خواتین کے حقوق اور مسائل - عمار خان ناصر

خواتین کے حقوق اور مسائل

[جدید تعلیم یافتہ خواتین کی ایک نشست میں کی جانے والی گفتگو، مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ]

مجھ سے فرمائش یہ کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں اور اسلامی شریعت میں مردوں اور خواتین کے مابین امتیاز پر مبنی جو بعض احکام ہیں، ان کے حوالے سے دین کا زاویہ نگاہ اور ان کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر میں آپ کے سامنے رکھوں اور پھر اس پر مبنی جو سوالات ہوں، ان پر کچھ گفتگو کی جائے۔ 
یہ موضوع اس لحاظ سے تھوڑا مشکل ہے کہ ایک طرف اس بات کو ملحوظ رکھنا دین کے طالب علم کی ذمہ داری ہے کہ قرآن وسنت میں جو بات جس طرح سے بیان کی گئی ہے، اس کی اصل اسپرٹ کو اور اس کے بیان کے جتنے لوازمات ہیں، ان کو بھی پوری طرح ملحوظ رکھا جائے اور قرآن وسنت سے جس طرح بات سمجھی گئی ہے، اس کو اسی طرح بیان کیا جائے اور دوسری طرف بہرحال یہ مشکل بھی ہے کہ دین کے کچھ احکام میں مردوں اور عورتوں کے مابین جو ایک امتیاز روا رکھا گیا ہے اور بعض چیزوں میں لگتا ہے کہ عورت کونسبتاً کم درجہ دیا گیا ہے، اس کے حوالے سے ایک حساسیت (sensitivity) ہمارے معاشر ے میں موجود ہے۔ خواتین اس پہلو سے اپنے ذہن میں اشکال محسوس کرتی ہیں اور ان کے محسوسات ان احکام سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ تو دین کا پیغام پہنچانے یا دین کی تفہیم کے کام میں اس بات کو بھی بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مخاطب دین سے نفور محسوس کرنے کے بجائے اس کی طرف مائل ہو اور اس کی ہدایات کو قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ بہرحال میں اس کی پوری کوشش کروں گا کہ اپنے فہم کے لحاظ سے ان دونوں چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بات بیان کروں۔
اس بحث کو ہم اختصار کے ساتھ تین چار نکات میں تقسیم کر سکتے ہیں:

پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مرد اور عورت کو پیدا کیا اور اس دنیا میں ان کی تخلیق کا ایک نقشہ بنایا اور پھر ان کو دین وشریعت کی صورت میں متعین ہدایات دیں تو ایک ہی نوع کی ان دو صنفوں میں تفاوت اور امتیاز کو ملحوظ رکھا؟ 
یہ سوال اصل میں اس پہلو سے پیدا ہوتا ہے کہ دور جدید میں بہت سے اہل فکر نے شریعت کے ان احکام کو جن میں بظاہر امتیاز کو ملحوظ رکھا گیا ہے، ایک دوسرے طریقے سے interpret کرنے کی کوشش کی ہے اور اس زاویے سے ان کی تفہیم کی کوشش کی ہے کہ ان احکام میں فی الحقیقت امتیاز نہیں برتا گیا اور ان کے بارے میں اب تک جو بات سمجھی گئی ہے، وہ ٹھیک نہیں سمجھی گئی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ان آیات او راحادیث کی تشریح میں اس سے پہلے کا جو ایک عمومی سماجی رویہ تھا اور جو لوگوں کی ایک mentality تھی، وہ زیادہ اثر انداز ہوئی ہے،ورنہ اگر قرآن وسنت کو خارجی اثرات سے آزاد ہو کر پڑھا جائے تو ایک دوسرے طریقے سے ان احکام کی تعبیر وتشریح کرنا ممکن ہے۔ 
یہاں ان متبادل تعبیرات کو زیر بحث لا کر گفتگو کرنے سے تو شاید بات لمبی ہو جائے گی۔ میں اس کے بارے میں اپنا اصولی نقطۂ نظر بیان کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں قرآن مجید کی آیات اور متعلقہ احادیث کا غیر جانب داری سے جتنا بھی مطالعہ کیا جائے اور اپنے احساسات سے، اپنے ذہنی پس منظر اور اپنے فکری رجحانات سے جتنا بھی مجرد ہو کر انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے، یہ بات مانے بغیر کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا کہ بہرحال کچھ چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے مابین مرتبے اور درجے کا فرق ملحوظ رکھا گیا ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ چنانچہ بحث کا پہلا نکتہ جس کی روشنی میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس بات کو ایک بنیادی مفروضے کے طور پر مان لینا چاہیے، اس لیے کہ میرے فہم کے لحاظ سے ان نصوص کی کوئی مختلف تعبیر کرنے میں خاصی کھینچا تانی کرنی پڑتی ہے۔ کلام کو سمجھنے کے جتنے سادہ طریقے ہیں، جتنے سادہ اصول ہیں جن پر ہم سارے دین کوسمجھتے ہیں، آپس میں ایک دوسرے کی بات کو سمجھتے ہیں اور جن طریقوں سے ہر انسانی زبان میں اپنی بات کا ابلاغ کیا جاتا ہے، ان سارے اصولوں کی روشنی میں یہی بات زیادہ درست دکھائی دیتی ہے کہ متعلقہ آیات اور احادیث میں فی الواقع یہ فرق قائم کیا گیا ہے۔ 
اس کی دو مثالیں بہت نمایاں ہیں۔ باقی احکام ان کے ضمن میں آ جائیں گے، لیکن دو چیزیں ہیں جو بہت واضح طریقے سے اس فرق کو بیان کرتی ہیں۔ ایک تو سورۂ نساء کی وہ آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے شوہروں اور بیویوں کے حقوق اور فرائض کا ذکر کیا اور شوہروں کا مرتبہ اور ان کے اختیارات بیان کیے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً. (النساء ۳۴) 

’’شوہر بیویوں پر حاکم ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ سو نیک بیویاں وہ ہیں جو فرماں بردار ہوں اور رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوں، کیونکہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، ان کو نصیحت کرو، انھیں بستروں میں الگ کر دو اور انھیں جسمانی سزا دو۔ پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو ان پر (دست درازی کی) راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘

