وہ نکہتیں نہیں باقی تو لو ہوا ہوئے ہم - سید منظور الحسن

وہ نکہتیں نہیں باقی تو لو ہوا ہوئے ہم

 

ایک  روشن دماغ  تھا،  نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا

 

جناب عبدالستار غوری اب ہم میں نہیں رہے۔اُن کے جانے سے بائیبل پر علمی کام کا ایک درخشاں باب بند ہو گیا۔اِس مجموعۂ صحائف پر اُنھوں نے روایتی اسلوب تحقیق سے مختلف انداز اختیارکیا ۔ تحریف و تناقض کو تلاش کرنے کے بجاے وہ مقامات دریافت کیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مؤید اور مصدق ہو سکتے تھے۔غوری صاحب نے عملی زندگی کی ابتدا تو تعلیم و تدریس سے کی اور کچھ وقت نصابی کتب کی تدوین میں بھی لگایا، مگر جلد ہی صحف سماوی پر تحقیقی کام کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اِس میدان میں اُنھوں نے ایک منفرد راہ منتخب کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی تلاش کی راہ۔یہ راہ ملتے ہی اُنھیں گویا منزل مل گئی۔ اُنھوں نے اِسے خوش نصیبی تصور کیا اور فکر و عمل اور قلب و نظر کے تمام اسباب کواِس کی جستجو میں صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا:

 

عالم بھی تھا نگاہ میں، لیکن زہے نصیب
اب  اُن  کی  نذر  کر  دیا  ذوقِ نظر تمام

 

 برسوں کی محنت کے بعد بالآخر ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ تصنیف کی اور یہ تحقیق پیش کی کہ ’’کتابِ مقدس‘ ‘میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آپ کے اسمِ مبارک کی تصریح کے ساتھ مذکور ہے۔ ’’محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں‘‘ کے زیر عنوان ایک اور کتاب بھی تحریر کی جس میں اسی مقدمے کو بعض دوسرے پہلوؤں سے نمایاں کیا۔نصف صدی پر محیط اُن کی محنت، بلا شبہ لائق تعریف تھی۔چنانچہ علمی حلقوں میں ان کے کام کی قدر افزائی بھی ہوئی اور ان کی محنت کو سراہا بھی گیا، مگر انھوں نے ہمیشہ بے نیازی کا اظہار کیا اوراپنے مداحوں کویہی پیغام دیا کہ:

 

کس لیے چاہوں؟ یہ دنیا کی ستایش کیا ہے!
منتظر  ہوں  تو  فقط  اُن  کی  پذیرائی  کا

 

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مساعی کو قبول فرمائے اور اِن مخلصانہ کاوشوں کو اُن کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔
غوری صاحب ۱۹۹۶ء میں ادارۂ علم و تحقیق ’’المورد ‘‘سے منسلک ہوئے۔ وہ مسلکاً اہل حدیث تھے۔ ان کے افکارادارے کے افکار سے بہت مختلف تھے۔ اس کے باوجود ادارے نے اُنھیں پورے اعزاز کے ساتھ وابستگی کی دعوت دی اور اُنھوں نے اسے بسر و چشم قبول کیا ۔ ایسی فضا میں جہاں فکری اختلاف نفرت، تکفیر اور قتل و غارت سے عبارت ہو، وہاںیہ واقعہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ’’المورد ‘‘سے ان کی رفاقت کا سفر تقریباً بیس برس تک جاری رہ کرموت کی منزل پر مکمل ہوا۔ اس سفر کو خوش گوار اور نتیجہ خیز بنانے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے شخصی رویے کو بھی بہت دخل تھا۔ وہ اس وقت ادارے کے صدر ،فیلو اور استاد تھے ۔غوری صاحب کے لیے اُن کا احترام غیرمعمولی تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اُن کے ادب میں کھڑے ہو جاتے، اُنھیں نشست پیش کرتے، اُن کے پاس جا کر ملتے، اُن کے لیکچروں میں سامع کے طور پر شریک ہوتے اوراپنے شاگردوں اور احباب کو اُن کے اکرام کی تلقین کرتے ۔ یہ طرزِ عمل استاذ گرامی تک محدود نہیں تھا، باقی لوگ بھی غوری صاحب کا ایسے ہی احترام کرتے تھے۔ اُن میں عمروں کا فرق بھی تھا اور مرتبوں اور منصبوں کا بھی ، مگر غوری صاحب کی محبت میں سبھی یکساں گرفتار تھے۔یعنی معاملہ وہی تھا کہ:

