخزوم کے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اورحضرت سلمہ بن ہشام اسی گروپ میں شامل تھے۔یہ پہلی ہجرت حبشہ تھی۔ دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی (ایک سو نو: ابن جوزی)تھی۔ حضرت عیاش کے بیٹے عبدﷲ بن عیاش کی پیدایش حبشہ میں ہوئی۔

شوال ۵؍ نبوی میں قریش کے قبول اسلام اوران کی طرف سے مسلمانوں پرہونے والا تشدد بند ہونے کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی تو ان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ جوخبر انھیں سنائی گئی، جھوٹ تھی تو ان میں سے اکثرحبشہ لوٹ گئے۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ کل تینتیس اصحاب مکہ میں داخل ہوئے اور جب ان کی قوم اور خاندان کی طرف سے اذیت رسانی کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہواتو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں بار دگر حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔یہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ تھی۔اس اثنا میں کچھ مہاجرین حبشہ کو مشرکوں نے قید کر لیا اور کچھ وہیں ٹھیر گئے۔ حضرت عیاش بن ابوربیعہ اور حضرت سلمہ بن ہشام ان لوگوں میں شامل تھے جو مکہ میں مقیم رہے۔

ابن عقبہ اور ابو معشر کے خیال میں حضرت عیاش بن ابوربیعہ نے ہجرت حبشہ میں حصہ نہیں لیا۔

ﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت عمر ،حضرت عیاش بن ابوربیعہ اورحضرت ہشام بن عاص نے اکٹھے مدینہ ہجرت کرنے کا پروگرام بنایا۔انھوں نے علی الصبح مدینہ سے دس میل باہر مقام سرف سے آگے بنو غفار کے تالاب کے پاس تنضب نامی خاردار درختوں کے جھنڈمیں ملنے کا وعدہ کیا۔ حضرت عمر اور حضرت عیاش تو حسب وعد ہ پہنچ گئے، لیکن حضرت ہشام کو مشرکوں نے بندی بنا لیا۔دونوں اصحاب مدینہ روانہ ہوئے اور بہ خیر و عافیت قبا پہنچ گئے۔ انھوں نے قبیلۂ بنوعمرو بن عوف کے ہاں قیام کیا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے کہ حضرت عیاش کے ماں جایے ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام قبا پہنچے اور کہا: ان کی والدہ نے قسم کھا لی ہے کہ وہ سرمیں تیل لگائے گی نہ سائے میں بیٹھے گی جب تک تمھیں دیکھ نہ لے گی۔حضرت عمر نے مداخلت کی اور کہا: عیاش، اصل بات یہ ہے کہ آپ کی قوم آپ کو دین اسلام سے ہٹانا چاہتی ہے، اس لیے ان سے بچ کر رہیں۔ آپ کی والدہ کو جوؤں نے تنگ کیا تو وہ ضرور کنگھی کر لیں گی اور مکہ کی دھوپ نے انھیں ستایا تو وہ ضرور سایے میں آجائیں گی۔ حضرت عیاش نے کہا: میں اپنی والدہ کی قسم پوری کروں گا۔ وہاں میرا مال بھی تو ہے ،اسے لے آؤں گا۔ حضرت عمر نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ میں قریش کے مال داروں میں سے ہوں۔میرا آدھا مال لے لیں اور ان کے ساتھ نہ جائیں۔حضرت عیاش اپنی ضد پر قائم رہے تو حضرت عمر نے اپنی اونٹنی ان کے حوالے کی اور نصیحت کی کہ اس کی پیٹھ سے نہ اترنااور اگر ان مشرکوں کی طرف سے کوئی شبہ ہوا تواسی پر بھاگ آنا۔راستے میں ابوجہل نے کہا: بھتیجے، میرا اونٹ ہٹ پر آیا ہے ۔مجھے اپنے ساتھ بٹھا لو۔حضرت عیاش نے اسے سوار کرنے کے لیے اونٹنی کو بٹھایا ہی تھا کہ سوتیلے بھائیوں نے جھپٹ کر ان کو باندھ دیا اور اسی طرح مکہ میں لے آئے۔شہر میں داخل ہوتے ہی ان کٹے مشرکوں نے نعرہ لگایا: اے اہل مکہ، دیکھو، ہم نے اپنے نادان بچے کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔ تم بھی اپنے نادانوں کے ساتھ یہی سلوک کرو۔ حارث بن یزید عامری مکہ میں حضرت عیاش کو ۱یذائیں دیاکرتاتھا ،اس نے انھیں باندھنے میں ابوجہل اور حارث بن ہشام کی مددبھی کی تھی ۔اس موقع پر انھوں نے قسم کھائی کہ موقع ملتے ہی حارث کو قتل کر دوں گا۔ اسیری ختم ہونے کے بعد وہ مدینہ پہنچے تو حضرت حارث بقیع غرقد میں کھڑے تھے۔حضرت عیاش نے دیکھتے ہی ان کو مار ڈالا۔ انھیں علم نہ تھا کہ وہ ایمان لا چکے ہیں۔اس موقع پر یہ حکم ربانی نازل ہوا: ’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطءًا‘، ’’کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، مگر غلطی سے‘‘ (النساء ۴: ۹۲)۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں فوراًایک غلام آزاد کرنے کا حکم ارشاد کیا ۔