یہاں آپ سادہ طریقے سے متن کوپڑھیں تو اس کے مندرجات اور اس کا ایک ایک لفظ صاف بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے رشتے میں یہ چاہتے ہیں کہ مرد ایک بالادست شریک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، جبکہ عورت اس کے سامنے فرماں برداری کا رویہ اختیار کرے اور اگر اس کی طرف سے سرکشی کا رویہ سامنے آئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شوہر کو مناسب جسمانی تادیب کا اختیار بھی حاصل ہے۔ 
اسی طرح سے جہاں طلاق کا معاملہ بیان ہوا ہے، وہاں بھی صاف الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ طلاق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک درجہ زیادہ دیا ہے: ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘ (البقرہ ۲۲۸) یعنی یہ کہ وہ طلاق دے سکتا ہے، جبکہ عورت براہ راست طلاق نہیں دے سکتی۔ مرد طلاق دینے کے بعد چاہے تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اور دو مرتبہ تک اس کو یہ اختیار حاصل ہے۔ رشتہ نکاح میں مرد کی ایک درجہ فوقیت کے حوالے سے یہ ہدایت بھی بالکل واضح ہے جس کو توڑ موڑ کر کسی اور تعبیری سانچے میں فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن رشتہ نکاح میں مرد کو ایک درجہ فوقیت دیتا ہے، اس کے حقوق زیادہ بیان کرتا ہے، اس کے اختیارات زیادہ بیان کرتا ہے اور عورت سے یہ کہتا ہے کہ وہ اس رشتے میں اطاعت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اور شوہر کی جو بالادستی بیان ہوئی ہے، اس کو قبول کرتے ہوئے اس رشتے کو نبھائے۔
دوسری چیز جو خود قرآن کے نصوص میں بیان ہوئی ہے، وہ وراثت کے حصے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حصے، ماں باپ کے حصے، میاں بیوی کے حصے اور بہن بھائی کے حصے بیان کیے ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ وراثت کے حصو ں کی یہ تقسیم اللہ تعالیٰ نے قرب منفعت کے اصول پر کی ہے۔ یعنی چونکہ انسان خود انصاف سے یہ متعین نہیں کر سکتے کہ کس رشتے سے ان کو کتنی منفعت حاصل ہوتی ہے اور اس کے لحاظ سے جب مرنے کے بعد کسی شخص کا ترکہ تقسیم ہو تو کس رشتہ دار کو کس تناسب سے حصہ ملنا چاہیے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی قریبی رشتے داروں یعنی ماں باپ، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائی کے حصے ازخود طے کر دیے ہیں۔ یہاں بھی قرآن نے بیشتر صورتوں میں مرد اور عورت کے حصوں میں فرق روا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مرنے والے کے اولاد ہے تو ترکہ اس لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا کہ خواتین کو مرد وارثوں سے نصف حصہ ملے گا۔ اسی طرح اگر اولاد میں صرف لڑکے ہیں تو سارا مال ان کو مل جائے گا، لیکن اگر صرف خواتین ہیں تو سارا مال ان کو نہیں ملے گا، بلکہ اکیلی لڑکی کو نصف جبکہ دو یا دو سے زیادہ لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا۔
ماں باپ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ ایک صور ت میں تو قرآن دونوں کا حصہ برابر بیان کرتا ہے، یعنی اگر مرنے والے کے اولاد ہے تو باپ کا بھی چھٹا حصہ ہے اور ماں کا بھی، لیکن اگر اولاد نہیں ہے او ر ماں باپ ہی وارث ہیں تو وہاں پر پھر یہ تفریق آ جاتی ہے کہ تیسرا حصہ ماں کو ملے گا اور باقی دو تہائی باپ کو۔ 
ان کے علاوہ اور بہت سی نصوص ہیں، احادیث ہیں جن میں شاید کسی حد تک بحث کی گنجائش نکلتی ہے کہ کیا وہاں واقعی مرد اور عورت کے مابین کوئی فرق بیان کیا گیا ہے یا نہیں، لیکن قرآن مجید کے یہ جو دو تین مقامات ہیں، ان میں اس بات کا انکار بہت مشکل ہے کہ قرآن واقعی ان معاملات میں فرق روا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے جیسے بات کہی ہے، اس کو ویسے ہی سمجھنا چاہیے اور ویسے ہی بیان کرنا چاہیے۔
اس کے بعد اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق اللہ نے کیوں روا رکھا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نظر میں مرد، عورت کے مقابلے میں زیادہ برتر مخلوق ہے اور عورت اس کی نظر میں کوئی حقیر اور کم تر مخلوق ہے یا اس سے مختلف کوئی بات اس معاملے میں کہی جا سکتی ہے؟ قرآن مجید اور شریعت کی تعلیمات کا جو پورا نظام فکر ہے، اس کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یعنی بعض چیزوں میں جو فرق قائم کیا گیا ہے اور مرتبے کا ایک فرق ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ نے مرد کو تو اس حیثیت سے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کی نظر میں ایک برتر مخلوق ہے اور عورت کو اس حیثیت سے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک کم تر مخلوق ہے اور حیثیت کی اس برتری اور کم تری کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے احکام میں یہ فرق کیا ہے۔ آپ جتنا بھی مطالعہ کریں، میرے فہم کی حد تک قرآن وسنت کی مجموعی تعلیمات سے اللہ تعالیٰ کا یہ attitude سامنے نہیں آتا۔ 