 

ہم  ہوئے،  تم ہوئے کہ  میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

 

 اِس احترام اور محبت کا صرف ایک سبب تھا اور وہ تھا غوری صاحب کا اخلاص ۔ کسی شخص کے خلوص کا کمال اِس سے بڑھ کر اورکیا ہو گا کہُ اس کے گرد و پیش کے لوگ اُسے باپ کے درجے پر سمجھنے لگیں۔ ’’المورد‘‘ کے اکثر لوگوں کے لیے غوری صاحب کا یہی مقام تھا۔ اگرجیب خالی ہے، راشن ختم ہو گیا ہے، کتابیں لینی ہیں، فیس جمع کرانی ہے، دوا کی ضرورت ہے تو وہ بلا جھجک اُن کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ حسن طلب کا سلسلہ یہیں پر نہیں رکتا تھا، اِس آگے بڑھ کر وہ نجی، نفسیاتی اور خانگی مسائل میں بھی اُن سے مشورہ کرتے تھے۔ غوری صاحب اُن کی مدد بھی کرتے تھے اور اُنھیں رہنمائی بھی دیتے تھے، مگر اِس کے ساتھ اُن کی یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ رجوع کرنے والے کا رخ اللہ اور آخرت کی طرف مڑ جائے۔ اِس مقصد کے لیے وہ وعظ کہنے کے بجاے دعا کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ خود بھی ہاتھ اٹھا لیتے تھے اور آنے والے کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے ۔ اہل ’’المورد‘‘ کے اس رجوعِ عام نے اُن کے حجرے کوایک بیٹھک، ایک گھر، ایک مکتب اور ایک خانقاہ بنا دیا تھا جس میں ایک غم گسار دوست، ایک شفیق استاد، ایک مہربان باپ اور ایک خدا رسیدہ بزرگ ہر وقت اُن کا منتظر نظر آتا تھا۔ ہر آنے والے کے لیے اُس کے خریطے سے بس یہی ایک نسخہ نکلتا تھا کہ:

 

نہ  سنو ،  گر  برا  کہے  کوئی
نہ  کہو،  گر  برا  کرے  کوئی
روک لو ، گر  غلط  چلے کوئی
بخش دو ، گر خطا کرے کوئی

 

 اس نسخۂ کیمیا پر سب سے بڑھ کر وہ خود عامل تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب کی بے تدبیری اور کج ادائی سے اُنھیںیہ تاثرہو گیاکہ میں نے اُن کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ اُنھوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں ۔نہ سوال کیا،نہ جرح کی۔ بس اتنا کہاکہ میں تو تمھیں اپنا بیٹا سمجھتا ہوں۔ میں نے پاؤں کو چھوا اور ہاتھ جوڑ کر اپنی وضاحت پیش کی۔کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے کہ جس نے بھی زیادتی کی ہے، میں نے اُسے معاف کیا۔پھر گلے لگا کرایسے رخصت کیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ:

 

یونہی آنکھوں میں آ گئے آنسو
جائیے  آپ ،  کوئی بات نہیں!