عیاش کے جانے کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کے لیے اور مکہ میں محبوس دیگر مستضعفین کے لیے دعاے قنوت مانگنا شروع کی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: آپ نماز عشا (یا فجر)کی آخری رکعت میں ’سمع ﷲ لمن حمدہ‘ کہنے کے بعد بہ آواز بلند دعا فرماتے: ’اللّٰہم انج عیاش بن أبي ربیعۃ، اللّٰہم انج سلمۃ بن ہشام، اللّٰہم انج الولید بن الولید، اللّٰہم انج المستضعفین من المؤمنین، اللّٰہم اشدد وطأتک علی مضر، اللّٰہم اجعلہا (علیہم) سنین کسني یوسف‘، ’’اے ﷲ، عیاش بن ربیعہ کو نجات دے ، اے ﷲ، سلمہ بن ہشام کو بچالے ،اے ﷲ، ولید بن ولید کوچھڑادے،اے ﷲ، کمزور اہل ایمان کو مشرکوں سے چھٹکارا دلا دے۔ اے ﷲ، مضر کے کافروں کو خوب پیس ڈال۔ یا ﷲ، یوسف کے زمانۂ قحط کے سالوں کی طرح ان کے ایام و سال سخت کر دے‘‘ (بخاری، رقم ۳۳۸۶۔ مسلم، رقم ۱۴۸۴۔ نسائی، رقم ۱۰۷۴)۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ آپ نے۱۵؍ رمضان سے آخر رمضان تک یہ دعا مانگی، پھرعید کی صبح چھوڑ دی۔ دوسری روایت میں ایک ماہ کی مدت کا ذکر ہے۔ مختلف روایات سے اندازہ ہوتاہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً یہ دعا مانگتے رہے تا آں کہ حضرت ولید بن ولید ،حضرت سلمہ بن ہشام اور حضرت عیاش بن ابو ربیعہ کفار کی قید سے چھوٹ گئے۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم بعض اوقات نماز فجر میں رکوع سے اٹھنے کے بعد عرب قبائل کے نام لے کر لعنت بھیجتے، لیکن ﷲ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر کے آپ کو منع کر دیا: ’لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ‘ (اٰل عمران ۳: ۱۲۸)، ’’آپ کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں، ﷲ ان کو توفیق توبہ دے یا انھیں عذاب میں مبتلا کرے، یقیناً یہ حد سے بڑھنے والے ہیں‘‘ (بخاری، رقم ۴۵۶۰۔ مسند احمد، رقم ۷۴۶۵)۔ مسند احمد کی روایت ۹۲۸۵ میں ذکر ہوا کہ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہی دعا نماز ظہر کے بعد مانگی۔

جنگ خندق کے بعد حضرت ولید بن ولید بچ کر مدینہ آگئے ۔انھوں نے بتایا کہ حضرت عیاش اور حضرت سلمہ سخت تنگی میں ہیں۔ان دونوں کے پاؤں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عیاش اپنی والدہ کی سختی اور اہل قبیلہ کے تشدد کی وجہ سے کفریہ کلمات کہنے پرمجبور ہو گئے۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت ہشام اور حضرت عیاش کو چھڑا لانے کی ذمہ داری ان کو سونپی۔آپ نے مکہ کے لوہار سے بھی مدد لینے کی ہدایت کی جو مسلمان ہو چکا تھا۔حضرت ولید مکہ میں ان اصحاب کے کھانے پر مامورباندی کا پیچھا کر کے ان کے بندی خانے تک جا پہنچے، دیوار پھلانگ کر ان کی رسیاں کاٹیں اور اونٹ پر سوار کر کے مدینہ لے آئے۔ قریش کوان کے نکلنے کی خبر ہوئی تو خالد بن ولید کو ایک فوج دے کر ان کے پیچھے بھیجا۔یہ اصحاب سمندر کے کنارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے طریق ہجرت پر گامزن تھے۔خالد بن ولیدعسفان تک آئے اور انھیں نہ پا سکے۔ حضرت عیاش کی والدہ بعد میں مسلمان ہو گئیں۔

مکہ میں قید ہونے کی وجہ سے حضرت عیاش بن ابوربیعہ جنگ بدر ،جنگ احد اور جنگ خندق میں حصہ نہ لے سکے۔