اللہ تعالیٰ اس معاملے کو جس زاویے سے دیکھتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ فضیلت کا یا برتری کا معیار خود خدا کی نظر میں کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ خداکی نظر میں اس کی مخلوقات میں سے کون سی مخلوق بطور ایک نوع کے دوسروں سے برتر یا کم تر ہے تو اس کے لیے ہمیں معیار بھی وہی سامنے رکھنا چاہیے جو خود خدا کی نظر میں برتری کا معیار ہے۔ اس لیے کہ ہم اپنے زاویے سے اور اپنے احساسات کے لحاظ سے ایک معیار طے کریں کہ برتری کا معیار یہ ہے اور اس معیار کی روشنی میں کسی کے اوپر یا نیچے ہونے سے یہ اخذ کریں کہ وہ خدا کی نظر میں بھی کم تر یا برتر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے منشا کی صحیح ترجمانی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں برتری کا اور فضیلت کا معیار کیا ہے، وہ اس نے خود بیان کیا ہے اور اسی کے لحاظ سے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ مردوں اور عورتوں کو بطور ایک نوع کے اس زاویے سے دیکھتا ہے یا نہیں دیکھتا۔ 
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت، جس کے اسرار کو وہی جانتا ہے، اس دنیا میں جو نظام کار مقرر کیا ہے اور مخصوص حکمتوں کے تحت جو قوانین اور قاعدے ضابطے بنائے ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی جتنی بھی مخلوق ہے، اس سب کو اللہ نے یکساں درجے پر پید انہیں کیا، بلکہ تمام مخلوقات میں مختلف اعتبارات سے باہم تفاوت رکھا ہے۔ بہت سی مخلوقات ہیں جن کے بارے میں قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اپنی نعمت کے طو رپر ان کو، ان کے گوشت کو اور ان کے جسم کے دوسرے اجزا کو انسانوں کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ اس نے انھیں پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ بھی اللہ کی جاندار مخلوق ہیں، لیکن خدا نے ان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائیں۔ انسانوں کو دیکھیے۔ انسانوں میں سب مرد یکساں نہیں ہیں۔ ان میں اللہ نے صلاحیت کے لحاظ سے، ذہانت کے لحاظ سے، شکل وصورت کے لحاظ سے، جسمانی طاقت کے لحاظ سے، دنیا میں میسر مواقع کے لحاظ سے، غرض ہر لحاظ سے خود مردوں میں بھی تفاوت کے کئی پہلو رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی سب یکساں نہیں ہیں۔ تو خدا کی اس دنیا میں جو اسکیم ہے، وہ مختلف مصلحتوں اور مختلف حکمتوں کے تحت یکسانی اور مساوات کے اصول پر مبنی نہیں ہے۔ دنیا کے اس محدود دائرے میں خدا کی جو اسکیم ہے، وہ تفاوت پر، درجات کے فرق پر اور مخلوقات اور خاص طو رپر انسانوں کے مابین صلاحیتوں اور مواقع کے مابین فرق پر مبنی ہے اور اس نے ایک خاص مقصد کے تحت یہ ساری اسکیم بنائی ہے۔ خدا کی نظر میں فضیلت اور برتری کا جو اصل معیار ہے، وہ اس دنیا کی کامیابی یا اس دنیا کے مفادات یا اس دنیا کے privileges یا اس دنیا میں حاصل ہونے والی آسائشیں نہیں ہیں۔ خدا کی نظر میں ایک انسان کے لیے شرف کا معیار یہ ہے وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے اور اچھے اعمال کے ذریعے سے خدا کا تقرب حاصل کرے اور اس سب کے نتیجے میں جب یوم الجزاء آئے تو وہاں جنت کی صورت میں اپنے رب کی نعمتوں کی جو انتہائی اور آخری شکل ہے، اس کا مستحق قرار پائے۔ 
قرآن پاک یہ بات بالکل صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ اسی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ:

إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ.(الصافات: ۶۰، ۶۱) ’’بے شک یہی بہت بڑی کامیابی ہے، عمل کرنے والوں کو اسی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔‘‘

اسی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ:

وَفِیْ ذَلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ.(المطففین: ۲۶) ’’مسابقت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اسی کے بارے میں مسابقت کریں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یوں بیان فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس دنیا کی آسائشوں، نعمتوں، مال و دولت، حقوق ومفادات کی اہمیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ، کسی منکر کو اس کا ایک ذرہ بھی عطا نہ کرتا۔ اللہ کی نظر میں تو اس دنیا کی اور اس کی آسائشوں، نعمتوں اور اس کے حقوق ومفادات کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ اس کی نظر میں شرف کا معیار یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کی صحیح معرفت حاصل کرے، اس کی بندگی کا حق ادا کرے اور عبادات کے ذریعے سے، نیک اعمال کے ذریعے سے، ایک اچھا اخلاقی رویہ اختیار کر کے خدا کا قرب حاصل کرے تاکہ جب وہ خدا کے حضور میں حاضر ہو تو اس کی بنائی ہوئی ابدی جنت کا مستحق بن جائے۔
اب یہ جو خدا کی نظر میں کامیابی کا معیار ہے، اس میں آپ دیکھ لیں کہ مرد اور عورت میں، امیر اور غریب میں، خوب صورت اور بد صورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں خدا نے ایک ہی معیار رکھا ہے جو ایمان ہے، عمل صالح ہے، اچھا اخلاق ہے، اپنے آپ کو پاکیزہ بنا کر خدا کے حضور میں حاضر ہونا ہے، بلکہ اس پہلو سے آپ دیکھیں تو وہ لوگ جو اس دنیا میں خدا کی حکمت کے تحت مختلف وجوہ سے دوسروں سے ذرا پیچھے رہ گئے اور یہاں پر انھیں کچھ suffer کرنا پڑا ہے، کچھ چیزوں میں انھیں محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کی اس محرومی کی وہاں اللہ تعالیٰ اس طرح سے تلافی کریں گے کہ وہ لوگ زیادہ اعزاز واکرام کے مستحق قرار پائیں گے۔ دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ذہانت اور سادگی، اس لحاظ سے لوگوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت میں جو لوگ زیادہ جائیں گے اور جن لوگ کی کثرت ہوگی، یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں سادہ او ر ابلہ قسم کے سمجھے جاتے تھے۔ بہت ذہین نہیں سمجھے جاتے اور بہت intelligent نہیں ہیں۔ اسی طرح غریب لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں اللہ کی حکمت کے تحت فقر میں مبتلا رہے، زیادہ مالی آسائش انھیں حاصل نہیں ہوئی، وہ اگر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جائیں گے تو قیامت میں ان کو مال داروں کے مقابلے میں پانچ سو سال قبل جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ 
جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور ہر دروازہ ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص ہوگا جس نے نیکی کے اعمال میں سے کسی خاص عمل میں زیادہ نمایاں مقام پیدا کیا ہوگا۔ کسی آدمی کو نماز سے زیادہ رغبت ہے اور اس کے نامہ اعمال میں نماز کا عمل زیادہ لکھا ہوا ہے تو ایک خاص دروازہ ہوگا جہاں سے اس کو بلایا جائے گا۔ اسی طرح روزے داروں کے لیے ایک الگ دروازہ ہوگا اور انفاق کرنے والوں کے لیے الگ دروازہ ہوگا۔ آٹھ دروازے ہیں جو اللہ نے مختلف اعمال کے لحاظ سے بنائے ہیں۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو سیدنا ابوبکر نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، کیا کوئی ایسا خوش قسمت بھی ہوگا جس کو ان آٹھوں دروازوں سے بلایا جائے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کچھ خوش قسمت ایسے بھی ہوں گے اور مجھے توقع ہے کہ تمھارا شمار بھی ان میں ہوگا۔ 
اب آپ دیکھیں کہ صحابہ میں سے حضرت ابوبکر کے بارے میں بھی یہ توقع ہے کہ وہ اس اعزاز کے مستحق ہوں گے، لیکن خواتین کا جنت پر جو استحقاق ہے، اس کے بارے میں دین ہمیں کیا بتاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جنت کا استحقاق ثابت ہونے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ دین کے بڑے بڑے فرائض ادا کرے، پانچ نمازیں پڑ ھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے، اگر اس پر زکوٰۃ آتی ہے تو اس کو ادا کرے اور دنیا میں اللہ نے خاوند کے لیے فرماں برداری کا جو رویہ اپنانے کی ہدایت کی ہے، اس کو ملحوظ رکھے۔ گویا ہر وہ خاتون جس نے یہ بڑ ے بڑے فرائض پورے کر دیے اور ان کے علاوہ کوئی بہت زیادہ کوشش اس نے نہیں کی، وہ جنت کی حق دار ہے۔ ہر وہ خاتون جس نے پانچ نمازیں پڑھی ہیں، رمضان کے روزے رکھے ہیں، جس کا رویہ اپنے خاوند کے ساتھ خدا کے مقرر کردہ حدود کے دائرے میں رہا ہے تو ایسی ہر خاتون کو قیامت کے دن جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے ہر دروازے سے آواز دی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ جس دروازے سے چاہے، جنت میں داخل ہو جائے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں، خود خالق کی نظر میں برتری اور فضیلت کا جو معیار ہے، اس میں وہ مردوں اور عورتوں کے مابین کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ اس پہلو سے اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم privilege نہیں دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ مردوں کے پاس زیادہ مواقع ہیں اور عورتوں کے پاس نہیں ہیں، بلکہ خواتین کے پاس زیادہ آسان اور نرم شرائط پر زیادہ اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے مواقع ہیں۔فرق جو کچھ بھی ہے، وہ اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے اور خاص طور پر انسانوں کی آزمائش کے لیے ایک بالکل محدود دائر ے میں چند حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو ایک نظام بنایا گیا ہے، وہ صرف اس میں ہے اور وہ بھی چند چیزوں میں ہے، ہر جگہ پر نہیں اور ہر معاملے میں نہیں ہے۔ دنیا میں عزت، تکریم، حسن سلوک اور دوسرے جتنے اخلاقی و سماجی حقوق ہیں، ان میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ چند جگہوں کو، گن کر تین چار کہی جا سکتی ہیں، اللہ نے خود موضوع بنا کر یہ کہا ہے کہ یہاں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے۔ 
اللہ نے اس دنیا کا نظام صلاحیتوں اور مواقع کے تفاوت کے اصول پر بنایا ہے۔ معاش کے معاملے میں بھی قرآن نے یہی حکمت بیان کی ہے کہ اللہ نے سب لوگوں کو یکساں پیدا نہیں کیا۔ لوگوں کی معیشت اس لحاظ سے تقسیم کی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے اوپر نیچے ہوں، ایک دوسرے کے محتاج ہوں اور ایک دوسرے سے کام لیتے ہوئے اور ایک دوسرے کو کام دیتے ہوئے دنیا کے نظام کو چلائیں۔ تو جیسے اس نے اپنی ساری مخلوقات کو اس اصول پر بنایا ہے کہ سب ایک دوسرے کے کام آتے ہوئے، ایک دوسرے کے مصالح اور ضروریات کو پورا کرتے ہوئے یہ نظام چلا رہی ہیں، اسی طرح اس نے اس دنیا میں جب انسانوں کو پیدا کیا ہے تو مردوں کو چند خلقی صلاحیتوں میں فوقیت دی ہے۔ مثلاً جسمانی طاقت دنیا میں زندگی کو قائم رکھنے، معاشرہ کو تشکیل دینے اور اس کے ارتقا کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تحفظ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ خود دوسرے انسانوں کے شر سے تحفظ اور اس کے علاوہ دنیا میں رہنے کے لیے انسان کی جو ضرورتیں ہیں، وہ ساری دراصل ایسی ہیں جو بنیادی طور پر محنت، مشقت اور قوت اور طاقت کے استعمال پر انحصار کرتی ہیں۔ تہذیب اس کے بعد آتی ہے جو ارتقا کے بعد بہت سی لطیف شکلیں اختیار کرتی ہے۔ فنون لطیفہ، علم وفراست اور فلسفہ وحکمت، یہ ساری بعد کی چیزیں ہیں۔ انسان کی جو بنیادی ضرورتیں ہیں جن پر زندگی کی بقا کا انحصار ہے، وہ ساری ایسی ہیں کہ ان کو انجام دینے میں اور اس معاملے میں نسل انسانی کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مرد کا کردار بہرحال ایک بنیادی کردار ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ یہ جو ایک فرق اس نے رکھا ہے اور سوسائٹی کو بنانے اور اس کی بقا کے لیے کردار ادا کرنے میں مرد کو ایک لحاظ سے جو فوقیت دی ہے، جب مردوں اور عورتوں کے سماجی حقوق وفرائض کی تقسیم کا معاملہ آئے تو کچھ چیزوں میں اس کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بیان کی ہے کہ جب ایک مرد اور عورت کے مابین رشتہ نکاح قائم ہو تو وہ فرق جو اللہ نے ان دونوں کے مابین رکھا ہوا ہے، اس کو یہاں ملحوظ رہنا چاہیے۔ اس کی دونوں وجہیں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ کچھ پہلووں سے اللہ نے بہرحال مرد کو ایک برتری بخشی ہے۔ خاندان کے تحفظ میں، خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے میں اور اس کو قائم رکھنے میں اس کا کردار زیادہ بنیادی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی برتری کی بنیاد پر اللہ نے ذمہ داری بھی مرد پر زیادہ ڈالی ہے کہ کفالت اور معاش کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھے پر ہے۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اس رشتے میں جب وہ بندھیں تو مرد کو ایک درجہ بالاتر حیثیت حاصل ہواور خاتون اس کی اطاعت کو قبول کرتے ہوئے، خاندان کے اور گھر کے رازوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایک مطیع اور فرماں بردار ساتھی کے طور پر زندگی گزارے اور اس میں اگر کسی موقع پر محسوس ہو کہ خاتون فرماں برداری کے معروف حدود سے سرکشی اختیار کر رہی ہے تو خاوند اپنے استحقاق کو جتاتے ہوئے دو تین شکلوں میں اس کی تادیب بھی کر سکتا ہے۔
اسی طرح سوسائٹی میں مرد کو کردار ادا کرنے کے مواقع زیادہ حاصل ہیں اور انسانوں کو اپنے مرد رشتہ داروں سے جو منفعت اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے، یعنی مادی منفعت، وہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ بحیثیت انسان ان کے درجے میں فرق کی بات نہیں ہے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے سماج میں افراد کو ایک دوسرے سے جو مادی منفعت حاصل ہوتی ہے، مثلاً زندگی کا تحفظ ہے اور زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کا معاملہ ہے، اس میں مرد کی فوقیت کا حقیقت پسندانہ اعتراف ہے۔ اس لحاظ سے شریعت کی ہدایات میں جب ایک آدمی کا ترکہ تقسیم کیا جائے تو اس میں بھی یہ فرق بعض صورتوں میں ملحوظ رکھا گیا ہے کہ مرنے والے کے جو مرد رشتہ دار ہیں، ان کو اس کے مال میں بہ نسبت خواتین کے زیادہ حصہ ملے۔ 
اس بحث کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جب دین کے بعض احکام سے ہمیں صاف طو رپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض چیزوں میں مردوں اور خواتین میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہتا ہے تو اب اس بنیادی بات کی روشنی میں، جو عقلی اور نقلی دونوں اعتبار سے بہت مضبوط اور محکم ہے اور نصوص پر مبنی ہے، ایک فقہ بھی تیار ہوئی ہے۔ یہ جو دو تین چیزیں بیان ہوئی ہیں، ان کو تو قرآن نے اپنے نصوص میں بیان کر دیا ہے کہ طلاق کے معاملے میں، تادیب کے معاملے میں مرد کو ایک درجہ زیادہ حاصل ہے اور وراثت کے حصوں میں فرق ملحوظ رہے گا۔ اس کے بعد صحابہ کے دور میں اور بعدکے دور میں مسلمانوں کی ایک سوسائٹی وجود میں آئی تو ظاہر ہے کہ سوسائٹی میں مسائل یہی دو تین نہیں ہیں، اس میں تو مسائل کا ایک انبار ہے۔ ہوا یہ ہے کہ یہ جو تصور ہے کہ سماجی حقوق میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم مقام دیا جائے، اس نے زیادہ prevail کیا ہے اور یہ رویہ پوری فقہ میں سرایت کرتا چلا گیا ہے۔ چنانچہ آپ فقہ کا مطالعہ کریں تو فقہا نے، خود صحابہ نے جو اجتہادی فیصلے کیے اور ان کی بنیاد پرایک سوسائٹی تشکیل دی، اس میں آپ کو یہ بہت زیادہ اور کم وبیش ہر جگہ پر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا فقہی لٹریچر ہر جگہ اس فرق کو ملحوظ رکھتا ہے اور خواتین کو ان کے سماجی حقوق میں، ان کے خاندانی حقوق میں، ان کے معاشرتی حقوق میں اور ان کے سیاسی حقوق میں مردوں کی بہ نسبت ایک کم تر جگہ دیتا ہے۔
میرا نقطۂ نظر اس معاملے میں یہ ہے کہ یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مساوات کے اصول پر شریعت نہیں دی۔ اس نے اپنی حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت تفاوت پر مبنی احکام دیے ہیں۔ یہ تو واضح ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تفاوت کو اور اس فرق کو کیا زندگی کے جتنے بھی دائرے ہیں اور جتنے بھی مسائل اور احکام ہیں، ان سب پر اس کو لاگو کرنا چاہیے یا یہ کہ اس کو ان چند چیزوں تک محدود رکھنا چاہیے جن کے بارے میں خود قرآن نے موضوع بنا کر صراحت کر دی ہے؟ میرا ذاتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں دوسرا رویہ زیادہ درست اور مبنی بر حکمت ہے اور ہم اس معاملے میں پورا حق رکھتے ہیں کہ دو تین چار چیزیں جن کے بارے میں قرآن نے خود صراحت کر دی ہے کہ یہاں پر فرق ہونا چاہیے، ان سے ہٹ کر زندگی کے جو باقی معاملات او ر مسائل ہیں، چاہے وہ خاندانی نوعیت کے ہیں، چاہے وہ معاشرت سے متعلق ہیں، چاہے وہ سیاست کے دائرے میں آتے ہیں، چاہے وہ سماج میں کوئی کردار ادا کرنے سے متعلق ہیں، ان میں مساوات اور برابری کے اصول کو ترجیح دیں۔ جب خدا نے ان معاملات میں ہمیں کسی متعین ہدایت کا پابند نہیں کیا اور پھر یہ کہ خود شریعت کے قوانین کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا بلکہ وہاں پر برابری کے ساتھ ہی معاملہ ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم تفریق کے اصول کو ماڈل بنا کر ساری سوسائٹی کو اس کے لحاظ سے تشکیل دیں، زیادہ بہتر رویہ جو قرآن وسنت کے منشا کے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے، یہ ہے کہ ہم تفریق کے اصول کو محدود رکھیں۔ وہ limited ہو صرف ان چند چیزوں تک جن میں ہم خدا کے حکم کے پابند ہیں ، کیونکہ خدا کے حکم سے اور خدا کی قائم کردہ حد سے انحراف کرنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ اس کو ان چند چیزوں تک محدود رکھنا چاہیے اور باقی تمام معاملات جن میں خود خدا نے یا اس کے پیغمبر نے اس طرح کی کوئی تفریق ہم پر لازم نہیں کی، وہاں ہم مساوات ہی کے اصول کو ترجیح دیں، چاہے اس سے پہلے صحابہ نے اپنے دور میں عرب معاشرت کے تناظر میں ایک خاص رجحان اپنا لیا ہو، چاہے اس کے بعد ائمہ مجتہدین نے کچھ آرا قائم کر لی ہوں اور چاہے اس کے بعد پوری امت ایک خاص ڈگر پر چلی آ رہی ہو۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جب ہم آج اپنے لیے اپنے دور کے تہذیبی ومعاشرتی تناظر میں فقہ کی تشکیل جدید کی بات کرتے ہیں تو اس سے مقصود ماضی کی علمی وفقہی روایت کو کلیتاً غلط قرار دینا یا اس کی علمی قدر وقیمت کی نفی کرنا نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے معاملے میں چند واضح اور متعین ہدایات کے علاوہ ہمیں اور کسی چیز کا پابند نہیں کیا اور ایسا اس نے اس صراحت کے ساتھ کیا ہے کہ خدا نے ہمیں جتنی شریعت دینی تھی، قرآن کی صورت میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں، وہ دے دی ہے۔ اس سے زیادہ پابندیاں وہ عائد نہیں کرنا چاہتا، اس لیے تم زیادہ سوال کر کے خواہ مخواہ اپنے لیے مشکلات پیدا نہ کرو۔ جو پابندیاں خدا تم پر عائد نہیں کرنا چاہتا، سوالات کر کے ان کو اپنے لیے لازم نہ ٹھہراؤ۔ تو جب خود قرآن کا منشا یہ ہے کہ جن پابندیوں کے بارے میں اللہ کو یہ مقصود تھا کہ وہ ملحوظ رہیں، وہ اس نے بیان کر دی ہیں اور اس کے بعد وہ ہمیں آزاد چھوڑنا چاہتا ہے تو میرے خیال میں ہمیں یہ حق ہے کہ آج کے دور میں ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے سماج میں کیا ارتقا آیا ہے، لوگوں کی اجتماعی نفسیات میں کیا تبدیلی آئی ہے اور مختلف عوامل نے معاشرے میں خواتین کے لیے مفید کردار ادا کرنے کے اور اس سے پہلے جو ان کی محرومیاں تھیں، انھیں دور کرنے کے کیا مواقع پیدا کیے ہیں۔ ہم آج کے دور میں ان چند چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو قرآن نے بیان کی ہیں، ازسرنو اپنی معاشرت کا جائزہ لیں، اپنی فقہ کا جائزہ لیں، اپنے قوانین کا جائزہ لیں اور برابری اور مساوات کے اصول پر اپنے طرز زندگی کو اس طرح سے استوار کریں کہ خدا کی مقرر کی ہوئی چند حدود ہرگز پامال اور متاثر نہ ہوں، جبکہ باقی تمام معاملات میں دین کی حکمتوں، اس کے آداب اور اس کی قیود کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین بھی ان حقوق سے اور ان سارے مواقع سے پوری طرح مستفیدہوں جو مردوں کو حاصل ہیں۔
بہت سی چیزیں ہیں جن میں ہمارے فقہا نے اور ہمارے اہل علم نے اجتہادی طور پر ترجیحات قائم کی ہیں اور وہ منصوص نہیں ہیں۔ جب ہم ’منصوص‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بات قرآن میں یا حدیث میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے اور وہاں اللہ اور اس کے رسول کا یہ منشا بھی بالکل واضح ہے کہ وہ اس فرق کو اس امتیاز کو ملحوظ دیکھنا چاہتے اور اس کی پابندی کروانا چاہتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی چیز جو قرآن وسنت میں واضح طور پربیان نہیں ہوئی یا اس کا ذکر تو آیا ہے، لیکن اس کی تعبیر ایک سے زیادہ طریقوں سے کرنے کی گنجائش موجود ہے تو اس کو علمی طو رپر منصوص نہیں کہتے۔ جہاں متن میں دوسرے طریقے سے تعبیر کرنے کی گنجائش نکل آئے گی، وہ حکم منصوص نہیں رہے گا۔ اس میں آپ کو اختیار ہوگا کہ دلائل وقرائن کی روشنی میں آپ دوسرے زاویے سے اس کی تشریح کریں۔ 
مثلاً آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں یہ کم وبیش ایک متفقہ نقطۂ نظر چلا آ رہا ہے کہ اگر کسی خاتون کو قتل کر دیا گیا ہے تو اس کی دیت مرد سے آدھی ہوگی۔ یہ صحابہ کے دور سے ہے۔ ان کے ہاں بھی یہی نقطۂ نظر ملتا ہے۔ اس دور سے اب تک کم وبیش یہ ایک مسلمہ بات ہے۔ اگر آپ عورت کا قصاص لینا چاہتے ہیں تو لے لیں، لیکن اگر دیت لینا چاہتے ہیں تو وہ مرد سے آدھی ہوگی۔ اب یہ ایک ایسی چیز ہے جو قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں بھی بیان نہیں ہوئی۔ البتہ یہ صحابہ کے ہاں موجود ہے۔ صحابہ نے اسی پر فیصلے کیے ہیں۔ حضرت عمر کے فیصلے ہیں، سیدنا علی کے فیصلے ہیں، اس لیے کہ عرب سوسائٹی میں عورت کی دیت مرد سے آدھی ہی چلی آ رہی تھی۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بے شک اس پر صحابہ کا اتفاق ہے، بے شک امت کی فقہی دانش نے collectively اسی کو قبول کیا ہے، لیکن اگر یہ خدا اور اس کے رسول کا حکم نہیں ہے، خدا اور رسول نے اس کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی تو پھر عرب سوسائٹی کے رجحانات کے تحت صحابہ نے اگر ایک فیصلہ کیا ہے تو اس کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔ ہم آج دیکھیں گے کہ اگر کوئی justification ہے فرق کرنے کی تو ضرور کریں گے اور اگر نہیں ہے تو ہم اپنی تمدنی اور قانونی ضروریات کے لحاظ سے اس میں تبدیلی کر لیں گے۔
