نفلی اعمال میں دوام - ساجد حمید

نفلی اعمال میں دوام

 عَنْ عَاءِشَۃَ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، أَنَّہَا قَالَتْ: سُءِلَ النَبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ؟ قَالَ: أَدْوَمُہَا وَإِنْ قَلَّ. وَقَالَ: اکْلَفُوْا مِنَ الْأَعْمَالِ، مَا تُطِیْقُوْنَ.(بخاری، رقم ۶۱۰۰)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ۱؂ ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عمل جو دائمی ہو،۲؂ خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ پھر آپ نے فرمایا: اعمال میں سے وہ عمل اختیار کرو۳؂ جس کی تم میں طاقت و استطاعت ہو۔‘‘

ترجمے کے حواشی

۱؂ یہ سوال نفلی اعمال کے بارے میں تھا، جیسا کہ حدیث کے باقی مضمون سے واضح ہے۔ صحابہ میں سے کوئی یہ جاننا چاہتا تھا کہ فرائض کے بعد وہ کون سا عمل ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے تاکہ وہ اس عمل کو اپنائے۔
۲؂ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ ہمارے نفلی اعمال میں وہ عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے جو ہم مسلسل کرتے رہے ہوں، اگرچہ وہ قلیل ترین ہی کیوں نہ ہو۔
۳؂ عربی متن میں ’اِکْلَفُوْا‘ کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی مکلف کرنے اور پسند کرنے کے آتے ہیں۔ ’’لسان العرب‘‘ (۹/۳۰۷) میں ہے: ’وَیُقَالُ: کَلِفْتُ بِہٰذَا الْأَمْرِ أَیْ أُوْلِعْتُ بِہِ‘ (اورکہا جاتا ہے: ’کَلِفْتُ بِہٰذَا الْأَمْرِ‘ تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ میں نے اس کام کو پسند کیا)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ تم اعمال میں سے جب کوئی چنو تو ایسے عمل کو چنو جو تمھاری ہمت و قوت کے مطابق ہو تا کہ تم اسے مسلسل کر سکو۔ طاقت سے زیادہ کام اپنے ذمے لو گے تو ایک دو دفعہ میں تھک ہار کر بیٹھ جاؤ گے، لیکن اگرتم طاقت و ہمت کے مطابق کوئی عمل اختیار کرو گے تو اسے مسلسل کر سکو گے۔
یہ جملہ نفلی کاموں کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس لیے کہ فرائض میں سے تو ہمیں چننے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اسی طرح اوپر ’خواہ وہ تھوڑا ہی ہو‘ کی شرط بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ نفلی اعمال سے متعلق ہدایت ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2010
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Jan 23, 2017
2069 View