 

 دوبارہ ملے تو یوں لگا کہ جیسے واقعی کوئی بات نہیں تھی۔چنانچہ اس واقعے کے کچھ دن بعد جب میں نے یہ درخواست کی کہ اپنے عزیز دوست اور عربی زبان کے جلیل القدر استاذپروفیسر خورشید عالم صاحب سے عربی پڑھانے کی سفارش کردیجیے تو اُنھوں نے نہ صرف سفارش کی، بلکہ پرزور اصرار بھی کیا۔ استاذِ مکرم نے کمالِ محبت سے اُن کی سفارش قبول کی اورپوری شفقت اور دل نوازی کے ساتھ اپنی شاگردی سے سرفرازکیا۔
جن لوگوں نے غوری صاحب کو آخری زمانے میں دیکھا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ جب استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی ملک سے باہر چلے گئے اور باقی رفقا بھی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے توغوری صاحب بہت اداس رہنے لگے تھے ۔اب’’ المورد‘‘ اُنھیں ایک ویرانہ دکھائی دیتا تھا۔ آنا جانا بہت کم کر دیا تھا، مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی کبھی اس خرابے میں آ جایا کرتے تھے ۔ جب بھی آتے تواُن جگہوں کو ڈھونڈنے لگتے جہاں دوستوں کے ہمراہ وقتاً فوقتاًبیٹھا کرتے تھے اور پھر اُس مقام کو بھی تلاش کرتے جہاں شب و روز قیام رہتا تھا۔ اِس کیفیت میں اکثر یادوں کا سیلاب امڈآتاجو اِس دیار کے مٹے ہوئے آثار کو نمایاں کر دیتا۔بہت بے چین ہو جاتے اور عالمِ وارفتگی میں اِ ن آثارسے پوچھنے لگ جاتے کہ:

 

وہ  جو  لوگ  اہلِ کمال  تھے،  وہ  کہاں  گئے؟
وہ  جو  آپ  اپنی  مثال  تھے،  وہ  کہاں  گئے؟
مرے  دل  میں  رہ  گئی  صرف  حیرتِ  آئینہ
وہ جو نقش تھے، خد و خال تھے، وہ  کہاں گئے؟
سرِ جاں  یہ  کیوں  فقط  ایک  شام  ٹھہر  گئی؟
شب و روز تھے، مہ و سال تھے، وہ کہاں گئے؟

 

 جب کچھ جواب نہ ملتاتورخ پھیر کر کہتے کہ اِن اینٹ پتھروں سے میں کیا بات کروں، میں تو ان کی زبان ہی نہیں سمجھتا!

 

عَفَتِ الدِّیٰارُ مَحَلُّھَا فَمُقَامُھَا      بِمِنیً تَأَ بَّدَ غَوْلُھَا فَرِجَامُھَا
وَجَلَا السُّیٰوْلُ عَنِ الطُّلُوْلِ کَأَنَّھَا  زُبُرٌ تُجِدُّ مُتُوْنَھَا أَقْلَامُھَا
فَوَ قَفْتُ أَسْأَ لُھَا وَکَیٰفَ سُؤَالُنَا    صُمًّا خَوَالِدَ مَا یٰبِیٰنُ کَلَامُھَا

 

 ’’مقام منیٰ کے دیار، جہاں چند روزہ قیام رہا اور جہاں طویل قیام رہا، سب مٹ مٹا گئے اور کوہِ ’غول‘ اور کوہِ ’رجام‘ کے ڈیرے اجاڑ ہو گئے۔ اور پانی کے دھاروں نے گھروں کے بچے کھچے نشانات کو یوں نکھار دیا ہے، گویا وہ کتابیں ہیں جن کی عبارتوں کو قلم ازسرِنو روشن کر رہے ہیں۔سو میں کھڑا ہو کر ان آثار سے سوال کرنے لگا ، مگر بھلا ان ٹھوس اٹل چٹانوں سے ہماری پوچھ گچھ کیا معنی رکھتی ہے جن کا کلام سمجھ میں نہیں آ سکتا۔‘‘

’’المورد‘‘ کے چمن زار کی خوشبوؤں کی طلب غوری صاحب کو بہت دور سے کھینچ کے لائی تھی۔ جب یہ خوشبوئیں باقی نہیں رہیں تو وہ کچھ دیر تو ا ن کو ڈھونڈتے رہے اور جب نہ ملیں تو یہ کہہ کر ہوا ہو گئے کہ:

 

چمن میں کھینچ کے لائی تھی جستجو جن کی
وہ  نکہتیں  نہیں  باقی  تو  لو  ہوا  ہوئے  ہم!

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2014
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Oct 21, 2016
1623 View