اسی طرح گواہی کا مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی اب تک ہماری امت میں کم وبیش متفقہ سمجھی جاتی ہے کہ عورت کی گواہی اور مرد کی گواہی میں اس لحاظ سے فرق ہے کہ بعض چیزوں میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور بعض چیزوں میں قبول ہوگی۔ پھر جہاں قبول ہوگی، وہاں پر بھی تناسب ایک اور دو کا ہوگا۔ زیادہ تر چیزوں میں ایسا ہی ہے۔ چند مخصوص صورتیں ہیں جن میں اکیلی عورت کی گواہی مانی جائے گی اور وہ بھی اس مجبوری کی وجہ سے کہ وہاں عورت ہی بتا سکتی ہے۔ مثلاً خواتین کے پوشیدہ معاملات ہیں یا بچے کے بارے میں بتانا ہے کہ یہ بچہ اسی عورت کا ہے، یہ ایسی چیزیں ہیں جو خواتین ہی بتا سکتی ہیں۔ تو جہاں مجبوری ہے، وہاں ایک خاتون کی گواہی کو آپ مان لیں، باقی ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر سمجھی جائے گی۔
اب یہ بات کہ ایک قاضی عدالت میں فیصلہ کرتے ہوئے اس کا پابند ہے کہ اگر ایک عورت گواہی دے رہی ہو تو وہ محض اس کے عورت ہونے کی وجہ سے اس کی گواہی قبول نہ کرے، یہ قرآن میں کہیں بیان نہیں ہوئی۔ حدیث میں بھی بیان نہیں ہوئی اور میرے علم کی حد تک صحابہ نے بھی اس اصول پر کوئی تفریق نہیں کی۔ ہمارے سامنے جو بھی ذخیرہ موجود ہے، اس میں یہ بحث تابعین کے دور میں شروع ہوتی ہے۔ تابعین کے ہاں آ کر ہمیں یہ تفریق ملتی ہے کہ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ حدود، قصاص وغیرہ میں خواتین کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔ بعد کے کئی فقہاایسے ہیں جو نکاح وطلاق وغیرہ میں بھی خواتین کی گواہی کو نہیں مانتے۔وہ کہتے ہیں کہ صرف مالی نوعیت کے معاملات میں، لین دین کے مسئلے میں خواتین کی گواہی مانی جائے گی، لیکن ایک خاتون نکاح کی گواہ نہیں بن سکتی۔ ایک خاتون کے کہنے پر ہم طلاق کا وقوع نہیں مانیں گے۔ یہ مختلف اجتہادی آرا ہیں۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی اگر اللہ اور اس کے رسول نے کوئی پابندی عائد نہیں کی تو پھر ہم اس کے پابند نہیں ہیں کہ پہلے لوگوں نے اگر اپنے سماجی تاثرات یا احساسات کے تحت ایک فقہ بنائی ہے تو آج ہم اس کو ضرور follow کریں۔ اسی نوعیت کی بہت سی دوسری چیزیں ہیں۔ یہ میں نے صرف مثال کے طور پر ایک دو چیزیں بیان کی ہیں۔
میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس چیز کی پابندی اللہ نے یا اس کے رسول نے اس حیثیت سے بالکل واضح طریقے پر ہم پرلازم کی ہے کہ یہاں مرد اور عورت کے مابین فرق اور امتیاز کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور خدا کا منشا ہے، وہاں ہم سرتابی نہیں کر سکتے، لیکن اس کے علاوہ جتنے بھی معاملات ہیں، وہ چاہے کسی بھی نوعیت کے ہوں، وہاں ہم مساوات کے اصول کو زیادہ اہمیت دیں گے، الا یہ کہ کسی موقع پر دین ہی کی کوئی حکمت اور دین ہی کی کوئی مصلحت اس کا تقاضا کرے کہ فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ 
اس بحث کا آخری نکتہ یہ ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن نے وہاں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے، مثلاً نکاح کے رشتے کے معاملے میں یا وراثت کے حصوں کے معاملے میں یہ بات بیان ہوئی ہے، وہاں پر بھی اگر اس قانون کے نتیجے میں کسی خاص صورت میں، کسی خاص معاملے میں کوئی حقیقی مشکل پیدا ہو جاتی ہے، کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جو عدل وانصاف کے اور fairness کے عمومی تصورات سے ٹکرا رہا ہے تو یہ بھی خود دین سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا یا اس کے رسول کا بیان کردہ کوئی قانون جو عمومی طور پر اور اصولی طور پر حکمت پر مبنی ہے اور درست ہے، اگر کسی خاص وجہ سے، کسی خاص صورت حال میں، کسی اضافی وجہ سے وہ بے انصافی کا یا کوئی زیادتی پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہو تو اس کی پوری گنجائش ہے کہ آپ اجتہاد کریں اور اس خاص دائرے میں، اس خاص معاملے میں ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے بے انصافی دور ہو جائے۔ 
مثلاً یہ دیکھیں کہ قرآن نے کہا ہے کہ طلاق مرد دے گا۔ رشتہ نکاح تو عورت کی مرضی سے ہی قائم ہوگا، لیکن عورت کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ از خود رشتہ نکاح کو ختم بھی کر دے۔ ایسا نہیں کہ وہ نکاح کو ختم کرنے میں بھی equal footing پر کھڑی ہے۔ قرآن سے ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ مرد کو یہ حق ہے کہ وہ رشتہ نکاح ختم کر سکتا ہے، عورت ازخود یہ رشتہ ختم نہیں کر سکتی۔ اب یہ جو اختیار اللہ نے مرد کو دیا ہے، وہ ان شرائط کے ساتھ ہے کہ جب کسی وجہ سے مرد اور عورت کے مابین اخلاقی حدودکے دائرے میں نباہ ممکن نہ ہو اور عورت اس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو مرد کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ لین دین کے مالی معاملات کو نمٹا کر اس کو فارغ کر دے۔ عورت کو تنگ کرنا یا عورت کا شوہر کا دست نگر اور مجبور بنا کر رکھنا اس حکم کا منشا نہیں ہے۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ خاوند کو ایسا اختیار حاصل ہو جائے جس کے نتیجے میں بیوی کو بالکل اس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ بھی خود قرآن سے بالکل واضح ہے۔ چنانچہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ شوہر اپنے اس اختیار کو غلط استعمال کرنے لگیں، ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ عورتوں کے لیے جائز حدود میں مطالبہ کر کے بھی طلاق لینا مشکل ہو جائے تو دین کے اصولوں کی رو سے اس کی پوری گنجائش ہے کہ آپ اجتہاد کریں اور عورت کے لیے نکاح کو ختم کرنے کا حق دینے کی کوئی مناسب صورت نکالیں۔ 
