ایک مرد آہن کی رحلت - ڈاکٹر شہزاد سلیم

ایک مرد آہن کی رحلت

  اگر دعوت دین کی لگن ایک انسان کو تند خو کے ساتھ ساتھ نرم خو بنائے، مقصد پرست کے ساتھ ساتھ بے لوث بنائے، جارح کے ساتھ ساتھ مجروح بنائے تو یہ تصویر یقیناً ہمارے پیارے اسحاق ناگی صاحب کی ہے۔ تین سال کی طویل مدت تک کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد خدا کے اس عاجز بندے نے ۲۶ اگست کو تہجد کے وقت داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کا تعلق پاکیزہ روحوں کے ایک نایاب گروہ سے تھا۔ ان کی ساری زندگی حق اور عدل کا ساتھ دیتے گزری۔
کوئی شخص ان کی بعض سخت آرا سے اختلاف کرسکتا ہے، مگر کسی کو ان کی نیت کی پاکیزگی سے اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کی طبیعت میں اخلاص اور ہمددردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی طبیعت کی تیزی حق کی خاطر تھی۔ تاہم دوسروں کی خطائیں معاف کرنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ کئی سال پہلے ان کے ایک دفتر کے ساتھی نے انھیں ایک نزاع کے نتیجہ میں زخمی کردیا۔ ان کے ساتھی کو پکڑ لیا گیا، لیکن خدا کے اس رحم دل بندے نے اسے معاف کردیا۔
وہ مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد صاحب غامدی کے دروس کے باقاعدہ شرکا میں سے تھے اور ان شخصیات کو اپنا دینی رہبر مانتے تھے۔ اگرچہ وہ ان حضرات فہم دین کو صحیح سمجھتے تھے ، تاہم کئی معاملات میں وہ منفرد آرا کے حامل تھے اور دین کی تبلیغ کا بھی ایک منفرد انداز رکھتے تھے۔ وہ مولانا وحید الدین خاں کے بھی مداحوں میں سے تھے۔ اپنی بچت کا بڑا حصہ وہ مولانا کی کتابیں خریدنے اور انھیں مفت تقسیم کرنے پر صرف کرتے ۔ انھوں نے لوگوں کو دین سے قریب لانے کے لیے اپنے ذہن میں کتابوں کی ترتیب کا ایک خاکہ بنا رکھا تھا۔ اس ترتیب کے مطابق وہ لوگوں میں کتب تقسیم کرتے۔ اس کام میں انھیں روحانی خوشی حاصل ہوتی اور کبھی تکان محسوس نہ کرتے۔ لوگوں کو خدا اور خدا کے دین سے قریب لانا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ اس باب میں وہ یقیناًایک ’’خدائی خدمت گار‘‘ تھے۔ جس ہسپتال میں وہ زیر علاج تھے اس کا بیشتر عملہ ان کا گرویدہ تھا۔ وہ ہر دفعہ ان کے لیے کتابچے لے کر جاتے اور نہایت دل سوزی اور درد مندی کے ساتھ انھیں تقسیم کرتے۔ ناگی صاحب کی اس ادا نے ان کے دلوں پر یقیناًگہرا عکس ڈالا ہوگا۔
وہ اہل شرک اور بدعت سے بہت نالاں رہتے اور ان سے بہت سختی سے پیش آتے تھے۔ ان کا جذب درون اس طرح کے لوگوں کی اصلاح کرنے کے لیے انھیں بے قرار کر دیتا تھا۔ تاہم اس معاملے میں بھی ان کا اخلاص کسی بھی صاحب بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔
ان کے پاس مناظرانہ لٹریچر پر بہت سی کتابیں تھیں اس فن کی نگارشات سے ان کو خصوصی لگاؤ تھا۔ بیماری میں بھی وہ اس طرح کی کتب حاصل کرنے میں سرگرم رہتے۔ اپنی اس لائبریری کی وہ بہت حفاظت کرتے۔ اور کیوں نہ کرتے؟ آخر اس لائبریری میں بہت سی نایاب کتابیں بھی تھیں جو انھوں نے بہت محنت سے جمع کر رکھی تھیں۔ مگر اس حفاظت کے ساتھ ساتھ وہ انھیں سنجیدہ اور حقیقی طالب علموں کو دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ، بلکہ ضرورت پڑنے پر ان کو خود ایسے افراد تک پہنچا دیتے۔
انھوں نے ایک بہت سادہ اور تکلف سے پاک زندگی گزاری۔ اور کمال شان بے نیازی سے گزاری۔ تصنع اور بناوٹ ان کے قریب سے بھی نہ پھٹکے تھے۔ وہ ایک عاجز اور خدا ترس شخص تھے او راپنی غلطی کے اعتراف میں انھیں کبھی باک نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک زندہ دل انسان تھے اور یاروں کے یار تھے۔ ان کی زبان میں بعض پنجابی محاورے درشت ہونے کے باوجود بھلے لگتے تھے۔ اپنے مخالفین پر اگر طنز کرتے تو اپنے آپ کو بھی مزاح کا نشانہ بناتے۔ 
کینسر کے موذی مرض میں وہ تین سال تک مبتلارہے۔ اس سارے عرصے میں شاید ہی ان کی زبان پر خدا کے لیے شکوے کا کوئی کلمہ ان کے قریبی لوگوں نے سنا ہو۔ ان کا خدا سے ایک نہایت مضبوط اور گہرا تعلق تھا۔ خدا کی ذات پر انھیں بے پناہ اعتماد تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا: آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ ان شاء اللہ عنقریب شفایاب ہوجائیں گے۔ ان کا جواب کچھ اس طرح سے تھا: اگر میرے رب کو منظور ہے، تو مجھے بھی منظور ہے اور اگر اس کو منظور نہیں تو مجھے بھی منظور نہیں۔ اسی قسم کے الفاظ تقریباً ایک صدی پہلے مولانا محمدعلی جوہر نے اپنی بیمار بیٹی کے بارے میں کہے تھے۔ تو ہمارے ناگی صاحب اپنے ایمان و توکل میں محمد علی جوہر سے کم نہ تھے۔
ان کے برخودار ابراہیم ناگی نے تین سال تک ان کی بہت جانفشانی اور تن دہی سے خدمت کی۔ یقیناً ان کو اپنے بیٹے پر فخر محسوس ہوتا ہوگا۔ ہم سب کے لیے یہ بات بہت پرمسرت اور قابل فخر تھی کہ ان کے اس مثالی بیٹے نے اپنے والد محترم کی نماز جنازہ پڑھائی۔
آج ناگی صاحب ہم میں نہیں ہیں۔ تاہم ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دل میں موجود رہیں گی اور لہو کو گر ماتی رہیں گی۔ انھوں نے خدا کے دین کی خدمت بے لوث انداز سے کی اور حق کی شمع کو اپنے خون جگر سے جلائے رکھا۔ وہ راہ حق کے سپاہی بھی تھے اور کمانڈربھی۔ انھوں نے خود اپنے آپ کو اس مورچے پر فائز کیے رکھا۔ حق کے معاملے میں انھوں نے کبھی مداہنت نہیں برتی۔ جس بات کو صحیح سمجھتے اس کا اظہار برملا کرتے۔ وہ راہ حق کے ایک مرد آہن تھے!

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2012
مصنف : ڈاکٹر شہزاد سلیم
Uploaded on : Jan 18, 2016
3258 View