حضرت علی یمن میں تھے ۔ حضرت ابوعمرو بن حفص مخزومی جو ان کے ساتھ تھے اپنی زوجہ حضرت فاطمہ بنت قیس کودو طلاقیں دے چکے تھے۔ تیسری طلاق انھوں نے وہاں سے بھجوائی۔انھوں نے پانچ صاع (قریباً پندرہ کلو) کھجوریں او رپانچ صاع (قریباً اٹھارہ سیر) جو بھیجنے کے علاوہ اپنے ہم قبیلہ اور مدینہ میں اپنے مالی معاملات کے ذمہ دار حضرت عیاش بن ابو ربیعہ اور حضرت سلمہ بن ہشام کو مطلقہ کو نفقہ دینے کا خط بھی لکھا۔ان دونوں نے کہا: ہم اسی صورت نفقہ دیں گے اگر مطلقہ حاملہ ہو۔ حضرت فاطمہ بنت قیس خود نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے بھی یہی فیصلہ فرمایا کہ نفقہ حاملہ کے لیے ہوتا ہے (مسلم، رقم ۳۶۹۷، ۳۷۰۶۔ابوداؤد، رقم ۲۲۹۰۔ نسائی، رقم ۳۲۲۴۔مسند احمد، رقم ۲۷۳۳۴)۔

آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے مرض وفات میں رومی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر بھیجنے کا حکم صادر فرمایا۔تب بہ شمول حضرت عیاش بن ابی ربیعہ کچھ صحابہ نے ان کی صغر سنی پر اعتراض کیا۔آپ نے فرمایا: تم لوگ تو اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کرتے تھے۔ وﷲ، اسامہ لشکر کی سربراہی کی اہلیت رکھتا ہے اور مجھے محبوب ترین ہے (بخاری ، رقم۳۷۳۰۔ ترمذی، رقم ۳۸۱۶)۔

حضرت عیاش بن ابو ربیعہ نے شام کی جنگوں میں حصہ لیا ، مشہور روایت کے مطابق وہ ۱۳ھ میں جنگ یرموک میں جہاد کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ ان کا سن وفات ۱۵ھ بھی بتایا جاتا ہے جب خلعت خلافت حضرت عمر فاروق کے پاس تھی ۔یہ بھی کہا گیا کہ ان کی شہادت عہد صدیقی میں جنگ یمامہ میں ہوئی۔ ذہبی نے ان کا نام شہداے اجنادین و یرموک کی مشترکہ فہرست میں شامل کیا ہے(سیر اعلام النبلاء)۔ ایک اورروایت کے مطابق وہ شام سے مکہ چلے آئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ان کے بیٹے حضرت عبدﷲ بن عیاش مدینہ میں مقیم رہے۔

حضرت عیاش بن ابوربیعہ نے براہ راست نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے حدیث روایت کی۔ان سے ان کے بیٹے حضرت عبدﷲ بن عیاش ،پوتے حضرت حارث بن عبدﷲ ،حضرت انس بن مالک،عبدالرحمن بن سابط،نے فرمان رسول نقل کیے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز اورحضرت عمر کے آزاد کردہ حضرت نافع نے ان سے حدیث مرسلاً روایت کی ہے۔

حضرت عیاش بن ابوربیعہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ امت جب تک حرم کعبہ کی کماحقہٗ تعظیم کرتی رہے گی، خیر و عافیت سے رہے گی۔اہل ایمان جب اس فرض کو ادا نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے (مسند احمد، رقم ۱۹۰۴۹)۔ حضرت عیاش بن ابوربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قیامت سے پہلے ایک آندھی چلے گی جس میں تمام اہل ایمان کی روحیں قبض ہو جائیں گی(مستدرک حاکم، رقم ۸۵۰۳۔ مسند احمد، رقم ۱۵۴۶۳)۔ ایک بار رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت عیاش کے گھر گئے تو ان کی والدہ حضرت ام الجلاس اسماء بنت مخرمہ حضرت عیاش کا بیمار بیٹا آپ کے سامنے لائیں ، آپ نے اسے دم کیا (کنز العمال، رقم ۳۷۴۵۵)۔

حضرت عیاش کی بیٹی حضرت ام حارث صحابیہ تھیں۔ حضرت عیاش بن ابو ربیعہ کے پوتے حارث بن عبدﷲ اجل تابعین میں سے تھے۔قباع ان کا لقب تھا ۔حضرت عبدﷲ بن زبیر نے اپنے عہد خلافت میں انھیں بصرہ کا والی مقرر کیا۔حارث کے بیٹے عبدالرحمن کا شمار کبارتبع تابعین میں ہوتا ہے۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البداےۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)۔

________

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Apr 25, 2018
2259 View