مثال کے طو رپر ہمارے فقہا نے بہت پہلے اس کی ایک صورت یہ نکالی تھی کہ خاوند اپنا حق طلاق عورت کو تفویض کر دے۔ گویا اگر عورت یہ کہتی ہے کہ تمھیں جو طلاق کا حق ہے، وہ تم مجھے دے دو یا خاوند ازخود اسے یہ حق دے دیتا ہے تو اس کی قانونی طو رپر گنجائش موجود ہے۔ اس اصول پر آپ آج اجتہاد کر سکتے ہیں، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اس کی صورت عملاً یہ بھی نہیں بن جانی چاہیے کہ قرآن جو فرق ملحوظ رکھنا چاہتا ہے، وہ سرے سے ہی ختم ہو جائے۔ کچھ شرائط کے ساتھ، اور اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ خاوند کا جو حق ہے طلاق دینے کا اور اس کی مرضی کے بغیر عورت کے جدا نہ ہونے کا، اس کا غلط استعمال نہ ہو، بیوی کے لیے حق تفریق کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے آپ نکاح نامے میں کوئی شرط لگانا چاہیں، اس کے لیے آپ عدالت کو اختیار دینا چاہیں، اس کے لیے آپ کوئی اور طریقہ اختیار کریں، مقصود یہ ہے کہ قرآن نے مرد کو جو بظاہر یک طرفہ اختیار دیا ہے، اس کے غلط استعمال سے جو بے انصافی پیدا ہوتی ہے، وہ نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے جو بھی مناسب طریقہ آپ اختیار کریں، اس کی دین وشریعت کی رو سے پوری گنجائش موجود ہے۔
اسی طرح سے وراثت کے حصوں کا معاملہ ہے۔ اللہ نے اولاد میں جو تفریق بیان کی ہے، وہ خود قرآن کے بیان کی رو سے منفعت کے اصول پر مبنی ہے۔ عملاً کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اولاد میں سے لڑکے ماں باپ کے لیے اس طرح خدمت کا او رمنفعت کا ذریعہ نہیں بنتے جبکہ بعض صورتوں میں لڑکیاں زیادہ بن جاتی ہیں۔ مثال کے طو رپر ماں باپ نے زندگی کا وہ حصہ جس میں انھیں خدمت چاہیے تھی، بیٹی پر انحصار کرتے ہوئے گزارا اور بیٹوں نے ان کی خدمت نہیں کی تو اس صورت حال میں خود حکم کی علت کی رو سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بیٹوں کی ذمہ داری کی بنیاد پر ان کے لیے جو زیادہ حصہ مقرر کیا گیا تھا، اس کو یہاں کیسے ملحوظ رکھا جائے؟ ایسی صورت میں میرے نزدیک ان فقہی آرا سے راہ نمائی لینی چاہیے جو ورثا کے حق میں بھی وصیت کے جواز کی قائل ہیں۔ مرنے کے بعد سارے بچوں میں خدا کے بتائے ہوئے تناسب کے مطابق ترکہ تقسیم کیا جائے، لیکن اگر ماں باپ محسوس کرتے ہیں کہ میری خدمت فلاں بیٹے یا بیٹی نے زیادہ کی ہے تو وہ وصیت کے اختیار کو استعمال کریں اور خدا کے مقرر کیے ہوئے حصوں سے الگ اس کی خدمت کی بنیاد پر یا اس کی کسی ضرورت کی بنیاد پر انصاف کی حدود کے اندر، جتنا مناسب سمجھیں، اس کے لیے کچھ وصیت کر دیں تاکہ اس نے جو خدمت کی ہے جو دوسرے لوگوں نے نہیں کی، اس کا کچھ نہ کچھ صلہ اس کو مل جائے۔
اسی طرح اگر اولاد میں سے کسی نے بالکل نافرمانی کا رویہ اختیار کر لیا ہے اور خدمت کے معاملے میں اپنے امکان کی حد تک بھی کوئی حصہ نہیں ڈالا تو ماں باپ کو یا کسی دوسرے مورث کو اس کا حق ہونا چاہیے کہ وہ ان کو exclude کر دیں جس کو ہم عاق کرنا کہتے ہیں۔ تاہم اس کی معقول وجوہ ہونی چاہییں اور اس پر عدالت کو نظر ثانی (judicial review) کا بھی اختیار ہونا چاہیے۔ عدالت یہ دیکھے کہ کیا واقعتا اس بچے نے خدمت نہیں کی اور کیا وہ قطع تعلقی کرتے ہوئے اس درجے میں ماں باپ کی حق تلفی کا مرتکب ہوا ہے کہ اسے وراثت سے محروم کر دیا جائے؟ ان شرائط کے ساتھ میرے نزدیک ایسے ناہنجار وارثوں کو عاق کرنے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے راہ نمائی ملتی ہے کہ قاتل کو مقتول کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ یہ قطع تعلق کی انتہائی صورت ہے۔ جب ایک شخص نے اپنے باپ کو یا باپ نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا تو اب ان کے مابین رشتہ داری کی جو منفعت تھی، وہ بالکل ختم ہو گئی، چنانچہ اس پر مبنی حقوق بھی ختم ہو جانے چاہییں۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے نافرمان اور ناہنجار اولاد کا معاملہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ خدا نے بعض جگہ پر حقوق یا اختیارات میں جو فرق قائم کیا ہے، وہ بھی ان شرطوں کے ساتھ مشروط ہے کہ اس کے نتیجے میں عملی طور پر کوئی بے انصافی،کوئی زیادتی وجود میں نہ آئے۔ اگر کہیں وجود میں آتی ہے یا اس کا امکان ہے تو اجتہاد کرتے ہوئے اس صورت حال کو درست کرنا اور شریعت کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی متبادل طریقہ تجویز کرنا اللہ تعالیٰ کے منشا کے عین مطابق ہوگا۔

 

بشکریہ: عمار خان ناصر
تاریخ اشاعت: August  2012 
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : May 24, 2016
4915 View