حلال و حرام - جاوید احمد غامدی

حلال و حرام

 زینت کا لفظ عربی زبان میں اُن چیزوں کے لیے آتا ہے جن سے انسان اپنی حس جمالیات کی تسکین کے لیے کسی چیز کو سجاتا بناتا ہے۔ چنانچہ لباس، زیورات وغیرہ بدن کی زینت ہیں؛ پردے، صوفے، قالین، غالیچے، تماثیل، تصویریں اور دوسرا فرنیچر گھروں کی زینت ہے؛ باغات، عمارتیں اور اِس نوعیت کی دوسری چیزیں شہروں کی زینت ہیں، موسیقی آواز کی زینت ہے؛ شاعری کلام کی زینت ہے۔ دین کی صوفیانہ تعبیر اور صوفیانہ مذاہب تو اِن سب چیزوں کو مایا کا جال سمجھتے اور بالعموم حرام یا مکروہ یا قابل ترک اور ارتقاے روحانی میں سد راہ قرار دیتے ہیں، مگر قرآن کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ وہ اِن مذاہب کی تردید کرتا اور پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں جائز ہیں، بلکہ نہایت سخت تنبیہ اور تہدید کے انداز میں پوچھتا ہے کہ کون ہے جو زینت کی اِن چیزوں کو حرام قرار دینے کی جسارت کرتا ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں:

قُلْ، مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ.(الاعراف ۷:۳۲)
’’اِن سے کہو، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کھانے کی پاک چیزیں کس نے ممنوع ٹھیرا دی ہیں۔‘‘

پھر یہی نہیں، وہ اعلان کرتا ہے کہ رزق کے طیبات اور زینت کی یہ سب چیزیں تو اِس دنیا میں پیدا ہی اہل ایمان کے لیے کی گئی ہیں، لہٰذا اصلاً اُنھی کا حق ہیں، خدا کے منکروں کو تو یہ اُن کی طفیل اور اُس مہلت کی وجہ سے ملتی ہیں جو دنیا کی آزمایش کے لیے اُنھیں دی گئی ہے۔ چنانچہ آخرت میں یہ تمام تر اہل ایمان کے لیے خاص ہوں گی، منکروں کے لیے اِن میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، وہ اِن سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جائیں گے:

قُلْ، ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ، کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.(الاعراف۷: ۳۲)
’’یہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً اُنھی کے لیے ہوں گی۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔‘‘

قرآن کا یہ اعلان ایک حیرت انگیز اعلان ہے۔ عام مذہبی تصورات اور صوفیانہ مذاہب کی تعلیمات کے برخلاف قرآن دینی زندگی کا ایک بالکل ہی دوسرا تصور پیش کرتا ہے۔ تقرب الٰہی اور وصول الی اللہ کے لیے دنیا کی زینتوں سے دست برداری کی تلقین کے بجاے وہ ایمان والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ اسراف و تبذیر سے بچ کر اور حدود الٰہی کے اندر وہ زینت کی سب چیزیں بغیر کسی تردد کے استعمال کریں اور خدا کی اِن نعمتوں پر اُس کا شکر بجا لائیں:

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ، خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ، وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا، اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.(الاعراف ۷:۳۱)
’’آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو، مگر اسراف نہ کرو، اِس لیے کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اِس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی شریعت میں حرام پھر کیا چیزیں ہیں؟ اِس سوال کا جواب قرآن نے سورۂ اعراف میں آگے اِسی مقام پر یہ دیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ اللہ نے صرف پانچ چیزیں حرام قرار دی ہیں: ایک فواحش، دوسرے حق تلفی، تیسرے ناحق زیادتی، چوتھے شرک اور پانچویں بدعت۔
خدا کی شریعت میں یہی چند چیزیں حرام ہیں۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ حلال و حرام کے معاملے میں یہ خدا کا اعلان ہے، لہٰذا کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اِن کے علاوہ کسی چیز کو حرام ٹھیرائے۔ چنانچہ اب اگر کوئی چیز حرام ہو گی تو اُسی وقت ہو گی، جب اِن میں سے کوئی چیز اُس میں پائی جائے گی۔ روایتیں، آثار، حدیثیں اور پچھلے صحیفوں کے بیانات، سب قرآن کے اِسی ارشاد کی روشنی میں سمجھے جائیں گے۔ اِس سے ہٹ کر یااِس کے خلاف کوئی چیز بھی قابل قبول نہ ہو گی۔ فرمایا ہے:

قُلْ، اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ، وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ، وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا، وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷:۳۳) 
’’اِن سے کہہ دو کہ میرے رب نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کر کے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2009
مصنف : جاوید احمد غامدی